قتل حضرت عثمان بن عفان ر اور عبد الله بن سبأ

قتل حضرت عثمان بن عفان ر اور عبد الله بن سبأ

اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ﴿۶﴾ ۶۔

 اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کر لیا کرو، کہیں نادانی میں تم کسی قوم کو نقصان پہنچا دو پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔
سورہ الحجرات آیت 6 
شان نزول کے بارے میں اکثر مفسرین مورخین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ واقعہ یہ ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو قبیلہ بنی مصطلق سے زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ ان کے نزدیک پہنچ کر خوف کے مارے واپس آ گیا (کیونکہ زمان جاہلیت میں ولید اور بنی مصطلق کے درمیان دشمنی تھی۔) ولید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: وہ زکوٰۃ دینے سے انکار کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رنجیدہ ہوئے اور ان کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ کر لیا اور بنی مصطلق سے فرمایا:

لتنتھن او لا بعثن الیکم رجلا کنفسی یقاتل مقاتلتکم و یسبی ذراریکم۔
ثم ضرب یدہ علی کتف علی رضی اللہ عنہ۔ (الکشافذیل آیہ)
تم باز آجاؤ ورنہ میں ایسے فرد کو تمہاری طرف روانہ کروں گا جو میرے نفس کی طرح ہے جو تمہارے لڑنے والوں سے لڑے گا اور تمہارے بچوں کو قیدی بنائے گا۔ یہ کہہ کر حضرت علی علیہ السلام کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا..

ولید بن عقبہ حضرت عثمان کا سوتیلا بھائی تھا اس نے فتح مکہ کے بعد ایمان کا اظہار کیا۔ سعد بن ابی وقاص کے بعداسے عثمان نے کوفے کا گورنر بنایا..

ولید بن عقبہ اور شراب کی نشے میں نماز..

حصین بن منذر سے روایت ہے، میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو لے کر آئے انہوں نے صبح کی دو رکعتیں پڑھیں تھیں پھر کہا: میں زیادہ کرتا ہوں تمہارے لیے تو دو آدمیوں نے ولید رضی اللہ عنہ پر گواہی دی۔ ایک تو حمران نے کہ اس نے شراب پی ہے۔ دوسرے نے یہ گواہی دی کہ وہ میرے سامنے قے کر رہا تھا شراب کی۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر اس نے شراب نہ پی ہوتی تو قے کاہے کو کرتا شراب کی۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کہا: اٹھو اس کو حد لگاؤ۔ (یہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عزت اور عظمت بڑھانے کے لیے حکم دیا اور امام کو یہ امر جائز ہے) سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے حسن! اٹھ اور اس کو کوڑے لگا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: عثمان خلافت کا سرد لے چکے ہیں تو گرم بھی انہیں پر رکھو۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس بات پر غصہ ہوئے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ پر اور کہا: اے عبداللہ بن جعفر! اٹھ اور کوڑے لگا ولید رضی اللہ عنہ کو وہ اٹھے اور ولیدرضی اللہ عنہ کو کوڑے لگائے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ گنتے جاتے تھے جب چالیس کوڑے لگائے پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: بس ٹھر جا پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس کوڑے لگائے اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی چالیس لگائے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی لگائے اور سب سنت ہیں اور میرے نزدیک چالیس لگانا بہتر ہے۔ علی بن حجر نے اپنی روایت میں اضافہ کیا: اسماعیل نے کہا: میں نے داناج کی حدیث ان سے سنی تھی لیکن اسے یاد نہیں رکھ سکا۔
صحیح مسلم رقم حدیث 4457

فتح مکہ کے دن رسول الله ﷺ نے چار مردوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا .. ان میں سے ایک حضرت عثمان کا رشتہ دار عبد الله بن ابی سرح تھا جس کو حضرت عثمان نے رسول الله ﷺ کے حکم نافرمانی کرتے ہوئے اسے پناہ دی اور رسول اللہ ﷺ کے تین بار منع کرنے کے باوجود اصرار کرتے رہے کہ اسکو معاف کردے...!
سنن نسائی کی حدیث ہے کہ 
جب فتح مکہ کا دن آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو امان دے دی، سوائے چار مرد اور دو عورتوں کے، اور فرمایا: ”انہیں قتل کر دو چاہے تم انہیں کعبہ کے پردے سے چمٹا ہوا پاؤ“، یعنی عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ۱؎۔ عبداللہ بن خطل اس وقت پکڑا گیا جب وہ کعبے کے پردے سے چمٹا ہوا تھا۔ سعید بن حریث اور عمار بن یاسر ( رضی اللہ عنہما ) اس کی طرف بڑھے، سعید عمار پر سبقت لے گئے، یہ زیادہ جوان تھے، چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا، مقیس بن صبابہ کو لوگوں نے بازار میں پایا تو اسے قتل کر دیا۔ عکرمہ ( بھاگ کر ) سمندر میں ( کشتی پر ) سوار ہو گئے، تو اسے آندھی نے گھیر لیا، کشتی کے لوگوں نے کہا: سب لوگ خالص اللہ کو پکارو اس لیے کہ تمہارے یہ معبود تمہیں یہاں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ عکرمہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر سمندر سے مجھے سوائے توحید خالص کے کوئی چیز نہیں بچا سکتی تو خشکی میں بھی اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔ اے اللہ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر تو مجھے میری اس مصیبت سے بچا لے گا جس میں میں پھنسا ہوا ہوں تو میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤں گا اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا اور میں ان کو مہربان اور بخشنے والا پاؤں گا، چنانچہ وہ آئے اور اسلام قبول کر لیا۔ رہا عبداللہ بن ابی سرح، تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس چھپ گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا۔ تو عثمان ان کو لے کر آئے اور اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لا کھڑا کر دیا اور بولے: اللہ کے رسول! عبداللہ سے بیعت لے لیجئے، آپ نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی طرف تین بار دیکھا، ہر مرتبہ آپ انکار کر رہے تھے، لیکن تین مرتبہ کے بعد آپ نے اس سے بیعت لے لی، پھر اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”کیا تم میں کوئی ایک شخص بھی سمجھ دار نہ تھا جو اس کی طرف اٹھ کھڑا ہوتا جب مجھے اس کی بیعت سے اپنا ہاتھ کھینچتے دیکھا کہ اسے قتل کر دے؟“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں کیا معلوم کہ آپ کے دل میں کیا ہے؟ آپ نے اپنی آنکھ سے ہمیں اشارہ کیوں نہیں کر دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی نبی کے لیے یہ مناسب اور لائق نہیں کہ وہ کنکھیوں سے خفیہ اشارہ کرے“۔ 
سنن نسائی رقم حدیث 4072

انہوں نے سورۃ النحل کی اس آیت: «من كفر باللہ من بعد إيمانه إلا من أكره‏» ”جس نے ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کیا سوائے اس کے جسے مجبور کیا گیا ہو … ان کے لیے درد ناک عذاب ہے“ ( النحل: ۱۰۶ ) کے بارے میں کہا: یہ منسوخ ہو گئی اور اس سے مستثنیٰ یہ لوگ ہوئے، پھر یہ آیت پڑھی: «ثم إن ربك للذين هاجروا من بعد ما فتنوا ثم جاهدوا وصبروا إن ربك من بعدها لغفور رحيم» ”پھر جو لوگ فتنے میں پڑ جانے کے بعد ہجرت کر کے آئے، جہاد کیا اور صبر کیا تو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے“ ( النحل: ۱۱۰ ) اور کہا: وہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح تھے جو ( عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ) مصر کے والی ہوئے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منشی تھے، انہیں شیطان نے بہکایا تو وہ کفار سے مل گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن حکم دیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے تو ان کے لیے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے پناہ طلب کی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پناہ دے دی ۱؎۔
سنن نسائی رقم حدیث 4074

ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے یزید بن ابی سفیان سے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌سے سنا فرما رہے تھے: پہلا شخص جو میری سنت(طریقے)کو تبدیل کرے گا بنو امیہ میں سے ہوگا۔
سلسلہ الصحیحۃ رقم حدیث 2964

عمرو بن مرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کی ، کہا : ( ایک مرتبہ ) مقام عسفان پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکھٹے ہوئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج تمتع سے یا ( حج کے مہینوں میں ) عمرہ کرنے سے منع فرماتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا : آپ اس معاملے میں کیا کرنا چاہتے ہیں جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے منع فرماتے ہیں؟حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا : آپ اپنی ر ائے کی بجائے ہمیں ہماری رائے پر چھوڑ دیں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ( آپ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کےخلاف حکم دے رہے ہیں ) میں آپ کو نہیں چھوڑ سکتا ۔ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ( اصرار ) دیکھا توحج وعمرہ دونوں کا تلبیہ پکارنا شروع کردیا ( تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق تمتع بھی رائج رہے ۔
صحیح مسلم  رقم حدیث 2964

حضرت عثمان کے تالیف قلب کے لئے لگائے گئے بنی امیہ کے گورنروں کے غیر اخلاقی حرکتیں کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اجمعین حضرت عثمان سے ناراض تھے 
بالآخر یہی معاملات قتل حضرت عثمان کی سبب بنی
قتل عثمان کو عبد اللہ بن سبأ کے ساتھ جوڑنا صحیح الاسناد احادیث اور مستند تاریخ کو چھوپنا ہے اسلئے ایک فرضی داستان عبد الله بن سبأ کو گھڑ لیا گیا...
#طوسی

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات