اللہ نہ جسم رکھتا ہے ۔ نہ اللہ کی کوئی حد و سرحد ہے
** قسط ۔ ۲ مکتب تشیع میں یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نہ جسم رکھتا ہے ۔ نہ اللہ کی کوئی حد و سرحد ہے ۔۔ نہ اللہ آتا ہے نہ کہیں جاتا ہے ۔ نہ اترتا و چڑھتا ہے ۔ نہ وہ کسی چیز کے اوپر ہے نہ کسی شے کے نیچے ہے ۔۔ ۔ وہ لامحدود ہے ۔ اور ہر شے پہ محیط ہے امیرالمومنین علی ع توحید بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں !!!!! باسمہ سبحانہ : توحید در نہج البلاغہ ۔۔۔ * علی ع کے مطابق ذات حق کے وجود کی نہ کوئی حد ھے نہ انتہاء ۔ وہ ھستی مطلق ھے ماھیت نہیں ۔وہ ایسی ذات ھے جس کی حد بندی نہیں کی جا سکتی۔ وہ کسی سرحد کا پابند نہیں ۔جبکہ ھر موجود کے لیے حدود اور کوئی نہ کوئی انتہاء ھے ۔ وہ موجود متحرک ھو یا ساکن ۔۔ متحرک وجود بھی اپنی سرحدیں بدلتا رھتا ھے لیکن ذات حق ذات کبریا کی کوئی حد و سرحد نہیں ۔۔عالم وجود کا کوئی ایک زاویہ بھی ایسا نہیں جو اس سے خالی ھو ۔وہ ھر قسم کے فقدان اور کمی سے بری ھے ۔اس میں صرف ایک کمی ھے وہ یہ کہ اس میں کوئی کمی نہیں ھے ۔ صرف ایک سلب و محرومی جو اس کے لیے صادق آتی ھے ۔وہ خود سلب و محرومی کی سلب و محرومی ھے ۔۔ ھر قسم کی عدم و نیستی اور نقص ۔۔ مثلاً مخلوقیت ۔ معلولیت ۔ محدودیت و کثرت ۔جزئیت و نیازمندی کی نفی و نہی ھے ۔مختصر یہ کہ وہ تنہا سرحد جہاں وہ اپنے قدم نہیں اٹھاتا ۔ نیستی و نابودی کی سرحد ھے ۔ وہ تمام اشیاء کے ساتھ ھے لیکن کسی شے میں نہیں ھے ۔اور کوئی چیز بھی اس میں نہیں ھے اور کسی چیز میں سمویا ھوا نہیں ھے ۔ مگر کسی چیز سے باھر بھی نہیں ھے ۔ وہ ھر قسم کی کیفیت و ماھیت اور ھر قسم کی تشبیہہ و تمثیل سے پاک ھے کیونکہ یہ تمام اوصاف محدود و متعین رکھنے والے موجود کے اوصاف ھیں ۔۔ * وہ کسی چیز میں حلول کیے ھوئے نہیں ھے ۔ کیونکہ حلول ۔۔ حلول کرنے والی چیز کی محدودیت کو لازم قرار دیتا ھے ۔اور اس کے یہاں گنجائش کا پتہ دیتا ھے ۔جبکہ وہ کسی چیز سے باھر بھی نہیں ھے ۔کیونکہ باھر ھونا بھی ایک قسم کی محدودیت کو مستلزم ھے ۔۔ * وہ ھر چیز کے ساتھ ھے مگر اسطرح نھیں کہ کسی شے کے ساتھ جفت و متصل ھو ۔ اور نتیجہ میں وہ چیز بھی اس سے قریب اور ھم دوش ھو جائے ۔۔ وہ تمام چیزوں سے الگ اور مغائر ھے ۔عین وہی چیز نہیں ھے ۔ لیکن اس طرح نہیں کہ ان چیزوں سے جدا ھو جائے ۔ اور اشیاء کے وجود اسکی ذات کے لپے سرحد محسوب ھوں ۔۔۔ * اشیاء سے ذات حق کی جدائی اور علیحدگی اس طرح کی نہیں کہ کوئی حد و سرحد ایک دوسرے سے علیحدہ کرتی ھو ۔ بلکہ ایک طرف ربوبیت اور دوسری طرف بندگی ایک طرف کمال اور دوسری طرف نقص اور ایک طرف قوت اور دوسری طرف ضعف ان کو جدا کرتا ھے ۔* ذات اقدس احدیت ۔۔ خدا کی وحدت ۔ وحدت عددی نہیں ۔ بلکہ ایک دوسری نوعیت کی وحدت ھے ۔۔ اس کو اعداد کے لحاظ سے ایک قرار دینا اس کی محدودیت کو مستلزم ھے ۔۔۔ وہ ایک ھے لیکن عددی اعتبار سے نہیں ۔۔ وہ کسی حد و حساب میں محدود اور کسی حدو شمار میں مقید نہیں ھے ۔۔ ۔۔ * جس نے ذات سے الگ کسی صفت سے اسے متصف کیا گویا اس نے اس کی حد بندی کر دی ۔ اور جس نے اسے محدود کیا وہ اسے عدد و شمار میں لے آیا ۔ اور جو اسے شمار میں لایا ۔اس نے تمام چیزوں کے مقابل اس کے ازلی و قدیم ھونے سے انکار کر دیا ۔۔۔ ھر وہ چیز جس کو لفظ ایک سے یاد کیا جائے کم ھے سوائے ذات احدیت کے ۔۔ جو باوجود اس کے کہ ایک ھے۔ اس کی وحدت کو کمی سے متصف نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ ھے کہ خدا کے علاوہ جو چیز بھی ایک ھے وہ کم بھی ھے ۔۔ یعنی وہ چیز ایسی ایک ھے کہ اس کے مثل دوسری چیز فرض کی جا سکتی ھے ۔۔ اس کا مثل ممکن ھے پس وہ خود محدود وجود ھے ۔۔ جو دوسری فرد کے اضافہ سے زیادہ ھو جاتا ھے ۔ لیکن ذات خدا ایک ھونے کے باوجود کمی و قلت سے موصوف نہیں ھوتی کیوںکہ اس کی وحدت وھی عظمت و جلالت اور اس کا لامتناہی ھونا ۔ اس کا لاثانی اور بے مثل و بے نظیر ھونا ھے ۔۔ * تمام تعریفیں اس خدا کے لیے جس کی کوئی صفت و حالت دوسری صفت و حالت پر مقدم نہیں ھے۔ کہ اس کا اول آخر سے قبل اور ظاہر باطن سے پہلے ظاہر رہا ھو ۔۔ اس کے علاوہ ہر ظاہر ۔ ظاہر ھونے کے ساتھ باطن نہیں ھو سکتا ۔ اور باطن پنہاں ھے تو ظاہر نہیں ھو سکتا ۔ لیکن وہ عین اس عالم میں کہ ظاہر ھے ۔ پنہاں بھی ھے ۔۔ اور عین اس حال میں پنہاں ھے ظاہر بھی ھے ۔۔۔۔۔۔ * نہ زمانے اس کی ھمراھی کرتے ھیں ۔۔ جہاں اس کی ذات ھے ۔۔ زمانہ کا ؤجود ھی نہیں ھے ۔۔ اور نہ آلآت و وسائل اس کے معاون و مددگار ھیں ۔ اس کی ھستی زمانے سے پیشتر ۔۔ اس کا وجود عدم سے سابق اور اس کی ھمیشگی ہر نقطہ آغاز سے پہلے ھے ۔۔ ۔ ذات خدا کا ہر زمانہ و عدم اور ہر ابتداء و آغاز پر تقدم الہٰی حکمت و نظر کی لطیف ترین فکروں میں سے ھے ۔۔ اور ذات حق کی ازلیت کے فقط یہ معنی نہیں کہ وہ ھمیشہ سے ھے ۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ھمیشہ سے ھے ۔۔لیکن ھمیشہ سے ھے کا مطلب یہ ھے ۔ کہ کوئی زمانہ نہیں پایا جاتا ۔۔ جس میں وہ موجود نہ رہا ھو ۔۔ جبکہ حق کی ازلیت ھمیشگی سے بالاتر ھے ۔۔ اس لیے کہ ھمیشہ ھونے کا لازمہ یہ ھے ۔ کہ زمانہ فرض کیا جائے ۔۔ اور ذات حق باوجودیکہ تمام زمانوں میں رھی ھے ۔۔ پھر بھی وہ تمام چیزوں یہاں تک کہ زمانہ پر بھی مقدم ھے ۔۔۔۔ اور اس کی ازلیت کے یہی معنی ھیں ۔۔۔ * تمام تعریف اس اللّٰہ کے لپے ھے جو خلق کائںنات سے اپنے وجود کا اور مخلوقات کے حدوث سے اپنے ازلی و قدیم ھونے کا ۔۔ اور مخلوقات میں باھمی مثل و شبآھت سے اپنے بے مثل و بے نظیر ھونے کا پتہ دیتا ھے ۔۔۔ ذات حق وجؤد محض اور فعلیت محض ھے اور کسی زمان و مکان میں محدود نہیں ھے ۔۔۔ اس لیے وہ ھمآرے حواس کے لحاظ سے پوشیدہ ھے ۔۔ لیکن خود اپنی ذات میں ظاہر و آشکار ھے ۔۔اس کا یہ کمال ظہور جو اس کے کمآل وجؤد سے مربؤط ھے اس کا ھمارے حوآس سے پنہاں ھونے کا سبب ھے ۔۔اس کا ظاہر و باطن ایک ھی ھے ۔۔ وہ اس جہت سے پنہاں ھے کہ بے انتہا آشکار ھے ۔۔ وہ اتنا زیآدہ ظاہر ھے کہ اپنے ظہور سے پنہاں ھو گیا ھے ۔۔ ۔۔۔ اے وہ ذات جو اپنے نور کی شدت کی بنا پر پنہاں ھے ۔۔ وہ اپنے ظاہر ھونے ہی میں ظاھر و پنہاں ھے ۔۔۔ ۔۔۔ یقیناً وہ خدائے واحد و قہار بے نیاز ۔۔ لا محدود اپنے ذات و صفات میں لا شریک اور احد و یکتا اور بے مثل و بے مثال اور ھر نقص و عیب سے منزہ و مبراء ہے ۔ برادران اس کے برعکس ہمارے برادران اھل سنت خدا کے بارے کیا عقیدہ رکھتے ہیں وہ کل انشاءاللہ شیئر کریں گے۔ ۔۔
Comments
Post a Comment