عمر بن خطاب کے مرنے پر عادل صحابی ابو جھم رضی اللہ عنہ کا خوشی منانا

×عمر بن خطاب کے مرنے پر عادل صحابی ابو جھم رضی اللہ عنہ کا خوشی منانا×

میرے دوستوں۔۔ آپ جانتے ہیں کہ اہلسنت میں ایک اصول ان کی عقائد و دیگر کتب میں استعمال کیا جاتا ہے کہ ‘ہر صحابی عادل ہے‘ (کلھم عدول) اور دوسرا اصول بعض اہلسنت کے ہاں ہے کہ ‘صحابی ستاروں کی مانند ہے اور جس صحابی کی اتباع کرو تو ہدایت پاؤ گے‘

آئے پہلے اس عظیم صحابی کا تعارف خود معروف اہلسنت اسکالر و مترجم سے سنتے ہیں یعنی ابن عبدالبر جو رقم طراز ہے:

أبو جهم بن حذيفة بن غانم بن عامر بن عبد الله بن عبيد بن عويج ابن عدي بن كعب القرشي العدوي. قيل اسمه عامر بن حذيفة وقيل عبيد الله ابن حذيفة أسلم عام الفتح وصحب النبي صلى الله عليه وسلم وكان مقدماً في قريش معظماً وكانت فيه وفي بنيه شدة وعزامة

مفہوم۔۔ ابوجہم صحابی نبی ص تھے جو فتح مکہ کے سال اسلام لائے، قریش کے معظم اور اول فہرست کے افراد میں ان کا شمار ہوتا تھا، یہ اور ان کے بچے میں اعلی قسم کی شجاعت اور عزیمت پائی جاتی تھی۔

حوالہ: الاستیعاب لابن عبدالبر، ص ٧٨٦

الاستعیاب ٹائٹل: http://s8.picofile.com/file/8312873484/esteab_1.png

الاستعیاب ص ٧٨٦: http://s8.picofile.com/file/8312873492/esteab_786.png

 ہم آج صحابی ابوجھم بن حذیفہ کی اتباع کرتے ہوئے لکھتے ہے کہ انہوں نے جب عمر بن خطاب پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ما بعد وفات ہوئی تو انہوں نے خوشی منائی، آئے دیکھتے ہے کہ مورخ شہیر اور رجالی کبیر شمس الدین  علامہ ذھبی کیا کہتے ہے۔

پہلی عبارت، علامہ ذھبی کی کتاب تاریخ الاسلام سے لیتے ہے (عربی عبارت مع مفہوم فقط درج ذیل ہے)

 قَالَ ابْنُ سَعْدٍ: ابْتَنَى أَبُو جَهْمٍ بِالْمَدِينَةِ دَارًا وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدْ أَخَافَهُ وَأَشْرَفَ عَلَيْهِ حَتَّى كَفَّ مِنْ غَرْبِ لِسَانِهِ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ عُمَرُ سُرَّ بِمَوْتِهِ، وَجَعَلَ يَوْمَئِذٍ يَحْتَبِشُ فِي بَيْتِهِ، يَعْنِي يَقْفِزُ عَلَى رِجْلَيْهِ

مورخ ابن سعد کہتے ہے کہ ابو جھم نے مدینہ میں ایک گھر بنانا چاہا تھا جس پر عمر نے ان کو دھمکی دی اور خوف سے کام لیا، جس پر وہ خاموش ہوگئے، لیکن جیسے ہی عمر کی وفات ہوئی تو انہوں نے خوشی منائی اور اس وقت انہوں نے پاؤں کے بل رقص کیا۔

حوالہ: تاریخ الاسلام، جلد ٥ ص ٢٨١

(اسکین جات حوالہ ملاحظہ ہوں)

تاریخ الاسلام جلد ٥ ٹائٹل: http://s9.picofile.com/file/8312866584/tareekh_vol_5_pg_1.png

تاریخ الاسلام جلد ٥ ص ٢٨١: http://s8.picofile.com/file/8312866800/tareekh_vol_5_pg_281.png

دوسری عبارت، یہی  ذھبی اپنی تراجم کی کتاب میں (صیغہ جزم کے ساتھ) رقم طراز ہے:

 وَكَانَ قَوِيَّ النَّفْسِ، سُرَّ بِمُصَابِ عُمَرَ

ابوجہم قوی نفس کے مالک تھے، البتہ جب عمر کو زخم لگا تو ان کو خوشی و سرور ہوا۔


حوالہ: سیر اعلام النبلاء، جلد ٢، ص ٥٥٧

(اسکین جات حوالہ ملاحظہ ہوں)

سیر اعلام النبلاء جلد ٢ ٹائٹل: http://s9.picofile.com/file/8312866876/seer_vol_2_pg_1.png

سیر اعلام النبلاء جلد ٢ ص ٥٥٧: http://s8.picofile.com/file/8312866850/seer_vol_2_pg_557.png

تبصرہ: ان دو عبارات سے ظاہر ہوا کہ عمر کی وفات پر خوشی منانا سنت صحابی ہے اور چونکہ ہر صحابی عادل ہے اور جس کو بھی مانو تو ہدایت تک پہنچنا قطعی ہے (جیسا اہلسنت کا زعم ہے) تو اگر کوئی موالی اور شیعہ ثانی کی وفات پر خوشی منائے تو اس کو بری نگاہوں سے مت دیکھئے۔

آخری کمنٹ: مومنین یہ ان لوگوں کو جواب ہے جو اہلسنت ہم پر اعتراض کریں لیکن مشورہ کے طور پر عرض ہے کہ ایسی محافل کو فقط اپنے لوگوں تک رکھئے تاکہ دیگر فتنہ وغیرہ نہ ہوں۔ خیر یہ ایک الزامی کاروائی تھی اور الزامی جواب کے ابرے میں لوگ جانتے ہیں کہ خصم (مخالف) کے مبنی کے تحت جواب دیا جاتا ہے اور کیا شیعہ کسی عدو اہلبیت کے مرنے پر رقص کریں گے تو شرعا چونکہ اس میں قباحت ہے تو ہم ایسا نہیں کرتے لیکن اہلسنت کے ہاں ایک صحابی کا اچھالنا اور ایسے خوشی منانا ان کے لئے سوالیہ نکتہ ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات