تطبیر (خونی ماتم) یعنی عرفِ عام میں زنجیر و قمہ زنی کے سلسلے میں اختلافِ فتاویٰ اور ہماری ذمہ داری

*تطبیر (خونی ماتم) یعنی عرفِ عام میں زنجیر و قمہ زنی کے سلسلے میں اختلافِ فتاویٰ اور ہماری ذمہ داری۔۔۔۔۔*

ایک اور عاشور گزر گیا اور ہر سال کی طرح مومنین تطبیر کے حوالے سے دست و گریباں ہیں۔ ایک گروہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای اور دیگر چند مراجعین کے فتاویٰ کو بنیاد بنا کر تطبیر کرنے والوں، بشمول تطبیر کی اجازت دینے والے بیشتر مراجعین کو جاہل، لادین اور غالی جیسے القابات سے نواز رہا ہے۔ تو دوسری طرف تطبیر کا حامی گروہ مخالفین، بشمول تطبیر کو ناجائز قرار دینے والے مراجعین کو مقصر اور دشمنِ عزا جیسے القابات سے نواز رہا ہے۔ دونوں ہی گروہ اپنی جانب سے دلائل کے انبار لگا رہے ہوتے ہیں اور اپنی جانب سے جھوٹ سچ ملا کر اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ تطبیر جو کہ ایک فقہی و علمی مسئلہ ہے اس پر بحث عام مومنین کررہے ہوتے ہیں جن کو فقہ اور فتاویٰ کی اصطلاحات تک نہیں پتہ ہوتا۔ حرام قرار دینے والا گروہ تطبیر کو اصلاً حرام قرار دے رہا ہوتا ہے اور اس ضمن میں یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ تمام مراجعین و مجتہدین تطبیر کو حرام قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف تطبیر کو جائز قرار دینے والا گروہ یہ کہتا پایا جاتا ہے کہ تمام مراجعین و مجتہدین اس کی اجازت دیتے ہیں سوائے ایران کے حکومتی مراجعین کے اور اس کے بعد ایک خالصتاً فقہی مسئلہ عرب و عجم کی جنگ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک خالصتاً علمی کوشش کررہا ہوں تفرقے کی اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اور دونوں ہی گروہوں کے لئے کچھ علمی و عقلی معروضات پیش کررہا ہوں علمی حقائق کی روشنی میں، اس امید کے ساتھ کہ کاش مومنین اس مسئلے کو سمجھیں اور اس حوالے سے آپس میں دست و گریباں نہ ہوں۔۔۔۔۔

1۔ کیا تطبیر (خونی ماتم) اصلاً حرام ہے؟؟؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تطبیر (خونی ماتم) اصلاً حرام نہیں ہے۔ کوئ ایک بھی مرجع و مجتہد ایسا نہیں ہے جو تطبیر کو اصلاً حرام کہتا ہو۔ جو مراجعین و مجتہدین تطبیر کو ناجائز قرار دیتے ہیں، وہ بھی اسے اصلاً حرام نہیں کہتے اور یہ ایک فقہی و علمی حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ تمام دلائل جو اپنے آپ کو اذیت پہنچانے کو حرام قرار دینے کے پیرائے میں دئے جاتے ہیں، یہ حقیقت ان سب دلائل کا رد ہے کہ کوئ ایک مرجع و مجتہد بھی تطبیر کو اصلاً حرام قرار نہیں دیتا۔ اور یہ میرا تمام سوشل میڈیا کے علماء کو چیلنج ہے کہ وہ کسی ایک مرجع و مجتہد کا بھی فتویٰ پیش کر کے دکھائیں جو تطبیر کو اصلاً حرام قرار دیتے ہوں۔

2۔ تو پھر آیت اللہ سید علی خامنہ ای اور دوسرے مراجعین جو تطبیر کو ناجائز قرار دیتے ہیں وہ کیا ہے؟؟؟

اس سوال کا جواب یہ ہے جو مراجعین و مجتہدین بھی تطبیر کو ناجائز قرار دیتے ہیں وہ اسے "عنوانِ ثانوی" کے طور پر ناجائز قرار دیتے ہیں۔ یعنی ناجائز قرار دینے والے مراجعین و مجتہدین کا یہ کہنا ہے کہ گو کہ تطبیر اصلاً حرام نہیں ہے لیکن موجودہ حالات میں "عنوانِ ثانوی" یعنی کچھ وجوہات کی بنا پر یہ جائز نہیں ہے۔ اب آگے ناجائز قرار دینے والے فقہاء میں بھی دو گروہ ہیں، یعنی ایک وہ جو "تشخیصِ موضوع" بھی کردیتے ہیں اور ایک وہ جو "تشخیصِ موضوع" کا اختیار اپنے مقلدین کو دے دیتے ہیں۔ اس علمی حقیقت کو سمجھنے کے لئے آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا تطبیر کے حوالے سے فتویٰ دیکھتے ہیں:

فتویٰ: "چھریوں کے بغیر زنجیر زنی اگر عام طور پر عزاداری میں غم کے مظہر میں شامل ہو اور بدن پر قابلِ توجہ ضرر کا باعث بھی نہ ہو تو کوئ اشکال نہیں ہے۔ لیکن چھریوں والی زنجیر سے ماتم کرنا اگر مذہب کی توہین اور بدن پر قابلِ توجہ ضرر کا باعث ہو تو پھر جائز نہیں ہے۔
قمہ زنی و زنجیر زنی عام طور پر غم و اندوہ کے مظاہر میں شمار نہیں ہوتی بلکہ آئمہؑ کے دور اور اس کے بعد کے ادوار میں بھی اس کا کوئ وجود نہیں ہے اور اس سلسلے میں آئمہؑ سے کوئ خاص یا عام تائید بھی موجود نہیں ہے اور موجودہ دور میں مذہب کی بدنامی اور توہین کا سبب بنتی ہے، لہذٰا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔"

اس فتوے کے آغاز میں آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے "عنوانِ ثانوی" یعنی وہ وجوہات بیان کردیں کہ اگر توہینِ مذہب یا بدن پر قابلِ توجہ ضرر کا باعث بنے تو تطبیر حرام ہے۔ لیکن ساتھ ہی دوسرے حصے میں "تشخیصِ موضوع" بھی کردیا کہ آج کے دور میں تطبیر توہینِ مذہب کا باعث بنتی ہے لہذٰا کسی صورت بھی جائز نہیں ہے۔ اس فتوے کے بعد اب آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مقلدین پر تو تطبیر کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے کیونکہ انہوں نے "تشخیصِ موضوع" کر کے طے کردیا ہے کہ تطبیر توہینِ مذہب کا باعث ہے۔ دوسری طرف وہ فقہا ہیں جو تطبیر کو "عنوانِ ثانوی" یعنی توہینِ مذہب جیسی وجوہات کی بنا پر ناجائز تو قرار دیتے ہیں لیکن آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرح "تشخیصِ موضوع" نہیں کرتے، بلکہ یہ اختیار اپنے مقلدین کو دے دیتے ہیں کہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تطبیر توہینِ مذہب کا باعث بن رہی ہے تو جائز نہیں ہے، بصورتِ دیگر جائز ہے اور یہ فیصلہ خود مقلدین نے کرنا ہے۔

3۔ کیا تمام ہی مراجعین و مجتہدین تطبیر کو "عنوانِ ثانوی" کے طور پر ناجائز قرار دیتے ہیں؟؟؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے کیونکہ مراجعین و مجتہدین کی ایک کثیر تعداد تطبیر (خونی ماتم) کو نہ صرف جائز بلکہ مستحب یعنی باعثِ ثواب سمجھتی ہے۔ ذیل میں چند ایسے مشہور جامع الشرائط مراجعین و مجتہدین کے نام دیے گئے جو تطبیر کی نہ صرف اجازت دیتے ہیں بلکہ بعض اسے باعثِ ثواب اور مستحب سمجھتے ہیں:

۞ آیت اللہ صادق روحانی (جائز)
۞ آیت اللہ اسحاق فیاض (جائز و مستحب)
۞ آیت اللہ سید علی حسینی میلانی (جائز و مستحب)
۞ آیت اللہ وحید خراسانی (جائز و مستحب)
۞ مرحوم آیت اللہ سید خوئی (جائز و مستحب)
۞ آیت اللہ بشیر حسین نجفی (جائز و مستحب)
۞ مرحوم آیت اللہ جواد تبریزی ( جائز و مستحب)
۞ مرحوم آیت اللہ بروجردی (جائز)
۞ مرحوم آیت اللہ شیخ محمد حسین نائینی، جو آیت اللہ خوئی اور آیت اللہ وحید خراسانی کے استاد تھے (جائز)

4۔ تو کیا جو مراجعین و مجتہدین تطبیر کو جائز و مستحب سمجھتے ہیں انہوں نے اپنے مقلدین کو کھلی اجازت دے دی ہے کہ جتنا چاہو اور جیسے چاہو خون بہاؤ؟؟؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہرگز بھی ایسا نہیں ہے بلکہ وہ مراجعین جو تطبیر کو جائز و مستحب کہتے ہیں وہ اس شرط کے ساتھ کہتے ہیں کہ بدن کو ناقابلِ تلافی نقصان نہیں ہونا چاہئے اور جان جانے کا خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہئے۔

5۔ تو کیا اگر تطبیر کی وجہ سے کسی کی جان چلی جاۓ تو وہ خودکشی کہلاۓ گی؟؟؟

اس حوالے سے تمام مراجعین و مجتہدین حتیٰ کہ خود آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا بھی یہ فتویٰ ہے کہ اگر تطبیر کی وجہ سے کسی کی موت واقع ہوجاۓ تو یہ خود کشی نہیں کہلاۓ گی کیونکہ ایسا کرنے والے نے اپنے آپ کو جان سے مار دینے کی نیت سے خونی ماتم نہیں کیا۔ لیکن اگر پہلے سے معلوم تھا کہ جسمانی حالت ایسی ہے کہ خونی ماتم یا قمہ زنی سے جان چلی جاۓ گی، تب یہ عمل جائز نہیں اور یہ خود کشی کہلاۓ گا کیونکہ انسانی جان کا تحفظ واجب ہے۔

6۔ تطبیر کے حوالے سے آیت اللہ سید علی سیستانی کا کیا فتویٰ ہے؟؟؟

آیت اللہ سید علی سیستانی کے حوالے سے تطبیر کے حامی اور مخالف دونوں گروہ خود ساختہ فتوے سید سے منسوب کرتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آیت اللہ سید علی سیستانی کا شمار ان فقہاء میں ہوتا ہے جو تطبیر کے حوالے سے مصلحتاً توقف کرتے ہیں اور جائز یا ناجائز ہونے کا کوئ فتویٰ نہیں دیتے۔

7۔ کیا آیت اللہ خمینی بھی تطبیر کو ناجائز سمجھتے تھے؟؟؟

اس حوالے سے تطبیر کا مخالف گروہ یہ پروپیگنڈہ کرتا نظر آتا ہے کہ آیت اللہ خمینی بھی تطبیر کو ناجائز سمجھتے تھے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے آیت اللہ خمینی تطبیر کو جائز سمجھتے تھے لیکن مشورہ دیتے تھے کہ موجودہ حالات میں اسے نہ کیا جائے تو بہتر ہے۔

8۔ کیا تطبیر (خونی ماتم) ہی وہ واحد مسئلہ ہے جس میں مراجعین و مجتہدین کے فتاویٰ و آراء میں اختلاف ہے اور کیا اختلافی مسائل میں مقلدین ایک دوسرے کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کر سکتے ہیں؟؟؟

ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ تطبیر کے علاوہ بے شمار ایسے موضوعات ہیں جس میں عموماً مراجعین و مجتہدین کے فتاویٰ و آراء میں اختلاف ہوتا ہے۔ کچھ نا سمجھ لوگوں نے ایک نئی جاہلانہ سوچ کو اپنے ذہن میں بٹھا رکھا ہے وہ یہ کہ جی ہمارے مرجع نے تو اسے ناجائز کہا ہے لہٰذا جو شخص بھی قمہ زنی اور خونی ماتم کرے اسکو روکا جائے اور خونی ماتم کو برا کہا جاۓ۔ ایسا کرنا کسی صورت جائز نہیں کیونکہ آپ جس کی تقلید میں ہیں اس نے قمہ زنی کو ناجائز یا جائز کہا ہے تو آپ کی ذمہ داری فقط اتنی ہے کہ اپنے مرجع کے فتوے پر عمل کریں یا آپ کے نزدیک یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ عمل توہینِ مذہب کا باعث ہے تو یہ بات دوسروں کو بتانا آپکی ذمہ داری نہیں ہے۔ یعنی آپکی تحقیق فقط آپ کے لیے حجت ہے اپنی تحقیق دوسروں پر نافذ کرنا کسی صورت جائز نہیں ہے۔ مثال کہ طور پر گلاس میں ایک مائع ہے اور آپ کی تحقیق کہتی ہے کہ یہ الکحل ہے تو آپ کے لۓ اسے پینا حرام ہے اور اگر کسی دوسرے شخص کو یہ ڈرنکنگ واٹر لگتا ہے تو اس کے لئے پینا جائز ہے۔

9۔ کیا تطبیر (خونی ماتم) مہذب معاشروں خصوصاً مغرب میں شیعہ اسلام کے لۓ توہینِ مذہب کا باعث نہیں ہے کیونکہ یہ وحشی پن کی عکاسی کرتا ہے؟؟؟

یہ سوال جس کسی کے ذہن میں بھی اٹھتا ہے، اس سے میرا جواباً یہ سوال ہے کہ آیا اس نکتے کو بنیاد بنا کر کسی ایسے طریقۂ عزا سے دست بردار ہونا درست ہے کہ جو بیشتر مومنین کے لۓ امامِ مظلوم علیہ السلام سے عقیدت کے اظہار کا مظہر ہو؟؟؟ اگر ایسا کرنا آپ کی نظر میں درست ہے تو مغربی فلاسفر تو عید الاضحیٰ پر لاکھوں جانوروں کے ایک ساتھ قربان کۓ جانے کو بھی وحشی و جاہلانہ روش قرار دیتے ہیں، تو کیا قربانی سے بھی دست بردار ہوجایا جاۓ؟؟؟ اعتراض کرنے والے تو ہاتھ سے ماتم کرنے کو بھی بدعت و حرام سمجھتے ہیں، تو کیا ہاتھ سے ماتم کرنا بھی چھوڑ دیا جاۓ؟؟؟ بات اگر توہینِ مذہب کی ہی ہو تو "نکاحِ متعہ" ایک ایسا اہم نکتہ ہے جس پر شیعت کو سب سے زیادہ بدنام کرنے کی کوشش کری جاتی ہے۔ مغربی لائبریریاں ایسی بیشمار کتب اور مقالوں سے بھری پڑی ہیں جس میں "نکاحِ متعہ" کو ایسے عنوان، "Bodily Pleasures In Shia Islam" دۓ جاتے ہیں، تو کیا اس بنیاد پر ہم "نکاحِ متعہ" کے عین شرعی ہونے سے بھی دست بردار ہو جائیں؟؟؟

10۔ اگر مراجعین و مجتہدین تطبیر کی اجازت دیتے ہیں تو خود اسے کیوں نہیں انجام دیتے؟؟؟

تطبیر (خونی ماتم) امامِ مظلوم علیہ السلام سے عقیدے کے اظہار کا ایک مظہر ہے۔ یہ واجبات میں سے نہیں ہے لہٰذا ہر مرجع و مجتہد کے لۓ ضروری نہیں ہے کہ وہ اگر کسی چیز کو جائز قرار دے تو اسے انجام بھی دے۔ جیسے کہ آیت اللہ خمینی نے شطرنج کھیلنے کو جائز قرار دیا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ خود بھی شطرنج کھیل کر دکھاتے۔ اس دلیل کے باوجود یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ:

۞ آیت اللہ میرزا شیرازی بزرگ کے گھر میں قمہ زنی ہوتی تھی۔ (یہ میرزا شیرازی بزرگ وہی ہیں کہ جہنوں نے انقلابِ ایران سے قبل شاہ ایران کی مخالفت کرتے ہوۓ تمباکو کے خلاف فتویٰ دیا تھا)
۞ آیت اللہ شیخ عبداللہ کے گھر پر قمہ زنی و خونی ماتم ہوتا تھا۔
۞ آیت اللہ میرزا حبیب اللہ رشتی کے گھر پر قمہ زنی و خونی ماتم ہوتا تھا۔
۞ آیت اللہ بزرگ سید محمد بحر العلوم کے گھر پر خونی ماتم ہوتا رہا۔

11۔ جب ولئ فقیہ و رہبرِ معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تطبیر کو ناجائز قرار دے دیا تو دیگر مراجعین و مجتہدین کے فتاویٰ کی کیا حیثیت ہے اور تمام دنیا کے شیعہ آیت اللہ خامنہ ای کے فتوے کی اطاعت کیوں نہیں کرتے؟؟؟

ویسے تو یہ سوال ہی کم علمی کا عکاس ہے لیکن بہرحال یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تطبیر (خونی ماتم) ایک فقہی مسئلہ ہے اور ولئ فقیہ و رہبرِ معظم آیت اللہ سید علی خامنہ کا فتویٰ فقہی مسائل میں فقط ان کے مقلدین پر ساری دنیا میں لاگو ہوگا اور اسلامی حکومتِ ایران میں سب پر لاگو ہوگا، گو کہ یہ بھی ایک اختلافی مسئلہ ہے اور خود ایران کے بیشتر مراجعین جیسے کہ آیت اللہ وحید خراسانی ولئ فقیہ کے اس دائرۂ کار کو نہیں مانتے۔

12۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ خون نا بہایا جائے بلکہ اسے ہسپتالوں میں دے دیا جائے تاکہ کسی انسان کے کام آجاۓ؟؟؟

بیشک کسی مریض کو خون کا عطیہ دینا ایک نیک عمل ہے، لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جناب خونی ماتم کرنے والے تو فقط 10 فیصد مومنین ہوتے ہیں تو باقی کے 90 فیصد مومنین کیوں نہیں جاتے ہسپتال خون کا عطیہ دینے؟؟؟ اور خون کا عطیہ پورا سال میں کسی بھی دن دیا جا سکتا ہے، یہ صرف امامِ مظلوم علیہ السلام کی یاد میں نکالے جانے والے عقیدت کے خون کو دیکھ کر ہی کیوں خون کا عطیہ یاد آتا ہے؟؟؟

ان تمام علمی و عقلی نکتوں کو بیان کرنے کے بعد پہلے میری دست بستہ گزارش ہے تمام خونی ماتم نہ کرنے والے مومنین سے کہ بیشک آپ خونی ماتم نہ کریں کیونکہ یہ واجب نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف خونی ماتم کرنے والا ہی مومن ہے۔ آپ کی آنکھ سے نکلنے والا ایک آنسو یا آپ کے سینے پر پڑنے والا ایک ماتم کا ہاتھ ہی بہت ہے آپ کے لۓ اگر وہ صحیح معرفت کے ساتھ ہے تو۔ بس گذارش صرف اتنی ہے کہ اگر کوئ عقیدت میں امامِ مظلوم علیہ السلام کے لۓ خون نکال رہا ہے تو بیشک اس کی ذاتی برائیوں کی وجہ سے لاکھ اسے برا کہیں لیکن اس خون نکالنے کو ہرگز برا نہ کہیں کیونکہ لاکھوں مومنین ہیں جو یہ خون واقعی عقیدت سے نکالتے ہیں۔

اور آخر میں میری تمام خونی ماتم کرنے والے ماتمیوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ:

۞ ایسا لباس جس پر خون ہو نماز پڑھنے سے پہلے اسے پاک کرنا ضروری ہے۔ یہ کہنا جائز نہیں کہ ہم عزاداری میں مصروف ہیں اس لیے نماز نہیں پڑھ سکتے۔ کیونکہ امام حسین علیہ السلام کو بے نمازی عزاداروں کی کوئی ضرورت نہیں۔
۞ آپ اگر عقیدت میں امامِ مظلوم کے لۓ خون نکالتے ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہرگز نہیں ہے کہ آپ خونی ماتم نہ کرنے والے سے بہتر مومن ہیں، لہٰذا آپ کی کسی بات یا کسی حرکت سے کسی مومن کی ہرگز کوئ دل آزاری نہ ہو۔
۞ امامِ مظلوم علیہ السلام سے عقیدت کے اظہار میں خون نکالنا صرف اس وقت ہی عقیدت گردانی جاۓ گی جب آپ حسین علیہ السلام کی دیگر تعلیمات پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں گے اور مقصدِ کربلا کو سمجھ کر اپنے وقت کے امام کی نصرت کو تیار ہوں گے۔ یاد رکھیں جب امامِ زمانہ آئیں گے تو یہی خون جو آج عقیدت میں ماتم کرکے نکال رہے ہیں، یہی خون امامِ زمانہ کے لۓ میدانِ عمل میں نکالنا ہوگا۔
۞ عقیدت کے اظہار کو صرف علامتی طور پر خون نکالنے تک محدود رکھیں۔ یقین رکھیں نت نۓ ڈیزائن کی چھریوں سے سر اور کمر پر دسیوں ٹانکے لگوانے کی ریس میں شامل ہونا عقیدت نہیں صرف ریاکاری ہے۔

والسلام

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات