پولیس مقابلہ
یہ 1992 یا 93 کی بات ہے
میرے خیال ہے شہباز شریف کا ہی دور تھا۔ یا نواز شریف کا۔
آپ نے سنا ہو گا اس وقت کھلے میدانوں میں پولیس مقابلے ہوتے تھے۔
مجھے نہیں معلوم شاید اب بھی ہوتے ہو ں۔
پولیس اپنی کاروائی دکھانے اور پوری کرنے کے لیے کہ انہوں نے اتنے مجرموں کو پکڑ لیا یا اتنے ڈکیتی کرنے والے ڈاکو کو پکڑ لیا یا اتنی تعداد میں چوروں کو پکڑ لیا۔
چند ایک لوگوں کو پکڑتے تھے
اس پر الزام لگاتے تھے
اور پھر اس کو پولیس مقابلے میں مار دیتے تھے۔
اور جتنے بھی کیسز ان کے پاس ایف آئی آر کی صورت میں ہوتے تھے ان کو بند کر دیتے تھے کہ اس کا ملزم یا مجرم پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔
یعنی علاقے میں ہونے والے سارے جرائم کا الزام ایک ہی پر ڈال کے کیس کو بند کر دیتے تھے۔
عبداللہ بن سبا آہ بھی ایک ایسا ہی ہی فرضی کردار ہے ہے کہ جس پر امت پر پر کیے جانے والے سارے برے کاموں کا کا الزام ہے۔ جبکہ وہ خود خود اپنا وجود بھی نہیں رکھتا۔
مروان بن حکم کی برائی بھی اسی میں ہے
معاویہ اور یزید نے جو کچھ کیا وہ بھی اس کا ذمہ دار بھی یہی عبداللہ بن سبا ہے
Comments
Post a Comment