خاندان رسالت کا عظیم الشان مقام

*""خاندان رسالت کا عظیم الشان مقام،*
*نسب رسول اللہؐ کی برتری اور فضیلت۔""*

*"سادات کرام، پنجتنی احباب کی خدمتِ عالیہ میں ایک خوبصورت تُحفہ۔"*

*"قرآن و حدیث کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے نسب کی برتری اور فضیلت کے سلسلہ میں شاندار تحریری مواد،"*
المشتہر۔&۔پیشکش از:-
*"سنی حسینی مشن۔"*
*"شھزادگانِ ساداتِ فاطمیہؑ۔"*

سادات کرام یعنی ذریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اگر نہ ھوتی تو اللہ تعالی نےذریت ابراہیم علیہ السلام میں امامت کیوں رکھی  ، اور فرما یا گیا کہ ھم نے آل ابراہیم کو چن لیا۔
سادات کی عظمت کا منکر  ملاں ان دلائل کا کیا جواب دے گا۔؟
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
*اِنَّ اللّـٰهَ اصْطَفٰٓى اٰدَمَ وَنُـوْحًا وَّاٰلَ اِبْـرَاهِـيْمَ وَاٰلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِيْن۔*
📖ال عمرانَ (33)
بے شک اللہ نے آدم کو اور نوح کو اور ابراھیم علیہم السلام کی آل کو اور عمران کی آل کو سارے جہان سے چن لیا ھے۔

*رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا اُمَّةً مُّسْلِمَةً لََّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَيْنَاج اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُo رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِکَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَيُزَکِّيْهِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ.*
📖(البقرة، 2: 128-129)
’’اے ھمارے رب! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا اور ہمیں ہماری عبادت (اور حج) کے قواعد بتا دے اور ہم پر (رحمت و مغفرت کی) نظر فرما، بے شک تو ہی بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے۔ اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ھے‘‘۔

 رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
*إِنَّ اﷲَ اصْطَفَی کِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ وَاصْطَفَی قُرَيْشًا مِنْ کِنَانَةَ وَاصْطَفَی مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ.*
📚(مسلم، الصحيح،
کتاب الفضائل، بَابُ فَضْلِ
 نَسَبِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه
 وآله وسلم 4:1782، رقم: 2276)
 ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں کنانہ کو فضیلت دی، اور کنانہ میں سے قریش کو فضیلت دی اور قریش میں سے بنوہاشم کو فضیلت دی اور بنوہاشم میں سے مجھ کو فضیلت دی‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نےفرمایا:

 اے لوگو! جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اسے دو حصوں میں تقسیم فرمایا (یعنی عرب و عجم) تو مجھے ان دونوں میں سے بہترین گروہ (بھی عرب) میں رکھا پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ (یعنی قریش) میں پیدا فرمایا۔ پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے (ان میں سے) بہترین گھرانہ میں پیدا کیا۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تم میں سے بہترین قبیلہ اور بہترین گھرانہ والا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ھے۔
16/4. عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِیْعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: أَیُّهَا النَّاسُ مَنْ أَنَا؟ قَالُوْا: أَنْتَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ. قَالَ: فَمَا سَمِعْنَاهُ قَطُّ یَنْتَمِي قَبْلَهَا، أَلَا إِنَّ ﷲَ تعالیٰ خَلَقَ خَلْقَهُ، فَجَعَلَنِي مِنْ خَیْرِ خَلْقِهِ، ثُمَّ فَرَّقَهُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلَنِي مِنْ خَیْرِ الْفِرْقَتَیْنِ، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَیْرِهِمْ قَبِیْلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُیُوْتًا فَجَعَلَنِي مِنْ خَیْرِهِمْ بَیْتًا، وَأَنَا خَیْرُکُمْ بَیْتًا وَخَیْرُکُمْ نَفْسًا.

نوٹ۔جو لوگ کہتے ہیں کہ نسب کی کوئی برتری نہیں ہے یا روز قیامت نسب رسول اللہ فائدہ نہیں دے گا ان کو دعوت حق ہے

نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم روز قیامت ضرور  فائدہ دے گا"""”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خادمہ کو کسی نے یہ کہا کہ نسب رسول اللہ فایدہ نھی دے گا  تو رسول اللہ جلال میں آگۓ...
اور یہ جواب عطا فرمایا....

حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک خادمہ تھی جو ان کی خدمت بجا لاتی اسے ’’بریرہ‘‘ کہا جاتا تھا پس اسے ایک آدمی ملا اور کہا : اے بریرہ اپنی چوٹی کو ڈھانپ کر رکھا کرو بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں اﷲ کی طرف سے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ راوی بیان کرتے ہیں پس اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقع کی خبر دی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے درآنحالیکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں رخسار مبارک سرخ تھے اور ہم (انصار کا گروہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصے کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چادر کے گھسیٹنے اور رخساروں کے سرخ ہونے سے پہچان لیتے تھے پس ہم نے اسلحہ اٹھایا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ گئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ جو چاہتے ہیں ہمیں حکم دیں پس اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ ہمیں ہماری ماؤں، آباء اور اولاد کے بارے میں بھی کوئی حکم فرمائیں گے تو ہم ان میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کو نافذ کر دیں گے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا : میں کون ہوں؟ ہم نے عرض کیا : آپ اﷲ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں لیکن میں کون ہوں؟ ہم نے عرض کیا : آپ محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کا سردار ہوں لیکن کوئی فخر نہیں، میں وہ پہلا شخص ہوں جس سے قبر پھٹے گی لیکن کوئی فخر نہیں اور میں وہ پہلا شخص ہوں جس کے سر سے مٹی جھاڑی جائے گی لیکن کوئی فخر نہیں اور میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والا ہوں لیکن کوئی فخر نہیں ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں کہ میرا رحم (نسب و تعلق) فائدہ نہیں دے گا ایسا نہیں ہے جیسا وہ گمان کرتے ہیں۔ بے شک میں شفاعت کروں گا اور میری شفاعت قبول بھی ہو گی یہاں تک کہ جس کی میں شفاعت کروں گا وہ یقیناً دوسروں کی شفاعت کرے گا اور اس کی بھی شفاعت قبول ہو گی یہاں تک کہ ابلیس بھی اپنی گردن کو بلند کرے گا شفاعت میں طمع کی خاطر (یا کسی طور اس کی شفاعت بھی کوئی کر دے)۔‘‘
 اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے
الحديث رقم 15 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 203، الرقم : 5082، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 376.

حوالہ جات۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِیْحِ.

 أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/165،

 والطبراني في المعجم الکبیر، 20/286، الرقم: 675-676،
 والحاکم في المستدرک، 3/275، الرقم: 5077،
 وأبو نعیم في دلائل النبوة، 1/58، الرقم: 16،
 وابن أبي عاصم في السنة، 2/632، الرقم: 1497،
وابن أبي شیبة في المصنف، 6/303، الرقم: 31639،

 والشیباني في الآحاد والمثاني، 1/318، الرقم: 439،

 وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 2/174،

 والسیوطي في الدر المنثور، 3/ 294-295، 4/ 128-201.
پیشکش از؛-
*"سنی حسینیؑ مشن"*

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات