شھادت زھرا علیھا السلام ایک اہم سوال اور اسکا جواب
*شھادت زھرا علیھا السلام ایک اہم سوال اور اسکا جواب*
سوال: محمد حسین فضل الله پر آپ بیجا ہی طعن کرتے ہیں وہ تو بس شھادت زھرا علیھا السلام کے اس لئے منکر تھے کیونکہ اس پر کوئی صحیح سند روایت نہیں- یہ تو بس انکی اپنی تحقیق تھی اور اس تاریخی مسلہ میں اختلاف سے وہ ضال و مضل کیسے ہو سکتے ہیں؟
الزامی جواب : اولا تو آپکے سوال میں خود تضاد ہے- ایک طرف آپ سیدہ کی شهادت کو 'تاریخی مسلہ' بتا رہیں ہیں اور دوسری طرف صحیح سند حدیث بھی طلب کر رہیں ہیں جبکہ یہ بات عیاں ہے کہ تاریخی مسائل میں سند نہیں دیکھی جاتی ورنہ ہمیں انسانیت کی پورری تاریخ سے ہی ہاتھ دھونا پڑے گا- اب اگر آپکے مطابق یہ فقط ایک تاریخی مسلہ ہے جسکی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی اس بات کی کہ حضرت علی اکبر کی عمر مبارک کربلا میں ١٨ تھی یا ٣٣ یا پھر کیا شہزادہ قاسم کا نکاح کربلا میں پڑھا گیا یا نہیں تو اسمیں نہ کسی سند کی ضرورت ہے نہ کسی حدیث کی بلکہ تواریخ کی معتبر کتب میں اسکا نقل ہونا ہی اسکے اطمنان کے لئے کافی ہے - لیکن اگر آپ اس مسلہ میں صحیح سند حدیث ڈھونڈ رہیں ہیں تو ماننا پڑے گا کہ یہ مسلہ فقط کوئی تاریخی واقعہ نہیں بلکہ عقیدے کا مسلہ ہے- اس لئے آپ پہلے خود فیصلہ کر لیں آپ اس مسلہ کو کس باب میں لانا چاھتے ہیں-
ثانی؛ میں فضل الله کی کئی ساری کتب نقل کر سکتا ہوں جسمیں اس نے ضعیف السند بلکہ بے سند روایات حتی کی بعض اشعار سے بھی عقیدہ جیسے معاملے میں استدلال کیا ہے تو یہاں اچانک سند کی ضرورت پیش کیسے آ گئی ؟ اسکی ایک مثال نھج البلاغہ کی یہ عبارت ہے جو فضل الله اور اسکے پیروکار بارہا نقل کرتے ہیں کہ امام علی نے جب بعض اصحاب کو شامیوں پر سب و شتم کرتے سنا تو فرمایا 'مجھے نا پسند ہے کہ تم انہیں سب کرو ...' - پس میرا مطالبہ یہ ہے کہ اس روایت کی صحیح سند میرے سامنے پیش کر دیں اور اگر نہ کر پائیں اور یقینا تا قیامت نہ کر پائیں گیں تو مجھے بتا دیں کہ اپنے غرض کے وقت انکی سند بے سند کیوں ہو جاتی ہے- پس یہ بھی نہ سمجھا جاۓ کہ نھج البلاغہ کی سند پر بحث نہیں ہو سکتی جبکہ اسپر پہلے بھی بحث ہوئی ہے اور بعد میں بھی مثلا شیخ بھائی کی کتاب 'حدیقه الھلالیہ' جسمیں اسکی ایک روایت کی سند پر جرح کی گئی ہے-
تحقیقی جواب : سیدہ کی شہادت پر بے شمار تاریخی شواھد اور فقہاء امامیہ کے اجماع کے علاوہ متواتر روایات بھی ہے جسکے تواتر کا اعتراف علامہ مجلسی نے مراه العقول میں کیا ہے اور میں نے خود یہ روایات اور اقوال اپنی ایک طویل مقالہ میں درج کیے ہیں جو بارہا چھپ چکا ہے اسی لئے میں اس مسلہ کو ضروریات عقیدہ میں تصور کرتا ہوں اور اسکے منکر کو ضال اور اسکے خلاف تبلیغ کرنے والے کو مضل تصور کرتا ہوں- پھر بھی تبرکا میں یہاں ایک صحیح سند روایت نقل کرتا ہوں جسکے تمام راوی ثقات ہیں لیکن یہاں ایک ایک راوی پر بحث کی گنجائش نہیں اس لئے اگر کسی کو کسی بھی ایک راوی پر اعتراض ہو تو میں اسکا جواب تحریر کردوں گا؛
یہ حدیث دلائل الامامہ میں محدث کبیر طبری الامامی نے ابو بصیر کے سلسلہ سے امام صادق سے روایت کی ہے کہ امام نے فرمایا ،'....سیدہ کی وفات کی وجہ قنفذ تھا جو فلان کا غلام تھا اور جسنے اپنے آقا کے حکم سےسیدہ کو تلوارکی نیام سے مارا جسکی وجہ سے محسن شھید ہو گیا ...'
-دلائل الامامة // صفحہ ٤٥
عربی متن مع سند ؛
حدثني أبو الحسين محمد بن هارون بن موسى التلعكبري، قال:حدثني أبي، قال: حدثني أبو علي محمد بن همام بن سهيل (رضي الله عنه)، قال: روى أحمدابن محمد بن البرقي، عن أحمد بن محمد الأشعري القمي، عن عبد الرحمن بن أبي نجران، عن عبد الله بن سنان، عن ابن مسكان، عن أبي بصير، عن أبي عبد الله جعفر بن محمد (عليه السلام)، قال:
ولدت فاطمة (عليها السلام) في جمادى الآخرة، يوم العشرين منه، سنة خمس وأربعين من مولد النبي (صلى الله عليه وآله).
وأقامت بمكة ثمان سنين، وبالمدينة عشر سنين، وبعد وفاة أبيها خمسة وسبعين يوما.
وقبضت في جمادي الآخرة يوم الثلاثاء لثلاث خلون منه، سنة إحدى عشرةمن الهجرة.
وكان سبب وفاتها أن قنفذا مولى عمر لكزها بنعل السيف بأمره، فأسقطت محسنا...'
نتیجہ : یہ سند اور رجال تو فقط عوام کو بے وقوف بنانے کا بہانہ ہے در اصل پس پردہ اپنے آقا کو بچانا ہے لیکن جب تک سیدہ کے مجاہد میدان میں ہیں یہ خواب کبھی پورا نہ ہوگا -
شفقت حسن
Comments
Post a Comment