امیرمختار ثقفی کی شخصیت اور انکے قیام بارے میں

امیرمختار ثقفی کی شخصیت اور انکے قیام بارے میں

مختار ابن ابی عبید ثقفی پہلی صدی ہجری قمری کے تابعین میں سے تھا، جو طائف کا رہنے والا تھا۔ جو امام حسین (ع) اور آپ کے باوفا اصحاب کے خون کا انتقام لینے کی وجہ سے مشہور ہوا۔ مسلم ابن عقیل جب امام حسین (ع) کے سفیر کے عنوان سے کوفہ آئے تو مختار نے انکی میزبانی کی لیکن حضرت مسلم ابن عقیل کی شہادت کے وقت مختار عبید اللہ ابن زیاد جو اس وقت کوفہ کا والی تھا، کے زندان میں قید تھا۔
مختار نے اپنے قیام کے ذریعے واقعہ عاشورا اور امام حسین (ع) کے قتل میں ملوث بہت سے مجرموں کو قتل کیا۔ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ اس کے قیام کو امام زین العابدین (ع) کی تائید بھی حاصل تھی۔ مختار نے قیام کی کامیابی کے بعد کوفہ پر اپنی حکومت قائم کی اور 18 ماہ حکومت کے بعد مصعب ابن زبیر کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ ان کی قبر مسجد کوفہ میں مسلم ابن عقیل کی قبر کے ساتھ واقع ہے۔
نسب اور لقب:
مختار ابن ابی عبیدہ ابن مسعود ابن عمرو ابن عمیر ابن عوف ابن عقدہ ابن غیرۃ ابن عوف ابن ثقیف ثقفی کہ جن کی کنیت ابو اسحاق اور لقب کیسان تھا۔
أسد الغابۃ ج4 ص 346
تاریخ طبری، ج 6 ص 7
کہا جاتا ہے کہ فرقہ کیسانیہ مختار سے منسوب تھا۔
وفیات الاعیان، ابن خلکان، ج 4 ص172
کیسان زیرک و باہوش کے معنی میں ہے۔
اصبغ ابن نباتہ نقل کرتے ہیں کہ:
ایک دن حضرت علی (ع) نے جب مختار بچپنے کی عمر تھا، اپنے زانو پر بٹھایا ہوا تھا اور اسے کیس کا لقب دیا۔ چون حضرت علی (ع) نے دو دفعہ اسے کیس کہہ کر پکارا اسی وجہ سے انہیں کیسان کہا جاتا تھا۔
معجم الرجال، ج 18 ص 102
بعض کا خیال ہے کہ کیسان کا لقب ان کے کسیی کمانڈر اور مشاور کے نام سے لیا گیا ہے، جسکی کنیت ابو عمرہ کیسان تھا۔
رجال کشی، ص 128
مختار اہل طائف اور قبیلہ ثقیف سے تھا۔ ان کا دادا مسعود ثقفی حجاز کے بزرگان میں سے تھا اور عظیم القریتین کے لقب سے مشہور تھا۔
الطبقات الکبری، ج 2 ص 79
المعارف،متن، ص 400
مختار کا والد ابو عبید پیغمبر اکرم (ص) کے بڑے صحابہ میں سے تھا۔
أسد الغابۃ،ج‌ 4 ص 347
پیغمبر اکرم (ع) کی رحلت کے بعد عمر ابن خطاب کے دور خلافت میں جنگ قادسیہ میں شہید ہو گئے۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن، ج 1، ص356
انکی ماں ددومہ بنت عمرو ابن وہب تھی۔ ابن طیفور نے انہیں بلاغت و فصاحت کا حامل قرار دیا ہے۔
ریاحین الشریعۃ، ج 4 ص 245
ان کے چچا سعد ابن مسعود ثقفی، امام علی (ع) کی طرف سے مدائن کا والی منصوب ہوا تھا۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن، ج‌ 1 ص 616
الإصابۃ، ج‌ 1 ص561
ان کے بھائی وہب، مالک اور جبر اپنے والد کے ساتھ جنگ قادسیہ میں شہید ہو گئے تھے۔
الفتوح،ج‌ 1 ص 134
الإصابۃ،ج‌ 1 ص 561
زندگی‌ نامہ اور کارنامے:
مختار ہجرت کے پہلے سال متولد ہوئے۔
أسد الغابۃ،ج‌ 4 ص 347
الکامل،ج‌ 2 ص 111
مختار کی بچپن کے زمانے کے بارے میں کوئی دقیق معلومات تاریخ میں ثبت نہیں ہیں اور ان کے بارے میں جو معلومات ثبت ہیں، ان میں سے اکثر کا تعلق امام حسین (ع) کا انتقام لینے کی خاطر چلانے والی ان کی تحریک کے دوران سے ہے۔ اس لیے ان کی شخصی زندگی سے متعلق بہت ہی کم روایات نقل ہوئی ہیں۔
جنگوں میں شرکت:
کہا جاتا ہے کہ مختار نے 13 سال کی عمر میں جنگ جسر میں شرکت کی جسمیں انہیں اپنے والد اور تین بھائیوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کم عمری کے باوجود مختار اس جنگ میں میدان میں جانا چاہتے تھے، لیکن ان کے چچا سعد ابن مسعود نے انہیں اس کام سے روکے رکھا۔
بحار الأنوار، ج‌ 45 ص 350
مدائن کی زندگی:
مختار کے چچا سعد ابن مسعود جو حضرت علی (ع) کی طرف سے مدائن میں گورنر منصوب ہوا تھا، نے خوارج کے ساتھ جنگ میں مختار کو مدائن میں اپنا جانشین مقرر کیا اور خود جنگ کیلئے نہروان کی طرف چلے گئے۔
اخبار الطوال/ترجمہ،ص: 250
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن، ج‌ 1 ص 629
صلح امام حسن (ع):
امام علی (ع) کی شہادت کے بعد امام حسن (ع) نے معاویہ (لع) کے ساتھ جنگ میں اپنے بعض سپاہیوں کی خیانت اور غداری کے سبب اپنے بعض اصحاب کے ساتھ مدائن تشریف لائے۔ امام حسن (ع) مدائن میں سعد ابن مسعود ثقفی کے ہاں ٹہرے چونکہ وہ امام کی طرف سے مدائن پر حاکم تھا۔ بعض مؤرخین کے مطابق مختار نے اپنے چچا سے کہا:
آیا مال ثروت اور مقام و منصب چاہتے ہو ؟
پوچھا گیا کس طرح ؟
کہا حسن ابن علی (ع) کو گرفتار کر کے معاویہ کے حوالے کر دو اور جو چاہے لے لو !
ان کے چچا نے کہا تم پر خدا کی لعنت ہو ! تم کتنے برے آدمی ہو ! کیسے ہم فرزند پیغمبر کو دشمن کے حوالے کر سکتے ہیں۔
شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص159، نقل از
طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج 7 ص 2
و ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج 3 ص 404
آیت اللہ خوئی اس حدیث کے مرسل ہونے کی وجہ سے اسے قبول نہیں کرتے ۔
اور فرماتے ہیں کہ: اگر حدیث صحیح بھی ہو تو ممکن ہے مختار نے دل سے نہ کہا ہو بلکہ شاید وہ اپنے چچا کو آزمانا چاہتے تھے۔
معجم الرجال، ج 18 ص 97
سید محسن امین نیز اس عقیدے سے متفق ہیں اور کہتے ہیں کہ مختار اپنے چچا کا امتحان لینا چاہتے تھے کہ وہ کس قدر امام (ع) کے ساتھ دوستی اور محبت رکھتے ہیں۔
اعیان الشیعہ، ج 7 ص 230
معاویہ (لع) کا دور:
شمس الدین ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں لکھتا ہے کہ:
معاویہ کے دور میں مختار امام حسین (ع) کے حق میں بعض کام انجام دیتا تھا۔ ذہبی کے بقول معاویہ کے دور میں بصرہ جا کر بصرہ والوں کو امام حسین (ع) کے حق میں آمادہ کرتا تھا۔ اس وقت عبید اللہ ابن زیاد معاویہ کی طرف سے بصرہ میں بعنوان گورنر منصوب تھا، نے مختار کو گرفتار کر کے 100 کوڑے لگائے، جس کے بعد مختار طائف واپس آ گئے۔
ذہبی، سیر اعلام النبلا، ج 3 ص 544
قیام امام حسین (ع):
مختار کے واقعہ کربلا میں شریک نہ ہونے کے بارے میں تاریخی منابع میں مختلف افوائیں موجود ہیں لیکن جو چیز یقینی اور زیادہ اطمینان بخش نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ:
اس واقعے میں اس کی غیر حاضری اختیاری نہیں تھی بلکہ کوفہ میں امام حسین (ع) کے سفیر مسلم ابن عقیل کا ساتھ دینے اور بنی امیہ کی حکومت کے خلاف اقدامات کرنے کے جرم میں، آپ کو عبید اللہ ابن زیاد نے قید کر رکھا تھا۔
جناب مسلم (ع) مختار کے گھر میں:
حضرت مسلم ابن عقیل کی کوفہ آمد کے موقع پر مختار ان افراد میں سے ایک تھا کہ جنہوں نے حضرت مسلم کی حمایت کا اعلان کیا۔ اسی وجہ سے حضرت مسلم جب کوفہ میں آئے تو مختار کے گھر تشریف لے گئے۔جب عبید اللہ ابن زیاد کو معلوم ہوا کہ حضرت مسلم کی مخفی گاہ مختار کا گھر ہے تو وہ وہاں سے ہانی ابن عروہ کے گھر منتقل ہو گئے۔
الکامل،ج‌ 4 ص 36
الأخبارالطوال، ص: 231
ابن قتیبۃ الدینوری، الأخبار الطوال، ص 231
مسعودی، ج 3 ص 252
جناب مسلم (ع) کی حمایت:
تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ مختار ہمیشہ حضرت مسلم کی حمایت کیلئے تیار تھا اور حضرت مسلم کی شہادت کے دن بھی مختار کوفہ سے باہر ایک مقام پر آپ کی حمایت اور دفاع کیلئے افراد کی جمع آوری میں مشغول تھا۔ مختار جب کوفہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت مسلم اور ہانی ابن عروہ دونوں شہید ہو چکے تھے۔
أنساب الأشراف،ج‌ 6 ص 376
تاریخ الطبری، ج‌ 5 ص 569
روز عاشورا اور مختار کی عدم حاضری:
حضرت مسلم اور ہانی ابن عروہ کی شہادت کے بعد ابن زیاد مختار کو بھی شہید کرنا چاہتا تھا، لیکن عمرو ابن حریث کی وساطت سے مختار کو امان مل گئی لیکن ابن زیاد نے تازیانے کے ذریعے سے مختار کی ایک آنکھ کو زخمی کر کے اسے زندان روانہ کر دیا۔ یوں مختار امام حسین (ع) کے قیام کے اختتام تک کوفہ میں ابن زیاد کے زندان میں قید تھا۔
أنساب الأشراف،ج‌ 6 ص 377
المنتظم،ج‌ 6 ص 29
سر امام حسین (ع) کی زیارت:
واقعہ کربلا کے بعد جب اسراء کو کوفہ لایا گیا تو ابن زیاد نے امام حسین (ع) کے حامیوں منجملہ مختار کو امام حسین (ع) کے سر کو دکھانے کیلئے دربار میں بلایا۔ اس موقع پر مختار اور ابن زیاد کے درمیان تلخ کلمات کا تبادلہ ہوا اور مختار نے امام (ع) کا سر دیکھنے کے بعد بہت گریہ و زاری کی اور اپنے سر پر مارنے لگا۔
با کاروان حسینی،ج‌ 5 ص 140
واقعہ کربلا کے بعد عبد اللہ ابن عمر کی وساطت سے یزید نے مختار کو آزاد کر دیا کیونکہ مختار کی بہن یعنی صفیہ بنت ابو عبید، عبد اللہ ابن عمر کی زوجہ تھی۔ اس کے کہنے پر اس نے یہ وساطت کی تھی۔البتہ عبید اللہ ابن عمر نے آزادی کے وقت مختار سے یہ عہد لیا کہ تین دن سے زیادہ کوفہ میں قیام نہیں کریگا اور اگر تین دن کے بعد اسے کوفہ میں دیکھا گیا تو وہ خود اپنے خون کا ذمہ دار ہو گا۔
المنتظم،ج‌ 6 ص 29
عبداللہ ابن زبیر کی بیعت:
ابن زیاد کی قید سے آزادی کے بعد مختار مکہ چلا گیا اور وہاں پر ابتداء میں عبداللہ ابن زبیر ناصبی کی بیعت کی، اس شرط پر کہ کاموں میں اس سے مشورت کریگا اور بغیر مشورے کے کوئی کام انجام نہیں دیگا اور اس کی مخالفت نہیں کریگا۔
آفرینش و تاریخ/ترجمہ، ج‌ 2 ص 907
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج‌ 2 ص 37
جب یزید کے سپاہیوں نے مکہ پر حملہ کر کے اسے محاصرے میں لیا تو مختار نے عبد اللہ ابن زبیر کے ساتھ یزید کی فوج سے مقابلہ کیا۔ لیکن جب عبد اللہ ابن زبیر نے خلافت کا دعوا کیا تو مختار اس سے جدا ہو گیا اور کوفہ جا کر اپنے قیام کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔
آفرینش و تاریخ/ترجمہ، ج‌ 2 ص 910
مختار یزید کی ہلاکت کے 6 ماہ بعد اور ماہ مبارک رمضان کی 15 تاریخ کو کوفہ واپس پہنچ گیا۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن، ج‌ 2 ص 43
ابن زبیر نے عبد اللہ ابن مطیع کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو، مختار نے اس سے مقابلہ کر کے کوفہ پر اپنی حکومت قائم کر لی۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن، ج‌ 2 ص 44
آفرینش و تاریخ/ترجمہ،ج‌ 2 ص 911
مختار اور توّابین کا قیام:
مختار توابین کے قیام کو بے فائدہ سمجھتے تھے، اسی وجہ سے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ مختار سلیمان ابن صرد خزاعی کو جنگی فنون سے نا آشنا سمجھتے تھے۔
المنتظم،ج‌ 6 ص 29
جب مختار نے توابین کا ساتھ نہ دیا تو توابین کے 16000 کے لشکر کہ جنہوں نے سلیمان ابن صرد خزاعی کی بیعت کی تھی، میں سے تقریبا 4000 ہزار کے لشکر نے بھی سلیمان سے اپنی بیعت واپس لے لی، چونکہ یہ لوگ بھی سلیمان کو جنگی فنون میں ماہر نہیں سمجھتے تھے۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج‌ 2 ص 43
البتہ مختار توابین کے قیام کے دوران دوبارہ زندان میں تھے۔ توابین میں سے بعض لوگ، اسے زندان سے طاقت کے زور پر آزاد کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے ان کو منع کیا اور کہا وہ عنقریب زندان سے آزاد ہو جائے گا۔ اس دفعہ بھی مختار عبد اللہ ابن عمر کے ذریعے سے آزاد ہوا تو اس وقت توابین شکست سے دوچار ہو گئے تھے۔ یوں مختار نے خطوط کے ذریعے توابین کے بازماندگان سے اظہار ہمدردی کیا۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج‌ 2 ص 44
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج‌ 2 ص 44
قیام مختار:
14 ربیع الاول سن 66 ہجری قمری کو مختار نے امام حسین (ع) اور آپ کے باوفا اصحاب کے خون کا بدلہ لینے کی نیت سے قیام کا آغاز کیا تو کوفہ کے شیعوں نے بھی مختار کا ساتھ دیا۔ مختار کہا کرتا تھا کہ خدا کی قسم اگر قریش کا دو تہائی حصہ بھی قتل کیا جائے تو امام حسین (ع) کی ایک انگلی کے برابر بھی نہیں ہو گا۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن، ج‌ 2 ص 44
الفخری،ص: 122
مختار نے اس قیام کے دوران شمر ابن ذی الجوشن، خولی ابن یزید، عمر ابن سعد اور عبید اللہ ابن زیاد جیسے ظالمین اور فاسقین افراد کو کہ جو کربلا کے واقعے میں خود شریک یا انکا اس واقعے سے تعلق تھا، کو واصل جہنم کیا۔
أسدالغابۃ،ج‌ 4 ص 347
اس قیام میں ابراہیم ابن مالک اشتر نے بھی مختار کا ساتھ دیا اور وہ مختار کی فوج کا سپہ سالار تھا اور اس نے عبید اللہ ابن زیاد کو موصل میں واصل جہنم کیا تھا۔
أسدالغابۃ،ج‌ 4 ص 347
جب مختار نے عبید اللہ ابن زیاد اور عمر ابن سعد کا سر محمد ابن حنفیہ کے لیے بھیجا تو اس وقت آپ مسجد الحرام میں کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ آپ نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہا کہ جس وقت امام حسین (ع) کا سر عبید اللہ ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا تھا تو وہ کھانا کھانے میں مصروف تھا اور جب ابھی اس کا سر ہمارے پاس بھیجا گیا ہے تو ہم بھی ایسی ہی حالت میں تھے۔ اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ اس کا سر مسجد الحرام میں لٹکایا جائے تا کہ ہر ایک اسے مشاہدہ کر سکے۔
آفرینش و تاریخ/ترجمہ، ج‌ 2 ص 913
قیام مختار کا نعرہ:
مختار نے اس قیام میں دو نعروں یا لثارات الحسین اور یا منصور امت کا استعمال کیا۔ مختار نے جنگی لباس زیب تن کرتے وقت انہی دو نعروں کے ساتھ اپنے سپاہیوں کو جنگ کی اطلاع دی۔ البتہ ان دو نعروں کا اس سے پہلے بھی استعمال ہوا تھا "یا منصور امت" پہلی بار جنگ بدر میں جبکہ "یا لثارات الحسین" کے نعرے کا استعمال اس سے پہلے توابین کے قیام میں استعمال ہوا تھا۔ اسی طرح جب عمر ابن سعد مارا گیا تو کوفہ والوں نے بھی "یا لثارات الحسین" کا نعرہ لگایا تھا۔
أنساب الأشراف،ج‌ 6 ص 390
تاریخ الطبری،ج‌ 6 ص 20
الفتوح،ج‌ 6 ص 233
أنساب الأشراف،ج‌ 6 ص 370
أنساب الأشراف،ج‌ 6 ص 407
مختار کا انجام:
مختار ثقفی اپنے قیام کے بعد 18 ماہ کوفہ پر حکومت کرنے اور تین گروہ شام میں بنی امیہ، حجاز میں آل زبیر اور کوفہ کے سرداروں سے جنگ کرنے کے بعد آخر کار 14 رمضان سن 67 ہجری قمری کو 67 سال کی عمر میں مصعب ابن زبیر کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ مصعب کے حکم پر مختار کا ہاتھ کاٹ کر مسجد کوفہ کی دیواروں کے ساتھ کیل کے ذریعے سے لٹکا دیا گیا لیکن جب حجاج ابن یوسف کوفہ پر قابض ہوا تو چونکہ وہ بھی قبیلہ ثقیف سے تھا، اس بناء پر اس نے مختار کے ہاتھوں کو دفن کرا دیا۔
المنتظم،ج‌ 6 ص 68
أسد الغابۃ،ج‌ 4 ص 347
المعرفۃ و التاریخ،ج‌ 3 ص 330
الکامل،ج‌ 4 ص 275
مختار کے بعد ان کے حامی جنکی تعداد 6000 تھی اور انھوں نے مصعب کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تھے، مصعب نے امان دینے کا وعدہ دیا تھا لیکن اس ملعون نے وعدے کی مخالف کرتے ہوئے، سب کے سروں کو کاٹ کر بدن سے جدا کر دیا۔
أخبار الدولۃ العباسیۃ،ص 182
مصعب ابن زبیر کا یہ کام اتنا وحشت ناک تھا کہ جب عبد اللہ ابن عمر نے اس سے ملاقات کی تو کہا کہ یہ 6000 ہزار کی تعداد اگر تمہارے باپ کی بھیڑ بکریاں بھی ہوتیں تو تم ان سب کے سروں کو بھی کاٹتے تو پھر بھی اس کام کو اسراف (فضول خرچی) کہا جانا تھا، اب جبکہ تم نے بھیڑ بکریوں کے نہیں بلکہ اتنی تعداد میں انسانوں کے سر کاٹے ہیں !
أنساب ‌الأشراف،ج‌ 6 ص 445
مختار کی بیوی کا قتل:
مصعب ابن زبیر نے نعمان ابن بشیر کی بیٹی عمرہ جو کہ مختار کی بیوی تھی، کو مختار سے بیزاری اختیار کرنے پر مجبور کیا لیکن اس نے اسے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا تو مصعب نے اسے قتل کر دیا۔
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ: مصعب نے عمرہ سے کہا کہ مختار کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ عمرہ نے بڑی جرات سے کہا کہ وہ ایک پرہیزگار آدمی تھا اور ہر روز روزہ رکھتا تھا۔ اس پر مصعب نے اس کی گردن اڑانے کا حکم دیا اور اسلام میں یہ پہلی خاتون تھی کہ جسکی تلوار کے ذریعے سے گردن اڑا دی گئی تھی۔
تاریخ الیعقوبی،ج‌ 2 ص 264
قیام مختار کے علل و اسباب:
جیسا کہ ذکر ہوا کہ اس قیام میں مختار کا نعرہ یا لثارات الحسین تھا اور ظاہرا اس نے کربلا کے شہداء کے خون کا بدلہ لینے کیلئے قیام کیا تھا۔ لیکن بعض لوگوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مختار کا یہ نعرہ صرف ایک بہانہ تھا اور اس نے اس نعرے سے سوء استفادہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کیلئے راہ ہمورا کی تھی۔ اس حوالے سے مختار کے ساتھ اہل بیت اطہار (ع) کی بعض شخصیات کا رابطہ اور ان حضرات کا مختار کے بارے میں جو نظریات ہیں، کہ جو اس تاریخی خدشے اور ابہام کو دور کر دیتے ہیں۔
مختار کا امام سجاد (ع) سے رابطہ:
امام سجاد (ع) کے مختار کے ساتھ رابطہ کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ بعض روایات میں امام سجاد (ع) کے مختار کے ساتھ اچھے تعلقات نہ ہونے اور امام (ع) کا اس کے قیام کی حمایت نہ کرنے کی بات نظر آتی ہے۔ یہ حضرات اس بات کی دلیل کو امام کی طرف سے مختار کے بھیجے ہوئی ہدایا کی واپسی قرار دیتے ہیں۔
بحار الانوار، ج 45 ص 344
معجم الرجال ج 18 ص 96
جبکہ اس کے مقابلے میں بعض اخبار اس بات پر زور دیتی ہے کہ امام (ع) نے مختار کے قیام کی تائید کی تھی۔ لیکن بنی امیہ اور آل زبیر نے جو حالات اسلامی ملکوں میں ایجاد کر رکھے تھے، اس وجہ سے آپ (ع) کھل کر مختار کی حمایت نہیں کر سکتے تھے۔ اسی لیے آپ (ع) نے اپنے چچا "محمد ابن حنفیہ" کو اپنا نائب بنایا تھا اور مختار کو ان کی طرف رہنمائی اور رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس قول کی بناء پر مختار نے 20 ہزار دینار امام سجاد (ع) کی خدمت میں بھیجے اور امام نے اسے قبول کیا اس کے ذریعے عقیل ابن ابی طالب اور دوسرے بنی ہاشم کے خراب شدہ گھروں کی تعمیر فرمائی تھی۔
معجم الرجال ج 18 ص 96
اسی طرح مختار نے 30 ہزار درہم میں ایک کنیز خرید کر امام سجاد (ع) کو ہدیہ دیا تھا کہ جس کے بطن سے زید ابن علی متولد ہوئے تھے۔
مقاتل الطالبیین،ص 124
اسی حوالے سے ایک اور روایت میں آیا ہے کہ: کوفہ کے اشراف میں سے بعض امام سجاد (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ (ع) سے مختار کے قیام کے متعلق سوال کیا تو آپ نے انہیں بھی "محمد بن حنفیہ" کی طرف بھیجا اور فرمایا:‌ اے میرے چچا ! اگر کوئی سیاہ فارم غلام بھی ہم اہل بیت (ع) کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرے تو لوگوں پر واجب ہے کہ اس کی ہر ممکن حمایت کریں۔ اس بارے میں آپ جو کچھ مصلحت جانتے ہیں، انجام دیں۔ میں اس کام میں آپ کو اپنا نمائندہ قرار دیتا ہوں۔
آیت اللہ خوئی اور عبد اللہ مامقانی نے قیام مختار کو امام زین العابدین کی خاص اجازت کے ساتھ انجام پانے کی تصریح کی ہے۔
بحار الأنوار، ج‌ 45 ص 365
ریاض الأبرار ج 1 ص 298
معجم الرجال، ج 18 ص 100
تنقیح المقال، ج 3 ص 206
مختار کا محمد ابن حنفیہ سے رابطہ:
بعض روایات کے ظاہر سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ مختار لوگوں کو محمد ابن حنفیہ کی امامت کی طرف دعوت دیتے تھے اور اسے " امام مہدی " کے نام سے پکارتے تھے۔ لیکن اربلی نے اپنی کتاب کشف الغمہ میں اس رابطے کو ظاہری اور مختار کے قیام میں محمد ابن حنفیہ کی دخالت کو امام زین العابدین (ع) کے زمانے کے مخصوص حالات کا تقاضا قرار دیتے ہیں۔
کشفہ الغمہ، ص 254
محمد ابن اسماعیل مازندرانی حائری اپنی کتاب منتہی المقال میں مختار کی محمد ابن حنفیہ کی امامت پر عقیدہ رکھنے کو قبول نہیں کرتے اور اسے امام سجاد (ع) کی امامت کے قائلین میں سے قرار دیتے ہیں۔
منتہی المقال کملہ مختار ص 65
نجات محمد ابن حنفیہ:
عبد اللہ ابن زبیر ناصبی کو جب مختار کے قیام کا علم ہوا تو اس نے " محمد ابن حنفیہ" اور ان کے قریبی افراد کو مجبور کرنے لگا تا کہ اس کی بیعت کریں، بصورت دیگر انہیں زندہ جلائے جانے کی دھمکی بھی دی گئی۔ محمد ابن حنفیہ نے مختار کو ایک خط لکھا اور اس سے مدد کی درخواست کی۔ مختار نے 400 افراد پر مشتمل ایک گروہ کو مکہ روانہ کیا اور محمد ابن حنفیہ کو نجات دلا کر ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔
أخبار الدولۃ العباسیۃ، ص 100
آفرینش و تاریخ/ترجمہ، ج‌ 2 ص 911
مختار کے بارے میں مختلف نظریات:
مختار احادیث کی روشنی میں:
مختار کے بارے میں موجود احادیث دو گروہ میں تقسیم ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک قسم میں مختار کی مدح سرائی کی گئی ہے، تو دوسری قسم میں اس کی مذمت کی گئی ہے۔
احادیث مدح:
امام سجاد (ع) نے خدا سے مختار کے کام کے بدلے میں اسے جزائے خیر کی دعا دی ہے۔
رجال کشی، ص 127
تنقیح المقال، ج 3 ص 204
امام باقر (ع) نے مختار کے بیٹے ابو الحکم سے جب ملاقات کی تو اس کی عزت و احترام کے بعد مختار کی بھی تعریف و تمجید کی اور فرمایا تمہارے والد پر خدا کی رحمت نازل ہو۔
تنقیح المقال ج 3 ص 205
عبد اللہ مامقانی امام (ع) کی مختار پر ترحم کو اس کے عقیدے کی صحت پر دلیل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ائمہ (ع) کی رضایت اور خوشنودی خدا کی رضایت اور خوشنودی کے تابع ہے۔ پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیدے کے لحاظ سے منحرف نہیں تھا۔ اسی وجہ سے وہ ائمہ (ع) کی خوشنودی اور رضایت کے مستحق ٹھرے ہیں۔
تنقیح المقال ج 3 ص 205
امام صادق (ع) نے مختار کے توسط سے عبید اللہ ابن زیاد اور عمر ابن سعد کے سروں کو مدینہ بھیجنے کو موجب خوشنودی اہل بیت عصمت و طہارت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
واقعہ عاشورا کے بعد ہماری عورتوں میں سے کسی عورت نے خود کو زینت نہیں دی تھی، یہاں تک کہ مختار نے عبید اللہ ابن زیاد اور عمر ابن سعد کا سر مدینہ بھیجا۔
رجال کشی، ص 127
احادیث مذمت:
امام باقر (ع) سے روایت ہوئی ہے کہ امام سجاد (ع) نے مختار کے قاصد سے ملاقات نہیں کی اور اسے کے بھیجے ہوئے تحفے تحائف کو واپس بھیج دیا اور اسے کذّاب یعنی جھوٹا خطاب کیا۔ اس روایت کو علماء رجال نے ضعیف قرار دیا ہے۔
امام صادق (ع) سے منقول ہے کہ مختار نے امام سجاد (ع) کی طرف جھوٹ کی نسبت دی ہے۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔
معجم الرجال ج 18 ص 96
رجال کشی، ص 125
معجم الرجال، ج 18 ص 96
جس وقت امام حسن (ع) ساباط نامی جگہ پر تشریف فرما تھے تو مختار نے اپنے چچا سعد ابن مسعود کو امام کو گرفتار کر کے معاویہ کے حوالے کرنے کی تجویز دی تا کہ ہمارا مقام و منصب متزلزل نہ ہو۔
علل الشرائع، ج‌ 1 ص 221
آیت اللہ خوئی نے اس حدیث کو مرسل ہونے کی وجہ سے اسے غیر قابل اعتماد قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو ممکن ہے کہ مختار نے اس بات کو دل سے نہ کہا ہو بلکہ شاید وہ اپنے چچا کی رائے دریافت کرنا چاہتا تھا کہ وہ امام کے ساتھ کتنا سچا اور مخلص ہے۔
معجم الرجال ج 18 ص 97
سید محسن امین بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ مختار اپنے چچا کا امتحان لینا چاہتا تھا۔
اعیان الشیعہ ج 7 ص 230
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ مختار اہل جہنم میں سے ہے، لیکن امام حسین (ع) کی شفاعت کے ذریعے نجات پائے گا۔ یہ حدیث بھی علم رجال کے ماہرین کے نزدیک ضعیف ہے۔
تہذیب الأحکام ، ج‌ 1 ص 466
معجم الرجال، ج 18 ص 97
مختار شیعہ علماء کی نظر میں:
شیعہ علماء میں سے بعض نے اسکی تعریف اور بعض نے اسکی مذمت کی ہے۔
حامی علماء:
ابن نما حلی معتقد ہیں کہ شیعہ ائمہ (ع) نے مختار کی تعریف و تمجید کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ امام سجاد (ع) کا مختار کے حق میں جزائے خیر کی دعا کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ امام (ع) کی نگاہ میں مختار ایک نیک اور پرہیزگار شخص تھا۔
بحار الأنوار، ج‌ 45 ص 346
عبد اللہ مامقانی بھی مختار کو ائمہ معصومین (ع) کی امامت کا قائل انسان جانتا تھا اور اس کے قیام اور حکومت کو امام سجاد (ع) کی حمایت حاصل تھی۔ اگرچہ اس کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔ مامقانی کے مطابق امام باقر (ع) کا مختار کیلئے طلب رحمت کرنا وہ بھی ایک ہی حدیث میں تین بار، مختار کی نیک نیتی اور نیک سیرتی کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔
تنقیح المقال، ج 3 ص 206
علامہ حلی بھی مختار کے حوالے سے مثبت نظریہ رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب کے پہلے حصے میں مختار کا ذکر کیا ہے اور چونکہ علامہ حلی کسی غیر امامیہ کو حتی وہ کتنا مورد وثوق کی کیوں نہ ہو اپنی کتاب میں ذکر نہیں کرتے۔ اس بناء پر یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ علامہ حلی کی نگاہ میں مختار شیعہ اور امامی تھا۔
تنقیح المقال ج 3 ص 206
سید ابن طاووس نے بھی مختار کی مدح میں موجود روایات کو اس کی مذمت میں موجود روایات پر ترجیح دی ہے۔
تنقیح المقال ج 3 ص 206
معاصر علماء اور فقہاء جنہوں نے مختار کی مدح سرائی کی ہے، ان میں آیت اللہ خوئی اور علامہ امینی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ آیت اللہ خوئی مختار کے حوالے سے مدح اور مذمت والی احادیث کو جمع کرنے کے بعد مدح والی روایات کو مذمت والی پر ترجیح دیتے ہیں۔ آپ قیام مختار کو امام سجاد (ع) کی اجازت حاصل ہونے کے قائل ہیں۔
معجم الرجال الحدیث، ج 18 ص 94
معجم الرجال ج 18 ص 100
علامہ امینی نیز مختار کو ایک دیندار اور ہدایت یافتہ اور مخلص اشخاص میں شمار کرتے ہیں۔ آپ معتقد ہیں کہ امام سجاد (ع)، امام باقر (ع) اور امام صادق (ع) نے مختار کیلئے رحمت کی دعا کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ائمہ میں سے امام باقر (ع) نے نہایت خوبصورت انداز میں مختار کی تعریف و تمجید کی ہے۔
الغدیر ج 2 ص 343
توقف کرنے والے علماء:
میرزا محمد استرآبادی معتقد ہیں کہ مختار کی مذمت نہیں کرنی چاہئے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس سے منقول احادیث کو مورد اعتماد قرار نہیں دیتے ہیں اور آخر کار اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے۔
جامع الرواہ، ج 2 ص 221
علامہ مجلسی کو بھی ان افراد میں شامل کر سکتے ہیں جنہوں نے مختار کے بارے میں توقف کیا ہے۔ آپ نے مختار کے ایمان کو غیر کامل قرار دیتے ہوئے اس کے قیام کو امام سجاد (ع) کی اجازت کے بغیر قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کی نظر میں چونکہ مختار نے بہت سے اچھے اقدامات انجام دئیے ہیں، اس لیے وہ عاقبت بخیر ہوا ہے۔ آخر میں علامہ مجلسی مختار کے بارے میں توقف کرنے پر تصریح کرتے ہیں۔
بحار الانوار، ج 45 ص 339
مختار شیعہ معاصر مؤرخین کی نظر میں:
مختار کی شخصیت کے بارے میں شیعہ مؤرخین کے درمیان پر اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔
حامی حضرات:
ان مؤرخین میں عبد الرزاق مقرّم جیسے حضرات مختار پر لگائے جانے والے الزامات اور تہمتوں سے برئ الذمہ قرار دیتے ہیں اور ان سب کو جھوٹ پر مبنی اور دشمنوں کی سازش قرار دیتے ہیں۔
پيامد ہاى عاشورا، ص 135
باقر شریف قرشی بھی قیام مختار کو جہاد مقدّس قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ مختار جس قدرت اور سلطنت کے پیچھے تھا، وہ اس کی جاہ طلبی اور ریاست طلبی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اہل بیت پیغمبر (ع) کے قاتلوں سے ان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے وہ ایسی قدرت اور سلطنت کے در پے تھا۔
پيامد ہاى عاشورا، ص: 133
اس مناسبت سے نجم الدین طبسی جو معاصر مؤرخین میں سے ہیں، مختار کے دفاع کی خاطر مختار پر لگائے گئے، الزامات کو مختار ستیزی کی خاطر بنی امیہ کی سازش قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول امام باقر (ع) نے جس روایت میں مختار کیلئے طلب رحمت کی ہے، وہ حدیث بہت معتبر حدیث ہے اور یہ روایت ایک طرح سے مختار کے قیام اور اس کا امام حسین (ع) کے قاتلوں سے انتقام لینے کی صحت پر واضح دلیل ہے۔
سایٹ استاد شیخ نجم الدین طبسی ،
بعض مؤرخین کے نظریات مختار کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں پہلو پر مشتمل ہیں:
مثلا مہدی پیشوائی مختار کا ائمہ کی امامت پر اعتقاد کو شیعہ سیاسی اعتقاد سے بالاتر قرار دیتے ہوئے، اس کے قیام کو ایک مکمل شیعہ قیام قرار دیتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ مختار نے یہ قیام اپنے اعتقادات کی بنیاد پر کیا ہے لیکن اس کے باوجود آپ معتقد ہیں کہ مختار کی شخصیت جاہ طلبی اور ریاست طلبی سے خالی نہیں تھی اور بعض موارد میں افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں۔
کمال الدین نصرتی، دیدگاہ مورخین معاصر شیعی دربارہ مختار، دانشگاہ ادیان و مذاہب.
یعقوب جعفری نیز اسی نظریئے کو درست قرار دیتے ہیں۔ وہ مختار کو واقعی شیعہ سمجھتے ہیں کہ اس کا اصل ہدف اور مقصد درست تھا لیکن انتقام لینے میں بعض مواقع پر زیادہ روی سے کام لیا ہے۔ جسے وہ مختار کی تندروی کی وجہ سے قرار دیتے ہیں۔
کمال الدین نصرتی، دیدگاہ مورخین معاصر شیعی دربارہ مختار، دانشگاہ ادیان و مذاہب.
محمد ہادی یوسفی غروی بھی مختار کو ایک قدرت طلب اور سیاسی مسلمان قرار دیتے ہیں وہ اس کے اقدامات کو مورد تائید ائمہ قرار نہیں دیتے لیکن اس کے باوجود اسے ائمہ کی امامت پر ایمان اور عقیدہ رکھنے کا معتقد جانتے ہیں اور ائمہ کی طرف سے اس کیلئے دعائے خیر اور رحمت کی درخواست کو اس کی نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔
کمال الدین نصرتی، دیدگاہ مورخین معاصر شیعی دربارہ مختار، دانشگاہ ادیان و مذاہب.
مخالفین:
مخالفین میں سے بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ مختار کی زندگی کا مطالعہ اور تاریخی شواہد کے مطالعے سے یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ مختار ایک قدرت طلب اور ریاست طلب آدمی تھا۔
کمال الدین نصرتی، دیدگاہ مورخین معاصر شیعی دربارہ مختار؛دیدگاہ محسن الویری، دانشگاہ ادیان و مذاہب.
یہ حضرات قیام مختار کو اس کی طرف سے اپنے مقاصد اور سیاسی اہداف تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں مختار نے صرف اہداف میں مشترک ہونے کی وجہ سے حضرت مسلم کی حمایت کی تھی، نہ عقیدے کی بنیاد پر۔ ان کے مطابق مختار ایک عقیدتی شیعہ ہونے کے معیار کا حامل نہیں ہے۔ اس بناء پر اس کا قیام سو فیصد ایک شیعہ قیام اور تحریک نہیں تھی۔
کمال الدین نصرتی، دیدگاہ مورخین معاصر شیعی دربارہ مختار؛ دیدگاہ محمد رضا بارانی، دانشگاہ ادیان و مذاہب.
بعض مؤرخین بھی مختار کو ایک تیز بین ہوشیار اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت قرار دیتے ہوئے اسے امام سجاد (ع) کی بجائے محمد ابن حنفیہ کی امامت کا قائل سمجھا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مختار اہل بیت (ع) کو اپنے سیاسی اہداف تک پہنچنے کیلئے استعمال کرنا چاہتا تھا۔
کمال الدین نصرتی، دیدگاہ مورخین معاصر شیعی دربارہ مختار؛ دیدگاہ نعمت اللہ صفری فروشانی، دانشگاہ ادیان و مذاہب.
مختار اہل سنت علماء کی نظر میں:
ابن اثیر اپنی کتاب اسد الغابۃ میں مختار کی سو فیصد مذمت کرتا ہے اور اس سے منقول روایات کو قبول نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ اس کے خلاف پیغمبر (ص) سے یوں احادیث بھی جعل کی ہیں: پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ:
قبیلہ ثقیف سے ایک جھوٹا اور ظالم شخص آئے گا۔
اس روایت کے راوی اسماء دختر ابو بكر اور عبد اللہ ابن زبیر کی ماں ہے۔ اسماء کے بقول اس روایت میں کذاب سے مراد مختار ہے۔
تاریخی شواہد کی بناء پر مختار کیلئے کذاب کا لقب پہلی بار حجاج ابن یوسف نے استعمال کیا اور وہ لوگوں کو حضرت علی (ع) اور مختار پر لعن کرنے کا حکم دیتا تھا۔
تقی الدین احمد مقریزی مختار کو خوارج میں سے قرار دیتے ہیں۔
أسد الغابۃ،ج‌ 4 ص 347
الأنساب ،ج‌ 3 ص 140
الاستیعاب،ج‌ 3 ص 909
أسد الغابۃ،ج‌ 3 ص 141
تاریخ الإسلام،ج‌ 5 ص 226
الطبقات الکبری، ج‌ 8 ص 200
المعرفۃ و التاریخ،ج‌ 2 ص 618
الطبقات الکبری،ج‌ 6 ص 168
إمتاع الأسماع،ج‌ 14 ص 157
الزامات:
مختار اپنے قیام کی کامیابی کے بعد کوفہ پر حکومت کرتا تھا۔ عین اسی وقت شام میں آل مروان اور حجاز پر آل زبیر کی حکومت تھی۔ ان میں سے ہر ایک اپنے آپ کو خلیفہ سمجھتا تھا اور مختار کو اپنی خلافت کے ایک حصے کو جدا کرنے والا قرار دیتے تھے۔ اسی وجہ سے ان دو گروہ کی حد الامکان کوشش ہوتی تھی کہ جتنا ہو سکے مختار کی شخصیت کشی کی جائے اور اسے ایک جھوٹا شخص قرار دیا جائے۔ دوسری طرف سے بعض سادہ لوح شیعہ علماء نے بھی پوری تاریخ میں بنی امیہ اور آل زبیر کی جھوٹی باتوں اور بے جا تہمتوں پر یقین کرتے ہوئے مختار کی مذمت کیا کرتے تھے۔ ان الزامات اور بہتانوں میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:
ادعائے نبوت:
ابن خلدون مدعی ہے کہ مختار نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔ اس بات کی تقویت مختار کی طرف سے استعمال شدہ بعض ہم قافیہ اور منظم عبارات سے کرتے ہیں، لیکن اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اس کی حکومت کوفہ میں تھی، جس کی مسلمانوں نے حمایت کی تھی اور دوسری طرف سے ائمہ اہل بیت میں سے بعض ائمہ نے ان کی تعریف و تمجید میں احادیث بھی ارشاد فرمائی ہیں۔ اس لیے یہ بات صحیح نہیں ہو سکتی۔ چونکہ احنف زبیریوں کا طرفدار تھا، اس لیے ان عبارات کو بہانہ بنا کر مختار پر دعوئے نبوت کا الزام لگایا، یہاں تک کہ اس کی موت کے بعد بھی ان الزامات سے باز نہیں آتے تھے۔
محمد ابن حنفیہ کا مختار کی موت کے بعد اور وہ بھی عبد اللہ ابن زبیر کے دربار میں مختار کو کذاب قرار دینے سے انکار کرنا، خود اس تہمت اور الزام تراشیوں کی وہابیت کے کارخانوں میں جعل ہونے کی دلیل ہے۔
تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج‌ 1 ص 356
انساب الاشراف، ج 6 ص 403
انساب الاشراف ج 6 ص 418
انساب الاشراف ج 3 ص 287
مؤسس کیسانیہ:
بعض حضرات مختار کو کیسانیہ مذہب کا موسس قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: چونکہ مختار ملقب بہ کیسان تھا، اس لیے اس کے ماننے والوں کو کیسانیہ کہا جاتا تھا۔
آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج‌ 2 ص 820
عبد اللہ مامقانی مختلف دلایل کی روشنی میں اس مطلب کو قبول نہیں کرتے اور مختار کے کیسانی ہونے کو رد کرتے ہیں۔
تنقیح المقال، ج 3 ص 205
آیت اللہ خوئی نیز ان الزامات کو غیر شیعہ علماء کی طرف سے مختار کی شخصیت کشی کی سازش قرار دیتے ہیں اور ان کے خلاف موجود روایات سب جعلی اور مردود ہیں اور مذہب کیسانیہ کی تأسیس کو مختار اور محمد ابن حنفیہ کی موت کے بعد قرار دیتے ہیں۔
معجم الرجال، ج 18 ص 102
علامہ امینی بھی مذہب کیسانیہ کی نسبت مختار کی طرف دینے کو رد کرتے ہیں۔
الغدیر، ج 1 ص 343
زوجات اور اولاد:
زوجات:
پہلی بیوی: ام ثابت جو سمرۃ ابن جندب کی بیٹی تھی اس کے بطن سے مختار کیلئے دو فرزند محمد اور اسحاق متولد ہوئے تھے۔
دوسری بیوی: عمرہ جو نعمان ابن بشیر کی بیٹی تھی، مختار کے بعد مصعب کے ہاتھوں قتل ہوئی۔
تیسری بیوی: ام زید الصغری جو سعید ابن زید ابن عمرو کی بیٹی تھی۔
چوتھی بیوی: أم الولید بنت عمیر ابن رباح یہ ام سلمہ بنت مختار کی ماں تھی۔ مختار کی یہ بیٹی عبد اللہ ابن عمر ابن خطاب کی زوجہ تھی۔
المعارف،متن،ص 402
مروج الذہب، ج 3 ص 99
المحبر،ص 70
الطبقات الکبری،ج‌ 8 ص 346
اولاد:
محمد ابن مختار جسکی ماں امت ثابت تھی۔
اسحاق ابن مختار جسکی ماں بھی امت ثابت تھی۔
ام سلمہ جسکی ماں امت الولید تھی۔
عمر ابن مختار جو شہر رے کے شیعیان میں سے تھا اور وہاں کپڑے کا تاجر تھا۔ جب ابو مسلم خراسانی نے حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو اسے شہر رے کا گورنر بنایا۔
ابو الحکم ابن مختار
جبر ابن المختار
أمیۃ ابن المختار
بلال ابن مختار: شیخ طوسی بلال ابن مختار نامی شخص کا نام لیتے ہیں، جس کے فرزند کا نام بھی مختار تھا۔
المعارف،متن،ص 402
الطبقات الکبری،ج‌ 8 ص 346
أخبار الدولۃ العباسیۃ، ص 262
تاریخ الإسلام،ج‌ 17 ص 102
جمہرۃ أنساب العرب،متن،ص 268
رجال الطوسی، ص 568
رجال الطوسی، ص 437
مختار ثقفی تاریخِ اسلامی کے ان چند حکمرانوں میں سے ایک ہے کہ جس نے بنو امیہ کے خلاف تلوار اٹھائی اور کربلا میں حسین ابن علی کی شہادت کا بدلہ لیا اور سینکڑوں قاتلانِ حسین کو واصل جہنم کیا۔ جس میں شمر بھی شامل تھا۔ جس نے امام حسین کا سر جسم سے جدا کر کے نیزے پر دمشق بھجوایا تھا، اور حرملہ بھی جس نے امام حسین کے چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر کو تیر سے شہید کیا تھا۔
ناسخ التواریخ
وہ محبان اہلِ بیت سے تھا۔ مثلاً جب امیر مختار نے عمر سعد اور ابنِ زیاد کے سر امام زین العابدین علیہ السلام کو بھیجے تو انہوں نے امیر مختار کے حق میں دعائے خیر کی۔ اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام نے بعض نکتہ چینوں کو کہا کہ مختار کو گالی نہ دو کیونکہ اس نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارے خون کا قصاص لیا تھا۔
ابتدائی حالات:
مختار ثقفی کے بچپن میں ایک بار حضرت علی (ع) نے آپ کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو شفقت سے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور انہیں زیرک و دانا کہہ کر پیار فرمایا اور فرمایا یہ میرے بیٹے حسین کے قاتلوں سے انتقام لے گا ۔
تاریخ طبری
واقعات:
آپ عبید اللہ ابنِ زیاد کی قید میں اہلبیت سے محبت کے جرم میں قید رہے جس طرح امام حسین کی شہادت کے وقت بیشتر محبانِ علی کو قید میں بند کر دیا گیا تھا۔ تاریخ میں قیدیوں کی یہ تعداد کئی لاکھ لکھی ہوئی ہے، یعنی کوفے میں اہلبیت سے محبت کرنے والوں کو قید کر کے عبید اللہ ابنِ زیاد نے ایسے دین فروش افراد کے سپرد کوفہ کر دیا کہ جنہوں نے امام حسین کے بھیجے ہوئے اپنے خاص سفیر مسلم ابن عقیل کو یک و تنہا کر دیا اور یوں انہیں حالتِ مظلومیت میں شہید کر دیا گیا۔
مختار باہر کے واقعات سے بے خبر اس بات کی توقع لگائے ہوئے تھے کہ ہمارے امام حسین کی آمد کے ساتھ ہی یہ سختیاں ختم ہو جائیں گی اور امام حسین کو ان کا جائز حقِ خلافت جو معاویہ کی روایتی اُموّی مکاری اور دغا بازی کے سبب امام حسن کی حکومت سے دستبر داری کا سبب بنا، امام حسین کو مل جائے گی۔ مگر جب امیر مختار کو امام حسین کے عالمِ مظلومیت میں شھید ہونے کی خبر ملی پھر آپ کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی اہلیبیت سے محبت نے آپ کو مجبور کیا کہ قاتلوں کے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کر دیں۔ ابنِ زیاد خواہش کے باوجود ممکنہ سیاسی و دیگر وجوہ کی بنا پر انہیں قتل نہ کرا سکا۔ مختار ثقفی عبد اللہ ابن عمر کی بہن کے شوہر تھے اور ان کی اپنی بہن کی شادی عبد اللہ ابن عمر کے ساتھ ہوئی تھی۔ قید سے رہا ہونے اور واقعاتِ کربلا سے آگاہی کے بعد امیر مختار نے قسم کھائی کہ قاتلانِ شہدائے کربلا کا بدلہ لیں گا۔ پہلے مختار ثقفی نے عبد اللہ ابن زبیر کے خروج میں ان کا ساتھ دیا مگر جب عبد اللہ ابن زبیر نے حجاز میں اپنی خلافت قائم کر لی تو ان سے اختلافات پیدا ہو گئے اور وہ مدینہ سے کوفہ چلے گئے۔ وہاں اپنی تحریک کو منظم کیا اور سن 67 ہجری میں خروج کیا۔
تاریخ ابو الفداء
اس وقت ان کے ساتھ ابراہیم ابن مالک اشتر بھی مل گئے جو ایک مشہور اور شجاع جنگجو تھے اور ان کے پاس اپنی کچھ فوج بھی تھی۔ انہوں نے بصرہ اور کوفہ میں جنگ کی اور بے شمار قاتلانِ شہدائے کربلا سے بدلہ لیا۔ جن میں عمر ابن سعد، حرملہ، شمر، ابنِ زیاد، سنان ابن انس وغیرہ شامل تھے۔ ابنِ زیاد کا سر کاٹ کر امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں بھجوایا گیا۔ جسے دیکھ کر انہوں نے اہلِ بیت کو سوگ ختم کرنے کا کہا۔
وفات:
عبد اللہ ابنِ زبیر بہرحال دنیا پرستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان لوگوں کے ساتھ رہے، جو اہلبیت کے دشمن اور اسلامی معاشرے میں عیاشانہ بدعتوں کے قائل تھے۔ چنانچہ مختار ثقفی کی عبد اللہ ابن زبیر ناصبی سے شدید اختلافات کے باعث جنگ ہوئی ۔ ادھر بنو امیہ کا غاصبانہ اقتدار ان کی نواسہِ رسول سے دشمنی اور ان کے خون سے ہاتھ رنگے ہونے کے سبب ان سے چھن گیا اور مختار کی دشمنی میں بنی امیہ نے مختار کے خلاف نت نئی خود ساختہ باتیں مشہور کر دیں۔
تاریخ مسعودی
عبد اللہ ابن زبیر کے بھائی مصعب ابن زبیر کے حکم پر مختار ثقفی کو سن 67 ہجری میں مسجد کوفہ میں شہید کر دیا گیا۔ یہ 15 رمضان سن 67 ہجری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد مختار ثقفی کے خاندان کو قتل کر دیا گیا۔ جس میں ان کی ایک بیوی عمرہ بنت بشیر ابن نعمان انصاری (بشیر عبید اللہ ابن زیاد سے پہلے کوفہ کے گورنر تھے) بھی شامل تھیں۔ جو مدائن میں رہتی تھیں، ان کو مصعب ابن زبیر کے حکم پر قتل کیا گیا۔ مگر کوفہ میں رہنے والی بیوی ناریہ بنت سمرہ ابن جندب کو مصعب ابن زبیر نے معاف کر دیا۔
قیام مختار کا ایک جائزہ:
تاریخ نے ہمیشہ بہت سی کوششوں، مبارزوں، شکستوں اور بڑی بڑی کامیابیوں کا مشاہدہ کیا ہے اور مختلف اسباب ان حوادث کو عالم وجود میں لانے کا سبب بنے ہیں ۔ کبھی کوئی خاص فرد تو کبھی کوئی گروہ اپنے خاص اہداف کے ساتھ تن تنہا وارد میدان ہوئے اور تاریخ کے خاص دور میں انتہائی پر جوش، غمگین یا مسرت آفرین حوادث کے وجود میں آنے کا سبب بنے۔
حضرت مختار بن ابی عبید ثقفی کے قیام کا تجزیہ ایک ایسا مثبت قدم ہے، جو ان کے اور ان کے اس قیام کے چہرے سے مظلومیت اور فراموشی کے گرد و غبار کو دور کر سکتا ہے۔ جس کا منشاء و سر چشمہ قیام عاشورا ہے۔ اس قیام کی رہبری و قیادت پیروان و محبان اہل بیت میں سے ایک حریت پسند شخص کے ذمہ تھی۔ جس کا نام مختار ابن ابی عبید ثقفی تھا۔ انھوں نے اپنے قیام کا آغاز شب جمعرات 14 ربیع الاول سن 66 ہجری کو " یا لَثاراتِ الحسین " کے نعرہ سے کیا۔
در حقیقت یہ قیام ایک عظیم تاریخی انقلاب تھا، جو واقعہ کربلا کے بعد پیش آیا۔ حضرت مختار نے کوفہ کو انقلاب کا نقطۂ آغاز قرار دیا۔ وہ شجاع اور امام کے مرید تھے اور انھوں نے اپنے شعار کو خدا کے نام سے شروع کیا۔ اسی کے نام سے برقرار رکھا اور اپنے انقلاب کا انجام لقاء خدا کو قرار دیا۔ حضرت مختار نے خوں چکاں تاریخ شیعہ میں ایک زرین ورق کا اضافہ کیا۔ آپ نے وہ کارنامہ انجام دیا کہ کربلا کے تمام ملاعین اپنے کیفر کردار تک پہنچے۔
امام محمد باقر (ع) کے صحابی " سدید " کہتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے حضرت مختار کے بارے میں فرمایا:
لا تَسُبّوا المختارَ، فَانہ قَد قَتَلَ قَتَلَتَنا و طَلَب بِثَارِنا، و زَوَّجَ ارٔامِلنَا، و قَسَمَ فینا المالَ عَلَی العُسرَۃِ ،
مختارکو برا بھلا مت کہو کیونکہ انھوں نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہم اہل بیت (ع) کے خون کا انتقام لیا اور ہماری بیٹیوں کا عقد کروایا اور مشکل دور میں ہمارے درمیان مال تقسیم کیا۔
رجال کشی، ص 125
بحار الانوار ،ج 45 ص 343
روایت میں وارد ہوا ہے کہ: امام حسین (ع) کے اہل بیت نے اس وقت تک نیا لباس زیب تن نہیں کیا اور عورتوں نے اس وقت تک آنکھوں میں سرمہ نہیں لگایا جب تک کہ خدا کا انتقام پیش نہ آیا۔ مختار کے لیے اس سے بڑھ کر سعادت نہیں ہو سکتی تھی، جو ان کو نصیب ہوئی اہل بیت کی خوشنودی اور امام محمد باقر (ع) کی دعا ان کے شامل حال ہو اور اہل بیت نے بارہا دعائے خیر سے یاد کیا ہے۔ بعنوان مثال ایک مرتبہ کسی نشست میں امام محمد باقر (ع) نے ابو الحکم ابن المختار سے فرمایا:
فرحم اللہ أباک، آپ نے اس جملہ کو تین بار ارشاد فرمایا پھر فرمایا: ما ترک لنا حقاً عند احد الا طلبہ ،
رجال کشی، ص 125
انتقام، قرآن کریم کی روشنی میں:
قرآن مجید میں دشمنان خدا اور اس کے دین کے دشمنوں کی نابودی سے مربوط بہت سی آیات ہیں اور یہ خدا کے صریح فرمان میں سے ہے:
انا من المجرمین منتقمون ،
ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں ۔
سورہ سجدہ آیت 22
و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ،
اور عنقریب ظلم کرنے والے جان لیں گے کہ کس ٹھکانے پہنچنے والے ہیں۔
سورہ نساء ،آیت 47
سورہ انفال، آیت 42 ، 44
سورہ اسراء آیت 5
ظالموں کو سزا دینا سنت الٰہی اور تقاضائے عدل خداوند ہے۔ ان صریح آیات کے مطابق اہل بیت (ع) کے حق کے غاصب، اسلام کی عظیم ہستیوں کے قاتل، آیات حق کے منکر اور ملحد تبہکار افراد سے انتقام لیا جانا ضروری ہے۔ آیت قرآنی کے مطابق:
لھم خزی فی الدنیا و لھم فی الآخرۃ عذاب عظیم ،
ان کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں عظیم عذاب ہے،
چنانچہ مختار کا عظیم انقلاب متواتر و مستفیض روایتوں کی بنیاد پر مجرموں کی ہلاکت کے سلسلہ میں وعدۂ پروردگار کے تحقق کے علاوہ اور کچھ نہ تھا:
و کان امر اللہ مفعولا ،
اور اللہ کا امر غالب ہو کے ہی رہتا ہے۔
سورہ انعام، آیت 124
اسی اصل کی بناء پر امیر المومنین اور ائمہ علیہم السلام نے قیام مختار اور واقعہ عاشورا کے بعد قاتلین حسین سے آپ کے انتقام لینے کی بشارت دی اور تائید فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ:
و لم یبق من قتلۃ الحسین احد الا عوقب فی الدنیا اما بالقتل او العمی او سواد الوجہ او زوال الملک فی مدۃ یسیرۃ ۔
حسین کے قاتلوں میں سے کوئی اس دنیا میں باقی نہ بچا مگر یہ کہ وہ قتل ہوا یا اندھا ہوا یا اس کا چہرہ سیاہ ہو گیا یا مختصر مدت میں اس کی حکومت نابود ہو گئی۔
حیاۃ الامام الحسین علیہ السلام، قرشی، ص 457
جناب مختار کا اخلاص:
شجاع، سخی، عظیم، خطیب اور عادل ہونے کے ساتھ ساتھ آپ بہت مخلص تھے، آپ کی حکومت کے زمانے میں قاتلین حسین علیہ السلام کی نابودی پر شکر کے لیے اکثر روزہ رکھا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ شکر کے روزے ہیں ۔ امام حسین کے شیر خوار کے قاتل حرملہ کو پھانسی دینے کے بعد آپ گھوڑے سے اترے، دو رکعت نماز بجا لائی اور بہت دیر تک سجدہ میں رہے۔
جناب مختار کی شجاعت:
واقعہ عاشورا اور ابن زیاد کے کوفہ پر مسلط ہونے کے بعد، اہل بیت پیغمبر (ص) کے چاہنے والوں کا قلع قمع ہو گیا۔ ابن زیاد مسجد کے منبر سے امیر المومنین اور ان کی اولاد پر سب و شتم کرنے لگا۔ بعض معترضین کی شہادت کے بعد کسی میں ہمت نہیں تھی کہ ابن زیاد کو روکتا، ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ ناگہاں مسجد کے ایک کونے سے مختار کی خشم آلود آواز ابن زیاد کے دل کو دہلا گئی اور کسی آزاد شدہ شیر کی طرح فرزند سمیہ سے چلا کر کہا: وائے ہو تجھ پر، اے ابن زیاد ! علی اور حسین کی توہین کر رہا ہے، تیرا منہ بہسم ! جانے تو کون ہے ؟ وہی مشہور زنا زادہ اور یہ جو تم نے تہمت لگائی ہے، تیرے لیے اور تیرے امیر یزید کے لیے ہے نہ حسین اور خاندان پیغمبر کے لیے ۔
مختار کی باتوں نے اس حد تک ابن زیاد کو خشم آلود کیا کہ وہیں سے اس نے لکڑی اٹھا کر آپ کی طرف پھینکی، جس سے آپ کا چہرہ زخمی ہو گیا۔
تاریخ طبری، ج 4 ص 356
اور کہا کہ اگر یزید کا خط نہ ہوتا تو یقیناً اسی جگہ تم کو پھانسی پر چڑھا دینے کا حکم دیدیتا۔
ائمہ اطہار (ع) کی نظر میں مختار کی شخصیت:
مقدس اردبیلی مندرجہ ذیل روایت کو امیر المومنین علی (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
سیقتل ولدی الحسین و سیخرج غلام من ثقیف و یقتل من الذین ظلموا۔
بہت جلد میرے بیٹے حسین کو قتل کیا جائے گا لیکن زیادہ دیر نہیں ہو گی کہ قبیلہ ثقیف سے ایک جوان قیام کرے گا اور ان ستمگروں سے بدلہ لے گا۔
حدیقۃ الشیعہ، مقدس اردبیلی، ص 405
قیام مختار کی بشارت امام حسین (ع) کی زبانی:
علامہ مجلسی روز عاشورا کے حالات میں ذکر کرتے ہیں کہ:
امام حسین علیہ السلام نے لشکر کوفہ و شام کے لیے خطبہ ارشاد فرمایا: آپ نے خطبہ کے ذیل میں کوفیوں اور شامیوں کی اس طرح سے ملامت کی:
و یسلط علیھم غلام ثقیف یسقیھم کاساً مصبرۃ و لا یدع فیھم احداً الا قتلہ قتلۃ بقتلۃ و ضربۃ بضربۃ ینتقم لی و لاولیائی و اھل بیتی و اشیاعی منھم۔
بہت جلد ایک ثقفی جوان مرد ان پر مسلط ہو گا تا کہ انہیں موت و ذلت کا تلخ جام چکھائے، ہمارے قاتلوں میں سے کسی کو معاف نہیں کرے گا، ہر قتل کے بدلے میں قتل اور ہر ضربت کے بدلے میں ضربت، میرا، میرے دوستوں کا، میرے اہل بیت کا اور میرے شیعوں کا ان سے انتقام لے گا۔
تنقیح المقال، مامقانی، ج 3 ص 205
عمرو ابن علی ابن الحسین علیہما السلام ( امام سجاد کے بیٹے ) فرماتے ہیں: جب مختار نے ابن زیاد اور عمر سعد کا سر امام کے پاس بھیجا تو آپ سجدہ میں گر گئے اور سجدہ شکر میں خدا کی اس طرح حمد کی:
الحمد للہ الذی ادرک لی ثأری من اعدائی و جزی اللہ المختار خیراً
تمام تعریف ہے اس خدا کی جس نے ہمارے دشمنوں سے ہمارا انتقام لیا خدا مختار کو جزائے خیر عطا کرے۔
رجال کشی ص 127
امام باقر علیہ السلام مختار کے کام کی تجلیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
کیا مختار کے علاوہ کوئی اور تھا جس نے ہمارے برباد گھروں کو پھر سے آباد کیا ؟ کیا وہ ہمارے قاتلوں کا قاتل نہیں ہے ؟ خدا اس پر رحمت کرے، خدا کی قسم میرے بابا نے مجھ کو بتایا ہے کہ جب بھی مختار، فاطمہ علیھا السلام بنت امیر المومنین کے گھر میں داخل ہوتے تھے، آپ ان کا احترام کرتی تھیں۔ آپ کے لیے فرش بچھاتیں اور تکیہ لگاتی تھیں، آپ بیٹھتے تو آپ کی باتیں سنتی تھیں۔
پھر امام باقر علیہ السلام نے مختار کے بیٹے کی طرف رخ کیا اور فرمایا:
رحم اللہ اباک، رحم اللہ اباک، ما ترک لنا حقاً عند احد الا طلبہ قتل قتلتنا و طلب بدمائنا ۔
خدا تمہارے باپ مختار پر رحمت نازل کرے، خدا تمہارے باپ مختار پر رحمت نازل کرے، انھوں نے ہمارا حق واپس لیا، ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارے خون کا انتقام لینے کے لیے قیام کیا۔
اہل بیت علیہم السلام کی خوشی:
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: حادثہ عاشورا کے بعد بنی ہاشم کی کسی بھی عورت نے زینت نہیں کی اور خضاب نہیں لگایا یہاں تک کہ مختار نے ابن زیاد اور عمر سعد کا سر ہمارے لیے مدینہ میں بھجوایا۔
رجال کشی، ص 12
مختار کے بارے میں علامہ امینی کا نظریہ:
مختار، دینداری، ہدایت اور اخلاص میں معروف تھے۔ بے شک آپ کا مقدس انقلاب عدالت کے نفاذ اور بنی امیہ کے ظلم کو ختم کرنے کے لیے تھا۔ مختار کا مذہب کیسانیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ کی ذات پر جو تہمتیں لگائی جاتی ہیں، وہ سب کی سب بے بنیاد ہیں۔ بے وجہ نہیں ہے کہ ائمہ علیہم السلام جیسے امام سجاد، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام نے آپ پر رحمت بھیجی ہے، خاص کر امام باقر علیہ السلام نے بہت خوبصورتی کے ذریعہ آپ کی ستائش کی ہے اور ہمیشہ اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک آپ کی خدمات قابل تحسین و تشکر رہی ہیں۔
الغدیر، ج 2 ص 434
انقلاب مختار کے اسباب:
1- کربلا کے میدان میں بنی امیہ کا ظلم کچھ اتنا شدید تھا کہ تاریخ اسلام میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
2- یزید کا ظلم صرف کربلا میں ختم نہیں ہوتا بلکہ جب اہل مدینہ نے یزید کے خلاف خروج کیا اور اس کے خلاف بغاوت کی تو اس نے مدینہ میں قتل عام کروایا اور اس کے دوسرے سال مکہ کا محاصرہ کرا کے خانہ کعبہ حرم امن الہی کو آگ لگا دی۔
3- بنی امیہ نے مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا:
الف: عرب، جن کے لیے خاص امتیازات تھے۔
ب: موالی، غیر عرب جو حکام کی جانب سے مورد ظلم و تحقیر واقع ہوا کرتے تھے۔
تاریخ سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اس سیاست کی بنیاد عمر نے رکھی تھی، تعلیمات پیغمبر (ص) کی بناء پر یہ سیاست پوری طرح ختم ہو چکی تھی، لیکن افسوس کہ عمر کے زمانے میں زمانہ جاہلیت کی اس رسم کو دوبارہ زندہ کیا گیا اور امام علی علیہ السلام کی حکومت تک یہ سیاست جاری تھی، یہاں تک کہ آپ نے جیسے ہی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو شدت کے ساتھ اس جاہلی رسم کی مخالفت کی اور اسے لغو کر دیا۔ معاویہ جو کہ عمر کی جانب سے شام کا گورنر تھا، اس نے اس سیاست کو جاری رکھا اور جس زمانہ میں وہ خود کو خلیفہ سمجھتا تھا، مختلف خطوں کے ذریعے سے اس نے اس طریقۂ کار کو استحکام بخشا، جیسے کہ مصر میں موجود غیر عرب کے لیے عمرو ابن عاص کے نام اس کا خط یا اس کا دوسرا خط زیاد ابن ابیہ کے نام جس میں وہ عراق میں موجود عجم کے لیے لکھتا ہے کہ:
ایرانیوں پر کڑی نظر رکھو، کبھی بھی انہیں عربوں کے ہم پایہ قرار نہ دو، عرب ان کی عورتوں سے شادی کر سکتے ہیں، لیکن انہیں حق نہیں ہے کہ وہ کسی عرب عورت سے شادی کریں، عرب ان سے ارث لے سکتا ہے، لیکن وہ عرب سے ارث نہیں لے سکتے، جہاں تک ممکن ہو، ان کے حقوق کو کم کر دو، معاشرے میں موجود پست کاموں پر انہیں مامور کرو، عرب کی موجودگی میں غیر عرب امام جماعت نہیں ہو سکتا، غیر عرب نماز جماعت کی پہلی صف میں کھڑے نہیں ہو سکتے ہیں۔ سرحد کی نگہبانی اور قضاوت ان کے سپرد نہ کرو۔
حماسہ حسینی، استاد مطھری، ج 3 ص 76
لوگوں کے مختار کی طرف مائل ہونے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ اپنے مولا و آقا امیر المؤمنین علی (ع) کی طرح اس نسل و نژاد پرستانہ سیاست کے شدید مخالف تھے۔
مرحوم علامہ دہخدا اپنی لغت میں لکھتے ہیں کہ:
ایرانیوں نے قیام توابین، قیام مختار، خروج زید ابن علی اور یحیی ابن زید کو ایک خاص رنگ عطا کیا۔
لغت نامہ ی دھخدا، ص 558 کلمہ ی "ایران" ۔
قیام سے کچھ سال قبل مختار عراق کے سابق حاکم مغیرہ ابن شعبہ کے ساتھ بازار کوفہ سے گزر رہے تھے، تو چونکہ مغیرہ ایک حد تک عوام الناس اور بالخصوص عراق میں موجود ایرانیوں کی اہل بیت علیہم السلام کی بہ نسبت محبت سے واقف تھا، لہذا اس نے مختار سے کہا:
خدا کی قسم میں ایک ایسی ترکیب جانتا ہوں کہ اگر کوئی مدبر انسان استعمال کرے تو لوگ اس کے گرویدہ ہو جائیں گے اور اس پر اپنی جان تک نچھاور کرنے کو تیار ہو جائیں گے بالخصوص وہ ایرانی جو اس سلسلے میں بہت جلد متأثر ہو جاتے ہیں۔ مختار نے مغیرہ سے سوال کیا: چچا جان وہ کیا چیز ہے ؟ مغیرہ نے کہا:
یدعوھم الی نصرۃ آل محمد و الطلب بدمائھم،
ان کو آل محمد اور ان کے خون کے انتقام کی دعوت دینا ہے۔
انساب الاشراف، ج 5 ص 323
اہل بیت علیہم السلام سے ایرانیوں کی محبت کا ایک سبب، ان کا حق طلب اور عدالت پسند ہونا بھی تھا۔
قیام مختار کے لیے کوفیوں کی آمادگی:
حضرت امیر المومنین علی (ع) کی حکومت کے دوران اہل کوفہ آرام و آسائش کا مزہ چکھ چکے تھے۔ جب ابن زبیر کے نمائندے عبد اللہ ابن مطیع نے اہل کوفہ سے کہا کہ میں تم پر عمر و عثمان کی سیرت کے مطابق حکومت کروں گا تو کوفہ کی بزرگ شخصیتوں میں سے ایک نے جواب دیا، ہمیں سیرت علوی کے علاوہ کسی اور سیرت کی ضرورت نہیں ہے۔
عبد اللہ ابن زبیر کی حکومت کی ماہیت و حقیقت واضح ہوتے ہی اہل کوفہ اس کے نمائندے سے دور ہوتے گئے اور یہ انقلاب مختار سے ان کے ملحق ہونے کا سبب بنا۔ دوسری طرف مختار خود کو اہل بیت (ع) کے ایک فرد یعنی محمد حنفیہ ابن علی ابن ابی طالب (ع) کا نمائندہ بھی جانتے تھے، جس کی وجہ سے لوگوں کی توقعات بڑھ گئیں کہ مختار ان کو عدالت و اصلاح پسندی کی سیرت یعنی سیرت اہل بیت کی طرف ہدایت کریں گے، اس کے علاوہ انقلاب مختار کا نعرہ " یا لثارات الحسین " بھی عراقی شیعوں کے ان سے ملحق ہونے کا سبب بنا۔ کوفہ کی سرکردہ شخصیتوں اور انقلاب کے مخالفوں کے لیے سیرت مختار کو تحمل کرنا بہت سخت تھا۔ اس کے علاوہ ان میں سے اکثر کے ہاتھ حسین و اصحاب حسین (ع) کے خون سے رنگین تھے لہذا وہ علنی طور پر مختار کے خلاف پرچم مخالفت لے کر کھڑے ہو گئے اور جنگ کرنے لگے، لیکن مختار نے ان کا سر کچل ڈالا اور امام حسین کے قاتلوں اور کوفہ کی فاسد شخصیتوں کو تہہ تیغ کر ڈالا ان کے سرکردہ افراد کو واصل جہنم کر ڈالا۔
ثورۃ الحسین (ع)، محمد مھدی شمس الدین، ص 273
قیام مختار کے حقیقی اہداف و مقاصد:
قیام مختار کا مہم مقصد شہدائے کربلا کے خون کا انتقام لینا تھا اور ان کی دلی خواہش یہ تھی کہ ان اسباب و عوامل کو ختم کر دیا جائے، جو حادثہ عاشورا کے وجود میں آنے کا سبب بنے۔ پھر دوسرے مرحلے میں اس قیام کا مقصد عدالت و انصاف کا نفاذ، اہل بیت کے پامال شدہ حقوق کا حاصل کرنا، محروموں اور دبے کچلے ہوئے لوگوں کی حمایت اور عدالت علوی اور مکتب تشیع پر مبنی حکومت کی تشکیل تھا۔
جناب مختار کوفہ کے سرکردہ شیعوں سے ملاقات کے دوران اپنے قیام کے مقصد کو یوں بیان کرتے ہیں کہ:
بے شک مہدی ( محمد حنفیہ ) ابن علی وصی و جانشین پیغمبر اسلام (ص) نے مجھے تمہاری طرف امین، وزیر اور کمانڈر کے عنوان سے بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ قاتلان حسین کو کیفر کردار تک پہنچاؤں، ان کے اہل بیت کے خون کا انتقام لوں اور ضعیف انسانوں کی حمایت میں قیام کروں لہذا میری آواز پر لبیک کہنے والے تم پہلے گروہ بنو۔
تاریخ طبری، ج 5 ص 580
ابن اثیر، ج 6 172
ایک دوسری ملاقات میں وہ اہل کوفہ سے یوں ہم کلام ہوئے:
میں شعار اہل بیت کے قیام ان کے مقاصد کے احیاء اور شہداء کے خون کا انتقام لینے کے لیے تمہاری طرف آیا ہوں۔
البدایۃ و النھایۃ، ج 8 ص 249
قیام مختار کے مقاصد کو سب سے واضح طور پر اس کلام کے ذریعے سے سمجھا جا سکتا ہے جو انھوں نے لوگوں سے بیعت لیتے وقت بیان کیا:
تم لوگ کتاب خدا اور سنت رسول کی بنیاد پر اور انتقام خون اہل بیت (ع)، قاتلان حسین سے جنگ، مستضعفین کے دفاع، ہم سے بر سر پیکار افراد سے نبرد آزمائی اور ہم سے صلح رکھنے والوں سے صلح رکھنے کے لیے ہم سے بیعت کرو ۔اس کے جواب میں اگر کوئی ہاں کہہ دیتا تھا، تو وہ ان سے بیعت لے لیتے تھے۔
تاریخ طبری ج 6 ص 32
تاریخ کامل ج 4 ص 226
قیام مختار کے مقدمات:
جب امام حسین نے مسلم ابن عقیل کو اپنا نائب بنا کر کوفہ بھیجا تو آپ جناب مختار کے گھر میں وارد ہوئے۔ مختار ان افراد میں سے تھے کہ جنہوں نے شروع ہی میں مخفی طور پر حضرت مسلم کی بیعت کر لی تھی اور جب حضرت مسلم نے علنی طور پر قیام کیا تو مختار کوفہ میں نہیں تھے بلکہ وہ شر کے باہر " خطرنیہ " کے علاقے میں اپنے کھیت پر گئے ہوئے تھے اور اس دوران حضرت مسلم کا قیام کرنا پہلے سے معین نہیں تھا بلکہ دوسرا وقت معین تھا لیکن حضرت ہانی کی گرفتاری اور دوسرے حادثات سبب بنے کہ وقت معین سے پہلے جناب مسلم قیام کریں۔ مختار کوفہ کے حالات سے باخبر ہوتے ہی بلا فاصلہ کوفہ پہنچے۔
انساب الاشراف، ج 5 ص 214
لیکن جب وہ کوفہ پہنچے تو وہاں کے حالات انتہائی خراب ہو چکے تھے۔ حضرت مسلم شہید کر دیئے گئے تھے اور شہر میں ایک رعب و وحشت کا عالم تھا۔ ابن زیاد فاتح کمانڈر کے عنوان سے حالات کو اپنے قابو میں لے چکا تھا اور یزید کی من پسند حکومت کا اعلان کرنے کے لیے اہل کوفہ کو مسجد میں جمع کر چکا تھا۔
جناب مختار کی آرزو یہ تھی کہ زندہ رہیں اور امام حسین کے رکاب میں شہید ہوں لیکن ابن زیاد نے انہیں راہی زندان کر دیا، اس لیے کہ وہ حکومت کے لیے ایک بڑے خطرے کی شکل میں دیکھے جا رہے تھے۔ اسی لیے ابن زیاد نے اسی مقام پر یہ حکم دیا کہ مختار کو قید کر دیا جائے۔
فلم یزل محبوساً حتیٰ قتل الحسین،
مختار قید ہی میں تھے کہ کربلا کا واقعہ پیش آیا اور امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے۔
انساب الاشراف، ج 5 ص 215
کامل ابن اثیر، ج 4 ص 169
مختار نے حجاز میں موجود اپنے داماد عبد اللہ ابن عمر، شوہر صفیہ کے نام ایک خط تحریر کیا اور ان سے درخواست کی شام میں یزید کو خط لکھیں کہ وہ ابن زیاد کو میری آزادی کا حکم دے۔ جب عمر کے بیٹے کا خط یزید تک پہنچا تو یزید نے فوراً ابن زیاد کو خط لکھا کہ جیسے ہی میرا خط تم تک پہنچے فوراً مختار کو آزاد کردو اور انہیں کوئی گزند نہیں پہنچنا چاہیے۔ اسی خط کی بنیاد پر مختار آزاد ہوئے ۔
شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج 1 ص 210
آزادی کے بعد مختار حجاز کی طرف روانہ ہوئے جو مرکز توحید، مرکز اصحاب اور خاندان پیغمبر تھا۔ امام سجاد اور ان کے اہل بیت مدینہ میں تھے اور ادہر بنی امیہ کا سخت دشمن عبد اللہ ابن زبیر مکہ کا حاکم ہو گیا۔
مکہ میں کچھ دن قیام کے بعد مختار ابن زبیر سے جدا ہو کر طائف کی طرف روانہ ہوئے جو کہ ان کا آبائی وطن تھا اور وہاں ایک سال تک مقیم رہ کر غور و فکر اور منصوبہ بندی میں مشغول رہے۔ یزید سن 64 ہجری میں واصل جہنم ہوا اور مختار اسی سال طائف سے مکہ کی طرف واپس آئے۔
کامل ابن اثیر، ج 4 ص 171
کوفہ کی طرف روانگی سے قبل مختار حضرت محمد حنفیہ کے حضور میں حاضر ہوئے اور اپنے منصوبہ سے انھیں آگاہ کیا: میں چاہتا ہوں کہ آپ کا انتقام آپ کی حمایت کے ساتھ قیام کروں، اس سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ محمد حنفیہ خاموش رہے اور مختار نے ان کے سکوت کو علامت رضایت قرار دیتے ہوئے کہا: ان کا سکوت میرے لیے اجازت کے مساوی ہے، پھر محمد حنفیہ سے خدا حافظی کے بعد عراق کی طرف روانہ ہو گئے۔
انساب الاشراف، ج 5 ص 218
جناب محمد حنفیہ سے امام سجاد (ع) کی گفتگو:
حضرت امام سجاد (ع) نے محمد حنفیہ اور سرکردہ شیعوں کے جواب میں فرمایا:
یا عم لو ان عبداً زنجیاً تعصب لنا اھل البیت لوجب علی الناس موازرتہ و قد ولیتک ھذا الامر فاصنع ما شئت،
اے چچا جان ! اگر کوئی حبشی غلام ہم اہل بیت کی حمایت میں قیام کرے تو لوگوں پر واجب ہے کہ اس کی نصرت کریں اور اس امر میں میں آپ کو اپنا نائب بناتا ہوں لہذا اس سلسلہ میں جو بہتر سمجھیں، انجام دیں۔
تاریخ طبری، ج 6 ص 13
کامل ابن اثیر، ج 4 ص 214
کوفہ میں قیام کے لیے مختار کی تیاری:
شہر کوفہ میں حضرت مختار کے داخل ہوتے ہی ایک بڑی تبدیلی آئی۔ سن 65 ہجری تھا اور لوگ بہت مسرور اور پر امید تھے۔ ابن زیاد اور بنی امیہ کے گورنر کو نکال دیا گیا تھا اور شیعوں نے ابن زبیر کے گورنروں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اب سب کی نگاہیں اس انقلابی شخصیت پر تھیں اور سب اس سے لو لگائے ہوئے تھے۔
حضرت مختار اہل کوفہ کے پرجوش استقبال سے روبرو ہوئے اور وہ ہمیشہ لوگوں کو حضرت محمد حنفیہ کی قیادت اور اہل بیت کی حمایت کی طرف دعوت دیتے تھے اور کہتے تھے:
میں اہل بیت کے شعار کے قیام ان کے مقاصد کے احیاء اور ان کے شہداء کے خون کا انتقام لینے کے لیے تمہاری طرف آیا ہوں۔
شیعوں کا جناب مختار کی بیعت کرنا:
جب شیعوں پر مختار کے قیام کی حقیقت واضح ہو گئی تو جوق در جوق ان کی بیعت میں داخل ہوتے گئے اور اس سلسلہ میں عبد الرحمن ابن شریح اور ابراہیم ابن مالک اشتر کا اہم کردار قابل ذکر ہے۔
ابراہیم ابن مالک اشتر کا نمایاں کردار:
حضرت مختار کے انصار میں، جناب ابراہیم ابن مالک اشتر سے بڑھ کر کوئی چہرہ نمایاں نہیں، ان کا کردار سب سے زیادہ اہمیت اور تاثیر کا حامل ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ اگر ابراہیم نہ ہوتے تو اس قیام کے نتیجے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اس لیے کہ سرکردہ شیعہ افراد کی نگاہوں میں ان کا کافی احترام تھا۔
مختار کو ابراہیم کی صورت میں ایک قوی حامی مل گیا تھا اور وہ ان کی فوج کی سرکردہ شخصیت قرار پائے۔
جناب مختار کے لیے تین اہم رکاوٹیں:
1- شہر کوفہ کو آزاد کرانا اور عراق میں انقلابی حکومت کا وجود میں لانا۔
2- اندرونی دشمنان انقلاب کی سرکوبی کرنا۔
3- شامی فوج سے مقابلے کے لیے کافی مقدار میں فوج کو تیار کرنا۔
مختار کا حکم:
جناب مختار نے رسمی طور پر قیام کا حکم صادر کر دیا اور اپنے انصار میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں سونپیں اور ان میں سعید نام کے ایک شخص کو حکم دیا: جاؤ مشعلوں میں آگ لگا دو اور ان مشعلوں کو مسلمانوں کے قیام کے اعلان کی غرض سے اوپر اٹھا دو۔
قیام مختار کا نعرہ:
یہ نعرہ سب سے پہلے جنگ بدر میں لگایا گیا تھا۔ روایت میں بھی ذکر ہوا ہے کہ:
کان شعار اصحاب رسول اللہ یوم بدر: یا منصور امت،
اے کامیاب ! مار ڈالو ۔
تاریخ طبری، ج 6 ص 20

جناب امیر مختار فرماتے ہیں
خدا کی قسم میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا 
جب تک حسین ابن علیؑ کا یک بھی قاتل زندہ ہے
التماس دعا
طيب شاه

Click here ➡ fb.com/hussainilog
https://www.facebook.com/hussainilog

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات