کتاب سلیم بن قیس الھلالی کے معتبر ہونے پر ایک مختصر پوسٹ

کتاب سلیم بن قیس الھلالی کے معتبر ہونے پر ایک مختصر پوسٹ 

کتاب سلیم بن قیس الھلالی ایک قدیم شیعہ ( اصل = کتاب ) مانی جاتی ہے جسکے مولف سلیم یا سلیمان بن قیس الھلالی امام علی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار ہوتا تھا، [بلکہ الرجال برقی میں ہے کہ یہ امام علی علیہ السلام کے اولیاء میں تھا جس سے اس اعتراض کی تردید بھی ہوتی ہے کہ سلیم کی توثیق کسی نے نہیں کی ہے ] ۔زمانے قدیم سے ہی یہ کتاب مہشور رہی ہے جس کا اعتراف خود ان محدثین نے بھی کیا ہے جو اسکو معتبر نہیں سمجھتے تھے مثلاً شیخ ابن الغضائری جنکی الرجال [ جو دراصل انکی بھی تالیف نہیں بلکہ صرف انکی طرف منسوب ہے ] میں یہ بات ان سے درج ہے۔ 

کتاب سلیم ابن قیس الھلالی کے معتبر پونے کے دلائل : 

۱- کتاب کے مولف سلیم ابن قیس الھلالی کا اصل نسخے کو ابان بن ابی عیاش کے حوالے کرنا [ جیسا کہ اس کتاب کے اندر خود لکھا ہوا ہے ] یہ سب سے بڑا قرینہ ہے کیونکہ اس کتاب پر جو نقد ہوتا ہے اسکی وجہ آبان بن ابی عیاش کا ضعف ہے لہذا جب ابان کے پاس سلیم کا اصل نسخہ تھا تو اسکے حافظے کی کوتائی سے کتاب پر کوئی اثر نہیں پڑھے گا یہی وجہ سے ابان کے بہت سے شاگردوں نے بہت جگہ ابان کا واسطہ سند سے گرایا کیونکہ وہ سلیم کی کتاب سے روایت کرتے تھے مثلاً شیخ نجاشی تک جو سلسلہ سند ہے اس میں ابان کو گرایا گیا ہے وغیرھم 

ابان کو صرف شیخ طوسی نے ضعیف کہا ہے اسکے برعکس شیخ نجاشی نے انکے بارے میں کوئی کلام نہیں کیا ہے [ جس پر شیخ نجاشی سکوت کرتا ہے وہ انکے مطابق امامی ہوتا ہے ] اور جب کسی راوی کو ضعیف کہا جاتا ہے تو اس سے دو ہی احتمالات ظاھر ہوتے ہے : 

- مذھب میں ضعف : جو یہاں بعید ہی لگ رہا ہے کیونکہ اس سے فضائل اھل بیت مروی ہے اور شیخ نجاشی کا سکوت بھی اس بات کی تائید میں ہے۔
- حافظے میں ضعف : بظاھر شیخ طوسی کا یہاں مراد یہی ہے لیکن جیسا کہ اوپر گزرا ہے کہ اس کتاب کو ابان نے اپنے حافظے سے روایت نہیں کیا بلکہ سلیم کے اصل نسخے کو اپنے شاگردوں تک پہنچایا اور وہ شاگرد بھی بہت بڑے مقام کے ہیں مثلا عمر بن اذینہ ، ابراھیم بن عمر الیمانی ، عبد اللہ بن مسکان ، معمر بن رشد البصری ، ہومان بن نافع الصنعائی وغیرھم قابل ذکر ہے ، لہذا یہاں ابان کا ضعف اس کتاب کے اعتبار پر کوئی اثر نہیں کرے گا 

اگر کوئی کہتا ہے کہ کیا پتا ابان نے اس کو وضع ( خود بنایا ہو ) تو اسکا جواب یوں ہے کہ ابان پر جھوٹ بولنے یا کذاب ہونے کی جرح آج تک کسی نے بھی نہیں کی ہے بلکہ علامہ مامقانی کے بقول اس پر ضعف والی جرح اھل سنت کی طرف سے ھماری کتب میں آئی ہے اور اسکی اصل بھی انکا فضائل اھل بیت علیھم السلام میں روایت نقل کرنا تھا۔ 

۲- کثرت سے طرق : 
-سلیم نے اس کتاب کو مرنے سے پہلے ابان کے حوالے کیا اور ابان سے اسکو کو ۱۲ رواہ نے نقل کیا جن میں عمر بن اذینہ ، ابراھیم بن عمر الیمانی ، عبد اللہ بن مسکان ، معمر بن رشد البصری ، ہومان بن نافع الصنعائی وغیرھم قابل ذکر ہے ، 

-اس طبقے سے اسکو بہت سارے رواہ نے نقل کیا ہے مثلاً حماد بن عیسی ، محمد بن ابی عمیر ، عثمان بن عیسی ، عبد الرزاق الصنعائی وغیرھم شامل ہے ، 

-اوپر والے طبقے سے کثیر تعداد میں محدثین نے اسکو نقل کیا ہے مثلاً ابراھیم بن ھاشم ، احمد بن محمد بن عیسی ، الحسین ابن سعد ، محمد بن الحسین بن ابو الخطاب ، یعقوب بن یزید ، محمد بن عیسی بن عبیدہ ، الحسن بن علی ابن فضال ، عبد الرحمان بن ابی نجران ، احمد بن محمد ابن خالد البرقی ، فضل بن شاذان ، محمد بن علی السرافی ، علی بن مزیار ، احمد ابن ھلال وغیرھم شامل ہے ، 

-اوپر والے طبقے سے بھی کثیر محدثین نے اس کتاب کو روایت کیا ہے مثلاً علی بن ابراھیم ، محمد بن الحسن الصفار ، سعد بن عبد اللہ ، عبد اللہ بن جعفر الحمیاری ، علی بن الحسین السعد عابدی ، محمد بن یحیی العطار ، محمد بن حومان ، علی بن محمد بن بندار ، احمد بن محمد بن سعد بن عقدہ ، محمد بن ابی قاسم ماجیولیہ وغیرھم شامل ہے ، 

-اوپر والے رواہ سے بھی کثیر تعداد میں محدثین نے اسکو نقل کی جیسے شیخ الکلینی ، علی بن بابویہ ( شیخ الصدوق کے والد ) ، محمد بن موسی بن متوکل ، محمد بن جریر الطبری وغیرھم شامل ہے ، 

-اوپر طبقے سے ان محدثین نے نقل کیا ہے جیسے شیخ الصدوق ، النعمانی ، التعلکباری ، الکشی ، ابن جہام وغیرھم ، 

-انکے بعد عظیم محدثین نے مثلاً شیخ المفید ، الغضائری ، ابن الجعید وغیرھم اوپر والے طبقے سے نقل کیا 

-اسکے بعد شیخ طوسی ، شیخ نجاشی وغیرھم نے انکے سے 

-پھر انکے بعد  ھمارے دور تک کثیر علماء نے اسکو روایت کیا ہے 

۳- اس کتاب کو نقل کرنے والوں میں اصحاب اجماع بھی شامل ہے [ اصحاب اجماع ان اصحاب کو کہتے ہے جن کی روایات یا فتاوی پر محدثین کا اجماع ہے۔ اسکے طرق میں اصحاب اجماع یوں ہے : 

عبد اللہ بن مسکان 
حماد بن عیسی 
محمد بن ابی عمیر 
عبد اللہ بن مغیرہ 
الحسن بن علی ابن فضال 

چناچہ شیخ الکشی اپنی رجال میں اصحاب اجماع کے بارے میں یوں نقلُ کرتے ہے : 

علماء کا اس بات کے معتبر ہونے پر اجماع ہے کہ ان تک جو بھی معتبر طرق سے نقل ہوا ہے ۔۔۔الخُ

خاتمۂ المستدرک - مرزا نوری طبرسی // جلد ۷ // صفحہ ۷-۹ 

۶- محدثین و علماء  جنہوں نے اس کتاب پر اعتماد کیا ہے : 

* عمر بن ابی سلمہ ( المتوفی ۸۳ ھ ) 
* ابو طفیل عامر ابن واثلہ الکنانی ( المتوفی ۱۰۰ ھ ) 
* مہشور تاریخ نویس ابو الحسن علی بن الحسین المسعودی ( المتوفی ۳۴۶ ھ ) 
* محمد بن اسحاق المعروف ابن ندیم ( المتوفی ۳۸۰ ھ) 
* شیخ عبد العباس احمد بن علی النجاشی ( المتوفی ۴۵۰ ھ)
* شیخ جلیل ابو عبد اللہ محمد بن ابراھیم النعمانی ( المتوفی ۴۶۲ ھ) 
* حافظ محمد بن شھر آشوب ( المتوفی ۵۸۸ ھ) 
* سید جمال الدین احمد بن موسی الطاوس ( المتوفی ۶۷۷ ھ) 
* علامہ محمد تقی مجلسی ( المتوفی ۱۰۷۰ ھ ) 
* شیخ محمد بن الحسن الحر العاملی ( المتوفی ۱۱۰۴ ھ) 
* سید محمد تفرشی ( المتوفی گیاہوی صدی ) 
* سید ھاشم البحرانی ( المتوفی ۱۱۰۷ ھ ) 
* علامہ الحجہ مولا محمد باقر مجلسی ( المتوفی ۱۱۱۱ھ ) 
* علامہ حیدر علی الشیروانی ( علامہ مجلسی کا نواسہ ) 
* سید میر حامد حسین الھندی 
* سید محمد خوانسواری 
* الحاج مرزا حسین نوری  
* محمد ھاشم الخراسانی 
* الحاج شیخ عباس قمی
* شیخ عبد اللہ مامقانئ 
* سید حسین بن محمد رضا البروجردی 
* مرزا محمد المدرس الخیابانی
* علامہ الحاج آغا بزرگ طہرانی 
* سید حسن صدر 
* شیخ عبد الحسین الامینی النجفی 
* سید محمد صادق بحار العلوم 
* سید شھاب الدین مرعشی نجفی 

بلکہ شیخ نعمانی ( صاحب کتاب الغیبہ ) نے اسکو اصول معتبرہ میں قرار دیا۔ 

رہا وہ اعتراض کہ اس میں اماموں کی تعداد ۱۳ ہیں اور محمد بن ابی بکر کے بارے میں ایک واقعہ ہے تو علامہ حامد حسین لکھنوی نے اپنی کتاب میں صاف لکھا ہے کہ ایسی کوئی عبارت سلیم ابن قیس الھلالی میں موجود نہیں ۔۔۔۔ اس مغالطے کی اصل بنیاد کتاب الرجال للغضائری ہے جو پہلے اپنے مولف سے ثابت ہی نہیں [ مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ کتاب سلیم جسکی ایک مکمل سند موجود  ہے اسکو رد ایک ایسی کتاب سے کیا جاتا ہے جسکی سند تک کا علم نہیں کیونکہ اس کتاب کو شیخ الغضائری کے بعد سب سے پہلے شیخ ابن طاوس نے ۱۰۰ سال بعد ظاھر کیا اور اسکی سند آج تک کسی کے پاس نہیں ہے 

لہذا ھماری تحقیق کے مطابق یہ کتاب معتبر ہے ، یہ کتاب تین جلدوں میں شیخ باقر رنجانی کی تحقیق دے شائع ہوئی ہے جس میں ان تمام اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے

التماس دعا : آصف حسین

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات