آئمہ کی "ولادت" ہوتی ہے  یا  نزول و ظہور

آئمہ کی "ولادت" ہوتی ہے  یا  نزول و ظہور

*آئمہ کی "ولادت" ہوتی ہے  یا  نزول و ظہور*
*ایک تحقیقی علمی مقالہ*

پاکستان اور انڈیا میں جان بوجھ کر آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولادت سے انکار کرنے اور شیعوں کے درمیان  اختلاف پیدا کرنے کے لئے سوچی سمجھی سازش کے تحت ولادت با سعادت اور جشن میلاد کے بجائے نزول اور ظہور جیسے خودساخته اور خلاف دیں کلمات استعمال کرتے ہیں،
لہذا ہمیں *شیعه اثناءعشری* هونے کا ثبوت دیتے هوۓ ایسی سازشوں کا حصہ نہیں بننا چاہئے .

مزید معلومات کے لئے مندرجہ ذیل تحریر کو ضرور پڑھیں.

( *معصومین ع کی ولادت باسعادت بمقابله نزول و ظہور کے بارے میں ایک تحقیقی تحریر*  )

کچھ سالوں سے ایک خاص طبقه شیعوں میں ایک لفظی بحث چھیڑے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ معصوم کی ولادت نھیں بلکہ نزول اور ظھور ہوتا ہے ولادت تو ہم انسانوں کی ہوتی ہے،

آئییے دیکھتے ہیں کہ کیا انکا موقف درست ہے یا نھیں ؟

سب سے پہلے تو ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان لوگوں کا ظہور یا نزول سے کیا مطلب ہے؟
یہ لوگ کہتے ہیں کہ
معصومین(ع) کی ولادت نہیں ہوسکتی اور نہ ہی وہ اپنے اجداد(والد، دادا...) کے اصلاب میں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی امّہات (ماؤں) کے شکموں میں ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی ولادت ہوتی ہے۔
ان کا عقیدہ یہ ہے کہ معصومین(ع) آسمان سے Directبراه راست نازل ہوتے ہیں اور شکموں اور ارحام میں نہیں ہوتے۔
ان کے عقیدے کی دلیل میں کوئی ایک بهی حدیث نہیں ہے،
البتہ قرآن کی ایک آیت میں جہاں نور کے نزول کی بات کی گئی ہے وہاں وہ نور سے مراد آئمہ(ع) لیتے ہیں جبکہ قرآن کے حکم کے مطابق یہاں نور سے مراد قرآن پاک ہے جو رسول اللہ(ص) کے ساتھ ہدایت کے لئے نازل کیا گیا۔
اور اگر آئمہ(ع) مراد بھی ہیں تو اس اعتبار سے کہ وہ قرآن کی جیتی جاگتی تفسیر (قرآن ناطق اور عملی قرآن) ہیں.

احادیث کی طرف جانے سے پہلے ہم اس نظریہ کے نقصانات کی طرف اشارہ کرینگے،

(1) ﺟﺐ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮨﻮﮔﺎ ﺗﻮ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﺎﺭ کرنا ﮨﻮﮔﺎ.
(کیونکه ظاهر هے جب کوئ پیدا هی نهیں هوا تو قتل بهی نہیں هوا هوگا ).

(2) ظہور و نزول کے قائل افراد کو زیارت وارثہ کا انکار کرنا پڑے گا کیونکہ زیارت وارثہ میں امام معصوم ع نے فرمایا -

اشھد انک کنت نورا فی الاصلاب الشامخۃ والارحام المطھرۃ
*میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ بلند ترین اصلاب اور پاکیزہ ترین ارحام میں نور الہی بن کر رہے*
( امام معصوم ع تو کسی چیز کے هونے کی گواهی دیں اور یه لوگ صاف انکار کریں، تو کیا کسی شیعه کو یه نظریه قبول هوگا ؟ هرگز نهیں.)

یا اسی طرح امام معصوم ع فرماتے هیں که
اشھد ان الائمۃ من ولدک کلمۃ التقوی
*اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپکی اولاد کے امام سب کلمۂ تقوی ہیں*

یہ بات یاد رھے کہ *صلب و رحم اور اولاد کا تعلق ولادت* سے ہوتا ھے نا که نزول و ظهور سے،
اور جہاں ظہور و نزول ہو وھاں ان الفاظ کا. یعنی اصلاب و ارحام کے استعمال هرگز نھیں کیےجاتے.
لہذا اس *باطل اور فاسد عقیدے* کو ماننے کے لئے امام معصوم ع بیان کرده *زیارت وارثہ* کا انکار کرنا ضروری ہوجائے گا.

(3) ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﺯﯾﺎﺭﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﻌﺎﺭﻑ ایمان ﻭ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﺳﮯ بھرﺮ ﭘﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ دشمنان محمد وآل محمد ع پر *لعنت* کی گئی ﮨﮯ ﺍﻧ تمام ﺴﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ گا اسلئے کہ جب کسی نے شہید ہی نھیں کیا ہے تو لعنت کس بات کی ؟؟؟

(4) ﺟﺐ ﺍﺋﻤﮧ معصومین ع ﭘﯿﺪﺍ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ *ﻧﺴﻞ ﺳﺎﺩﺍﺕ* کہاں سے وجود میں آگئی ؟؟
کیا تمام سادات کا بھی نزول و ظہور ہوا ہے ؟
یا یہ ﺍﯾﮏ ﺑﻨﺎﻭﭨﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﮍھی ﮨﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ لذا اس عقیدے کے ماننے والے کو ﻧﺴﻞ ﺳﺎﺩﺍﺕ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ کرنا پڑے گا.

(5) نبئ اکرم ص، ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽؑ، ﺣﻀﺮﺕ فاطمہ زھرا س ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺯﻣﺎﻧﮧ عج ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ جو ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ وارد ہوئی ہیں،
ﮨﯿﮟ ﮐﮧ آپ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺳﮯ ﺍنکے ﺑﻄﻦ ﻣﯿﮟ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ انکا دل بہلایا کرتے تهے سب کی سب جهوٹی هوجائیں گی،ان سب روایات سے انکار کرنا پڑے گا.

(6),جو معصوم کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں انکو *عید میلاد النبی ص* اور *جشن مولود کعبه* کا انکار کرنا پڑے گا.

دنیا کے تمام مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا اھلسنت تمام فرقے نبی کی ولادت کو عید میلاد النبی کے نام سے یاد کرتے ہیں کسی نے بھی آپکی ولادت کو نزول یا ظہور سے کبهی بهی یاد نھیں کیا ھے.

لفظ مولید کا مصدر ,ولد, ایک عربی لفظ ہے۔ جس کے معنی تولید، یا جنم دینا، یا وارث کے ہیں۔
عصری دور میں مولد یا مولود یا میلاد کا لفظ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے لئے کثرت سے استعمال کیا جاتا هے.
*عید المولِد النبوی ص*
یعنی
*عید ولادتِ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم*

(7) امیرالمؤمنین امام علی ع کی ایک ایسی فضیلت جسمیں ان کا کوئی ثانی نھیں یعنی امام علی ع کا کعبه میں پیدا هونا، امام علی کے لقب *مولود کعبہ* سے انکار کرنا ہوگا،
جبکہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے کہ جناب فاطمہ بنت اسد نے کعبہ کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا،
وبهذا المولود الذي في أحشائي الذي يكلّمني ويؤنسني بحديثه، وأنا موقنة أنّه إحدى آياتك ودلائلك لمّا يسّرت عليَّ ولادتي،
*اور تجھے اس مولود کا واسطہ کہ جو میرے بطن میں ھے جو مجھ سے باتیں کرتا ھے میری تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرتا ہے مجھے یقین ھے یہ تیری نشانیوں میں سے ایک نشانی اور دلائل میں سے ایک دلیل ھے اسنے مجھ پر ولادت کو آسان بنادیا ہے*
( الأمالي للطوسي: 706)

اسکے علاوہ تمام شعراء عرب و عجم نے امام کی آمد کو *ولادت* سے ہی یاد فرمایا ہے
جیساکہ سید حمیری رح نے کہا
ولدته في حرم الإله وأمنه
والبيت حيث فناؤه والمسجد

بيضاء طاهرة الثياب كريمة
طابت وطاب وليدها والمولد

شیخ حسین نجفی قدس سرہ نے فرمایا
جعل الله بيته لعلي
مولداً يا له عُلا لا يضاهى

لم يشاركه في الولادة فيه
سيّد الرسل لا ولا أنبياها

(مناقب آل أبي طالب: 23.
الغدير 6/29.)

(8) ﺍﮔﺮ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﻮ ﻇﮩﻮﺭ ﮐﮯ ﻟﻔﻆ ﺳﮯ ﺑﺪﻝ ﺩینے کی ناکام کوشش کی ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﯾﮧ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ مؤمنین ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ
*ﺍﻣﺎﻡ ﺯﻣﺎﻧﮧ عج* ﮐے ﻇﮩﻮﺭ ﮐﯽ ﺟﻮ
ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ اور چاهت هے وه بالکل ختم هوجاۓ گی .

*امام زمان عج کی ولادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ھ کو ھوچکی هے*،
آپ کے ظھور کے بارے میں بے شمار احادیث موجود ہیں کہ آپکا ظھور آخری زمانے میں ھوگا لہذا اگر کچھ لوگ یہ مانتے ہیں کہ معصوم کا نزول یا ظہور ہوتا ہے تو انکو ماننا پڑے گا کہ *امام زمانہ ابھی پیدا نھیں ھوئے*

*معصوم ع کی ولادت ہی ہوتی ھے* نزول و ظہور نھیں هوتا.

زیارت وارثہ کے جملے
تصویر نیچے ہے

آجکل بعض شرپسند ایک ایسی بات کو متنازعہ بنا رہے ہیں جو ہمارے ہاں آج تک اختلافی نہیں رہی۔ ہمارے علمائے کرام اور خود عوام بھی معصومین(ع) کی ولادت کا جشن منایا کرتے تھے اور سبھی فخر سے مولا علی(ع) کو مولود کعبہ کہتے تھے لیکن کچھ عرصے سے شیخیت کی کویتی تبلیغ کی وجہ سے عوام کو اس مسئلے میں الجھایا گیا ہے کہ معصومین(ع) کی ولادت ہوتی ہے یا ان کا ظہور ہوتا ہے۔

سب سے پہلے تو ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان شرپسندوں کا ظہور یا نزول سے کیا مطلب ہے۔ یہ شرپسند حضرات کہتے ہیں کہ معصومین(ع) کی ولادت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی وہ اپنے اجداد کے اصلاب میں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی امّہات (ماؤں) کے شکموں میں ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی ولادت ہوتی ہے۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ معصومین(ع) آسمان سے ڈائریکٹ نازل ہوتے ہیں اور شکموں اور ارحام میں نہیں ہوتے۔ ان کے باطل عقیدے کی دلیل میں کوئی صریح حدیث نہیں ہے، البتہ قرآن کی ایک آیت میں جہاں نور کے نزول کی بات کی گئی ہے وہاں وہ نور سے مراد آئمہ(ع) لیتے ہیں جبکہ قرآن کے حکم کے مطابق یہاں نور سے مراد قرآن پاک ہے جو رسول اللہ(ص) کے ساتھ ہدایت کے لئے نازل کیا گیا۔ اور اگر آئمہ(ع) مراد بھی ہیں تو اس حساب سے کہ وہ قرآن کی جیتی جاگتی تفسیر ہیں۔

چلیں ہم یہ مسئلہ معصومین(ع) کی عدالت میں پیش کرتے ہیں کہ کیا نزول/ ظہور کا عقیدہ صحیح ہے یا نہیں؟ ان کے لئے ولادت کا لفظ بہتر ہے یا نزول/ ظہور کا لفظ بہتر ہے؟ ہم اپنے ہر مسئلے میں معصومین(ع) کی طرف رجوع کرتے ہیں خاص طور پر جب مسئلے میں اختلاف ہو، بالکل ویسے ہی جیسا کہ معصومین(ع) کے دور میں ہم کرتے تھے۔ چنانچہ مروی ہے کہ جب لوگوں میں اس بات پر اختلاف ہوا کہ معصومین(ع) خالق یا رازق ہیں یا نہیں تو امام حسن عسکری(ع) سے پوچھا گیا اور ایک واقعے میں امام زمانہ(عج) سے پوچھا گیا تو معصومین(ع) نے ان لوگوں کی حمایت کی جو کہتے تھے کہ خالق و رازق صرف اللہ کی ذات ہے، اور کی پرزور مذمت کی جو آئمہ(ع) کو خالق و رازق سمجھتے تھے۔

اسی طرح ہم بھی یہ مسئلہ معصومین(ع) کی عدالت میں پیش کرتے ہیں۔ شیخ کلینی نے "اصول کافی" کی دوسری جلد میں باقاعدہ ایک باب بنایا ہے جس کا نام ہے: "بَابُ مَوَالِيدِ الْأَئِمَّةِ" یعنی "کیفیت ولادت آئمہ(ع)"۔ گویا ہمیشہ سے شیعوں میں جو لفظ مستعمل رہا ہے وہ ولادت کا ہی رہا ہے، یہ بعد میں آنے والے اتنے عقلمند ہو گئے جو معرفت کی ایسی باتیں درک کر لیتے ہیں جن کو ان سے قبل کسی نے درک نہیں کیا ہوتا۔

اس باب کی پہلی حدیث ہے جو کافی لمبی چوڑی ہے جس میں ابوبصیر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک سال امام صادق(ع) کے ساتھ حج کیا تو راستے میں ابواء کے مقام پر امام موسی کاظم(ع) کی ولادت ہوئی۔ اس میں خود ابو بصیر بھی بار بار ولادت کا لفظ استعمال کر رہے ہیں اور امام(ع) بھی۔ جب امام صادق(ع) واپس آئے تو اصحاب نے مبارکبادی دی تو امام(ع) نے بتایا کہ جب یہ مولود پیدا ہوا تو اس نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا اور آسمان کی طرف رخ کیا، پھر امام(ع) نے بتایا کہ یہ رسول اللہ(ص) اور ان کے تمام جانشینوں کی علامت ہوتی ہے۔ امام(ع) پھر بتاتے ہیں کہ کیسے آئمہ(ع) کا نطفہ قرار پاتا ہے لیکن ہم اس پوری حدیث کا ذکر نہیں کریں گے کیونکہ یہ کافی طولانی حدیث ہے، امام(ع) پھر فرماتے ہیں:

وَ إِذَا سَكَنَتِ النُّطْفَةُ فِى الرَّحِمِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَ أُنْشِئَ فِيهَا الرُّوحُ بَعَثَ اللَّهُ تـَبـَارَكَ وَ تـَعـَالَى مَلَكاً يُقَالُ لَهُ حَيَوَانُ فَكَتَبَ عَلَى عَضُدِهِ الْأَيْمَنِ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صـِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وَ إِذَا وَقَعَ مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ وَقَعَ وَاضِعاً يَدَيْهِ عَلَى الْأَرْضِ رَافِعاً رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ

اور جب امام کا نطفہ رحم مادر میں قرار پائے چار مہینے گزر جاتے ہیں تو اس میں روح پیدا کی جاتی ہے اور اللہ تبارک و تعالی ایک فرشتے کو مقرر کرتا ہوں جس کا نام حیوان ہے، جو (امام) کے دائیں بازو پر لکھتا ہے "وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صـِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ" اور جب وہ اپنے ماں کے بطن سے باہر آتا ہے تو اپنا ہاتھ زمین پر رکھتا ہے اور اپنا سر آسمان کی طرف کرتا ہے۔

اصول كافى جلد 2 صفحه 225 روايت 1

قارئین کرام ملاحظہ کیجئے کہ اس سے بڑھ کر ولادت کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟

معصوم معصوم کی گردان کرنے والے، اور معصومین(ع) کی تقلید کا نعرہ بلند کرنے والے کہاں جائیں گے؟ کس ڈھٹائی سے یہ بدبخت معصومین(ع) کے اقول جھٹلاتے ہیں۔
اب ہم اگلی حدیث پڑھتے ہیں:

مـُحـَمَّدُ بـْنُ يـَحـْيـَى عـَنْ مـُحـَمَّدِ بـْنِ الْحـُسـَيْنِ عَنْ مُوسَى بْنِ سَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْقـَاسـِمِ عـَنِ الْحـَسـَنِ بـْنِ رَاشـِدٍ قـَالَ سـَمـِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تـَعـَالَى إِذَا أَحـَبَّ أَنْ يـَخـْلُقَ الْإِمـَامَ أَمَرَ مَلَكاً فَأَخَذَ شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ تَحْتَ الْعَرْشِ فَيَسْقِيهَا أَبـَاهُ فـَمـِنْ ذَلِكَ يـَخـْلُقُ الْإِمـَامَ فـَيـَمـْكـُثُ أَرْبـَعـِيـنَ يَوْماً وَ لَيْلَةً فِى بَطْنِ أُمِّهِ لَا يَسْمَعُ الصَّوْتَ ثُمَّ يَسْمَعُ بَعْدَ ذَلِكَ الْكَلَامَ فَإِذَا وُلِدَ بَعَثَ ذَلِكَ الْمَلَكَ فَيَكْتُبُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَ تـَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ فَإِذَا مَضَى الْإِمَامُ الَّذِى كـَانَ قـَبـْلَهُ رُفـِعَ لِهـَذَا مـَنـَارٌ مِنْ نُورٍ يَنْظُرُ بِهِ إِلَى أَعْمَالِ الْخَلَائِقِ فَبِهَذَا يَحْتَجُّ اللَّهُ عَلَى خَلْقِه

حسن بن راشد کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) کو کہتے سنا "اللہ تبارک و تعالی جب امام کو خلق کرنا چاہتا ہے تو ایک فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ ایک شربت عرش کے نیچے سے لے کر امام کے والد کو پلائے۔ پس امام کی (جسمانی) خلقت اس شربت سے ہے۔ پھر چالیس شب و روز (امام) اپنی ماں کے شکم میں ہے اور اس دوران وہ کچھ سن نہیں سکتا، اور پھر ان کے کان سننے کے لئے کھل جاتے ہیں۔ اور جب ولادت ہوتی ہے تو اسی فرشتے کو مقرّر کرتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے بیچ میں لکھے وَ تـَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَ عَدْلًا لا مُبَدِّلَ لِكَلِماتِهِ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔ اور پھر امام کو نور کا ایک مینار عطا کیا جاتا ہے جس سے وہ بندوں کے اعمال دیکھتا ہے اور جس کے ذریعے اللہ اپنے بندوں پر حجت تمام کرتا ہے۔

اصول كافى جلد 2 صفحه 228 روايت 2

پھر ہم تیسری اور چوتھی حدیث چھوڑ دیتے ہیں جن کے وہی مطالب ہیں، پھر ہم پانچویں حدیث کی طرف آتے ہیں جس میں درج ہے کہ جب آئمہ(ع) کی والدہ حاملہ ہوتی ہیں تو بیہوشی کی کیفیت ہوتی ہے جس میں ان کو خوشخبری دی جاتی ہے اور پھر نو ماہ گزرنے کے بعد امام کے گھر پر ایک عجیب سا نور ہوتا ہے جس کو ان کے والد اور والدہ کے سوا کوئی نہیں دیکھ سکتا اور پھر ان کی ولادت ہوتی ہے۔ اس حدیث میں ہم نے بہت سے الفاظ نقل نہیں کئے کیونکہ کافی کھل کر ان کی ولادت کی تفصیلات بتائی گئی ہیں، جس کا ذکر بعض الناس کو ناگوار گزرے گا درحالیکہ یہ الفاظ خود امام(ع) کے ہیں۔

لیکن قارئین خود مشاہدہ کریں کہ ان تمام روایتوں میں ولادت کا ہی لفظ جگہ جگہ استعمال ہوا ہے، اور کہیں پر بھی نزول یا ظہور کا لفظ موجود نہیں ہے۔ بلکہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آئمہ(ع) کی ظاہری جسمانی خلقت ماں کے بطن میں ہی ہوتی ہے اور امام(ع) بھی اسی طرح تخلیق کے تمام مراحل سے گزرتا ہے جیسا کہ قرآن میں بیان کیا گيا ہے۔ البتہ ان کی ارواح پہلے سے خلق شدہ ہوتی ہیں اور ظاہر روایات سے یہی حاصل ہوتا ہے کہ ماں کے بطن میں چار ماہ گزرنے کے بعد ان کی روح ان کے جسم میں منتقل کر دی جاتی ہے۔ ان تمام احادیث سے ظہور یا نزول کا عقیدہ رکھنے والوں کی بے پناہ تردید ہوتی ہے۔

اس باب کے آخر میں ایک حدیث نقل کی جاتی ہے جس میں امام باقر(ع) امام کی دس علامتیں بیان فرماتے ہیں، جس کی پہلی اور دوسری علامت یوں بیان کی گئی ہے:
عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِى جـَعـْفَرٍ ع قَالَ لِلْإِمَامِ عَشْرُ عَلَامَاتٍ يُولَدُ مُطَهَّراً مَخْتُوناً وَ إِذَا وَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ وَقَعَ عَلَى رَاحـَتـِهِ رَافـِعـاً صـَوْتـَهُ بـِالشَّهـَادَتَيْنِ

زرارہ امام باقر سے نقل کرتے ہیں: "امام کی دس علامتیں ہوتی ہیں 1) وہ پاک و مطہّر اور ختنہ شدہ پیدا ہوتا ہے، 2) اور جب دنیا میں آتا ہے تو اپنے ہاتھ زمین پر رکھتا ہے اور شہادتین کے اقرار کی آواز بلند کرتا ہے"

اصول كافى جلد 2 صفحه 231 روايت 8

قارئین کرام ملاحظہ کیجئے کہ یہاں اس روایت میں صاف معصوم(ع) خود فرما رہے ہیں کہ آئمہ(ع) پیدا ہوتے ہیں اور ان کی ولادت ہوتی ہے لیکن ان کی ولادت اور ہمارے ولادت میں فرق ہے، وہ پاک و مطہّر اور ختنہ شدہ پیدا ہوتے ہیں۔

ہم نے دیگر منابع اور کتب میں وارد ہونے والی سینکڑوں احادیث کا ذکر نہیں کیا تاکہ پڑھنے والوں کے ذہن پر مطالب بوجھل نہ ہو جائیں، لیکن عقل والوں اور ہدایت کے متلاشی حضرات کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

اب آپ خود ہی انصاف سے فیصلہ کیجئے، کہ معصومین کی سیرت پر چلتے ہوئے ان کے لئے ولادت کا لفظ استعمال کرنا بہتر ہے یا پھر ان شرپسندوں کے قیاس پر چلتے ہوئے ظہور یا نزول کا لفظ استعمال کرنا؟

فیصلہ آپ پر ہے

ﻭﻻﺩﺕ ﯾﺎ ﻇﮩــــﻮﺭ )
ﺍﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﻇﮩﻮﺭ ﯾﺎ ﻧﺰﻭﻝ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ
ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻧﻘﺼﺎﻧﺎﺕ .
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻮﺍﻗﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﯾﮧ ﮨﯿﮟ :
ﺟﺐ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮨﻮﮔﺎ ﺗﻮ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ
ﺯﯾﺎﺭﺗﮕﺎﮨﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮑﻮ ﺍﯾﮏ ﺻﺮﻑ ﻋﻼﻣﺘﯽ ﻧﺸﺎﻥ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺋﮕﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ
ﺟﺐ
ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﮐﻮﻥ ﺩﻓﻦ ﮨﯿﮟ؟
· ﺯﯾﺎﺭﺕ ﻭﺍﺭﺛﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﮐﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ’’ ﻓﯽ
ﺍﻻﺻﻼﺏ
ﺍﻟﺸﺎﻣﺨۃُ ﻭ ﺍﻻﺭﺣﺎﻡ ﺍﻟﻤﻄﮩﺮﮦ۔۔۔ ‘‘
· ﺭﺟﺐ ﮐﯽ ﺩﻋﺎﻭٔﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﺦ ﮐﻔﻌﻤﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻋﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻔﮩﻮﻡ
ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺩﻭ ﻣﻮﻟﻮﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔۔۔، ﯾﮩﯽ
ﺩﻋﺎ
ﺑﺤﺎﺭ ﺍﻻﻧﻮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺫﮐﺮ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔
· ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻣﺎﻡ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ
ﮐﻮﺋﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻟﮩٰﺬﺍ ﻇﺎﻟﻤﯿﻦ ﮐﻮ ﺑﺮﯼ ﺍﻟﺬﻣﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔
· ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﺯﯾﺎﺭﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﻌﺎﺭﻑ ﻭ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﭘﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻌﻦ ﺫﮐﺮ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﺍﻧﺴﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯﮔﺎ ۔
· ﺟﺐ ﺍﺋﻤﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﻧﺴﻞ ﺳﺎﺩﺍﺕ ﺍﯾﮏ ﺑﻨﺎﻭﭨﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﮍﯼ
ﮨﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻧﺴﻞ ﺳﺎﺩﺍﺕ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ
· ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽؑ ﺣﻀﺮﺕ ﺯﮨﺮﺍﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ
ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﻄﻦ ﻣﯿﮟ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ،ﺍﺱ
ﺳﮯ
ﺍﻧﮑﺎﺭ
· ﺍﮔﺮ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﻮ ﻇﮩﻮﺭ ﮐﮯ ﻟﻔﻆ ﺳﮯ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ
ﻧﻘﺼﺎﻥ ﯾﮧ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮐﯽ ﻇﮩﻮﺭ ﮐﯽ ﺟﻮ
ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات