فتنہ کے زمانے میں گھر پر رہنا

فتنہ کے زمانے میں گھر پر رہنا

تحریر: سید علی اصدق نقوی

آجکل quarantine میں رہنے پر بہت زور دیا جا رہا ہے، نیز social distancing کی بھی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔ ممکن ہے اسکو social کی بجائے  physical distancing کہا جا سکتا ہے اور اسکا معاشرتی (social) پہلو برقرار رکھا جا سکتا ہے دیگران سے جسمانی طور پر دور رہتے ہوئے، کیونکہ انسان social ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اگر ہم احادیث کے مصادر کی طرف رجوع کریں تو متعدد روایات ایسی ملتی ہیں جنکے مطابق فتنے کے وقت گھر رہنا چاہیئے۔ بہت سی روایات، بلکہ قرآن میں بھی "إعتزال" یعنی کنارہ کشی یا self-isolation کا بھی ذکر موجود ہے (1)۔ بعض روایات میں "اپنے گھر میں بیٹھے رہو" سے مراد یہ لیا گیا ہے کہ سیاسی طور پر ایکٹیو نہ رہو یعنی political quietism کی تائید ہے۔ ہم ان میں سے بعض روایات شیعی منابع سے نقل کرتے ہیں:

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ مَعْرُوفٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَهْزِيَارَ يَرْفَعُهُ قَالَ يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَكُونُ الْعَافِيَةُ عَشَرَةَ أَجْزَاءٍ تِسْعَةٌ مِنْهَا اعْتِزَالُ النَّاسِ وَوَاحِدٌ فِي الصَّمْتِ

علی بن مہزیار نے سند کو بلند کیا، امام علی ع نے فرمایا: لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ عافیت کے دس حصے ہونگے۔ اس میں سے نو حصے لوگوں سے اعتزال (کنارہ کشی / self-isolation) میں ہونگے اور ایک حصہ خاموشی میں ہوگا۔ (2) 

سنداً روایت مرفوع ہے، البتہ تمام راویان ثقات ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور روایت ہے:

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَمَّنْ أَخْبَرَهُ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) كُفُّوا أَلْسِنَتَكُمْ وَالْزَمُوا بُيُوتَكُمْ فَإِنَّهُ لا يُصِيبُكُمْ أَمْرٌ تَخُصُّونَ بِهِ أَبَداً...

امام صادق ع نے فرمایا: اپنی زبانوں کو لگام دو اور اپنے گھروں میں ہی رہو، خاصکر تمہیں کوئی مصیبت نہیں دے گا۔۔۔ (3) 

یہ روایت بھی سنداً مرسل ہے، مگر اسکا مفہوم دیگر روایات کے موافق ہے جو ہم نقل کریں گے:

ابن فہد حلی نے کتاب التحصین میں ذکر کیا ہے:

مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ: كَانَ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ يَقُولُ يَأْتِي عَلَى اَلنَّاسِ زَمَانٌ يَكُونُ فِيهِ أَحْسَنُهُمْ حَالاً مَنْ كَانَ جَالِساً فِي بَيْتِهِ.

امام باقر ع نے فرمایا: امیر المؤمنین ع نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب ان میں سے سب سے اچھے حال میں وہ ہوگا جو اپنے گھر میں بیٹھا ہوگا۔ (4) 

عَنْهُ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ آبَائِهِ عَنْ عَلِيٍّ (ع) قَالَ ثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ تَكُفُّ لِسَانَكَ وَتَبْكِي عَلَى خَطِيئَتِكَ وَيَسَعُكَ بَيْتُكَ

امام علی ع نے فرمایا: تین چیزیں نجات دیتی ہیں: اپنی زبان کو لگام دو، اپنے خطاؤں پر رو، اور اپنے گھر میں ہی رہو۔ (5)

شیخ صدوق نے جب یہ روایت الخصال میں نقل کی ہے تو الفاظ ويسعك بيتك کی بجائے وتلزم بيتك استعمال کیا ہے جسکا تقریباً یہی مفہوم ہے، اور وہاں یہ روایت معتبر سند سے مروی ہے۔ لزوم البیت یعنی گھر ہی رہنے پر بہت سی روایات مروی ہیں۔ 

383- عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سَدِيرٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ (عَلَيْهِ السَّلام) يَا سَدِيرُ الْزَمْ بَيْتَكَ وَكُنْ حِلْساً مِنْ أَحْلاسِهِ وَاسْكُنْ مَا سَكَنَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ فَإِذَا بَلَغَكَ أَنَّ السُّفْيَانِيَّ قَدْ خَرَجَ فَارْحَلْ إِلَيْنَا وَلَوْ عَلَى رِجْلِكَ.

سدیر روایت کرتے ہیں کہ امام صادق ع نے فرمایا: اے سدیر، اپنے گھر میں ہی رہو۔ خانہ نشین رہو، اور جب تک دن و رات ہیں تم بھی وہیں رہو۔ پس جب تمہیں پتا چلے کہ سفیانی خروج کر چکا ہے تو ہمارے پاس آؤ چاہے پیدل بھی آنا پڑے۔ (6) 

ظاہر ہے یہاں آخر الزمان کی بات ہو رہی ہے کیونکہ سفیانی کا خروج، ظہور کی محتوم علامات میں سے ہے۔ امام حسن ع کو وصیت میں امام علی ع فرماتے ہیں کہ مشکل حالات میں گھر میں ہی رہنا ہے (7) دیگر روایات میں عُزلة یعنی isolation یا پھر کنارہ کشی کی تعریف کی گئی ہے اور اسکو عبارت بھی کہا گیا ہے (8)۔ ایسے ہی نہج البلاغہ میں ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ - طُوبَى لِمَنْ شَغَلَه عَيْبُه عَنْ عُيُوبِ النَّاسِ - وطُوبَى لِمَنْ لَزِمَ بَيْتَه وأَكَلَ قُوتَه - واشْتَغَلَ بِطَاعَةِ رَبِّه وبَكَى عَلَى خَطِيئَتِه - فَكَانَ مِنْ نَفْسِه فِي شُغُلٍ والنَّاسُ مِنْه فِي رَاحَةٍ!

لوگو! خوش نصیب ہے وہ جسے اپنا عیب دوسروں کے عیب پر نظر کرنے سے مشغول کرلے اور قابل مبارکباد ہے وہ شخص جو اپنے گھرمیں بیٹھ رہے ۔اپنا رزق کھائے اور اپنے پروردگار کی اطاعت کرتا رہے اوراپنے گناہوں پر گریہ کرتا رہے۔وہ اپنے نفس میں مشغول رہے اور لوگ اس کی طرف سے مطمئن رہیں۔ (9) 

الخصال میں بسند صحیح ہے:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ اَلْمُتَوَكِّلِ رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اَللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ اَلْحِمْيَرِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ آبَائِهِ عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ: قَالَ عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ طُوبَى لِمَنْ كَانَ صَمْتُهُ فِكْراً وَنَظَرُهُ عَبْراً وَوَسِعَهُ بَيْتُهُ وَبَكَى عَلَى خَطِيئَتِهِ وَسَلِمَ اَلنَّاسُ مِنْ يَدِهِ وَلِسَانِهِ.

عیسی بن مریم ع نے فرمایا: خوشخبری ہے اس کیلئے جسکی خاموشی سوچ والی ہو، نظر عبرت والی ہو، اپنے گھر میں ہی رہے، اور اپنی خطاؤں پر روئے، اور لوگ اسکے ہاتھ اور زبان سے محفوظ ہوں۔ (10) 

ایک روایت میں ہے کہ امام باقر ع آخری زمانے کی علامات جابر کو بتاتے ہیں، جسکے بعد کا حصہ ہے:

...قَالَ جَابِرٌ فَقُلْتُ يَا اِبْنَ رَسُولِ اَللَّهِ فَمَا أَفْضَلُ مَا يَسْتَعْمِلُهُ اَلْمُؤْمِنُ فِي ذَلِكَ اَلزَّمَانِ قَالَ حِفْظُ اَللِّسَانِ وَلُزُومُ اَلْبَيْتِ.

جابر کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: فرزند رسول اللہ ص! تو اس زمانے میں سب سے افضل چیز کیا ہے جو مؤمن کرے؟ امام ع نے فرمایا: زبان پر قابو رکھنا اور گھر میں رہنا۔ (11) 

أحْمَدُ بْنُ إِدْريسَ، عَنْ عَلِيَ بْن مُحَمَّدٍ، عَن الْفَضْل بْن شَاذَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْن أبِي عُمَيْرٍ، عَن الْحُسَيْن بْن أبِي الْعَلاَءِ، عَنْ أبِي بَصِيرٍ، عَنْ أبِي عَبْدِ اللهِ عليه السلام، قَالَ: لَمَّا دَخَلَ سَلْمَانُ رضي الله عنه الْكُوفَةَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا ذَكَرَ مَا يَكُونُ مِنْ بَلاَئِهَا حَتَّى ذَكَرَ مُلْكَ بَنِي اُمَيَّةَ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ، ثُمَّ قَالَ: فَإذَا كَانَ ذَلِكَ فَالْزَمُوا أحْلاَسَ‏ بُيُوتِكُمْ حَتَّى يَظْهَرَ الطَّاهِرُ بْنُ الطَّاهِر الْمُطَهَّر ذُو الْغَيْبَةِ الشَّريدُ الطَّريدُ .

جب سلمان رضی اللہ عنہ کوفہ داخل ہوئے، اور اسکی طرف دیکھا تو اسکا ذکر کیا جو بلائیں ادھر ہونگی، حتی کہ انہوں نے بنو امیہ کے بادشاہ کا ذکر کیا اور انکا جو انکے بعد ہونگے، پھر کہا: جب وہ ہو تو اپنے گھروں میں رہو حتی کہ طاہر بن طاہر، پاک کردہ ظاہر ہو غیبت والا بے گھر اور جلاء وطن کیا ہوا۔ (12) اس حدیث کی سند حسن ہے۔ 

اس ہی طرح امام صادق ع سے متعدد اسانید سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ فتنے اور مشکلات کے وقت "كونوا أحلاس بيوتكم" یعنی اپنے گھروں میں ہی رہو۔ (13)۔ اس قسم کی تلقینات بعض احادیث قدسیہ میں حضرت موسی ع کو بھی کی گئی ہیں جس میں انکو گھر کا "حلس" رہنے کا کہا گیا ہے۔ (14) حلس سے مراد قالین ہوتا ہے جو زمین پر بچھایا جاتا ہے گھر میں اور گھر کے حلس ہونے کا مطلب خانہ نشین ہونا ہے یعنی جو بندہ گھر سے نہیں نکلتا وہ حلس ہے، اسکا جمع احلاس ہے۔ ہم نے متعدد روایات ذکر کی ہیں جن میں یہ لفظ حلس / احلاس استعمال ہوا ہے۔ ایک روایت کے تحت وباء کے دوران میں اعتزال کیا جا سکتا ہے:

مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: وَبَاءٌ إِذَا وَقَعَ فِي اَلْأَرْضِ أَ نَعْتَزِلُ؟ قَالَ: وَمَا بَأْسٌ أَنْ تَعْتَزِلَ اَلْوَبَاءَ .

محمد بن مسلم کہتے ہیں: میں نے امام باقر ع سے عرض کیا: اگر کسی زمین میں وباء پھوٹ پڑے تو کیا ہم اس سے کنارہ کش ہوں؟ امام ع نے فرمایا: اس میں کیا مسئلہ ہے کہ تم وباء سے کنارہ کش ہو؟ (15)

اہل سنت کتب میں بھی اس قبیل کی روایات ہیں، مثلا:

... قَالَ فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ كَيْفَ أَفْعَلُ عِنْدَ ذَلِكَ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ قَالَ ‏"‏ الْزَمْ بَيْتَكَ وَامْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَخُذْ بِمَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْكِرُ... 

۔۔۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : یہ سن کر میں آپ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا ، اور میں نے عرض کیا : اللہ مجھے آپ پر قربان فرمائے ! ایسے وقت میں میں کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اپنے گھر میں رہو ، اور اپنی زبان پر قابو رکھنا ، اور جو چیز بھلی لگے اسے اختیار کرنا ، اور جو بری ہو اسے چھوڑ دینا۔۔۔ (16) 

البانی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔ طبرانی کی معجم میں جندب بن سفیان سے حدیث ہے کہ ایک وقت فتنے کا ایسا آئے گا جب بندہ صبح اٹھے گا تو مؤمن ہوگ ااور شام لوٹے گا تو کافر ہوگا۔ تو پھر آگے کی روایت ہے:

فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَكَيْفَ نَصْنَعُ عِنْدَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ادْخُلُوا بُيُوتَكُمْ وَاحْمِلُوا ذِكْرِكُمْ...

تو مسلمانوں میں سے کسی نے کہا: ہم اس وقت کیا کریں گے یا رسول اللہ ص؟ آپ ص نے فرمایا: اپنے گھروں میں جاؤ اور خود کو چھپائے رکھو۔۔۔ (17) 

ابن حجر نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ اس ہی طرح چوتھی صدی کے شاعر قحطانی نے اپنی "نونیہ" میں بھی ایسے مطالب کو ذکر کیا ہے، وہ کہتے ہیں:

جَمِّلْ زَمَانَـكَ بِالسُّـكُوتِ فَإِنَّـهُ  زَيْنُ الْحَلِـيمِ وَسُـتْرَةُ الْحَيْـرَانِ 
كُنْ حِلْسَ بَيْتِكَ إِنْ سَمِعْتَ بِفِتْنَـةٍ  وَتَــوَقَّ كُــلَّ مُنَــافِقٍ فَتَّــان

اپنے وقت کو خاموش رہ کر خوبصورت کرو، کیونکہ یہ حلیم بندے کی زینت ہے اور حیرت زدہ بندے کیلئے پردہ پوشی،
اپنے گھر میں بیٹھے رہو اگر کسی فتنے کا سُن لو، اور ہر منافق اور فتنہ پرور سے بچے رہو۔

پس نتیجہ یہ نکلا کہ یہ سب روایات اجمالی طور پر اس بات پر دال ہیں کہ عافیت کیلئے اپنے گھر میں رہنا بہتر ہے اور لوگوں سے اعتزال اچھی چیز ہے۔ ہاں، اعتزال اور رہبانیت میں فرق ضروری ہے کیونکہ اسلام رہبانیت کی تائید نہیں کرتا لیکن اگر فتنہ و فساد اور کسی قسم کے دینی یا دنیوی ضرر کا خدشہ ہو تو اپنے گھر کا لزوم ضروری ہوجاتا ہے۔ اگرچہ اس میں سے بعض روایات سنداً ضُعف کی حامل ہیں، مگر دیگر روایات سنداً قوی ہیں اور ایک دوسرے کی تائید کے طور پر شواہد ہیں، فلا يضر۔ واضح رہے کہ ہم ان احادیث کا اطلاق کسی خصوصی مورد میں نہیں کر رہے بلکہ یہ اجمالی طور پر منطبق ہو سکتی ہیں اور کسی بھی زمانے سے منسلک ہو سکتی ہیں جب کسی بھی قسم کا فتنہ عام ہوجائے۔ 

مآخذ:

(1) 1. وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ﴿البقرة: ٢٢٢﴾
2. إِلَّا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَن يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّـهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا ﴿النساء: ٩٠﴾
3. وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّـهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحْمَتِهِ وَيُهَيِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا ﴿الكهف: ١٦﴾
4. وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا ﴿مريم: ٤٨﴾
5. فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا ﴿مريم: ٤٩﴾
6. وَإِن لَّمْ تُؤْمِنُوا لِي فَاعْتَزِلُونِ ﴿الدخان: ٢١﴾
(2) ثواب الأعمال، ص 178، الخصال، ص 437، تحف العقول، ص 446
(3) الكافي، ج 2، ص 226
(4) موسوعة أحاديث أهل البيت، الرقم: 654
(5) المحاسن، ج 1، ص 4، الخصال، ص 85، الجعفريات، الرقم: 13318
(6) الكافي، ج 8، ص 264 – 265
(7) الأمالي للطوسي، ص 7: ...أبيه، أنه قال له فيما أوصاه لما حضرته الوفاة: " ثم إني أوصيك يا حسن، وكفى بك وصيا، بما أوصاني به رسول الله (صلى الله عليه وآله)، فإذا كان ذلك يا بني الزم بيتك...
(8) مستدرك الوسائل، ج 11، ص 384:
[١٣٣٢٠] ٣ - القطب الراوندي في قصص الأنبياء: بإسناده إلى الصدوق، عن محمد بن موسى المتوكل، عن محمد بن هارون، عن عبيد الله بن موسى، عن محمد بن الحسين، عن محمد بن المحصن، عن يونس بن ظبيان قال: قال الصادق (عليه السلام): " أوحى الله إلى نبي من أنبياء بني إسرائيل: إن أحببت أن تلقاني في حظيرة القدس، فكن في الدنيا وحيدا غريبا، مهموما محزونا، مستوحشا من الناس، بمنزلة الطير الواحد، فإذا كان الليل آوى وحده، واستوحش من الطيور، واستأنس بربه ".
[١٣٣٢١] ٤ - أحمد بن محمد بن فهد الحلي في كتاب التحصين: روى أبو عبد الله، عن ابن أبي عمير، عن إبراهيم بن عبد الحميد، عن الوليد بن صبيح قال: سمعت أبا عبد الله (عليه السلام) يقول: " لولا الموضع الذي وضعني الله فيه، لسرني أن أكون على رأس جبل، لا أعرف الناس ولا يعرفوني، حتى يأتيني الموت ".
[١٣٣٢٢] ٥ - وعن ابن بكير، عن فضيل بن يسار، عن عبد الواحد بن المختار الأنصاري، قال: قال لي أبو جعفر (عليه السلام): " يا عبد الواحد، ما يضرك - أو ما يضر رجلا - إذا كان على الحق، ما قال له الناس، ولو قالوا مجنون، وما يضره لو كان على رأس جبل يعبد الله حتى يجيئه الموت! ".
مستدرك الوسائل، ج 11، ص 388:
[١٣٣٣٧] ٢٠ - وعن أبي بصير قال: سمعت أبا عبد الله (عليه السلام) يقول: " العزلة عبادة، إذا قل العتب على الرجل قعوده في بيته ".

الكافي، ج 8، ص 128، الرقم: 98، الأمالي للصدوق، ص 765، الرقم: 1028
...قال الصادق (عليه السلام): إن قدرتم أن لا تعرفوا فافعلوا، وما عليك إن لم يثن عليك الناس، وما عليك أن تكون مذموما عند الناس، إذا كنت عند الله محمودا؟...
(9) نهج البلاغة، ج 2، ص 96 (بالعربية)، تفسير القمي، ج 2، ص 71
(10) الخصال، ص 295
(11) كمال الدين، ص 358
(12) الغيبة للطوسي، الرقم: 124
(13) الغيبة للنعماني، ص 198، و 291، و 269، الخرائج والجرائح، ج 1، ص 452
(14) الكافي، ج 42، الرقم: 8، الأمالي للصدوق، الرقم: 835
(15) الأصول الستة عشر من الأصول الأولية، ص 358، الرقم: 594
(16) سنن أبي داود، الرقم: 4343
(17) المعجم الكبير للطبراني، الرقم: 1703

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات