صحیح مسلم میں معاویہ کی فضیلت

صحیح مسلم میں معاویہ کی فضیلت میں بیان ہونی والی حدیث کا ایک تحقیقی جائزہ
تحریر: سید علی حمزہ رضوی

یزید ، معاویہ اورابوسفیان یہ تینوں ایسے لوگ ہیں جنکی فضیلت میں مکتب اہل سنت میں کوئی ایک بھی صحیح السند حدیث وارد نہیں ہوئی۔ صرف ایک حدیث صحیح المسلم میں ابوسفیان کی فضیلت میں ذکر ہوئی ہے اسی میں معاویہ کا ذکر بھی ہے اس لیئے اس حدیث پر اہل سنت کی رائے کو نقل کرکے اہل سنت بہن بھائیوں کو حقیقت سے آگاہ کرنا مقصود ہے

حدثنی عَبَّاسُ بن عبد الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ وَ أَحْمَدُ بن جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ قالا حدثنا النَّضْرُ و هو بن مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيُّ حدثنا عِكْرِمَةُ حدثنا أبو زُمَيْلٍ حدثني بن عَبَّاسٍ قال كان الْمُسْلِمُونَ لَا يَنْظُرُونَ إلي أبي سُفْيَانَ و لا يُقَاعِدُونَهُ فقال لِلنَّبِيِّ صلي الله عليه و سلم يا نَبِيَّ اللَّهِ ثَلَاثٌ أَعْطِنِيهِنَّ قال نعم قال عِنْدِي أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَ أَجْمَلُهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أبي سُفْيَانَ ازوجكها قال نعم قال وَ مُعَاوِيَةُ تَجْعَلُهُ كَاتِبًا بين يَدَيْكَ قال نعم قال وَ تُؤَمِّرُنِي حتي أُ قَاتِلَ الْكُفَّارَ كما كنت أُ قَاتِلُ الْمُسْلِمِينَ قال نعم قال أبو زُمَيْلٍ وَ لَوْلَا أَنَّهُ طَلَبَ ذلك من النبي صلي الله عليه و سلم ما أَعْطَاهُ ذلك لِأَنَّهُ لم يَكُنْ يُسْأَلُ شيئا إلا قال نعم .

ابن عباس نے کہا ہے کہ: مسلمان ابو سفیان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے تھے اور اسکے ساتھ بیٹھنے کو بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اس نے رسول خدا (ص) سے کہا کہ میری تین درخواستیں ہیں اور آپ سے گزارش ہے کہ آپ ان کو مجھے عنایت کر دیں۔ رسول خدا نے بھی اس بات کو قبول کر لیا:
1- عرب کی نیک ترین اور خوبصورت ترین بیٹی، ام حبیبہ میرے پاس ہے، میں اسکی شادی آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔
2- معاویہ کاتب وحی بن جائے۔
3- مجھے لشکر اسلام کا سپہ سالار بنائیں تا کہ کفار سے ویسے ہی جنگ کروں، جس طرح کہ میں مسلمانوں سے جنگ کیا کرتا تھا۔
رسول خدا نے سب کو قبول کر لیا۔
ابو زمیل نے کہا ہے کہ: اگر ابو سفیان ان تین درخواستوں کو رسول خدا سے طلب نہ کرتا تو، وہ کبھی بھی پوری نہ ہوتیں، کیونکہ رسول خدا (ص) کسی کی بھی درخواست کو درّ نہیں کرتے تھے۔
صحيح مسلم، ج 4 ص 1945 ، ح2501، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ

اس روایت کے بارے میں  اوہام/ILLUSIONS

۱)امام ابن جوزی کہتے ہیں کہ امام احمد ابن حنبل اور یحییٰ بن سعید نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے اسی وجہ سے امام بخاری نے اسکو اپنی صحیح میں نہیں لکھا لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اس میں کھلا وہم ہے کیونکہ تمام راویوں کا اس پر اجماع ہے کہ رسول نے حبشہ میں نجاشی کے پاس اپنا وکیل بھیج کی انکو اپنی زوجہ بنا کر مدینہ بلوالیا . دوسرا یہ کہ ابوسفیان اور معاویہ ۸ ہجری کو مسلمان ہوئے اور تیسرا یہ کہ رسول نے کبھی ابوسفیان کوامیر نہیں بنایا کسی بھی جگہ کا۔
حوالہ: جامع المسانید لابن الجوزی( ابن جوزی ) ج۳ ص۱۴۰ حدیث ۲۹۸۲
حوالہ دوم : کشف المشکل من حدیث الصحیحین (ابن جوزی )ج ۲ص ۴۶۳

۲) امام وشتانی ابی اور  سنسی حسنی لکھتے ہیں 
یاد رہے عکرمہ پر وضع حدیث کا الزام نہیں لیکن وہ کثیر الوہم اور مضطرب الحدیث ہیں اسی لئے امام ذہبی نے بھی عکرمہ کی اس حدیث کو منکر کہا ہے۔ 
حوالہ : اکمال اکمال المعلم   (شرح  صحيح مسلم للسنوسي)ج ۸ ص ۴۲۸
حوالہ دوم: سير أعلام النبلاء شمس الدين الذهبي
حوالہ سوم : اکمال الاکمال (شرحح صحیح مسلم)    ابوعبداللہ محمد بن خلفہ وشتانی مالکی 

۳) قاضی عیاش    کا تبصرہ
محدثین کے نذدیک مسلم کے بارے میں انتہائی عجیب بات وارد ہوئی ہے 
حوالہ: إكمال المعلم بفوائد صحيح مسلم  ج ۸ ص ۵۴۶(شرحح صحیح مسلم)

۴)امام ابن جوزی کی اس حدیث پر مذمت  
ہمیں آج تک نہیں معلوم ہوا رسول کریم ﷺ نے کبھی ابو سفیان کو امیر مقرر کیا ہو
اور اگر اس حدیث کو صحیح بھی مال لیا جائے تو رسول کریم کی ابوسفیان کی ہر بات پر  ” ہاں   ہاں‘‘ فرمایا کر یہ وعدہ کب پورا فرمایا ؟    اور کس س جنگ میں   ابوسفیان کو ا میر بنایا ؟ 

۵)اہل حدیث عالم  نواب صدیق حسن خان  قنوجی   بھی اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں 
اس روایت  کے بارے میں تمام تاویلات تکلف سے خالی نہیں ، اشکال پھر بھی باقی ہے  اور روایت کا متن خلط یا غلطی سے خالی نہیں ہے۔ 
حوالہ:  السراج الوھاج  من کشف مطالب صحیح مسلم بن حجاج  ،ج ۹ ص۶۲۰
  
۶) ابوزمیل کا   ایک  خوبصورت جملہ اس حدیث کے بارے میں قول
اس میں بیان کردہ علت دونوں غیر مقبول ہیں اس لیئے نبی کریم ﷺ  اس کو کبھی بھی حاکم نہیں  بناتے تھے جو طلب کرتا تھا 
حوالہ: منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم  ج ۳ص ۱۴۵

حافظ ابن کثیر کو  محمد امین ہرری کا جواب
 حافظ بن کثیر نے معاویہ کیلئے اس حدیث قابل قبول کرنے کیلئے کافی کوشش کی مگر علامہ  امین نے اپنی مبسوط ترین شرح   میں اس پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے   تمام ناقدین اور مویدین کے اقوال نقل کرکے آخر میں اس طرح لکھا 
’’تمام مصادر  احادیث  کے  مقابلے میں اس حدیث کو روایت کرنے میں  امام مسلم اکیلے ہیں اور حق یہ ہے کہ  یہ حدیث جعلی ہے  اس لئے دلیل  دینا صحیح نہیں ہے ‘‘
حوالہ: الكوكب الوهاج والروض البهاج في شرح صحيح مسلم بن الحجاج
 المؤلف: محمد الأمين بن عبد الله الأرمي العلوي الهرري الشافعي

جعلی حدیث کی قبول کرنے کی ضد میں رسول کریم کی گستاخی 

اس طلاق یافتہ خاندان کی  کے فضائل گھڑنے میں  بارگاہ نبوی کی اہانت کرنے سے بھی گریز نہیں کیا اور یہاں تک لکھ دیا کہ رسول کریم نے دوبارہ نکاح کاہوگا ۔ اسی لئے امام ابن قیم اہانت کو و رد کرتے ہوئے کہتے ہیں 
’’ ایک گروہ نے  کہا : کہ سفیان نے آپ ﷺ سے اپنی تسلی کیلئے تجدید  نکاح کی درخواست دی  کیونکہ آپ نے ام حبیبہ سے انکی مرضی کے خلاف شادی کی تھی  ‘‘  ۔یہ بات باطل ہے   نبی کے بارے میں ایسا  تصور نہیں کیا جاسکتا  نہ یہ ابوسفیان کی عقل کے لائق ہے اور نا ہی ا ن باتو میں سے کچھ ہوا۔‘‘

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات