بارہ خلفاء کی حدیث اور اہلسنت کا نظریہ۔
بارہ خلفاء کی حدیث اور اہلسنت کا نظریہ۔
تفصیل و تنقید
ان بارہ خلفاء کو عادل و صالح افراد تسلیم کرتے ہیں۔
انکے آخری و بارہویں خلیفہ کو بمعہ نام جانتے ہیں جنکا نام امام مہدی ہے۔
آج تک علماء اہلسنت ان بارہ کی متفقہ تعداد کو لکھنے سے قاصر رہی ہے۔
خلیفہ راشد کی اطاعت کو واجب سمجھتے ہیں ۔
جلال الدین سیوطی نے تاریخ خلفاء میں دس کی تعداد لکھی جس میں معاویہ ابن سفیان کو بھی شامل کیا۔
معاویہ ابن ہند وہ شخص ہے جس نے چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی اطاعت و بیعت نہیں کی۔ بلکہ جنگ کی جبکہ رسول خدا نے خلیفہ کیساتھ جنگ کرنے کو منع کیا تھا (مسلم 4804) اور حضرت علی علیہ السلام کیساتھ جنگ کو اپنے ساتھ جنگ قرار دیا ۔
یہاں خلیفہ کی واجب اطاعت والا اصول (بخاری 7137)
یہاں بھول جاتے ہیں اور بارہ کی تعداد میں معاویہ ابن ہند کو شامل بھی کرتے ہیں۔
یاد رہے پہلے تین خلفاء کے خلاف ہر اس شخص جس نے ان سے جنگ کی انکو فاسق، منافق یا کافر سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ اصول صرف حضرت علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کے وقت یاد نہیں رکھتے۔
علماء اہلسنت کی کتب احادیث کی روشنی میں معاویہ ابن ہند ہرگز صالح افراد میں شامل نہیں ہوتا بلکہ وہ باغی ، ظالم ، مومنین اصحاب رسول کا قاتل ، دشمنی اہلبیت میں ان سے جنگ اور امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام پہ سب و شتم کا مرتکب قرار پاتا ہے۔
دوسرے علماء نے مختلف تعداد لکھی اور مختلف حکمرانوں کو بارہ کی لسٹ میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ یاد رہے کچھ علماء نے یزید ابن معاویہ کو بھی اس بارہ خلفاء کی لسٹ میں شامل کیا ہے
پچھلے بارہ سو سال سے اہلسنت کے نزدیک کوئی خلیفہ نہیں آیا ۔
اگر امام مہدی اس زمانے میں آگئے تو انکی لسٹ تو خراب ہوجائے گی۔
حادثہ رونما ہونے ہونے کے بعد انکے عقائد و نظریات مکمل ہوتے ہیں جبکہ دین تو رسول خدا کے دور میں مکمل ہوگیا تھا ۔
خلافت منہاج النبوۃ کو تیس سال مانتے ہیں۔ جبکہ رسول نے بارہ خلفاء کا ذکر کیا۔ جبکہ تیس سال میں صرف چار یا پانچ خلیفہ آئے۔
تعداد بارہ کی مانتے ہیں جبکہ ابھی تک کی تیار کردہ لسٹ میں صرف چار کو ہی متفقہ طور پہ خلیفہ راشد تسلیم کرتے ہیں۔
جب خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہ خلفاء کی تعداد بتائی اور بقول انکے آخری خلیفہ کا ذکر بمع نام کیا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے رسول خدا باقی گیارہ کے نام جانتے تھے ؟؟
اگر نہیں جانتے تھے تو بارہ کی تعداد کی پہیلی بجھانے کا کیا فائدہ تھا؟
اگر جانتے تھے تو کسی علم کو چھپانا نبوت کےمزاج میں شامل نہیں ہے۔ کیونکہ انکے ذمہ دین کی ہر بات کو وما علینا الا البلاغ المبین کی ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں امام مہدی علیہ السلام کو نہ تو الیکشن کر کے چنا جائے گا بلکہ وہ پہلے سے ہی خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے نامزد خلیفہ و امام ہیں تو کیسے ممکن ہے وہ پہلے خلیفہ اور امام کو بھی نامزد نہ کر کے جاتے؟؟
کیونکہ اس وقت اسلام کو اس انتخاب کی اشد ضرورت تھی۔ اسی ایک اختلاف کیوجہ سے آج امت مسلمہ میں اتفاق نہیں ہوسکا۔
آیہ استخلاف (سورہ نور.24)میں قرآن نے ایک قانون بیان کیا ہے:۔
اسی طرح خلیفہ بناؤں گا جسطرح تم سے قبل کو بنایا تھا۔
جبکہ پہلا خلیفہ حضرت آدم علیہ السلام جو اس سرزمین میں خدا نے بنایا تھا
انی جاعل فی الارض خلیفہ (البقرہ۔ 30)
بیشک میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں
کو بغیر معصوم فرشتوں کے مشورے بغیر جنات کے مشورے سے خود سے نامزد کر دیا تھا اور جنوں اور فرشتوں کے سامنے اس کی خلافت کو تسلیم کرنے کا حکم دیا تھا۔
تو کیسے ممکن ہے اوّل و آخری خلیفہ کو تو وہ منصوص من اللہ بنائے اور درمیان میں اپنی سنت تبدیل کر دے جبکہ خدا اپنی سنت تبدیل نہیں کرتا۔
جنکو افراد کو یہ صرف خلفاء راشدین کی لسٹ میں شامل کرتے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی خلیفہ ایک اصول پہ منتخب نہیں ہوا۔
خلیفہ اوّل کا انتخاب ( سقیفہ میں چند لوگ )
خلیفہ دوئم کا انتخاب ( خلیفہ اوّل نے کیا)
خلیفہ سوئم کا انتخاب ( چھ رکنی کمیٹی)
خلیفہ چہارم کا انتخاب ( تمام اصحاب کے مشورے سے)
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی وہ واحد خلیفہ ہیں جو موجودہ عقیدہ اہلسنت جسکو وہ قرآن کی آیت امرھم شوریٰ بینھم کے تحت بیان کرتے ہیں منتخب ہوئے تھے۔
لمحہ فکریہ ہے ان افراد کے لئے جو علم دوست اور حق کی تلاش میں ہیں۔
یہ تحریر ایسے افراد کے لئے ہرگز نہیں جو اپنے عقیدہ کو گرہ لگائے بیٹھے ہیں۔
سید ثاقب حسین اوسلو ناروے
Comments
Post a Comment