جنگ بیر العلم : حضرت علی علیہ السلام کا جنات سے جنگ کرنا

جنگ بیر العلم :

حضرت علی علیہ السلام کا جنات سے جنگ کرنا اور بیس ھزار جنوں کو قتل کرنا ، اور چوبیس ھزار جنوں کے قبائل کو مسلمان کرنا -

علامہ سید نجم الحسن کراروی رحمتہ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب چودہ ستارے میں بحوالہ مناقب ابن شہر آشوب جلد 2 صفحہ 90 ، اور کنزالواعظین ملا صالح برغانی میں بحوالہ امام المحققین الحاج محمد تقی القردینی تحریر فرمانے ہیں : کہ امام حسن عسکری (ع) کے توسط سے ابوسعید خدری و حزیفہ یمانی سے مرقوم ھے ۔

کہ جناب رسول خدا (ص) جنگ زات السلاسل سے واپسی میں ایک اُجاڑ وادی سے گزرے ۔ آپ (ص) نے پوچھا : یہ کون سا مقام ھے ۔ عمر بن امیہ ضمری نے کہا ۔ اسے وادی کثیب ارزق کہتے ھیں ۔ اس جگہ ایک کنواں ھے ۔ جس میں وہ جن رھتے ھیں ۔ جن پر جناب سلیمان (ع) کو قابو حاصل نہیں ھو سکا تھا ۔ ادھر سے تبع یمانی گزرا تھا ۔ اسکے دس ہزار سپاھی اُنہی جنوں نے مار ڈالے تھے ، آپ (ص) نے فرمایا : کہ اچھا اگر ایسا ھے ۔ تو پھر یہیں ٹھہر جائو ۔ قافلہ ٹھہرا : آپ (ص) نے فرمایا : کہ دس آدمی جا کر جنوں کے کنویں سے پانی لائیں ۔ جب یہ لوگ کنوئیں کے قریب پہنچے ۔ تو ایک زبر دست عفریت برآمد ھوا اور اُس نے ایک زبردست آواز دی .............

سارا جنگل آک کا بن گیا ۔ دھرتی کانپنے لگی ۔ سب صحابی بھاگ نکلے لیکن ابوالعاص صحابی پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھے اور تھوڑی دیر میں جل کر راکھ ھو گئے ۔ اتنے میں جبِرائیل (ع) نازل ھوئے ۔ اور انہوں نے سرور کائنات (ص) سے کہا ۔ کہ کسی اور کو بھیجنے کے بجائے آپ علم دے کر علی ابن ابی طالب (ع) کو بھیجیں ۔ حضرت علی علیہ السلام روانہ ھوئے ۔ حضرت رسول اکرم (ص) نے دست دعا بلند کیا ۔ جناب علی مرتضیٰ (ع) پہنچے ۔ عفریت برآمد ھوا اور بڑے غصہ میں رجز پڑھنے لگا ۔ آپ (ع) نے فرمایا : میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام ھوں ۔ میرا شیوہ ، میرا عمل سرکشوں کی سرکوبی ھے ۔ یہ سنکر آپ پر اُس نے زبردست کرتبی حملہ کیا ۔ آپ نے وار خالی دیکر اُسے ذوالفقار سے دوتکڑے کر ڈالا ۔ اسکے بعد آگ کے شعلے اور دھوئیں کے طوفان کنوئیں سے برآمد ھوئے ۔ اور زبردست شور مچا اور بیشمار ڈرائونی شکلیں سامنے آ گئیں ۔

حضرت علی (ع) نے برداَ و سلاماَ کہا اور چند آیتیں پڑھیں ۔ آگ بجھنے لگی ، دھواں ھوا ھونے لگا ۔ حضرت علی علیہ السلام کنویں کی جگہ پر چڑھ گئے اور ڈول ڈال دیا ۔ کنویں سے ڈول باہر پھینک دیا گیا ۔ حضرت علی علیہ السلام نے رجز پڑھا اور کہا : کہ مقابلہ کے لیئے آ جائو ۔ یہ سنکر ایک عفریت برآمد ھوا ۔ آپ نے اُسے قتل کیا ۔ پھر کنوئیں میں ڈول ڈالا وہ بھی باہر بھینک دیا گیا ۔ غرضیکہ اسی طرح تین بار ھوا ۔ بالآخر آپ نے اصحاب سے کہا ۔ کہ میں کمر میں رسی باندھ کر کنوئیں میں آترتا ھوں ۔ تم رسی پکڑو ۔ اصحاب نے رسی پکڑی اور حضرت علی مرتضیٰ (ع) کنوئیں میں اترے ۔

تھوڑی دیر کہ بعد رسی کٹ گئی ۔ اور علی (ع) اور صحابہ کرام (رضی اللہ) کے مابین رشتہ منقطع ھو گیا ۔ اصحاب سخت پریشان ھوئے اور گریہ کرنے لگے ۔ اتنے میں کنوئیں سے چیخ و پکار آنے لگی ۔ اسکے بعد یہ صدا آئی ۔ اِعطِینَا اَلَا مَانَ علی علیہ السلام ھمیں پناہ دو ۔ آپ نے فرمایا قطع و برید اور ضرب شدید کلمہ پر موقوف ھے ۔ کلمہ پڑھو ، امان کو غرضیکہ کلمہ پڑھا گیا ۔ اسکے بعد رسی ڈالی گئی اور امیر المومنین علیہ السلام بیس ہزارجنوں کو قتل کرکے چوبیس ہزار قبائل کو مسلمان بنا کر کنوئیں سے برآمد ھوئے ۔ اصحاب نے مسرت کا اظہار کیا اور سب کے سب آنحضرت (ص) کی خدمت میں پیش ھوئے ۔ حضور اکرم (ص) نے علی (ع) کوسینے سے لگایا ۔ اُنکی
پیشانی پر بوسہ دیا اور مبارک باد سے ھمت افزائی فرمائی ۔ پھر ایک رات قیام کے بعد مدینہ کو روانگی ھوئی ۔

شائقین مطالعہ مومنین و مومنات تفصیل واقعہ " جنگ بیر العلم " کیلیئے ملاحظہ کیجیئے ۔

کتاب : الدمعتہ الساکبہ ۔
مولف : آقائے محمد باقر نجفی ۔
ترجمہ : علامہ اثیر جاڑوی مرحوم ۔
ناشر : ولی العصر ٹرسٹ (جھنگ)
اشاعت : 1992 عیسوی ۔
جلد : اول ، صفہہ : 429 ۔
سائیڈ صفہہ : بائیں طرف کی ۔
سطر : 12 ۔

التماس دعا :
سید فاخر حسین رضوی -

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات