میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا کی حدیث

میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا کی حدیث


ایک حدیث قدسی بیان کی جاتی ہے جسکا متن ہے:

كُنْتْ كَنْزاً مَخْفِياً فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِکَي أُعْرَفُ

الله ﷻ نے کہا کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں جانا جاؤں تو میں نے خلقت کو خلق کیا تاکہ جانا جاؤں۔

یہ الله ﷻ سے منسوب حدیث یا حدیث قدسی مشہور بھی ہے کافی لوگوں میں، خصوصی صوفیاء میں اور عرفاء میں کسی حد تک۔ البتہ اس حدیث کا کوئی اصل نہیں اور بے سند بات ہے۔ یہ حدیث بھی صوفیاء کی ایجاد کردہ ہے۔ شیعہ منابع احادیث میں یہ حدث کہیں نہیں ملتی۔ سوائے اسکے کہ علامہ باقر مجسلی نے اسکو نقل کیا ہی بحار الأنوار میں مگر وہ بھی بغیر سند کے اپنے والد سے، تو یعنی ہزار سال بعد اس حدیث کا یک دم وجود ہوا شیعہ کتب میں۔ تو جب سند نہیں ہے تو حدیث معبتر نہیں ہے اور جعلی ہی سمجھی جائے گی۔ اسکا سب سے پہلا ذکر جو ملتا ہے وہ فتوحات المكية میں ہے جنکے مصنف مشہور صوفی محي الدين ابن عربي کی جو کہ 637 ہجری میں وفات پا گئے۔ نہ یہ بات مصادر اولیہ میں ہے نہ کہیں اور، بلکہ ایک صوفی پہلی بار نبی کریم ﷺ کے چھے سو سال بعد اسکا ذکر کردیا ہے اور تب سے مشہور ہوجاتی ہے صوفیاء میں۔ اس حدیث کی کوئی سند نہیں اور کوئی اصل نہیں۔ کتاب مستدرك سفينة البحار میں شیخ شاھرودی نے کہا ہے والحديث المعروف: كنت كنزا مخفيا فأببت أن أعرف - الخ، من الموضوعات۔ یعنی یہ معروف حدیث کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ پہچانا جاوں۔۔۔ الخ، گھڑی ہوئی احادیث میں سے ہے۔ (1) البانی، زرکشی، ابن حجر، سیوطی، عجلونی وغیرہ نے اس حدیث کو گھڑی ہوئی اور موضوع کہا ہے جس میں وہ درست ہیں کیونکہ کوئی ساتویں صدی ہجری میں نقل کر رہا ہے اور کوئی سند بھی نہیں۔ نہ کسی حدیث کی کتاب میں ہے تو اسکو وہ حدیث ملی کہاں سے، بلکہ خود سے بنائی گئی ہے۔ ہم کچھ اقوال نقل کرتے ہیں:

٦٠٢٣ - (كُنْت كَنْزاً لَا أُعْرَفَ، فَأَحْبَبْت أَنْ أُعْرَفَ؛ فَخَلَقْت خَلْقاً فَعَرَّفْتهمْ بِي، فَعَرَفُونِي) . لا أصل له اتفاقاً.

البانی: میں ایک خزانہ تھا جو جانا نہیں جاتا تھا، میں نے چاہا کہ جانا جاؤں تو مخلوق پیدا کی اور خود کو متعارف کرایا تو وہ مجھے جان گئے۔ اس بات کا کوئی اصل نہیں اتفاقاً۔ (2)

٢٣٢ - حَدِيثُ كُنْتُ كَنْزًا لَا أُعْرَفُ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ خَلْقًا فَعَرَّفْتُهُمْ بِي فَعَرَفُونِي نَصَّ الْحُفَّاظُ كَابْنِ تَيْمِيَّةَ وَالزَّرْكَشِيِّ وَالسَّخَاوِيِّ عَلَى أَنَّهُ لَا أَصْلَ لَهُ

ملا علی قاری: حدیث میں ایک خزانہ تھا جو جانا نہیں جاتا تھا، میں نے مخلوق خلق کی اور اپنا تعارف کروایا تو وہ مجھے جان گئے۔ حفاظ جیسے ابن تیمیہ اور زرکشی اور سخاوی نے بیان کیا ہے کہ اس بات کا کوئی اصل نہیں ہے۔ (3)

الحَدِيث الْعشْرُونَ كنت كنزا لَا اعرف فَأَحْبَبْت ان اعرف فخلقت خلقا فعرفتهم بِي
قَالَ بعض الْحفاظ لَيْسَ هَذَا من كَلَام النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَلَا يعرف لَهُ اسناد صَحِيح وَلَا ضَعِيف

زرکشی: بیسیوں حدیث، میں ایک خزانہ تھا جو جانا نہیں جاتا تھا تو میں نے چاہا کہ جانا جاؤں تو میں نے مخلوق کو خلق کیا اور خود کو متعارف کرایا۔ (4)

وَمِمَّا يَرْوُونَهُ عَنْهُ أَيْضًا: {كُنْت كَنْزًا لَا أَعْرِفُ فَأَحْبَبْت أَنْ أَعْرِفَ فَخُلِقْت خَلْقًا فَعَرَفْتهمْ بِي فَعَرَفُونِي} . فَأَجَابَ: لَيْسَ هَذَا مِنْ كَلَامِ اللَّهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُعْرَفُ لَهُ إسْنَادٌ صَحِيحٌ وَلَا ضَعِيفٌ.

ابن تیمیہ: اور اس میں سے جو آپ ﷺ سے مروی ہے، میں ایک خزانہ تھا اور جانا نہیں جاتا تھا تو میں نے چاہا کہ جانا جاؤں تو میں نے مخلوق کو خلق کیا اور خود کو متعارف کرایا تو وہ مجھے جان گئے۔ ابن تیمیہ نے جواب دیا: یہ الله ﷻ کا کلام نہیں ہے نبی ﷺ کیلئے اور نہ ہی اسناد ہے اسکی صحیح یا ضعیف (یعنی بے سند ہے)۔ (5)

قابل غور رہے کہ رسول الله ﷺ پر بہتان باندھنے سے ہی انسان جہنمی ہوجاتا ہے احادیث کے مطابق تو یہ تو الله ﷻ پر بہتان باندھا جا رہا ہے۔ ویسے تو اس "حدیث قدسی" کا متن ظاہراً قرآن کے بھی خلاف ہے، یہ حدیث کہہ رہی ہے کہ الله ﷻ  نے انسان کو خلق کیا تاکہ پہچانا جائے، جبکہ دوسری جانب قرآن کہتا ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ 

اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے (6)

اور قرآن کہتا ہے: 
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا ۚ أُولَـٰئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَىٰ رَبِّهِمْ وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الظَّالِمِينَ

اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جو الله ﷻ پر جھوٹا الزام لگاتا ہے. یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو سارے گواہ گواہی دیں گے کہ ان لوگوں نے خدا کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا ہے تو آگاہ ہوجاؤ کہ ظالمین پر خدا کی لعنت ہے (7)

اس ہی طرح بہت سے دیگر مقامات پر یہی بات دہرائی گئی ہے قرآن میں۔ تو سب سے ظالم اسکو کہا گیا ہے جو خدا پر بہتان باندھتا ہے۔ ایک بات نوٹ کرنے کی کوئی اعتراض کرے کہ آپ اہل سنت علماء کی باتیں کیوں نقل کرتے ہیں، تو اول تو اسکی وجہ یہ ہے کہ شیعوں کی کتب میں حدیث ہے ہی نہیں، اور افسوس کے ساتھ ہمارے ہاں موضوع روایات پر زیادہ کتب پر کام نہیں کیا گیا جو اس پر لکھا جاتا جہاں کسی نے جمع کی ہوں ضعیف اور گھڑی ہوئی احادیث۔ پھر یہ کہ یہ تصوف کی گھڑی ہوئی حدیث ہے جسکا انہوں نے رد کیا ہے۔ انکے اقوال کا استعمال اس لیئے کرتے ہیں کیونکہ یہ شیعوں سے نہیں سنیوں سے صادر ہوئی ہے اور داخل ہوئی ہے ہمارے ہاں، ہمارے آئمہ ع نے نہیں بیان کیا۔ جب شیعہ حدیث ہی نہیں ہے تو جنکی ہے انکا نظریہ ہی جانا جائے گا۔ لہذا یہ حدیث موضوع یعنی گھڑی ہوئی ہے اور حدیث قدسی نہیں ہے اصلا۔ اس بات کا متن البتہ صحیح ہو سکتا ہے تاویل کرکے مگر ہاں یہ نسبت نہیں دے سکتے کہ الله ﷻ نے خود یہ بات کہی ہے اور یہ حدیث قدسی ہے اور کلام الہی ہے۔

أحقر: سيد علي أصدق نقوي
اللهم صل على محمد ﷺ وآله

مآخذ:

(1)  مستدرك سفينة البحار، ج 9، ص 193
(2)  سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة، الرقم: 6023
(3)  المصنوع في معرفة الحديث الموضوع، الرقم: 232
(4)  الأحاديث المشتهرة، ج 1، ص 136
(5)  مجموع الفتاوى، ج 18، ص 376
(6)  سورہ الذاریات، آیت 56
(7) سورہ ھود، آیت 18

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات