میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو ‏

السلام علیکم،

میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو 

جیسا کہ آپ کے علم میں ہے میں نے ضمیر اختر پر اپنی وضاحت پیش کی تھی اور جو ایک اچھا کام انہوں نے بول ٹی وی پر کیا اسے سراہا بھی لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا اگلے پروگرام میں مفتی عابد مبارک نے علم الرجال الحديث کی بحث چھیڑتے ہوئے اس حدیث کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا.. کو صحیح حدیث ثابت کیا جس پر ضمیر اختر کچھ نہ کہہ سکے اور یہاں پر بالکل بےزاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو تاثر دے گئے کہ جو سامنے والا مفتی ہے اس نے شاید درست کہا ہے.
اب جبکہ ضمیر اختر کی جانب سے کوئی دفاع نہیں کیا گیا جو کے شاید وہ کر بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ تاریخ کا علم الگ ہوتا جو کوئی بھی حاصل کر لیتا ہے لیکن سندِ حدیث پر جرح کرنے کے لیے باقاعدہ علم الحدیث حاصل کرنا ہوتا ہے.
مجھے شدید رنج سے یہ دوبارہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ضمیر اختر مبینہ مرشد کو تشیع کا عالم نہ سمجھا جائے.. خدارا 
اب میں مجبور ہوں کہ اس حدیث کو لے کر یہاں اس جاہل مفتی عابد مبارک کو جواب دوں اور وہ بھی خود اسی کی کتابوں سے..

کوشش کروں گا کہ علمی اور عقلی دونوں لحاظ سے اس حدیث کا رد پیش کروں اور وہ بھی مختصر مگر جامع انداز میں.

یہ وہ حدیث ہے جسے مسند أحمد، رقم: 17405، جامع الترمذي، رقم: 3686 اور المستدرك للحاكم، رقم: 4495 وغیرھم میں درج ہے،

اس کا عربی متن یہ ہے :
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو، أَنَّ مِشْرَحَ بْنَ هَاعَانَ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَوْ كَانَ مِنْ بَعْدِي نَبِيٌّ، لَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ "

ہم سے بیان کیا ابو عبد الرحمان نے، اس نے کہا کہ ہم سے بیان کیا حیوہ نے، اس نے کہا کہ ہم سے بیان کیا بکر بن عمرو نے اور اسکو مشرح بن ھاعان نے خبر دی کہ اس نے عقبہ بن عامر کو کہتے سنا تھا کہ میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے سنا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ یقیناَ عمر بن الخطاب ہوتا۔

سب سے پہلے میں اس حدیث کو عقلی دلیلوں سے رد کرتا ہوں پھر رجال کی بحث سے ثابت کروں گا کہ یہ حدیث علماء اہل سنت میں بھی "ضعیف حدیث" ہے. 

عقلی رد :

تمام امت مسلمہ جانتی ہے اور متفق ہے کہ عمر بن خطاب نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ شرک اور بت پرستی میں گزارا، یہ ایسی بات ہے جو متواتر طریقہ سے ثابت ہے اور اس پر استدلال و برہان کی ضرورت نہیں ہے ، پس کس طرح ممکن ہے کہ کوئی اس حالت میں نبوت کے قابل ہو؟ 

دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ نبی کے لیے عصمت یعنی معصوم عن الخطاء ہونا ضروری ہے اور عمر بن خطاب قطعاً معصوم نہیں تھا، پس جو معصوم نہیں ہے وہ کیسے نبی بن سکتا ہے؟ 

تیسری بات یہ کہ اس حدیث سے ابوبکر پر عمر کی افضلیت ثابت ہو رہی ہے  لیکن اہل سنت اس بات کو قبول نہیں کرتے اور وہ ابوبکر کو بعد رسول تمام اصحاب سے مقدم مانتے ہیں ۔ تو کیسے کوئی نبی اپنی امت کے کسی فرد سے کم فضیلت رکھتے ہوئے نبی ہو سکتا ہے؟؟

تو آپ احباب نے دیکھا کہ عقل کسی طور پر ایسی جعلی حدیث کو قبول نہیں کرتی بلکہ یہ حدیث تو ختم نبوت پر حملہ ہے کیونکہ جب "اگر" آ گیا تو وہاں قادیانیوں پر یہ دروازہ کھل گیا کہ بعد رسول خاتم (معاذاللہ) کوئی دوسرا نبی آ سکتا ہے.

اب آتے ہیں اس بات پر کہ یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف اور وہ بھی علماء اہل سنت کے نزدیک!!

تو سب سے پہلے اسی حوالے پر چلتے ہیں جنہوں نے یہ حدیث نقل کی ہے اور تمام اہل سنت اسی حوالے سے اسے پیش کرتے ہیں. تو آئیے جانتے ہیں کہ خود انہی اہل سنت محدث کا اپنی اس حدیث پر کیا نظریہ ہے. 

المنتخب من علل الخلل میں درج ہے کہ امام أحمد بن حنبل سے اس حدیث کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا، کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:

فقال: اضرب عليه؛ فإنه عندي منكر۔ 

ترجمہ : "اس کو کاٹ دو، کیونکہ یہ میرے نزدیک منکر ہے"

تو دیکھا آپ نے.. کہ اپنی مسند میں حدیث کو لانے والا خود اس حدیث سے انکار کرتے ہوئے اسے منکر کہہ رہا ہے. 

اب آتے ہیں دیگر اہل سنت علم الحدیث کے علماء کی طرف کہ ان کی اس جعلی حدیث کے بارے میں کیا رائے ہے. 

امام ابن حجر العسقلاني اپنی کتاب تهيذيب التهذيب میں لکھتے ہیں:

وعلته : مشرح بن هاعان ، فإنه وإن وثقه ابن معين ، فقد قال ابن حبان : " يروي عن عقبة مناكير لا يتابع عليها ، فالصواب ترك ما انفرد به " .

اس حدیث کی سند میں مسئلہ مشرح بن ھاعان ہے، اسکو ابن معین نے ثقہ کہا ہے، اور ابن حبان نے کہا ہے کہ وہ عقبہ سے منکر احادیث بیان کرتا تھا اور کوئی اور سند نہیں ان احادیث کی جو اسکی حمایت کریں، تو بہتر ہے کہ وہ احادیث ترک کی جائیں جن میں وہی راوی ہے۔

حوالہ : تهيذيب التهذيب، جلد 10، صفحہ 155

امام ابن جوزي اپنی کتاب الموضوعات یعنی گھڑی ہوئی احادیث میں لکھتے ہیں:

عَنْ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قَالَ رَسُول الله قلى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَوْ لَمْ أُبْعَثْ فِيكُمْ لَبُعِثَ عُمَرُ " هَذَانِ حديثان لَا يصحان عَن رغول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. أما الأول: يحيى كَانَ من الْكَذَّابين الْكِبَار. قَالَ ابْن عدي: كَانَ يضع الحَدِيث، وَأما الثَّانِي فَقَالَ أَحْمد: وَيحيى بن عبد الله بن وَاقد لَيْسَ بشئ. وَقَالَ النَّسَائِيُّ: مَتْرُوكُ الْحَدِيثِ. وَقَالَ ابْن حبَان: انقلبت على مشرح صحائفه فَبَطل الِاحْتِجَاج بِهِ.

مشرح بن ھاعان نے عقبہ بن عامر سے روایت کی کہ اس نے کہا کہ رسول الله ﷺ نے کہا کہ اگر میں نہ بھیجا جاتا تو یقینا تم میں عمر کو مبعوث کیا جاتا (بطور نبی)۔ 
پھر ابن جوزي کہتا ہے:
یہ احادیث رسول اللہ  سے "صحیح سند سے ثابت نہیں ہیں" ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اسکی سند میں یحیی ہے اور وہ بڑے جھوٹوں میں سے تھا۔ ابن عدي نے کہا کہ وہ احادیث گھڑتا تھا۔ اور دوسری بات کہ احمد بن حنبل اور یحیی نے کہا ہے کہ وہ کوئی چیز نہیں۔ امام نسائی نے کہا کہ وہ متروک ہے حدیث میں۔ ابن حبان نے کہا کہ اس سے حدیث نہیں نقل کی جا سکتی۔

حوالہ : الموضوعات، جلد 1، صفحہ 320

اب امام ہیثمی لکھتے ہیں کہ اس ہی حدیث کی ایک اور سند ہے، جس میں ابو سعید ہے، جو کہ ضعیف روایت ہے 

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ ، وَفِيهِ عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ بَشِيرٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ

اس حدیث کو طبرانی نے اپنی کتاب الأوسط میں نقلکیا ہے اور اس میں عبد المنعم بن بشیر ہے، اور وہ ضعیف راوی ہے۔

حوالہ : مجمع الزوائد، جلد 9، صفحہ 68

اب دیکھیے کہ امام ذہبی اپنی تصنیف ميزان الاعتدال في نقد الرجال میں کیا لکھتے ہیں.. 

وعبد المنعم بن بشير متروك متهم ، قال ابن حبان: منكر الحديث جدا، لا يجوز الاحتجاج به.
وقال الختلى : سمعت ابن معين يقول: " أتيت عبد المنعم ، فأخرج إلي أحاديث أبي مودود ، نحوا من مائتي حديث كذب

عبد المنعم بن بشیر متروک اور متھم ہے، ابن حبان نے کہا کہ وہ منکر الحدیث ہے اور اس سے حدیث نقل نہیں کی جا سکتی۔ 

الختلي نے کہا کہ میں نے ابن معین کو کہتے سنا کہ میں عبد المنعم کے پاس آیا اور اس نے مجھے ابو مودود کی احادیث دیکھائیں، اس میں 200 گھڑی ہوئی احادیث تھیں۔

حوالہ : ميزان الإعتدال، جلد 2، صفحہ 669

تو دیکھا احباب آپ نے کہ یہ حدیث قطعاً صحیح السند نہیں بلکہ ضعیف اور مردود ہے اور عقلی دلائل سے بھی رد شدہ ہے. 

بس اب آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ ضمیر اختر جیسوں کو مرشد کے القابات سے نوازتے ہوئے اس اہل تشیع کا بہت بڑا عالم ظاہر کرتے ہوئے قطعاً قبول نہ کیا جائے بلکہ عوام علماء حق کو سنیں اور ان سے رابطہ رکھیں اور انہی کو اپنی مجالس کی ذمہ داری پیش کریں. 

دل تو چاہ رہا ہے کہ مزید لکھوں اس ضمیری سودے پر لیکن نہیں بس اتنا کہ ایسے جہلاء سے عوام خدارا دور رہیں.

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات