عقیدہ ختم نبوت اور عقیدہ امامت
عقیدہ ختم نبوت اور عقیدہ امامت
سوشل میڈیا یا عام زندگی میں ہمارے مسلمان بھائی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن نے عقیدہ امامت کو بیان نہیں کیا آپ شیعہ حضرات اسکو اس قدر کیوں بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ہو اور اپنے اصول دین میں شامل بھی کرتے ہو۔
جبکہ اس پہ ایمان لانے کی کوئی ایک آیت بھی قرآن میں موجود نہیں ہے۔
ہم جواباً عرض کرتے ہیں آپ ختم نبوت کو جو اتنا بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ہو اور اسی بنا پر مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر و مرتد قرار دیتے ہو اور انکے فالورز کو بھی کافر کہتے ہو۔
کیا ختم نبوت پہ ایمان لانے پہ کوئی تاکید قرآن نے کی ہے؟؟
جواب دیا جاتا سورہ احزاب میں خاتم النبین کی ایک آیت موجود ہے اور وہی کافی ہے اس عقیدہ کو ماننے کے لئے۔
تو ہم بھی جواباً یہی گذارش کرتے ہیں اگر ایک آیت جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین ہیں اس سے عقیدہ بنانا اسلامی رکن قرار پاتا ہے اور اسی کی وجہ سے اس کے منکر کو مسلمان نہیں سمجھا جاتا تو سوچو امامت پہ تو قرآن نے متعدد آیات پیش کی ہیں ۔
پہلی آیت
Holy Quran 2:124
------------------
۞ وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
(اور وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم کا ان کے پروردگار نے چند باتوں کے ساتھ امتحان لیا۔ اور جب انہوں نے پوری کر دکھائیں ارشاد ہوا۔ میں تمہیں تمام انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا اور میری اولاد (میں سے بھی(؟ ارشاد ہوا: میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔
عقیدہ امامت کو ذریت ابراہیم علیہ نے قرار دیا گیا اور اس عہدہ کے خاتمہ پہ کوئی قرآنی نص موجود نہیں بلکہ حدیث عقیدہ امامت کو مزید تقویت دیتی ہے۔
اور یاد رہے عہدہ امامت کے لئے قرآنی شرط صرف ظالمین میں سے نہ ہونا قرار پاتا ہے اگر کوئی مزید ایکسٹرا اور خود ساختہ شرط عائد کرے گا تو اسکو اپنی دلیل پہ واضح و محکم آیت بطور دلیل پیش کرنا ہوگی۔ کیونکہ عقائد میں ظن و گمان سے کام نہیں چلایا جا سکتا۔
دوسری آیت
Holy Quran 21:73
------------------
وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ ۖ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ
اور ہم نے انہیں ایسا امام (پیشوا) بنایا جو ہمارے حکم سے (لوگوں کو) ہدایت کرتے تھے اور ہم نے انہیں نیک کاموں کے کرنے، نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کی وحی کی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔
جیسے خدا نے نبی ، رسول اور منصب خلیفہ کو بیان کیا اسی طرح امامت کو بھی بیان کیا ہے۔
تیسری آیت
مستقبل میں امام بنانے کا اعلان قرآن نے کیا اور یہ مستقبل رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کا ہے کیونکہ قرآن رسول خدا پہ اترا
اگر اس سے قبل کی بات ہوتی تو صیغے ماضی کے استعمال ہوتے اور کوئی بنی عربی ادب کا جاننے والے اس بات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہاں مستقبل کے صیغے استعمال کئے گئے ہیں۔
Holy Quran 28:5
------------------
وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ
اور ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جنہیں زمین میں کمزور کر دیا گیا تھا اور انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں (زمین کا) وارث قرار دیں۔
چوتھی آیت
Holy Quran 17:71
------------------
يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَٰئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا
اس دن (کو یاد کرو) جب ہم (ہر دور کے) تمام انسانوں کو انکے امام (پیشوا) کے ساتھ بلائیں گے پس جس کسی کو اس کا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو یہ لوگ اپنا صحیفۂ اعمال (خوش خوش) پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
قیامت والے دن ہر شخص اپنے امام کے نام کیساتھ پکارا جائے گا۔ اگر امامت اتنی مہم نہ ہوتی تو کیا ضرورت تھی کہ ہر کسی کو اس کے امام کیساتھ پکارا جاتا۔
جبکہ اہلسنت میں یہ مشہور کیا گیا ہے کہ ماں کے نام کیساتھ پکارا جائے گا جسکا کوئی بھی ثبوت قرآن سے نہیں ملتا۔
مزید تقویت کے لئے دو صحیح ترین احادیث سے اپنے موقف کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلی حدیث میں معرفت امام کے بغیر جاہلیت کی موت کا ذکر ہے یہاں جاہلیت وہی ہے جو قبل از رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت عرب میں رائج تھی۔
اگر ختم نبوت کی ایک آیت جسکا ذکر قرآن نے کیا ہے اسکے منکر کو کافر کہا جاتا ہے تو کم از کم عقیدہ امامت جس پہ متعدد قرآنی آیات بطور دلیل موجود ہیں اور بیشمار احادیث اسکی ترجمانی بھی کرتی ہیں تو کم از کم اس کو باطل عقیدہ تو نہ قرار دیں۔ کیونکہ اس کے ماننے والے اس پہ قطعی دلیل رکھتے ہیں
ہم آپ کو ہرگز مجبور نہیں کرتے آپ اس عقیدہ کو اپنائیں مگر ہمارا اتنا تو حق ہے اس حق کو آپ تک احسن انداز میں پہنچائیں ۔
پہلی مشہور اور صحیح حدیث
مَنْ ماتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة
جو شخص بھی اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے
مسند احمد بن حنبل ( سند صحیح)
مسند ابو داؤد
المسند شامین طبرانی
دوسری مشہور اور صحیح حدیث
ARABIC:
حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ""كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ، تَابَعَهُ عُقَيْلٌ وَالْأَوْزَاعِيُّ.
TRANSLATION:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ ابن مریم تم میں اتریں گے ( تم نماز پڑھ رہے ہو گے ) اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔“ اس روایت کی متابعت عقیل اور اوزاعی نے کی۔
(صحیح بخاری حدیث 3449)
سید ثاقب حسین
اوسلو
ناروے
Comments
Post a Comment