علم لدنی
♻علم لدنی معصومین
سوال۔۔
*علم لدنی سے کیا مراد ہے؟*
*جواب*
آئمہ ع کی دوسری خصوصیت *علم لدنی* ہے کہ جس علم کی وجہ سے آئمہ ع تمام لوگوں پر فضیلت رکھتے ہیں۔
*تعریف علم لدنی*
ایسا علم جو مستقیم (بغیر واسطہ) اور مقدمات (یعنی تجربے یا تفکر بغیر) کے بغیر خدا کی طرف سے انکو عطاء ہوتا ہے۔۔
اور آئمہ ع کے علم کو *علم غیب* بھی کہا جاتا ہے کیونکہ لوگوں کی نسبت یہ علم غیب ہے لوگ اس علم سے واقف نہیں ہوتے۔۔
اب سوال ۔۔۔❗❗❗
آئمہ ع یہ علم کہاں سے لیتے ہیں؟
*جواب*
قرآن مجید اور روایات آئمہ ع اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ علم آئمہ ع ایک خاص راستے سے لیتے ہیں۔ ہم ان منابع کو ذکر کرتے ہیں جہاں سے معصومین ع اس علم لدنی کو لیتے ہیں۔۔
1⃣قرآن۔
ایک مھم ترین منبہ یا ماخذ جس سے معصومین ع علم لدنی کو حاصل کرتے ہیں وہ قرآن یے اور امام معصوم ع مکمل قرآم سے واقف ہوتے ہیں محکم متشابہ خاص عام مطلق مقید ناسخ منسوخ ان تمام سے آگاہ ہوتے جس کے ذریعے وہ علم تک رسائی حاصلس کرتے اور قرآن کے چھپے ہوے رموز سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔
2⃣ارتباط با فرشتگان۔
آئمہ جس راستے سے علم لدنی کو لیتے ہیں ان سے ایک راستہ *فرشتوں کیساتھ رابطے کا برقرار ہونا* ہے یعنی آئمہ ع کا فرشتوں کیساتھ رابطہ ہوتا ہے جس کے ذریعے آئمہ ع علم لدنی کو حاصل کرتے ہیں
3⃣میراث۔
تیسرا راستہ جس کے ذریعے ائمہ ع علم تک رسائی حاصل کرتے ہیں وہ *وراثت* ہے یعنی جس طرح پیامبر ص گزتشہ انبیاء کے علم کے وارث ہیں اسی طرح آئمہ ع بھی رسول ص کی علم کے وارث ہیں ۔
اگرچہ ممکن ہے وراثت میں متعدد چیزیں ہوں جیسے : مال ۔ جائداد وغیرہ لیکن علماء نے علم کو بھی وراثت انبیاء کہا ہے ۔
روایات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
*امام علی ع فرماتے ہیں۔*
رسول ص نے مجھے علم کے ہزار باب پڑھاے اور ان ہزار بابوں میں سے ہر باب سے ہزار باب دیگر نکلتے ہیں ۔
یا دوسری حدیث میں رسول اکرم ص ارشاد فرماتے ہیں۔
*انا مدینة العلم و علی بابھا*
من علم کا شھر ہوں علی ع اسکا دروازہ ہیں۔۔
♻منصوص من اللہ بودن امام⭕
یہ بات پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ *اہل سنت* کے نزدیک امام منصوص من اللہ نہیں ہوتا ہے
جبکہ *اہل تشیع* کے نزدیک منصوص من اللہ ہوتا ہے
کیونکہ امامت کسی بادشاہ یا حکمران کی طرح کوئی منصب نہیں یوتا کہ امام آکر مسند پر بیٹھ جاے اور لوگوں کو حکم دے بلکہ امام پوری امت کا رہبر ہوتا ہے وہ رہبر جو امت کو نفع و نقصان سے بچاتا ہے اور انہیں اللہ سبحانہ کی پہچان کرواتا ہے۔
علماء شیعہ نے گرچہ متعد دلائل سے ثابت کیا ہے کہ امام منصوص من اللہ ہوتا ہے ہم یہاں چند دلائل کو ذکر کرتے ہیں۔
1⃣پہلی دلیل ۔
امام کا معصوم ہونا بھی امام کے منصوص من اللہ ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ عصمت ایک ایسا صفت ہے جو انسان کے اندر پائی جاتی ہے اور لوگ کسی انسان کے اندر کے ملکہ کو مکمل درک نہیں کر سکتے بلکہ یہ خدا کو ہی انسان معصوم کا علم رکھتا ہے لہزا اس صورت میں خدا کو ہی یہ اختیار ہے کہ وہ کس کو امام بناے گا ۔
2⃣دوسری دل رسول ص کی سیرت ہے کہ خود رسول ص نے اللہ کے حکم سے امام علی ع کی امامت کا اعلان کیا۔
#اسکے علاوہ بھی متعدد دلائل ہیں ۔
♻علم لدنی انبیاءع⭕
سوال۔۔
*علم لدنی سے کیا مراد ہے؟*
*جواب*
انبیاء کی تیسری خصوصیت *علم لدنی* ہے کہ جس علم کی وجہ سے انبیاء ع تمام لوگوں پر فضیکت رکھتے ہیں۔
*تعریف علم لدنی*
ایسا علم جو مستقیم (بغیر واسطہ) اور مقدمات (یعنی تجربے یا تفکر بغیر) کے بغیر خدا کی طرف سے انکو عطاء ہوتا ہے۔۔
اور انبیاء کے علم کو *علم غیب* بھی کہا جاتا ہے کیونکہ لوگوں کی نسبت یہ علم غیب ہے لوگ اس علم سے واقف نہیں ہوتے۔۔
اب سوال ۔۔۔❗❗❗
انبیاء یہ علم کہاں سے لیتے ہیں؟
*جواب*
قرآن مجید اور روایات آئمہ ع اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ علم انبیاء ایک خاص راستے سے لیتے ہیں۔ ہم ان منابع کو ذکر کرتے ہیں جہاں سے انبیاء ع اس علم لدنی کو لیتے ہیں۔۔
1⃣وحی۔
جس راستے سے انبیاء علم لدنی کو لیتے ہیں ان سے ایک راستہ *وحی* ہے کہ جس کو ہم نے پہلے والی بحث میں بیان کر دیا یے۔
2⃣ارتباط با ماورای طبیعت۔
دوسرا راستہ جس کے ذریعے انبیاء علم لدنی کو لیتے ہیں ان میں سے ایک راستہ یہ ہے کہ انبیاء الہی اس مادی دنیا سے جدا ایک ما فوق عالم سے رابطہ رکھتے ہیں کے جس کے ذریعے وہ اس علم لدنی کو لیتے ہیں۔
جس طرح قرآن مجید میں خدا نے حضرت ابراھیم ع کے بارے فرمایا۔
*سورہ انعام آیت 75*
*وَكَذٰلِكَ نُرِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ*
اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا (نظام) حکومت دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں۔
3⃣روح القدس۔
ایک راستہ روح القدس ہے کہ جو انبیاء کے ساتھ ہوتا یے جس کے ذریعے انبیاء علم لدنی حاصل کرتے ہیں
*سورہ بقرہ آیت 87*
*وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَقَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِوَ اٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ*
اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے، اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو نمایاں نشانیاں عطا کیں اور روح القدس کے ذریعے ان کی تائید کی۔
4⃣میراث۔
چوتھا راستہ جس کے ذریعے انبیاء علم تک رسائی حاصل کرتے ہیں وہ *وراثت* یعنی ایک نبی دوسرے نبی سے وراثت میں بھی اس علم کو حاصل کرتا ہے۔
*سورہ نمل آیت 16*
*وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ *
اور سلیمان داؤد کے وارث بنے ۔
اگرچہ ممکن ہے وراثت میں متعدد چیزیں ہوں جیسے : مال ۔ جائداد وغیرہ لیکن علماء نے علم کو بھی وراثت انبیاء کہا ہے ۔
اور امام باقر ع سے روایت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے۔
امام ع فرماتے ہیں۔
*اما ان محمدا ورث علم من کان قبلہ من الانبیاء و المرسلین*
حضرت محمد ص گزشتہ انبیاء و مرسلین کے علم کو وراثت میں لیا۔
اس کے علاوہ علم غیب انبیاء پر بھی آیات و روایات دلالت کرتی ہیں ۔
لیکن انبیاء کا علم غیب اذن خدا سے ہوتا ہے اور محدود ہوتا ہے۔
*سورہ جن آیت 26و27*
*عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْہِرُ عَلٰي غَيْبِہٖٓ اَحَدًا*
وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔
*اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا*
سوائے اس رسول کے جسے اس نے برگزیدہ کیا ہو، وہ اس کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتاہے۔
یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ انبیاع علم غیب سے آگاہ ہوتے ہیں۔
...................................................................................................
#حضرت امام علی نقی علیہ السلام کا علم لدنی بچپن کا روح پرور واقعہ
عالم کا امام ع کو تعلیم دینے کی کوشش کرنا اور بلآخر یه الفاظ کہنا
" لوگ سمجھ رہے ہیں کہ میں انہیں تعلیم دے رہا ہوں لیکن خدا کی قسم میں ان سے تعلیم حاصل کر رہا ہوں میرے بس میں یہ نہیں کہ میں انھیں پڑھا سکوں "
یہ ہمارے مسلمات سے ہے کہ ہمارے آئمہ کو علم لدنی حاصل ہوتا ہے یہ خدا کی بارگاہ سے علم وحکمت لے کر کامل اور مکمل دنیا میں تشریف لاتے رہے ہیں انہیں کسی سے علم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اور انہوں نے کسی دنیا والے کے سامنے زانوئے ادب تہ نہیں فرمایا ”ذاتی علم و حکمت کے علاوہ مزید شرف کمال کی تحصیل اپنے آباؤ اجداد سے کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ انتہائی کمسنی میں بھی یہ دنیا کے بڑے بڑے عالموں کوعلمی شکست دینے میں ہمیشہ کامیاب رہے اور جب کسی نے اپنے کو ان کی کسی فرد سے مافوق سمجھا تو وہ ذلیل ہو کر رہ گیا، یا پھر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہو گیا۔
علامہ مسعودی کا بیان ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی وفات کے بعد امام علی نقی علیہ السلام جن کی اس وقت عمر 6-7 سال کی تھی مدینہ میں مرجع خلائق بن گئے تھے ، یہ دیکھ کر وہ لوگ جو آل محمد ع سے دلی دشمنی رکھتے تھے یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کسی طرح ان کی مرکزیت کو ختم کیا جائے اور کوئی ایسا معلم ان کے ساتھ لگا دیا جائے جو انہیں تعلیم بھی دے اوران کی اپنے اصول پر تربیت کرنے کے ساتھ ان کے پاس لوگوں کے پہونچنے کا سدباب کرے، یہ لوگ اسی خیال میں تھے کہ عمر بن فرج رجحی فراغت حج کے بعد مدینہ پہنچا لوگوں نے اس سے عرض مدعا کی -
بالآخر حکومت کے دباؤ سے ایسا انتظام ہو گیا کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو تعلیم دینے کے لیے عراق کا سب سے بڑا عالم و ادیب عبیداللہ جنیدی کو معقول مشاہرہ پر لگایا گیا یہ جنیدی آل محمد ع کی دشمنی میں خاص شہرت رکھتا تھا۔
الغرض جنیدی کے پاس حکومت نے امام علی نقی علیہ السلام کو رکھ دیا اور جنیدی کو خاص طور پر اس امر کی ہدایت کر دی کہ ان کے پاس روافض نہ پہنچنے پائیں جنیدی نے آپ ع کو قصر صربا میں اپنے پاس رکھا ہوا تھا ہوتا یہ تھا کہ جب رات ہوتی تھی تو دروازہ بند کر دیا جاتا تھا اور دن میں بھی شیعوں کے ملنے کی اجازت نہ تھی اس طرح آپ ع کے ماننے والوں کی آمد کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور آپ ع کا فیض جاری بند ہو گیا لوگ آپ ع کی زیارت اور آپ سے استفادہ سے محروم ہوگئے ۔
راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن جنیدی سے کہا غلام ہاشمی کا کیا حال ہے اس نے نہایت بری صورت بنا کر کہا انہیں غلام ہاشمی نہ کہو ، وہ رئیس ہاشمی ہیں ، خدا کی قسم وہ اس کمسنی میں مجھ سے کہیں زیادہ علم رکھتے ہیں سنو میں اپنی پوری کوشش کے بعد جب ادب کا کوئی باب ان کے سامنے پیش کرتا ہوں تو وہ اس کے متعلق ایسے ابواب کھول دیتے ہیں کہ میں حیران رہ جاتا ہوں
”یظن الناس اتی اعلمہ وانا واللہ اتعلم مہ“
لوگ سمجھ رہے ہیں کہ میں انہیں تعلیم دے رہا ہوں لیکن خدا کی قسم میں ان سے تعلیم حاصل کر رہا ہوں میرے بس میں یہ نہیں کہ میں انھیں پڑھا سکوں
”ہذا واللہ خیر اہل الارض وافضل من بقاء اللہ“
خدا کی قسم وہ حافظ قرآن ہی نہیں وہ اس کی تاویل و تنزیل کو بھی جانتے ہیں اور مختصر یہ ہے کہ وہ زمین پر بسنے والوں میں سب سے بہتر اور کائنات میں سب سے افضل ہیں
اثبات الوصیت ودمعہ ساکبہ ص ۱۲۱
.........................................................................................
۞ غیبتـــــ امــام زمــانــہ (عج) اور امــام حســن عسـکریؑ کی زمــہ داری
امــام حســن عســکریؑ کو اس بات کا باخـوبی عـلم تھا کہ آپ کے فـرزنـد بحکم خــدا زمین پر نظام حکومت الٰہیــہ قائــم کر کے اسے پوری دنیا میں نافــذ کرنے محرومــوں اور کمــزورں کی مــدد کرنے اور ان کے خوف و ہراس کو سکون و اطمــینان میں بدل کر فقــط خــدا واحــد کی پرستش کو باقی رکھنے کے لیے پردہ غیبت میں چلے جائیں گے۔ چنانچہ آپ اپنی ذمــہ داری سمجھتے تھے کہ اپنے بیٹے کی غیبت کے لیے فضا ہمــوار کریں کیونکہ لوگ ظاہــری اور حســیاتی معرفت و ادراک کے عــادی ہو چکے تھے لہٰــذا محسوســات کے عــادی افراد کا وسعت فکری سے ہمــکنار ہونا ایک مشکل کام تھا۔
امــام مہــدی (عج) کے والد کی حیثیت سے امــام عسکریؑ کی سب سے مشکل ذمــہ داری لوگوں سے یہ منوانا تھا کہ غیبت کا مرحلہ آچکا ہے اور اس کا مظہر آپؑ کے فرزنــد حضرت مہــدی (عج) ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امــام عسکریؑ نے دو اصـولـوں کو اپنی سرگرمیوں کا محــور قرار دیا۔
☆ اول یہ کہ چند مخصوص افــراد کے علاوہ باقی تمام لوگوں کی نظروں سے امــام مہــدی (عج) کو پوشــیدہ رکھنا اور دوســرا یہ کہ نظریہ غیبت سے لوگوں کو آگاہ کرنا۔ اس سلسلے میں انہــیں اپنی شرعی ذمــہ داریــوں سے باخــبر بنانا اور غیبت کے تقاضـوں کا آشـنا بنانا۔
☆ اس دوسرے اصــول کے تحت امــام عسکریؑ نے اپنے فرمــودات اور بیانات سے لوگوں کو مستفــید کیا۔ یہ اقــدام ان فرمــودات اور تعلیمــات کے سلسلے کی ایک کڑی تھا جن کے ذریعہ رســول اکــرمؐ اور آئمــہ طا ہــرین (ع) نے بشارتیــں دی تھیں۔
اس بارے میں امــام حســن عسکریؑ کے بیان تیــن طرح کے بیں :
☆ عــام بیــان : " مثلاً امــام (عج) کے ظہــور اور آپ کی عالمگــیر حکومت کے قیـام کے بعد آپ (عج) کی صفات و خصوصیات کا ذکر - جیســا کہ آپ نے اپنے ساتھی کے سـوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جب وہ قیام کریں گے تو اپنے علم ( علم لدنی) کی بنا پر لوگوں کے فیصلے کریں گے جس طرح حضرت داؤد (ع) فیصلے کرتے تھے اور انہـیں گواہـوں کی ضرورت نہ ہو گئی۔ "
☆ نظریــہ مہــدویتـــــ : " کا تقاضـا حالات کو بدلتـا ہے۔ اس حقیقیت کے ذیـل آپؑ نے فرمایا کہ جب امــام مہــدی (عج) خروج کریں گے تو وہ مسجــد کے انـدر تعمـیر شـدہ خصوصی منبــروں اور حفاظتی محرابــوں کو گرانے کا حکم دیں گے. "
☆ اپنے اصحاب اور حامیــوں کی عام رہنمــائی تاکہ انہـیں نظریہ غیبت کے عــام پہلـوؤں سے روشناس کیا جا سکے نیز معاشــرتی لحــاظ سے انہـیں اس طرح تیــار کرنا کہ وہ مستقــبل میں امــام (عج) کی غیبت و جــدائی سے پیــدا ہونے والے تلــخ حالات کا سامنا کرنے کے قابـل ہو جائیں۔
چنانچہ اس سلسلے میں امــام حســن عسکریؑ نے ابن بابویــہ کے نام اپنے ایک مکتوب میں فرمایا کہ تم پر لازم ہے کہ تم صــبر و تحمــل کے ساتھ قیــام مہــدی (عج) کا انتظار کرو کیونکہ رســول الله (ص) نے فرمــایا ہے کہ میری امت کا سب سے بہتــرین عمــل امــام مہــدی (عج) کا انتظار ہے۔ ہمارے شیعــہ مسلســل غم و انــدوہ کا شکار رہیں گے یہاں تک کے میرے بیٹے کا ظہور ہو گا اور وہ اس زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم سے بھری ہو گئی۔ اے ابوالحســن بن عـلیؑ ! تم بھی صــبر کا مظاہــرہ کرنا اور ہمارے شیعــوں کو بھی صبر کی تلقــین کرنا۔ زمین الله کی ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کا مالک بناتا ہے۔"
غیبت امــام زمانــہ (عج) کے حوالے سے امــام عسکریؑ نے امت کو ذہنی طور پر آمــادہ وبیــدار کرنے کے لیے خاص طریقہ اپنایا تاکہ لوگ مـرکـوزہ اسلوب کو بغــیر کسی حیرت و استعجــاب کے آسانی سے قبول کر لیں اور اس سلسلے میں غیر مناسب اعتراضات نہ کریں.
( ارشــاد - صفحــہ ٢٢٣ )
( مناقبـــــ - جـــلد ٣ - صفحــہ ٥٢٦ )
( تاریــخ اســـلام - صفحــہ ٨٦٨-٨٧١ )
حُسینی لوگ(مزیداچھی پوسٹزدیکھنےکےلئےپیج ضرورلائک کریں)
Click here ➡ fb.com/hussainilog
https://www.facebook.com/hussainilog
Comments
Post a Comment