آیت ولایت اور مفسرین اسلام کی تفسیر اور ابن تیمیہ کی خیانت۔
آیت ولایت اور مفسرین اسلام کی تفسیر اور ابن تیمیہ کی خیانت۔
مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی تفسیر سے اقتباس۔
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَہُمْ رٰكِعُوْنَ۵۵
۵۵۔تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۵۶ۧ
۵۶۔اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا ولی بنائے گا تو(وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہو جائے گا اور) اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔
تشریح کلمات
حِزْب:
وہ جماعت جس میں سختی اور تشدد پایا جائے۔ (مفردات) یعنی اپنے مؤقف میں سودے بازی کرنے والے نہ ہوں۔
شان نزول
یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی، جب مسجد نبوی میں آپؑ نے حالت رکوع میں ایک سائل کو اپنی انگوٹھی عطا فرمائی۔ اس روایت کو اکثر محدثین، مؤرخین اور مفسرین نے ذکر کیا ہے اور اس حدیث کے راویان درج ذیل ہیں:
۱۔ حضرت ابن عباس۔ ۲۔ عمار بن یاسر۔ ۳۔ عبد اللہ بن مسلم ۔ ۴۔ سلمہ اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَہُمْ رٰكِعُوْنَ۵۵
۵۵۔تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۵۶ۧ
۵۶۔اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا ولی بنائے گا تو(وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہو جائے گا اور) اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔
تشریح کلمات
حِزْب:
وہ جماعت جس میں سختی اور تشدد پایا جائے۔ (مفردات) یعنی اپنے مؤقف میں سودے بازی کرنے والے نہ ہوں۔
شان نزول
یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی، جب مسجد نبوی میں آپؑ نے حالت رکوع میں ایک سائل کو اپنی انگوٹھی عطا فرمائی۔ اس روایت کو اکثر محدثین، مؤرخین اور مفسرین نے ذکر کیا ہے اور اس حدیث کے راویان درج ذیل ہیں:
۱۔ حضرت ابن عباس۔ ۲۔ عمار بن یاسر۔ ۳۔ عبد اللہ بن مسلم ۔ ۴۔ سلمہ بن کہیل۔ ۵۔ انس بن مالک۔ ۶۔ عتبہ بن حکیم۔ ۷۔ عبد اللہ بن ابی۔ ۸۔ ابوذر غفاری۔ ۹۔ جابر بن عبد اللہ انصاری۔ ۱۰۔ عبد اللہ بن غالب۔ ۱۱۔ عمرو بن العاص۔ ۱۲۔ ابو رافع ۱۳۔ خود حضرت امام علی علیہ السلام۔ ۱۴۔ حضرت امام حسن علیہ السلام ۱۵۔ حضرت علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام ۔۱۶۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام۔
اصحاب رسول ؐ و ائمہ کی یہ روایت درج ذیل مصادر میں مطالعہ کر سکتے ہیں۔
تفسیر طبری ۶: ۱۸۶، اسباب نزول واحدی، شواہد التنزیل میں حضرت ابن عباس سے پانچ روایات موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو جلد اول ص ۱۶۱۔ ۱۶۶ اور ص ۱۶۷۔ ۱۶۹ میں چھ اور روایات موجود ہیں۔ انساب الاشراف بلاذری، غرائب القرآن نیشاپوری، تفسیر در منثور سیوطی، لباب النقول فی اسباب النزول (از معالم المدرستین)، تفسیر سمرقندی ۱: ۴۴۵، البحر المحیط ۴: ۳۰۰۔
شاعر رسول جناب حسان بن ثابت نے اس آیت کی شان نزول کے بارے میں یہ اشعار کہے:
فانت الذی اعطیت اذ کنت راکعاً
زکاۃ فدتک النفس یا خیر راکع
فانزل فیک اللّٰہ خیر ولایۃ
و بینھا فی محکمات الشرائع
(تفسیر روح المعانی ۵: ۲۹ باب ۵۵ ۔ الصراط المستقیم ۱:۲۶۵)
آپ ہی وہ ذات ہیں جس نے حالت رکوع میں زکوٰۃ دی۔ اے رکوع کرنے والوں میں سب سے افضل، آپ پر جان قربان۔
چنانچہ اللہ نے آپ کے لیے بہترین ولایت نازل فرمائی اور اسے اپنی محکم شریعتوں میں بیان فرمایا۔
قاضی یحییٰ نے اپنے معروف کتاب المواقف صفحہ ۴۰۵، شریف جرجانی نے شرح مواقف ۸: ۳۶۰، سعد الدین تفتازانی نے شرح مواقف ۵: ۱۷ اور علاء الدین قوشجی نے شرح تجرید میں کہا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
ان تمام محدیثن مفسرین، مورخین اور متکلمین کے مقابلے میں ابن تیمیہ کا یہ قول نہایت قابل توجہ ہے۔ اس شخص کی نص عبارت یہ ہے:
قد وضع بعض الکذابین حدیثاً مفتری ان ھذہ الآیۃ نزلت فی علی لما تصدق بخاتمہ فی الصلوۃ، وھذا کذب باجماع اہل العلم بالنقل وکذبہ بین۔۔ و ان علیا لم یتصدق بخاتمہ فی الصلوۃ و اجمع اہل العلم بالحدیث علی ان القصۃ المرویۃ فی ذلک من الکذب الموضوع و ان جمہور الامۃ لم تسمع بھذا الخبر ۔ ( منہاج السنۃ ۲: ۳۰)
بعض کذاب لوگوں نے ایک من گھڑت حدیث بنائی ہے کہ یہ آیت علی (علیہ السلام) کی شان میں نازل ہوئی، جب انہوں نے نماز میں اپنی انگوٹھی صدقہ میں دے دی۔ نقل (احادیث) کے اہل علم کا اجماع ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور اس کا جھوٹ واضح ہے۔ علی نے اپنی انگوٹھی کا کوئی صدقہ نہیں دیا۔ حدیث کے اہل علم کا اجماع ہے کہ یہ کہانی من گھڑت، جھوٹ ہے اور جمہور امت نے ایسی کوئی روایت سنی ہی نہیں۔
یہ ہے دیانت اور امانت فی النقل ۔ گویا کہ ایک درجن سے زائد اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تقریباً تمام مفسرین اور متکلمین اس امت میں شمار نہیں ہوتے یا اس امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی اور جمہور امت ہے جس نے اس قسم کی روایت سنی ہی نہیں۔ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
ان تمام محدیثن مفسرین، مورخین اور متکلمین کے مقابلے میں ابن تیمیہ کا یہ قول نہایت قابل توجہ ہے۔ اس شخص کی نص عبارت یہ ہے:
قد وضع بعض الکذابین حدیثاً مفتری ان ھذہ الآیۃ نزلت فی علی لما تصدق بخاتمہ فی الصلوۃ، وھذا کذب باجماع اہل العلم بالنقل وکذبہ بین۔۔ و ان علیا لم یتصدق بخاتمہ فی الصلوۃ و اجمع اہل العلم بالحدیث علی ان القصۃ المرویۃ فی ذلک من الکذب الموضوع و ان جمہور الامۃ لم تسمع بھذا الخبر ۔ ( منہاج السنۃ ۲: ۳۰)
بعض کذاب لوگوں نے ایک من گھڑت حدیث بنائی ہے کہ یہ آیت علی (علیہ السلام) کی شان میں نازل ہوئی، جب انہوں نے نماز میں اپنی انگوٹھی صدقہ میں دے دی۔ نقل (احادیث) کے اہل علم کا اجماع ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور اس کا جھوٹ واضح ہے۔ علی نے اپنی انگوٹھی کا کوئی صدقہ نہیں دیا۔ حدیث کے اہل علم کا اجماع ہے کہ یہ کہانی من گھڑت، جھوٹ ہے اور جمہور امت نے ایسی کوئی روایت سنی ہی نہیں۔
یہ ہے دیانت اور امانت فی النقل ۔ گویا کہ ایک درجن سے زائد اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تقریباً تمام مفسرین اور متکلمین اس امت میں شمار نہیں ہوتے یا اس امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی اور جمہور امت ہے جس نے اس قسم کی روایت سنی ہی نہیں۔
ابو ریحان غازی۔
Comments
Post a Comment