علم الرجال

**علم الرجال**

عِلْمُ الرِّجَالِ یعنی مردوں کا علم، اصطلاحا راویوں کا علم بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس علم میں ہم راویوں کے احوال دریافت کرتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ آیا وہ ثقہ، ضعیف، کذاب، وضاع، حسن الحال، ممدوح، وغیرہ میں سے کس کیٹگری کے تھے۔ نیز انکا طبقہ بھی معلوم ہوتا ہے اور کہ وہ کس امام کے صحابی تھے، کب ولادت ہوئی کب وفات ہوئی، اسکا طبقہ کیا ہے حدیث میں اور کس امام کا صحابی رہا ہے وغیرہ وغیرہ اور یہ تمام باتیں ہمیں رجال کی کتب میں ملتی ہیں۔ ویسے تو رجال پر خود أصحاب آئمہ ع نے بھی کتب لکھی تھیں، مثلا علی بن الحسن بن فضال یا عبداللہ بن جبلہ، یا امام علی ع کے صحابی عبید اللہ بن ابی رافع نے، لیکن وہ کتب مفقود ہیں، جو رجال کی متقدمین میں سے بنیادی کتب یہ ہیں:

**کتب رجال**

۱۔ رجال النجاشي
۲۔ رجال الطوسي
۳۔ رجال الکشي، یہ کتاب در اصل شیخ طوسی نے تصحیح کی تھی کشی کی اصل کتاب کی اور آج جو ہمارے پاس کتاب ہے اسکا نام ہے إختيار معرفة الرجال۔
۴۔ فهرست لشيخ الطوسي
۵۔ رجال البرقي، اس کتاب کا فائدہ طبقات کے حوالے سے زیادہ ہے، کیونکہ اس میں توثیق صرف تین لوگوں کی ہوئی ہے بارہ سو سے زیادہ میں سے۔
۶۔ رجال ابن الغضائري، اس کتاب پر بعض اعتبار نہیں کرتے کیونکہ یہ ہم تک متصل سند سے نہیں آئی، مگر بہت سے فقہاء اسکی حجیت کے قائل بھی ہیں مثلا آیت اللہ سیستانی

یہ قدماء کی رجال کی کتب ہیں، اسکے علاوہ متواسطین کے دور میں یعنی چوتھی سے نوویں صدی ہجری میں لکھی گئی کچھ رجال کی کتب یہ ہیں:

۱۔ فهرست منتجب الدين
۲۔ التحرير الطاووسي، سید ابن طاوس
۳۔ خلاصة الأقوال، علامہ حلی
۴۔ رجال ابن داود، ابن داود حلی

اسکے علاوہ جو کچھ لکھا گیا یعنی نویں صدی کے بعد سے اسکو متاخرین میں شمار کیا جاتا ہے، جس میں بہت سی کتب لکھی گئیں مثلا علامہ مامقانی کی رجال کی کتاب، سید خوئی کی معجم رجال الحدیث جو کہ بہت ہی بہترین رجال کی کتاب ہے اور شاید احادیث کی اسانید کے تقریبا ہر راوی پر بحث کی گئی ہے اس میں، بہت کم ہے کہ کوئی راوی مہمل ہو اس سے۔

علم الرجال کا بنیادی ہدف ہوتا ہے جرح اور تعدیل کرنا، جرح کا مطلب ویسے تو چوٹ پہنچانا ہے مگر ادھر اس سے مراد ہے کسی کی تنقید کرنا، یہ مختلف اقسام میں ہو سکا ہے، بسا اوقات جرح کی جگہ لفظ قدح بھی استعمال ہوجاتا ہے، یا پھر ذم یعنی مذمت، الغرض اسکی تضعیف کی جاتی ہے یا تکذیب، تضعیف کرنا یعنی اسکو ضعیف کہنا اور تکذیب کرنا یعنی اسکو کذاب کہنا۔ تعدیل سے مراد ہے کسی راوی کے عدل کی بات کرنا، یعنی اسکی مدح کرنا یا توثیق کرنا مختلف ذرائع سے۔ توثیق یعنی اس راوی کو ثقہ (قابل اعتبار کہنا)۔ ثقہ ہم اس راوی کو کہتے ہیں جو عادل ہو، حافظ ہو اور صدوق (سچا) بھی ہو، یعنی یہ تینوں صفات اس میں پائی جاتی ہوں۔ عموما جب کسی کی توثیق یا تضعیف دیکھنی ہوتی ہے تو ہم رجال کی کتب سے رجوع کرتے ہیں، خصوصا رجال نجاشی سے کیونکہ نجاشی کے قول کو بہت سوں کے قول پر فوقیت حاصل ہے، یہ یاد رہے کہ اگر تعارض یعنی تضاد واقع ہوجائے تو نجاشی کے قول کو فوقیت حاصل ہے۔ ایک اور طریقہ توثیق اور تضعیف خود آئمہ ع کی احادیث کے ذریعہ ہے، جیسے اگر کوئی امام کسی کو جنتی کہے یا رحمت خداوند کی دعاء کرے تو یہ اسکا عادل ہونے کا قرینہ ہے۔ یہ بات صحیح سند سے ثابت ہونی چاہئیے معتبر ہونے کیلئے، ایک حدیث صحیح کیسے شمار ہوتی ہے اس پر بھی بات کریں گے۔ مگر یہ واضح رہے کہ ایک راوی کی خود کیلئے ہی روایت کرنا توثیق یا تعدیل کی کافی نہیں ہے اور یہ قبول نہیں کی جاتی کیونکہ یہ “دور” کا مغالطہ واقع ہوجاتا ہے۔ شیخ کشی کی کتاب کا طریقہ یہی ہے کہ انہوں نے ہر راوی کے احوال کا تذکرہ کرنے کیلئے اسکے متعلق احادیث نقل کی ہیں آئمہ ع سے جس سے اسکی توثیق یا تضعیف کا علم ہوتا ہے ہمیں۔ جیسے معلی بن خنیس کی بات ہے جس پر نجاشی اور ابن غضائری دونوں نے جرح کی ہے اور ضعیف کہا ہے، اسکے باوجود اسکو علماء رجال نے ثقہ کہا ہے وہ اس لیئے کیونکہ اسکی مدح میں آئمہ ع سے صحیح اسانید سے نو روایات ہیں جس میں اسکو جنتی کہا ہے اور مدح کی ہے۔ جرح کی اقسام میں کسی شخس کو فاسد المذہب، یا ضعیف، یا غالی، وغیرہ کہنا شامل ہے۔ بعض ایسے راوی ہیں جنکی روایات میں احتیاط ضروری ہے کیونکہ انکی کتب میں اضافہ کیا گیا یا جس کو وہ روایت کرنے میں اکیلے ہوں۔ 

**احادیث کی بنیادی اقسام**

احادیث کی ویسے تو بہت سی اقسام ہیں جیسے معضل، مستفیض، متواتر، مرسل، منقطع، مقطوع، مؤول، متصل، موقوف وغیرہ وغیرہ، مگر انکو بالآخر چار بنیادی اقسام میں سے ایک میں رکھا جاتا ہے، جب ہم "سند" کہتے ہیں یا "اسناد" کہتے ہیں تو اسکا مطلب اردو والا سند یعنی certificate نہیں ہوتا، بلکہ سند کا مطلب ہوتا ہے ایک chain of narration جو کتب کے لکھنے والے سے لیک معصوم ع تک جاتا ہے، اور عموما پانچ چھے لوگ انکے درمیان ہوتے ہیں جن سے منتقل ہوتے ہوتے بالآخر جمع ہوئیں یہ روایات، یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھی کیونکہ بعض کو اس میں بھی اشتباہ ہے، چار احادیث کی بنیادی اقسام یہ ہیں:

۱۔ صحیح حدیث، یہ وہ حدیث ہے جس کے تمام راوی ثقہ اور امامی ہیں، اور سند متصل ہے مصنف کتاب سے لیکر امام ع تک۔
۲۔ حسن (اچھی) حدیث، یہ وہ حدیث ہے جس میں کچھ راوی ثقہ امامی ہیں اور باقی ممدوح ہیں، یا سارے ثقہ ہیں اور ایک ممدوح ہے اور سند متصل ہے الخ، جسکے سبب روایت حسن ہوجاتی ہے۔
۳۔ مؤثق حدیث، یہ وہ حدیث ہے جسکے تمام راوی ثقہ ہیں، سوائے یہ کہ بیچ میں کوئی راوی ہے جو کسی اور فرقے کا ہے یعنی عامی ہے، جسکی وجہ سے حدیث مؤثق ہوجاتی ہے صحیح کی بجائے۔
۴۔ ضعیف حدیث، یہ وہ حدیث ہے جسکی سند میں مسئلہ ہے۔ مثلا متصل نہ ہو بیچ میں ارسال ہو یعنی مرسل ہو، یعنی ایک راوی کہہ رہا ہے میں فلاں بندے سے سنا ہے اور اسکا نام نہ لے جس نے امام ع سے سنا، تو بیچ میں کون بندہ ہے ہم نہیں جانتے اور مجھول راوی آنے کے سبب سند ضعیف ہے، ایسے ہی اگر کوئی کذاب یا وضاع (گھڑنے والا) یا ضعیف راوی ہو تو سند ضعیف ہوجاتی ہے۔ ضعیف حدیث کی ایک قسم موضوع بھی ہے، یعنی من گھڑت، جعلی روایت۔ ہمارے پاس کسی کو ثقہ کہنے کے یا ضعیف کہنے کے مختلف طریقے ہیں، یا تو کسی عادل کی گواہی ہو (اس صورت میں نجاشی کا طوسی کی جرح یا تعدیل)، یا پھر ہم تک ایک متصل سند سے کسی راوی پر جرح یا تعدیل پہنچے، بہت سی روایات میں خود آئمہ ع نے بہت سے راویوں کی مدح یا پھر قدح کی ہے۔ تو ضروری ہے کہ ضعیف حدیث کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ روایت بالکل ہی جعلی ہے، بلکہ اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس روایت کا صدور قطعی نہیں ہے بلکہ ظنی ہے اور امکان کم ہے، لہذا جب ہم کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ گھڑی ہوئی حدیث ہے، یہ پوائنٹ بہت اہم ہے۔

**اصحاب اجماع**

یہ وہ افراد ہیں جنکی وثاقت (ثقہ ہونے) پر سب کا اجماع ہے شیخ کشی کے دعوے کے مطابق۔ اس میں امام باقر، امام صادق کے چھے اصحاب، امام کاظم ع کے چھے اصحاب اور امام رضا ع کے چھے اصحاب آتے ہیں۔ شیخ کشی انکا تعارف کراتے ہیں: 

اجتمعت العصابة على تصديق هؤلآء الأوّلين من أصحاب أبي جعفر وأصحاب أبي عبد الله عليه‌السلام وانقادوا لهم بالفقه ، فقالوا : أفقه الأوّلين ستّة : زرارة ومعروف بن خرّبوذ وبريد وأبو بصير الأسدي ، والفضيل بن يسار [. و] ومحمّد بن مسلم الطائفي ، قالوا : وأفقه السّتّة : زرارة. وقال بعض : مكان أبي بصير الأسدي أبي بصير المرادي ، وهو : ليث بن البختري.

گروہ (شیعوں) کا اجماع ہے ان کی تصدیق کا جو پہلے ہیں امام باقر اور امام صادق ع کے اصحاب میں سے اور فقہ میں ان کو تسلیم کرتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں: پہلوں میں سب سے فقیہ ہیں: زرارہ اور معروف خربوذ اور برید اور ابو بصیر اسدی، اور فضیل بن یسار، اور محمد بن مسلم طائفی اور کہتے ہیں کہ ان چھے میں سے سب سے فقیہ ہیں: زرارہ۔ اور بعض نے ابو بصیر اسدی کی جگہ ابو بصیر مرادی کو رکھا ہے، اور وہ لیث بن بختری ہے۔

اختيار معرفة الرجال، الرقم: 431

اسکے بعد لکھتے ہیں:

أجمعت العصابة على تصحيح ما يصحّ عن هؤلآء وتصديقهم لما يقولون ، وأقرّوا لهم بالفقه من دون أولئك السّتّة الّذين عددناهم وسمّيناهم ستّة نفر : جميل بن دراج وعبد الله بن مسكان وعبد الله بن بكير وحماد بن عثمان ، وحمّاد بن عيسى وأبان بن عثمان. [و] قالوا : وزعم أبو إسحاق الفقيه وهو ثعلبة بن ميمون أنّ أفقه هؤلآء : جميل بن دراج. وهم أحداث أصحاب أبي عبد الله عليه‌السلام.

گروہ (شیعوں) کا اجماع ہے اس کو درست ماننے کا جو ان سے صحیح ہو اور انکی تصدیق میں جو وہ کہتے ہیں، اور انکا فقہ میں اقرار کرتے ہیں اُن چھے کے علاوہ جنکو ہم نے گنا اور نام لیا، چھے لوگ: جمیل بن دراج، عبد اللہ بن مسکان، عبد اللہ بن بکیر، حماد بن عثمان، حماد بن عیسی، ابان بن عثمان۔ اور کہتے ہیں: اور ابو اسحاق الفقیہ جو کہ ثعلبہ بن میمون تھا کہتے ہیں کہ ان میں سے سب سے فقیہ تھے: جمیل بن دراج۔ اور وہ سب امام صادق ع کے شاگرد ہیں۔

اختيار معرفة الرجال، الرقم: 705

أجمع (اجتمع) أصحابنا على تصحيح ما يصحّ عن هؤلآء وتصديقهم وأقرّوا لهم بالفقه والعلم ، وهم ستّة نفر آخر دون السّتّة نفر (النفر) الّذين ذكرناهم في أصحاب أبي عبد الله عليه‌السلام ، منهم : يونس بن عبد الرحمن وصفوان بن يحيى بياع السّابري ، ومحمّد بن أبي عمير وعبد الله بن المغيرة ، والحسن بن محبوب وأحمد بن محمّد بن أبي نصر. وقال بعضهم : مكان الحسن بن محبوب ، الحسن بن علي بن فضّال ، وفضّالة بن أيوب. وقال بعضهم : مكان فضالة بن أيّوب عثمان بن عيسى ، وأفقه هؤلآء يونس بن عبد الرحمن وصفوان بن يحيى.

ہمارے اصحاب کا اجماع ہے اس بات کو درست کہنے کا جو ان سے صحیح ہو اور انکی تصدیق کرنا اور فقہ و علم میں انکا اقرار کرنا، اور وہ چھے الگ لوگ ہیں ان چھے سے الگ جنکا ہم نے ذکر کی امام صادق ع کے اصحاب میں سے۔ ان میں سے ہیں: یونس بن عبد الرحمان، صفوان بن یحیی بیاع سابری، محمد بن ابی عمیر، عبد اللہ بن مغیرہ، حسن بن محبوب، احمد بن محمد بن ابی نصر۔ اور بعض نےکہا ہے کہ حنس بن محبوب کی جگہ حسن بن علی بن فضال ہیں اور فضالہ بن ایوب۔ اور بعض نے کہا کہ فضالہ بن ایوب  کی جگہ عثمان بن عیسی ہیں۔ اور ان میں سے سب سے فقیہ یونس بن عبد الرحمان اور صفوان بن یحیی ہیں۔

أصحاب اجماع کے متعلق مختلف آراء ہیں، شیخ کشی کے جملوں کو کچھ نے اس طرح لیا ہے کہ جس بھی سند میں أصحاب اجماع میں سے کوئی آجائے تو چاہے سند میں آگے پیچھے ضعیف راوی بھی ہوں تو وہ روایت صحیح ہوتی ہے، ایک اور گروہ نے کہا ہے کہ أصحاب اجماع تک اگر سند صحیح ہو تو آگے بیشک ضعیف راوی ہو تو سند صحیح رہتی ہے کیونکہ ان افراد نے اسکو روایت کیا ہے، ایک تیسرا گروہ کہتا ہے کہ أصحاب اجماع چاہے سند میں ہوں، روایت تب ہی صحیح ہوگی جب تمام راوی ثقہ اور صدوق ہوں۔ ہم اس تیسری رائے کے قائل ہیں اور یہی نظریہ سید خوئی وغیرہ کا رہا ہے۔

اس میں سے تین ایسے ہیں جنکی مرسل روایت کو بھی بعض نے قبول کیا ہے، وہ یہ تین ہیں:

۱۔ صفوان بن یحیی، امام صادق ع کے صحابی
۲۔ محمد بن ابی عمیر، امام کاظم ع کے صحابی
۳۔ احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی، امام رضا ع کے صحابی

یہ بات شیخ طوسی اپنی عدة الأصول میں ذکر کرتے ہیں:

سوت الطائفة بين ما يرويه محمد بن أبي عمير (١) وصفوان بن يحيى (٢)، وأحمد بن محمد ابن أبي نصر (٣) وغيرهم من الثقات الذين عرفوا بأنهم لا يروون ولا يرسلون الا عمن (٤) يوثق به وبين ما أسنده غيرهم

اور طائفہ (شیعوں) نے تفریق کی ہے اسکے درمیان جو باقیوں نے روایت کیا ہے اور محمد بن ابی عمیر، صفوان بن یحیی، احمد بن محمد بن ابی نصر وغیرھم نے روایت کیا ہے ثقات میں سے، جنکا جانا جاتا ہے کہ وہ روایت نہیں کرتے اور ارسال نہیں کرتے مگر ان سے جو ثقہ ہوں۔

عدة الأصول، طبع جديد، ج 1، ص 154، طبع قدیم، ج 1، ص 387

**تَرَضّي اور تَرَحُّم**

ترضی، یعنی کسی کو رضی اللہ عنہ کہنا
ترحم، یعنی کسی کو رحمہ اللہ کہنا

بعض علماء نے کثرت سے ترضی اور ترحم کو مدح کی نشانی لیا ہے، اس وجہ سے بعض نے شیخ صدوق کے مشائخ (اساتید) کو ممدوح قرار دیا ہے در حالیکہ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو مجھول الحال ہیں اگر ترضی اور ترحم کو نہ دیکھا جائے، کیونکہ انکی توثیق اور کہیں سے نہیں ملتی ہمیں کتب رجال میں۔ اس پر اختلاف ہے مگر ہمارے نزدیک قول صائب ہے کہ ترضی اور ترحم کو قبول کیا جائے شیخ صدوق کے مشائخ کی۔ مثلا احمد بن محمد بن یحیی کو شیخ صدوق نے 200 سے زیادہ مقامات پر رحمہ اللہ اور رضی اللہ عنہ کہا ہے، تو یہ ہمیں انکا حسن حال کا قرینہ دیتا ہے۔ شیخ آصف محسنی بھی اس سے اتفاق رکھتے ہیں کہ کثرت سے ترضّی اور ترحّم ایک شخص کے حسن الحال کی علامت ہے۔

**توثیق خاص**

توثیق خاص سے مراد ہے خصوصی طور پر کسی راوی کی توثیق کرنا ہے، جیسے نجاشی یا طوسی، یا کشی وغیرہ کسی راوی کو خصوصی طور پر ثقہ کہیں تو یہ توثیق خاص شمار ہوگا۔

**توثیق عام**

توثیق عام ایسی توثیق ہے جب ایک بڑے گروہ کو ثقہ کہا جائے۔ جیسے بعض مثلا سید خوئی کے نزدیک تفسیر قمی کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اس بات کی دلیل وہ تفسیر قمی کے مقمہ میں موجود بات کو بناتے ہیں جس میں لکھا ہے:

ونحن ذاكرون ومخبرون بما ينتهي إلينا ورواه مشائخنا وثقاتنا عن الّذين فرض الله طاعتهم

اور ہم اسکے ذکر کرنے والے اور خبر دینے والے ہیں جو ہم تک آیا ہے اور اسکو روایت کیا ہے ہمارے مشائخ اور ہمارے ثقات (ثقہ کا جمع) نے ان سے جنکی اطاعت اللہ نے فرض کی ہے (آئمہ ع)۔

تفسير القمّي : ٤ / ١ ـ الطبعة الحديثة

سید خوئی نے اس سے یہ اخذ کیا کہ تمام راوی جو متصل سند سے امام ع تک پہنچتے ہیں وہ ثقہ ہیں، سوائے اسکے کہ ان پر کسی اور کی طرف سے جرح وارد ہوئی ہو، کہا جاتا ہے کہ اگر تفسیر قمی کے روایوں کو ثقہ مانا جائے علی بن ابراہیم کی توثیق عام سے تو 250 سے زائد مجھول راوی ثقہ ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی شیخ طوسی نے ایک راوی کا کہا ہے:

وله كتب في الفقه رواها عن الرجال الموثوق بهم وبرواياتهم. الفهرست : 118

اسکی کتاب ہے فقہ کے متعلق، اسکو ایسے لوگوں نے روایت کیا ہے جو قابل اعتبار ہیں اور انکی روایات بھی (معتبر ہیں)۔

حسن بن علی طاطاری کے متعلق لکھا ہے یہ، اس سے کچھ نے یہ مطلب لیا کہ جس سے بھی اس نے روایت کی ہے وہ ثقہ ہے، یہ بھی توثیق خاص ہوگئی۔ 

ایسے ہی نجاشی نے جعفر بن بشیر کے ترجمہ (entry) میں درج کیا ہے:

روى عن الثّقات ورووا عنه

وہ ثقات لوگوں سے روایت کرتا تھا اور وہ (ثقات) اس سے روایت کرتے تھے۔

یا پھر نجاشی رافع بن سلمہ کے متعلق لکھتے ہیں:

ثقة من بيت الثقات وعيونهم.



وہ ثقہ تھا، ثقہ لوگوں کے گھر سے اور انکی آنکھ۔


تو ادھر بھی ایک توثیق عام آگئی بلکہ رافع بن سلمہ کے تو پورے گھر کی توثیق عام ہوئی ہے، ایسے ہی بعض نے ابن قولویہ کی کتاب کامل الزیارات سے بھی اخذ کیا ہے کہ اسکے تمام راوی ثقہ ہیں، سید خوئی کے یہ رائے تھی مگر بعد میں انہوں نے اس سے رجوع کرلیا اور صرف مشائخ ابن قولویہ تک محدود کردیا اس بات کو۔

**مشائخ الاجازہ**

مشائخ الاجزہ ایسے مشائخ ہیں جنکو احادیث روایت کرنے کی اجازت ملی ہو، بعض نے اسکو بھی ایک توثیق سمجھا ہے کہ اگر کوئی شیخ الاجازہ ہو تو وہ ثقہ اور قابل اعتبار ہے تبھی اسکو اجازت دی گئی ہے روایت کرنے کی۔

**علم الرجال اور علم الدرایة کا فرق**

ایک بنیادی بات یہ ہے کہ متاخرین کی رائے اجتہادی ہوتی ہے اور ان تک ہی محدود ہے۔ نیز، درایة یا درایت کا مطلب ہے کسی چیز کی سمجھ بوجھ، اسکا know-how اور حذق ہے، کہ وہ کیسے چلتا ہے اور کیا طریقہ کار ہے اسکا۔ جبکہ علم الرجال کے متعلق ہم وضاحت کر چکے۔ درایت الحدیث میں ہم حدیث کے متن اور سند دونوں کو دیکھ کر اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ آیا روایت صحیح ہے یا نہیں، مؤثق ہے، حسن ہے یا کیا ہے۔ کہ اگر سب راوی ثقہ امامی ہیں تو حدیث صحیح ہے۔ مگر ہمیں کیسے پتا سب راوی ثقہ ہیں، یہی علم الرجال کا کام ہے۔ یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ جو بھی حدیث قرآن سے ٹکرائے وہ متروک ہے، چاہے سند صحیح بھی ہو، کیونکہ ایک ثقہ راوی بھی غلطی کر سکتا ہے، ایسے ہی کوئی سنت عمل آجائے کسی روایت میں تو اس پر عمل کیا جا سکتا ہے تسامح کے تحت، یہ بات بھی ضروری ہے یاد کرنا کہ ایک ضعیف راوی بھی سچ بول سکتا ہے۔ در اصل ایک حدیث کے ضعیف ہونے کا مطلب یہ نہیں وہ گھڑی ہوئی ہے، اسکا صف اتنا مطلب ہے کہ اسکا معصوم سے صدور کا امکان کم ہے بنسبت ایسی روایت کے جو صحیح ہو۔ اس سے بڑھ کر جو روایت متواتر ہوجائے اسکے صدور میں شک نہیں رہتا۔ متواتر ایسی روایت ہے جوبہت ساری اسانید (إسناد کا جمع) سے ہم تک آئی ہو۔ 

**علم الرجال کی ابتداء کب ہوئی**

بعض اخباری حضرات کے نزدیک علم الرجال ایک بدعت ہے اور اس سے دور رہنا چاہئیے، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ علم الرجال شروع سے ہی ہمارے درمیان رہا ہے۔ نجاشی اور طوسی نے اپنی فہارس کے شروعات میں واضح کیا ہے کہ یہ پہلی فہرستیں نہیں ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی علماء اس پر لکھ چکے تھے۔ یعنی علم الرجال شروع سے ہی ہمارے گرد رہا ہے۔ جیسے عبید اللہ بن ابی رافع، امام علی ع کے صحابی، نے کتاب لکھی ان لوگوں پر جنہوں نے امام علی ع کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا، آقا بزرگ طہرانی کے مطابق انکا مقصد ان لوگوں کی مدح کرنا بھی تھا تبھی انکا نام شامل کیا اس کتاب میں، اسکے علاوہ آئمہ ع کے بعض اصحاب نے رجالی کتب لکھی ہیں مثلا جو 219 اور 224 ہجری میں فوت ہوئے ہیں جیسا کہ نجاشی نے ذکر کیا ہے، تو یہ سلسلہ آئمہ ع کے ادوار سے رہا ہے۔ نیز، آئمہ ع نے بعض لوگوں کو خود ثقہ کہا ہے مثلا یونس بن عبد الرحمان کے متعلق ایسی روایت موجود ہے، اور بعض کو گھڑنے والا کہا ہے حدیث کا مثلا مغیرہ بن سعد کے متعلق ایسی روایات صحیح سند سے ملتی ہیں۔ ہاں البتہ یہ یاد رہے کہ علم الرجال سب کچھ ہی نہیں ہے اور اس کو ہی سب کچھ نہ بنا لیا جائے، یہ فقط ایک قرینہ ہے بہت سے قرائن میں سے جو ہمارے پاس ہیں، کیونکہ علم الرجال کے اطلاق کی بساط پر بھی اختلاف رہا ہے اور قدماء اور متاخرین میں صحیح حدیث کی تعریف اور احادیث کی اقسام میں بھی اختلاف رہا ہے۔ اگر ہم متقدمین مثلا شیخ صدوق اور طوسی کو دیکھیں تو انہوں نے بھی جرح و تعدیل کی ہے راویوں پر اپنی احادیث کی کتب میں، تو یہ علم الرجال کوئی نئی اختراع نہیں ہے بلکہ شروع سے ہی چلی آرہی ہے۔ مثلا شیخ صدوق لکھتے ہیں ایک حدیث نقل کرنے کے بعد:

فَإِنَّ شَيْخَنَا مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ لَا يُصَحِّحُهُ وَ يَقُولُ إِنَّهُ مِنْ طَرِيقِ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى‌ الْهَمْدَانِيِّ وَ كَانَ كَذَّاباً غَيْرَ ثِقَةٍ


کیونکہ ہمارے استاد محمد بن حسن رضی اللہ عنہ اس حدیث کو صحیح نہیں مانتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ محمد ابن موسیٰ الھمدانی کے طریق (سند) سے ہے اور وہ کذاب اور غیر ثقہ ہے. من لا يحضره الفقيه، ج 2، ص 90

یہ کچھ بنیادی باتیں تھیں جنکا ہم نے ذکر کیا ہے اس علم کے متعلق جو بہت مفید ہے اور اسکا خصوصی اطلاق فقہ اور عقیدہ کی روایات میں زیادہ ہوتا ہے، چونکہ اس پر بھی ایک گفتگو ہے کہ علم الرجال کا اطلاق کس حد تک ہے، آیا ہر چیز میں کیا جائے یا مخصوص میں۔ کچھ نے اسکو بالکل ترک کیا تھا مثلا اخباری جنہوں نے کہا کہ کم از کم کتب اربعہ کی تمام احادیث صحیح ہیں بالکل، اور کچھ نے اسکو ہر ایک چیز میں لاگو کیا، ایک اور گروہ نے اسکو محدود حد تک استعمال کیا مثلا فقہ اور عقیدہ کی روایات کو پرکھنے کیلئے، کیونکہ سب سے زیادہ گھڑی ہوئی روایات، تقیہ میں فرمائی گئیں یا پھر تنقاضات ان میں ہی ہیں۔ ہم اس بات سے ہی متفق ہیں اور سمجھتے ہیں کہ علم الرجال ایک نفع بخش ذریعہ ہے، مگر منزل نہیں ہے، اس سے آپ بہت سے مسائل حل کر سکتے ہیں مگر ہر چیز میں بھی اسکا استعمال درست نہیں، مثلا تاریخی روایات، یا اخلاقی روایات یا پھر دعاوں میں اسکا شدت سے استعمال کرنا۔

خاکسار: سید علی اصدق نقوی

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات