پاکستان میں شیعہ کشی کی مختصر تاریخ

پاکستان میں شیعہ  کشی کی مختصر تاریخ 

پاکستان میں شیعہ نسل کشی کی پہلی وردات 1950 میں وادی کرم پر دیوبندی قبائل کے حملے کی صورت میں ہوئی جو 1948 میں جہاد کشمیر کے نام پر اسلحہ اور مال غنیمت سمیٹ کر طاقتور ہو گئے تھے 1956 میں وادی کرم دوبارہ حملوں کا نشانہ بنی 1957 میں ملتان کے ضلع مظفر گڑھ کے گاؤں سیت پور میں محرم کے جلوس پر حملہ کرکے تین عزاداروں کو قتل کر دیا گیا حکومت کی طرف سے عدالتی کمیشن قائم کیا گیا اور اس وردات میں ملوث پانچ دہشت گردوں کو سزائے موت دی گئ اسی سال احمد پور شرقی میں عزاداری کے جلوس پر پتھراؤ کے نتیجے میں ایک شخص جان بحق اور تین شدید زخمی ہوئے جون 1958 میں بھکر میں ایک شیعہ خطیب آغا محسن کو قتل کر دیا گیا قاتل نے اعترافی بیان میں کہا کہ مولانا نور الحسن بخاری کی تقریر نے اسکو اس جرم پر اکسایا تھا جس میں شیعوں کو قتل کرنے والوں کو غازی علم دین شہید سے نسبت دی گی تھی اور جنت کی بشارت دی گئ تھی مولانا نور الحسن بخاری کو حکومت یا عوام کی طرف سے کوئی سزا نہ ملی جس سے تکفیری علماء کی حوصلہ افزائی ہوئی جوں جوں پاکستان میں مذہبی حکومت  کے قیام کی تحریک زور پکڑتی گئ معاشرے کو دیوبندی قسم کے مذہبی سانچے میں ڈھالنے کے عمل میں اضافہ ہوتا گیا
پاکستان کی ابتدائی تاریخ میں 1963 کا سال سب سے زیادہ خون ریز ثابت ہوا 3 جون 1963 کو بھاٹی دروازہ لاہور میں عزاداری کی جلوسوں پر پتھروں اور چاقوؤں سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو عزادار شہید اور سو کے قریب زخمی ہوئے نارووال چینوٹ اور کوہٹہ میں بھی عزاداروں پر حملے ہوئے اسی سال دہشت گردی کی بدترین وردات سندھ کے ضلع خیرپور کے گاؤں ٹھیری میں پیش آئی جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عاشورا کے دن 120 عزاداروں کو کلہاڑیوں اور تلواروں کی مدد سے ذبح کیا گیا اس وقت شیعہ دشمنی میں اتنی شدت آچکی تھی کہ 11جولائی 1967 کو مادر ملت فاطمہ جناح کو سرکاری اعزاز سے دفن کیے جانے پر دیوبندی عناصر نے اعتراض کیا اور شدت پسند طلبہ تنظیم نے پھتراؤ شروع کر دیا جس کے خلاف پولیس کو آنسو گیس استمعال کرنا پڑی جنرل ایوب خان نے اپنی یاداشتوں میں اس ہنگامے کا ذکر کیا ہے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جھنگ کراچی لاہور چکوال ڈیرہ غازی خان ملتان شیخوپورہ پارا چنار اور گلگت میں عزاداروں پر حملے ہوئے ہیں ان عشروں میں سابقہ دیوبندی عالم جو کہ پہلے سے ہی مذہب شیعہ قبول کر چکے تھے انہوں نے دیوبندی یلغار اور ثقافت کا مقابلہ کرنے کے لیے تنظیم اہل سنت نامی جماعت کے متعصب قائدین سے متعدد مقامات پر مناظرے کیے جن کی روداد فتوحات شیعہ کے عنوان سے چھپ چکی ہے اسطرح شیعت کو مزید فروغ ملا
یہ بات صرف قتل و غارت تک محدود نہ تھی نفرت پر مبنی لٹریچر کا تنور بھی بک رہا تھا مرزا حیرت دہلوی اور عبدالشکور لکھنوی کی کتابیں کم تھیں کہ محمود احمد عباسی اور ابویزیدبٹ کی کتابوں نے  اشتعال انگیز کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے بعد میں مسلک اہل حدیث کے علامہ احسان الہی ظہیر نے جلتی پر مزید تیل چھڑکا ان لوگوں کی گندی زبان کا ردعمل اسی کی دہائی میں اس صورت میں آیا جب پنجاب کے ایک عالم علامہ غلام حسین نجفی جواب میں مخصوص لوگوں کے متعلق ایسی زبان استمعال کی 1965 سے 1977 تک کے سالوں میں شیعہ کشی کی مہم دیوبندی علماء کے پیپلزپارٹی کے سوشلزم کی مخالفت مشرقی پاکستان میں مساوی حقوق کی تحریک کو کچلنے کے لیے البدر اور الشمس نام کی دہشت گرد تنظیمیں بنانے اور بعد میں ختم نبوت کی تحریک جیسے مسائل میں الجھ جانے کی وجہ سے ماند پڑ گئی 1974 میں جب قومی اسمبلی میں قادیانی مسلہ زیر بحث آیا تو مرزا ناصر کی طرف سے شیعہ عقائد پر بھی سوال اٹھایا گیا شیعہ ایم این اے سید عباس حسین گردیزی نے اپنے مکتب فکر کے علماء سے رابطہ کرکے 2ستمبر 1974 کو دس صفحات پر مشتمل وضاحتی بیان داخل کرایا
جولائی 1977 میں جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر جنرل ضیاالحق نے مارشل لا نافذ کیا تو اگلے محرم فروری 1978 میں لاہور میں آٹھ جبکہ کراچی میں 14 شیعہ شہید ہوئے ستم ظریفی دیکھیے نہ صرف 1971 کے انتخایات میں شیعہ علماء نے جمعیت علماء اسلام کا ساتھ دیا بلکہ پی این کی تحریک میں بھی اپنا وزن نفاذ اسلام کا دم بھرنے والی جماعتوں کے پلڑے میں ڈال دیا تھا جنرل ضیاالحق نے بھٹو دور میں سرکاری اسکولوں میں شیعہ بچوں کے لیے منظور کی جانے والی شیعہ دینیات کے مضمون پر پابندی لگا دی ضیاء کے زمانے میں کوئٹہ کراچی پارا چنار اور گلگت میں شیعوں پر بڑے حملے 1981 میں کرم ایجنسی کے سارے دیوبندی قبائل نے افغانستان مہاجرین کے ساتھ مل کر پارا چنار کے راستے موجود قصبہ صدہ میں شیعوں آبادیوں پر ہلہ بول دیا فلسطین پر اسرائیل قبضے کی طرز پر شیعوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا کیونکہ اس وقت تک انگریزوں کے زمانے میں تشکیل دی گئ کرم میلشیا وادی کرم میں موجود تھی لہذا جنگ صدہ تک ہی محدود رہی اور ایجنسی کے دیگر علاقوں تک پھیلنے نہ دی گئ 1983 میں کراچی میں  شیعوں آبادیوں پر حملے ہوئے جن میں ساٹھ افراد شہید کر دیے گئے 5جولائی 1985 کو کوئٹہ میں تکفیری دہشت گردوں نے اپنے دو پولیس والے سہولت کاروں کے ہمراہ پولیس کی وردیاں پہن کر شیعوں کے احتجاجی جلوسوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 25 شیعہ شہید ہوئے البتہ چونکہ یہ دو بدو مقابلے کی کوشش تھی لہذا 11 دہشت گرد جوابی حملے میں مارے گئے پولیس کے ریکارڈ کے مطابق ہلاک شدگان میں دو کی شناخت پولیس اہلکاروں کے طور پر ہوئی باقی 9 جعلی وردیاں پہن کر آئے تھے 24 جولائی 1987 کو پارا چنار میں شیعہ آبادیوں پر افغان مجاہدین کا حملہ شیعوں کی بھرپور تیاری کی وجہ سے ناکام ہو گیا اسی کی دہائی میں پاکستان بھر میں سات سو کے لگ بھلگ شیعہ شہید ہوئے جن میں سے 400 کے قریب لوگ 1988 میں گلگت کی غیر مسلح شیعہ آبادیوں پر حملے کے نتیجے میں شہید ہوئے 
90 کی دہائی میں سپاہ صحابہ نے شیعوں پر کئی  خون ریز حملے کیے ادھر افغانستان میں روس کے جانے کے بعد مجاہدین کے گروہ اقتدار کی خاطر آپس میں لڑ پڑے یہاں تک کہ پاکستانی حمایت یافتہ تحریک طالبان افغانستان نے مجاہدین کے باقی گروہ کو ملک کے شمالی علاقوں تک محدود کر دیا امیر عبدالرحمن خان کے بعد افغان طالبان کی حکومت میں دیوبندی علماء کو ہزارہ شیعہ کے قتل عام کا موقع ملا چناچہ بامیان اور مزار شریف میں بچوں کو بھی نہ بخشا گیا 
افغان طالبان نے پاکستان میں دیوبندی انقلاب لانے کی غرض سے دیوی بندی تنظیموں کے کارکنان کو فراخدلی پناہ اور ٹرینیگ مہیا کی پاکستان میں شیعہ قتل کرکے یہ لوگ افغانستان میں بھاگ جاتے ملک کے کئی نامور ڈاکڑ انجنئیر اور قانون دان محض شیعہ ہونے کی وجہ سے شہید کر دیےگئے انکی عورتیں بیوہ بچے یتیم اور والدین بے سہارا ہو گئے 
جماعت اسلامی اگرچہ شیعہ کشی سے دور ہونے کا دعوای کرتی ہے مگر جس جماعت نے بنگال میں ساڑھیاں پہننے کے جرم میں سنی خواتین کو نام نہاد مسلمان کہہ کر مارا ہو اس کے کارکنان شیعوں پر ظلم کرنے سے کیسے چوک سکتے ہیں ؟ لاہور ڈاکٹر محمد علی نقوی اور اردو کے معروف شاعر سید محسن نقوی کا قاتل اکرم لاہوری پنجاب یونیورسٹی کے لاء کالج میں اسلامی جمعیت کا ناظم  رہ چکا تھا یہ قیدی آجکل سکھر جیل میں قید ہے 
اخباری انٹرویو میں ان وارداتوں کا اعتراف کرنے کے باوجود سزا نہیں ملی 2001 میں ایرانی سفارت کار کے قاتل اور لشکر جھنگوی کے کارکن حق نواز کو موت کی سزا سنائی گئ تو لواحقین سے معافی دلوانے کے لیے جماعت اسلامی کے لیاقت حسین نے کوششیں کی جسکو لواحقین نے مسترد کر دیا 
بلوچستان کے سردار میر نادر عزیز کرو نے اپنی سوانح حیات میں قاضی حسین احمد کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے انکے مطابق وہ روس کے خلاف جنگ کرنے کے زمانے میں افغان مجاہدین کے ایک جلسے میں قاضی حسین احمد کو شیعہ مخالف تقریر کرتے دیکھ کر حیران رہ گئے تھے 
گزشتہ دو سو سال میں عزاداری کے جلوس ایک کامیاب مزاحمت کے طور پر سامنے آئے شیعوں نے پسپا ہونے کی بجائے زندہ رہنے کا فیصلہ کیا غیر مسلح اور عدم تشدد پر مبنی اس جہاد نے تکفریت کو ناامید کر دیا سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی سے لے کر نور الحسن بخاری اور اورنگزیب فاروقی تک کئ تکفیری علماء کی کوشش کے باوجود شیعہ اور بریلوی عوام نے دہشت ذدہ ہونے سے انکار کر دیا
آخر میں حیدر جاوید سید کے سلسلہ مضامین دیرہ پھلاں دا سہرا سے کچھ اقتباسات 
ڈیرہ میں سرائیکی بولنے والی شیعہ آبادی کا شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس سے پچھلے دو عشروں کے دوران ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کا شکار ہوئے مقتل کا جنازہ نہ اٹھا ہو اس شہر نے وہ بھیانک دن بھی دیکھے جب ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے مقتول کے ورثا میت لینے ہسپتال میں جمع ہوئے تو خودکش بمبار ان کے درمیان پھٹ گیا یا کسی مقتول کے جنازے پر خود کش حملہ آور ہو گیا ایک بار  تو یہ المیہ بھی ہوا ایک طرف سے دوخودکش بمباروں نے جنازے پر حملہ کر دیا دوسری طرف سے فرنٹئیر کانسٹیبلری نے فائرنگ کر دی اس دو طرفہ اقدام سے درجنوں لوگ شہید ہو گئے ڈیرہ کے بعض گھر تو ایسے بھی ہیں جہاں سے دو یا اس سے زیادہ افراد افراد کے جنازے اٹھے جو دہشت گردی کا شکار ہوئے کوٹلہ سیدان اور کوٹلی امام حسین ع کے قبرستانوں کے علاوہ بھی چند مقامات پر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے بچوں 
 نوجوانوں اور بزرگوں کے ساتھ متعدد خواتین کی قبریں بھی بنی ہوئی ہیں گنج شہیداں کہلانے والے قبرستانوں کے ان گوشوں میں قبروں کی تعداد بڑھ رہی ہے پر افسوس ملکی میڈیا کا اک ادارہ بھی ایسا نہیں جس نے اس مظلوم بے اماں اس شہر کے حق میں آواز بلند کی ہو یا ایک آدھ ایسا پروگرام جس سے باقی ماندہ ملک کے لوگ ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں کی مظلومیت سے آگاہ ہو سکتے

کتاب.پاکستان میں اہل تشیع کی مختص
کاپی

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات