توسل
دعا میں سرکار محمدؐ و آلؑ محمدؐ علیہم السلام سے توسل حاصل کرنا مستحب ہے
1 ۔ حضرت شیخ کلینیؒ باسناد خود داؤدرقیؒ سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں اکثر وبیشتر حضرت امام جعفرصادقؑ کو دعا کرتے ہوئے سنتا تھا کہ وہ دعا میں الحاح و اقرار کرتے تھے اور خمسئہ ( نجباء ) کے حق کا واسطہ دیتے تھے یعنی حضرت رسولؐ خدا ، علی مرتضیٰؑ ، فاطمہ زھراؑ اور حسنؑ و حسینؑ ( سیدالشہداءؑ ) کا ۔ ( الکافی )
2 ۔ حضرت شیخ صدوقؒ باسناد خود جابر ( جعفی ) سے اور وہ حضرت امام محمد باقرؑ سے روایت کرتے ہیں فرمایا: ایک شخص ستر خریف تک آتش جہنم میں جلتا رہا جبکہ ایک خریف سترسال کا ہوتا ہے ۔ اس کے بعد سرکارمحمد و آل محمد علیہم السلام کا واسطہ دے کر سوال کیا کہ وہ اس پر رحم کرے! چنانچہ خدا نے جبرئیلؑ کو وحی کی کہ میرے بندہ کے پاس جا اور جا کر اسے باہر نکال ، پھر خدا نے اس شخص سے فرمایا: میرا بندہ! تو کتنے عرصہ جہنم میں مجھے پکاررہا تھا؟ عرض کیا: یااللہ میں شمارہی نہیں کرسکتا! ارشاد ہؤا مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم! اگر ان ( ذوات مقدسہ ) کے توسل سے سوال نہ کرتا تو ابھی میں تجھے جہنم میں اور ذلیل کرتا! لیکن میں نے اپنے اوپر یہ بات لازم قرار دی ہوئی ہے کہ جو بندہ محمد و آل محمد علیہم السلام کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کرے گا تو میں اس کے گناہ معاف کردوں گا اس لئے آج تیرے گناہ معاف کرتا ہوں ۔ ( ثواب الاعمال ، لآمالی ، الخصال ، معانی الاخبار )
3 ۔ عبداللہ بن عباسؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت رسولؐ خدا سے ان کلمات کے بارے میں سوال کیا جو حضرت آدمؑ نے خدا وندعالم سے حاصل کئے تھے ( اور ان کے طفیل خدا نے ان کی توبہ قبول کی تھی ) فرمایا: انہوں نے حضرات محمدؐ علیؑ و فاطمہؑ ، حسنؑ و حسینؑ کے حق کا واسطہ دے کر دعا کی تھی اور خدا نے ان کی توبہ قبول فرمائی تھی ۔ ( الخصال ، معانی الاخبار، الآمالی )
4 ۔ مفضل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفرصادقؑ سے ان کلمات کے متعلق سوال کیا جن کا تذکرہ خداوندعالم نے اس آیت میں کیا ہے " واذا بتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمٰت " ؟ فرمایا یہ وہی کلمات تھے جو حضرت آدمؑ نے خدا سے حاصل کئے تھے اور خدا نے ( ان کی برکت سے ) ان کی توبہ قبول فرمائی تھی اور وہ کلمات یہ تھے " اللھم انی اسئلک بحق محمد و علی و فاطمۃ والحسن وال حسین الا تبت علی " ( الخصال ، معانی الاخبار ، مجمع البیان )
5 ۔ معمر بن راشد حضرت امام جعفرصادقؑ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا کہ حضرت رسولؐ خدا نے ( اس یہودی کے جواب میں جس نے آپؐ سے سوال کیا تھا کہ آپؐ افضل ہیں یا موسیٰ بن عمرانؑ ؟ ) فرمایا : اگرچہ یہ اچھی بات نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنی زبان سے اپنی تعریف کرے مگر میں ( اظہار حقیقت کےلئے ) کہتا ہوں کہ جب حضرت آدمؑ سے خطا سرزد ہوئی ( ترک اولیٰ ) تو ان کی توبہ کے الفاظ یہ تھے " اللھم انی اسئلک بحق محمد و آل محمد لما غفرت لی " پس خدا نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور جب حضرت نوحؑ کشتی میں سوار ہوئے اور ( بمقام کربلا ) غرق ہونے کا اندیشہ دامن گیر ہؤا تو یوں دعا کی : اللھم انی اسئلک بحق محمد و آل محمد لما انجیتنی من الغرق " خدا نے ان کی کشتی پار لگائی اور ( غرق ہونے سے ) نجات عطا فرمائی اور جناب ابرہیمؑ کو جب نارنمرود میں ڈالا گیا تو ان کی دعا کے الفاظ یہ تھے " اللھم انی اسئلک بحق محدم و آل محمد لما انجیتنی منھا " تو خدا نے آگ کو ان پر برد وسلام بنا دیا اور اسی طرح جب جناب موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا ( اور وہ اژدھا بن گیا ) اور جناب موسیٰؑ کو خوف دامنگیر ہؤا تو یوں دعا کی " اللھم انی اسئلک بحق محمد و آل محمد لما انجیتنی امنتنی " تو خدا نے فرمایا " لا تخف انک انت الاعلیٰ " ( اے موسیٰ ! خوف نہ کر تو ہی اعلی اور بلند و بالا ہے ) ( آمالی صدوقؒ )
6 ۔ سعید بن جبیر جناب ابن عباسؒ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے حضرت یوسفؑ کا قصہ بیان کرتے ہوئے آخر میں بیان کیا کہ جناب جبرائیلؑ حضرت یعقوبؑ کی خدمت میں حاضر پوئے اور کہا: کیا میں تمہیں ایک ایسی دعا کی تعلیم نہ دوں کہ جس کی برکت سے خدا آپؑ کی بصارت بھی لوٹا دے اور دونوں بیٹے بھی ملا دے ؟ کہا: ہاں! جبرئیلؑ نے کہا: وہی کلمات کہو جو تمہارے باپ آدمؑ نے کہے تھے تو ان کی توبہ قبول ہوئی تھی ، جو نوحؑ نے کہے تھے تو ان کی کشتی کوہ جودی پر کنارے لگی تھی ، آپؑ کے باپ ابراہیمؑ خلیل اللہ نے کہے تھے تو آتش نمرودی ان پر برد وسلام ہوگئی تھی ۔ جناب یعقوبؑ نے پوچھا: اے جبرئیلؑ! وہ کلمات کیا تھے ؟ کہا: کہو اللھم انی اسئلک بحق محمدؐ و علیؑ و فاطمۃؑ والحسنؑ والحسینؑ علیہم السلام ان تاتینی بیوسف و بنیامین جمیعا و ترد علی عینی " پس جب جناب یعقوبؑ نے یہ دعا پڑھنا شروع کی تو ہنوزدعا مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ بشیر نے آکر جناب یوسفؑ کی قمیص ان کی آنکھوں پر ڈالی جس سے ان کی بینائی لوٹ آئی ۔ ( آمالی صدوقؒ )
7 ۔ جناب شیخ احمد بن محمد حلیؒ جناب سلمان فارسیؒ ( محمدیؐ ) سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت رسولؐ خدا کو فرماتے ہوئے سنا کہ فرما رہے تھے کہ خداوندعالم فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! کیا ایسا نہیں ہوتا کہ کچھ لوگوں کے تم سے بڑے بڑے کام وابستہ ہوتے ہیں اور جب تک تمہارے سب سے زیادہ پیارے کسی عزیز دوست کو اپنا سفارشی نہیں بناتا ، اس وقت تک تم ان کے کام نہیں کرتے ؟ اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو تم سفارشی شخص کی عزت کی خاطر ان کام کو کردیتے ہو! تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میری تمام مخلوق میں سے جو ہستیاں اس طرح میرے نزدیک سب سے زیادہ گرامی قدر اور افضل و اعلیٰ ہیں وہ حضرت محمدؐ ہیں ، ان کے بھائی علیؑ ہیں اور ان کے بعد والے ( گیارہ ) امامؑ ہیں جو میری بارگاہ میں وسیلے ہیں ۔ پس جسے کوئی اہم حاجت درپیش ہو جسے وہ پورا کرنا چاہتا ہو ، یا جسے کسی عظیم مصیبت کا سامنا ہو اور وہ اس سے چھٹکارا چاہتا ہو تو وہ حضرت محمدؐ اور ان کی طیب و طاہر آل علیہم السلام کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کرے تو میں اس سے بھی احسن طریقہ پر اس کی حاجت برآری کروں گا جس طرح تم اپنے سب سے زیادہ عزیز کی سفارش پر لوگوں کے کام کرتے ہو ۔ ( عدۃ الداعی ، تفسیر منسوب بامام حسن عسکریؑ )
8 ۔ سماعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام موسیٰ کاظمؑ نے مجھ سے فرمایا: اے سماعہ! جب تمہیں خدا سے کوئی حاجت برآری کرانا ہوتو یوں کہو " اللھم انی اسئلک بحق محمد و علی فان لھما عندک شانا من الشان و قدرا من القدر فبحق ذلک الشان و بحق ذلک القدر ان تصلی علی محمد و آل محمد وان تفعل بی کذا و کذا ( یہاں اپنی حاجت کا بیان کرو ) ایضا"
9 ۔ جناب احمد بن علی بن ابی طالب الطبرسیؒ باسناد خود حضرت امام حسن عسکریؑ سے اور وہ اپنے آباء طاہرین علیہم السلام کے سلسلہ سند سے حضرت رسولؐ خدا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا کہ خداوندعالم نے حضرت آدمؑ سے فرمایا: اے آدمؑ! تو نے درخت کا پھل کھا کے عصیان کیا ہے ( ترک اولیٰ کیا ہے ) ۔ لہٰذا حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام کےلئے تواضع کرکے میری عظمت کا اظہار کرو۔ اس طرح تم بالکل فوز و فلاح پا جاؤ گے اور تم سے اس لغزش کا داغ دور ہوجائے گا ۔ پس تم حضرت محمدؐ اور ان کی طیب وطاہر آل علیہم السلام کا واسطہ دے کرمجھ سے دعا کرو چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا پس وہ کامل فلاح پاگئے ۔ ( الاحتجاج )
10 ۔ جناب شیخ حسن بن حضرت شیخ طوسیؒ باسناد خود ابو حمزہ ثمالی سے اور وہ حضرت امام محمد باقرؑ سے روایت کرتے ہیں فرمایا: جو شخص ہماراواسطہ دے کر خدا سے دعا کرے گا وہ فوز و فلاح پاجائے گا اور جو ہمارے غیر کا واسطہ دے کر دعا کرے گا وہ بالکل ہلاک و برباد ہوجائے گا ۔ ( آمالی فرزند شیخ طوسیؒ )
11 ۔ جناب شیخ سعید بن ھبۃ اللہ راوندی نے اپنی کتاب قصص الانبیاء میں وہی مضمون نقل کی ہے جو اس سلسلہ کی حدیث نمبر5 میں مذکور ہے ۔ ہاں اس میں صرف اس قدر اضافہ ہے کہ جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰؑ کو قتل کرنا چاہا تو انہوں نے ہمارے حق کا واسطہ دے کر خدا سے دعا کی تو خدا نے نہ صرف یہ کہ ان کو قتل ہونے سے بچا لیا بلکہ ان کو ( آسمان پر ) اٹھا لیا ۔ ( قصص الانبیاء راوندی )
( مسائل الشریعہ ترجمہ وسائل الشیعہ جلد 4 )
12 ۔ حضرت شیخ صدوقؒ باسناد خود عبداللہ بن مسکان سے اوروہ حضرت امام جعفرصادقؑ سے روایت کرتے ہیں فرمایا۔ خداوندعالم اہل عرفات سے پہلے زائرین قبرحسینؑ پرمتجلی ہوتا ہے اوران کی حاجت برلاتا ہے، ان کے گناہ معاف کرتا ہے اوران کی سفارش قبول کرتا ہے اس کے بعد اہل عرفات پرمتجلی ہوتا ہے اوران کے ساتھ یہی سلوک کرتا ہے۔ ( ثواب الاعمال، کذا فی کامل الزیارات، المصباح الشیخ)
13 ۔ حارث بن مغیرہ حضرت امام جعفرصادقؑ سے روایت کرتے ہیں فرمایا: خداوندعالم کے کچھ فرشتے حضرت امام حسینؑ کی قبر کے پاس مؤکل ہیں پس جب کوئی شخص آپؑ کی زیارت کا قصد کرے توحضرت رسولؐ خدا ندا دیتے ہیں کہ اے خدا کے مہمانو! تمہیں خوشخبری ہوکہ تم جنت میں میرے رفیق ہوگے اورحضرت علیؑ ندا دیتے ہیں کہ میں ( بارگاہ خداوندعالم سے ) تمہاری حاجات برآری اوردنیا و آخرت میں تم سے بلاؤں اور مصیبتوں کے رفع کرانے کا ضامن ہوں۔ پھر نبیؐ اورعلیؑ انہیں دائیں بائیں جانب سے اپنی دعاؤں کے گھیرے میں لے لیتے ہیں یہاں تک کہ وہ لوٹ کرواپس اپنے اہل وعیال کے پاس جاتے ہیں۔ ( التہذیب، ثواب الاعمال)
( مسائل الشریعہ ترجمہ وسائل الشیعہ جلد 10 فقیہ اہلبیتؑ الشیخ محمد حسین النجفی صاحب )
Comments
Post a Comment