بدعت
بدعت
اپنی ناقص عقل سے شرعی احکام کو بدلنا یا نئی بات پیدا کرنا باعث گمراہی ہے، شیطان کے دھوکے میں آکر یہ سمجھنا کہ جو عبادت میں اپنی رائے سے کرتا ہوں یہی قرب الہٰی کا باعث ہے، کمال جہالت اور بے دینی ہے کیونکہ ہماری عقلیں جن میں ہزاروں نقص اور سینکڑوں شہوات نفسانی سے مغلوب ہیں، انبیاء کے برابر خداوند تعالیٰ کے قرب اور بعد کا مضمون کب سمجھ سکتے ہیں، مثلا" ایک نصرانی عابد یہ سمجھتا ہے کہ ایسی عبادت اور ریاضت کروں جس کی تکلیف سے مر جاؤں تو مجھے قرب حاصل ہو جائے گا حالانکہ یہ بات عین گمراہی ہے اسی طرح کی جتنی بھی عبادت کرتا جائے گا اتنا ہی کفر اور گمراہی میں زیادہ ہوگا اور خدا سے دور ہوتا جائے گا۔
بدعت کے یہ معنی ہیں کہ " دین میں جس بات کو خدا نے حرام نہیں کیا اس کو حرام کر دیا جائے اور جس کو خدا نے حلال نہیں کیا اسے حلال کیا جائے یا کسی نامکروہ کو مکروہ اور نا واجب کو واجب قرار دیا جائے یا کسی غیر مستحب کو مستحب بنا دیا جائے۔ مثلا" خدا نے فرمایا نماز پڑھنا ہر وقت مستحب ہے لیکن کوئی شخص اس خیال سے کہ خدا نے ہروقت نماز مستحب فرمائی ہے یہ بھی چونکہ ایک وقت نماز ہے، نماز پڑھے اس کو ثواب ہوگا، لیکن اگر عین غروب آفتاب کے وقت سمجھ کر نمازپڑھے کہ خدا نے خاص اس وقت کےلئے نماز کا حکم دیا ہے، بدعت ہے اور حرام ہے، چنانچہ حضرت عمر نے خاص چاشت کے وقت چھ رکعت نماز سنت مقرر فرمائی یہ بلکل بدعت اور حرام ہے، ہمارے آئمہؑ نے اس سے منع فرمایا ہے، اسی طرح اگر کوئی سنتی نماز تین رکعت پڑھے تو یہ بھی بدعت اور حرام ہے اسی طرح ایک رکعت نماز میں دو رکوع کرنا بدعت ہے، کیونکہ پیغمبر اکرمؐ نے ایسا نہیں کیا، یا مثلا" کلمہ شریف یعنی لا الہ الااللہ کو ہر وقت پڑھنا سنت ہے اور سب سے اچھا وظیفہ ہے، مگر کوئی یہ کہے کہ صبح کی نماز کے بعد بارہ ہزار دفعہ پڑھنا سنت ہے تو یہ عمل بدعت ہے، کیونکہ شارعؑ نے یہ قید نہیں لگائی۔
غرض کہ بدعت بہت بڑا گناہ ہے اور ہمیشہ سنی شیعہ میں یہ فرق رہا ہے کہ شیعہ اپنے آئمہؑ کے اقوال پر عمل کرتے ہیں (جو عین سنت پیغمبرؐ کے مطابق ہوتے ہیں) اور سنیوں نے پیروی اہلبیتؑ سے انکار کیا ، اس لئے اپنے ناقص علم و عقل پر بھروسہ کر کے دین میں بدعتیں برپا کرتے ہیں اس لئے ہمارے آئمہؑ نے انہیں برا کہا ہے۔
چنانچہ کلینیؒ نے معتبر روایت میں جناب رسول خداؐ سے روایت کی ہے کہ " ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا راستہ جہنم کی طرف جاتا ہے۔" 
روایت ہے کہ ایک شخص نے جناب امام جعفر صادقؑ اور جناب امام موسی کاظمؑ سے پوچھا  یا حضرتؑ میں کس طرح خدا کی عبادت کروں؟ آپؑ نے فرمایا دین میں بدعت نہ کر جو کوئی احکام دین میں اپنی رٹ لگاتا ہے ہلاک ہوتا ہے اور جو شخص حضرت رسول خداؐ اور اہلبیتؑ کے اقوال کو چھوڑ دے گمراہ ہو جاتا ہے اور جو کلام الہٰی کے حکم کو ترک کرے وہ کافر ہوجاتا ہے۔
جناب امام محمد باقرؑ نے فرمایا جو شخص اپنی رائے سے دینی معاملے میں فتویٰ دے اس نےخدا کی عبادت ایسے امر سے کی جس کو جانتا نہیں اور دین خدا کو نادانی سے اپنی رائے بنا لیا ایسا کرنے والا خدا سے مقابلہ کرتا ہے کہ حلال و حرام اپنی طرف سے مقرر کرتا ہے۔
جناب امیرؑ نے فرمایا، " بدعتی پیغمبرؐ خدا کی سنت کا تارک ہے۔"
جناب رسول خداؐ نے ارشاد فرمایا " جب میری امت میں بدعت ظاہر ہو تو عالم کو چاہیے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور بدعت کو روکے اگر ایسا نہ کرے تو وہ ،لعون ہے"۔ پھر فرمایا جو شخص بدعتی کے پاس جائے یا اس کی تعظیم کرے، گویا وہ اسلام کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے" پھر فرمایا خدا بدعتی کی دعا قبول نہیں فرماتا"  کسی نے پوچھا یا حضرتؐ اس کی دعا کس لئے قبول نہیں ہوتی؟ فرمایا بدعت کی محبت اس کے دل مٰیں جم جاتی ہے پھر نکلتی نہیں"
ایک طالب دنیا کی حکایت
ابن بابویہؒ نے معتبر روایت میں حضرت امام جعفر صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ پہلے زمانے میں ایک شخص تھا اس نے حلال طریقے کی روزی تلاش کی مگرنہ ملی، حرام سے چاہا پھر بھی نہ حاصل ہوئی، شیطان نے آ کر کہا کہ ایک بات میں تجھ کو بتاؤں جس سے بہت مال ملے گا اور بہت سے لوگ تیرے پیرو ہو جائیں گے وہ شخص راضی ہوگیا، شیطان نے کہا نیا دین پیدا کرو اور لوگوں کو اس کی ترغیب دے، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا تھوڑے ہی دنوں میں بہت مالدار ہو گیا اور بہت سے لوگ اس کو ماننے لگے۔ ایک دن اس نے سوچا کہ مجھ سے برا کام سرزد ہوگیا لوگوں کو گمراہ کر دیا اب میری توبہ قبول نہ ہوگی تا وقتیکہ جن کو گمراہ کیا ان کو درست نہ کر لوں۔
چنانچہ وہ ہر ایک سے کہتا پھرتا تھا کہ میرا دین گمراہی پر ہے اس کو چھوڑ دو مگر لوگ کب مانتے تھے سب نے کہا تو جھوٹ کہتا ہے تیرا دین سچا ہے تجھ کو ناحق شک پڑ گیا ہے۔ غرض ایک بھی نہ چھوڑا، یہ صورت دیکھ کر وہ بہت پچھتایا اور جنگل میں جا کر اپنے آپ کو زنجیر سے جکڑ دیا اور عہد کیا کہ جب تک خدا میری توبہ قبول نہ فرمائے گا میں اسی حالت میں رہوں گا، اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے پیغمبر پر وحی نازل فرمائی کہ اس بندہ سے جا کر کہ دے کہ قسم ہے مجھے اپنی عزت و جلال کی اگر توبہ کی دعا کرتے کرتے اس کے بند بند الگ بھی ہوجائیں تو ہرگز اس کی توبہ قبول نہ کروں گا ، تاوقتیکہ جو لوگ اس کے دین سے گمراہ ہوئے ہیں ان کو راہ راست پر نہ لائے۔
صحیح روایت میں حلبی سے منقول ہے کہ جناب امام جعفر صادقؑ سے میں نے پوچھا یا حضرتؑ کم اس کم ایسی کیا چیز ہے جو انسان کو کافر بناتی ہے؟ آپ نے فرمایا دین میں بدعت پیدا کرنا اور جو کوئی بدعتی کی پیروی کرے یا اس کا دوست ہو اور اس کے مخالف سے بیزار ہو۔
برید عجلی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادقؑ سے پوچھا یا حضرتؑ کون سی شئے ہے جس سے آدمی کافر ہوجاتا ہے؟ آپؑ نے چند کنکریاں زمین سے اٹھا کر فرمایا" جو ان کو کہے کہ کھجور کی گٹھلیاں ہیں" یعنی حق کے خلاف کہے اور اس کی مخالفت کرنے والے سے نفرت کرے اور دین باطل کی حمایت میں راستبازوں سے دشمنی کرے ایسا شخص ناصبی ہے اور ہمارا دشمن ہے، مشرک ہے، کافر ہے۔
منقول ہے کہ جناب امیرؑ سے لوگوں نے پوچھا کہ سنت، بدعت، جماعت، اور فرقت کے کیا معنی ہیں؟ آپؑ نے فرمایا سنت وہ ہے جس کو پیغمبرؐ نے بیان فرمایا ہو اور جاری کیا ہو، بدعت وہ ہے جس کو لوگوں نے بعد میں پیدا کیا ہو، جماعت وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ رہنے کو پیغمبر نے فرمایا ہے اور وہ اہل حق ہیں، اگرچہ تعداد میں کم ہوں اور فرقت وہ ہے جس کی اطاعت سے آنحضرتؐ نے منع فرمایا ہے وہ لوگ اہل باطل ہیں اگرچہ تعداد میں زیادہ ہوں۔
( روح الحیات ترجمہ عین الحیاۃ علامہ مجلسیؒ )
COPPIED#####
Comments
Post a Comment