امام حسن علیہ السلام کی وصیت

امام حسن علیہ السلام کی وصیتوں میں سے ایک یہ تھی کہ: مجھے اپنے جد امجد رسول اللہ (ص) کے پہلو میں دفن کریں... مگر اگر وہ "خاتون » مانع ہو تو میں آپ کو اپنی قرابت کے حق کی قسم دیتا ہوں کہ جھگڑے اور تنازعے کو روک لیں اور ایک قطرہ خون بھی اس سلسلے میں زمین پر نہ گرنے پائے؛ اس صورت میں میرا بدن بقیع میں دفن کریں حتی کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ السلام سے ملاقات کرلوں اور آپ (ص) سے فیصلہ کراؤں اور آپ (ص) کے بعد ان لوگوں کی وجہ سے جو مصائب میں نے سہہ لئے ان کی شکایت آپ (ص) سے کروں».
جب امام حسن علیہ السلام نے عالم بقاء کی جانب رحلت فرمائی، امام حسین علیہ السلام نے بنوہاشم کے کچھ افراد کے ہمراہ جسم مبارک کو غسل دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضہ مبارکہ کی طرف روانہ ہوئے تا کہ فرزند رسول (ص) کو رسول (ص) کے پہلو میں دفن کیا جائے.
«حَکَم» کا بیٹا «مروان» - جو رسول اللہ (ص) کے حکم پر اپنے باپ کے ہمراہ مدینہ سے جلا وطن تھا اور آپ (ص) کے انتقال کے بعد مدینہ میں آبسا تھا؛ جان گیا کہ امام حسن علیہ السلام کو روضہ رسول (ص) میں دفنایا جارہا ہے... یہ وہی شخص تھا جس نے جنگ جمل میں اپنے ہی لشکر کے ایک اہم سپہ سالار طلحہ کو یہ کہہ کر قتل کردیا کہ« عثمان کے قتل میں تم ہی تو ملوث ہو اور یہ تمہاری سزا ہے اور اپنے لشکر کی امیرہ ام المؤمنین عائشہ کو بھی بعد میں اسی شخص نے کنوئیں میں گرا کر قتل کیا تھا ... مروان کو معلوم ہوا تو اپنے خچر پر سوار ہوا اور زوجہ رسول (ع) عائشہ بنت ابی بکر کے پاس پھنچا اور کہا: «حسین ... فرزند رسول (ص) ... اپنے بھائی کو اپنی نانا رسول اللہ (ص) کے پہلو میں دفنانا چاہتے ہیں ... اٹھو اور انہیں اس کام سے روک لو». کہنے لگیں: میں کیسے روکوں ؟ مروان خچر سے اترا اور عائشہ کو سوار کیا اور قبر رسول (ص) کے پاس پھنچ ایا. آل ابی سفیان کے کئی افراد بھی وہاں اکٹھے ہوگئے تھے اور نعرے لگا رہے تھے: عثمان مظلوم بقیع کے بدترین نقطے میں دفن ہوگا اور حسن رسول خدا (ص) کے پہلو میں؟ ایسا ہرگز نہ ہوگا مگر یہ کہ نیزے اور تلواریں ٹوٹ جائیں اور ترکش تیروں سے خالی ہوجائیں». امام حسین علیہ السلام بھی ان کا جواب دیتے رہے.
«عبداللہ ابن عباس» کہتے ہیں: ہم ان ہی سخن و جواب سخن میں تھے کہ ایک آواز سنائی دی اور ہم نے دیکھا کہ عائشہ خچر پر سوار آرہی ہیں اور ان کے ہمراہ کثیر تعداد میں لوگ بھی آرہے ہیں اور عائشہ ان لوگوں کو جنگ کی ترغیب دلارہی ہیں. جب ان کی نظر مجھ پر پڑی تو کہنے لگیں: ای ابن عباس! تم (بنو ہاشم) نے میری خلاف اپنی جرأت تمام کردی ہے اور ہر روز مجھے آزار دے رہے ہو اور تم ایسے فرد کو میرے گھر میں داخل کرنا چاہتے ہو جسے میں دوست نہیں رکھتے...!([2])
میں نے کہا: واسواء تاہ۔۔ ایک روز جمل (اونٹ) پر سوار ہوجاتی ہو اور ایک روز خچر پر؟! کیا خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہو اور خدا کے اولیاء کے خلاف لڑنا چاہتی ہو اور رسول اللہ (ص) اور آپ(ص) کے حبیب کے درمیان حائل ہونا چاہتی ہو؟ اسی وقت وہ خاتون قبر رسول (ص) کے پاس پھنچیں اور اپنے آپ کو خچر سے زمین پر گرایا اور چِلّا کر بولیں: «خدا کی قسم! خدا کی قسم کہ جب تک میرے سر میں ایک بال بھی باقی ہو میں حسن کو یہاں دفن نہیں ہونے دوں گی!.
روایت میں ہے کہ اسی وقت تیراندازی شروع ہوئی اور جنازے کو تیروں کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں جسم مبارک سے 70 تیر نکالے گئے...بنو ہاشم نے یہ دیکھا تو غضبناک ہوئے اور تلواریں بے نیام کرکے لڑنے کے لئے بے قرار ہوئے مگر سیدالشہداء علیہ السلام نے فرمایا: «میں تمہیں خدا کی قسم دیتاہوں کہ میرے بھائی کی وصیت کو ضائع نہ کرو اور ایسا کوئی اقدام نہ کرو جو خونریزی کا باعث بنے». اس کے بعد امام علیہ السلام نے دشمنوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: «اگر میرے بھائی کی وصیت نہ ہوتی تم خود ہی دیکھ لیتے کہ میں تمہاری ناکیں کس طرح زمین ر رگڑتا ہوں اور اپنے بھائی کو کس طرح اپنے نانا کے پہلو میں دفن کرتا ہوں». اس کے بعد جنازہ اطہر کو اٹھایا گیا اور امام حسن علیہ السلام کو بقیع میں دفنایا گیا.
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے: «رسول اللہ صلیاللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جب وہ میری بیٹے حسن کو زہر دے کر شہید کریں گے، سات آسمانوں کے فرشتے ان پر گریہ و بکاء کریں گے... اور جو بھی ان کے لئے گریہ و بکاء کرے گا، جس روز آنکھیں اندھی ہوں گی، اس کی آنکھیں نابینا نہ ہوں گی... اور جو بھی ان کی مصیبت میں غمگین و محزون ہوگا، جس روز دل مغموم ہونگے، وہ محزون نہ ہوگا... اور جو بھی بقیع میں ان کی زیارت کرے گا، اس روز جب قدم کانپ رہے ہوں گے اس کے قدم صراط کے اوپر ثابت اور استوار ہونگے».
علی لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون

اصلی ماخذ:
1. شيخ عباس قمي ؛ منتہی الآمال؛ تلخیص آیۃاللہ رضا استادی ؛ ق

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات