کیا معاویہ کاتب وحی تھا
👈👈👈 کیا معاویہ کاتب وحی تھا ??
خود ساختہ روایت کے بطلان میں مدلل تفصیلی جوابات ۔
ممبران گروپ کیلیئے ایک زبردست علمی و تحقیقی پوسٹ :
1- معاویہ کے کاتب وحی ھونے کی روایت کی تحقیق ۔
2- مندرجہ روایت کے ضعیف ھونے کے دلائل ۔
3- مندرجہ روایت اور اھلسنت ۔
4- کتابت گناہ سے معصوم نہیں بناتی ۔ (مرتد ھونا)
5- کاتب وحی کی میت کو زمین نے قبول نہیں کیا ۔
6- معاویہ کی حضرت علی (ع) سے دشمنی ۔
7- عیسائی اور ۔۔۔۔۔ کاتب وحی ۔
8- معاویہ کے مسلمان ھونے کی تاریخ ۔
9- روایت کا کتب شیعہ میں ھونے کا جواب ۔
10- روایت کے دیگر پہلو اور ۔۔۔۔۔ متفرقات ۔
(بشکریہ ابرار حسین بخاری)
جو چیز ھمیں روایات اور تاریخی کتب سے ملتی ھے ۔ اور ثابت شدہ ھے ، وہ یہ ھے امیر المومنین علی علیہ السلام ، ابی بن کعب ، زید بن ثابت اور ۔۔۔ دیگر کاتب وحی تھے ۔ لیکن معاویہ بن ابو سفیان کا بھی کاتب وحی ھونا ثابت نہیں ھے اور اھلسنت کے بزرگ علماء نے اس بات کو بنو امیہ کا شاخسانہ قرار دیا ھے ۔
👈 معاویہ کا کاتب وحی ھونے کی روایت کی تحقیق :
اھلسنت کے منابع میں اھم ترین روایت جو معاویہ کو کاتب وحی ھونا بتاتی ھے ۔ وہ صحیح مسلم نیشاپوری کی روایت ھے ۔ جو درج زیل ھے :
حدثني عَبَّاسُ بن عبد الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ وَأَحْمَدُ بن جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ قالا حدثنا النَّضْرُ وهو بن مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيُّ حدثنا عِكْرِمَةُ حدثنا أبو زُمَيْلٍ حدثني بن عَبَّاسٍ قال كان الْمُسْلِمُونَ لَا يَنْظُرُونَ إلى أبي سُفْيَانَ ولا يُقَاعِدُونَهُ فقال لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يا نَبِيَّ اللَّهِ ثَلَاثٌ أَعْطِنِيهِنَّ قال نعم قال عِنْدِي أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَأَجْمَلُهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أبي سُفْيَانَ ازوجكها قال نعم قال وَمُعَاوِيَةُ تَجْعَلُهُ كَاتِبًا بين يَدَيْكَ قال نعم قال وَتُؤَمِّرُنِي حتى أُقَاتِلَ الْكُفَّارَ كما كنت أُقَاتِلُ الْمُسْلِمِينَ قال نعم قال أبو زُمَيْلٍ وَلَوْلَا أَنَّهُ طَلَبَ ذلك من النبي صلى الله عليه وسلم ما أَعْطَاهُ ذلك لِأَنَّهُ لم يَكُنْ يُسْأَلُ شيئا إلا قال نعم .
ابن عباس کہتے ھیں :
مسلمین ابو سفیان کا احترام نہیں کرتے تھے اور اسکے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے اجتناب کرتے تھے ۔ تو ابوسفیان نے بنی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے عرض کی کہ : میں آپ سے تین چیزوں کا طلبگار ھوں ۔ اور اسکی خواھش ھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہو ، ابوسفیان نے کہا : میرے پاس میری بیٹی ام حبیبہ عرب کی خوبصورت اور جمیل ترین عورت ھے ۔ میں اسکی شادی آپ سے کرتا ھوں آپ (ص) نے فرمایا : قبول ھے ۔ کہا اور میرے بیٹے کو اپنے لیئے کاتب قرار دیں ۔ آپنے فرمایا ۔ ٹھیک ھے ۔ مجھے امیر قرار دیں تاکہ کفار سے جنگ کروں ۔ جسطرح مسلمانوں سے جنگ کیا کرتا تھا ۔ آپ نے فرمایا ، منظور ھے ۔ ابو زمیل کہتا ھے اگر ابوسفیان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے طلب نہیں کرتا ۔ تو اسے عطا نہ کرتے ۔ اسلیئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوال کو رد نہیں کرتے ھیں ۔ حوالہ مسلم شریف ملاحظہ فرمائیں :
النيسابوري ، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفي261هـ) ، صحيح مسلم جلد 4 صفہہ 1945 حدیث2501 كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ 40 بَاب من فَضَائِلِ أبي سُفْيَانَ بن حَرْبٍ تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي ناشر دار إحياء التراث العربي بيروت ۔
نووي (متوفي 676هـ) اس روایت کی شرح لکھتے ھیں :
واعلم أن هذا الحديث من الاحاديث المشهورة بالاشكال و وجه الاشكال أن أبا سفيان إنّما أسلم يوم فتح مكة سنة ثمان من الهجرة وهذا مشهور لا خلاف فيه وكان النبي صلى الله عليه وسلم قد تزّوج أم حبيبة قبل ذلك بزمان طويل . قال أبو عبيدة وخليفة بن خياط وإبن البرقي والجمهور: تزّوجها سنة ست وقيل سنة سبع ... .
قال القاضي : والذي في مسلم هنا أنّه زوّجها أبو سفيان غريب جدّاً وخبرها مع أبي سفيان حين ورد المدينة في حال كفره مشهور ولم يزد القاضي على هذا . وقال ابن حزم هذا الحديث وهم من بعض الرواة ؛ لأنّه لا خلاف بين الناس أنّ النبي صلى الله عليه وسلم تزّوج أم حبيبة قبل الفتح بدهر وهي بأرض الحبشة وأبوها كافر وفي رواية عن ابن حزم أيضاً أنّه قال: موضوع قال : والآفة فيه من عِكْرِمَة بن عمار الراوي عن أبي زميل ...
یہ حدیث ان احادیث میں سے ھے ۔ جسپر اعتراض اور اشکال مشہور و معروف ھے اور اسکی وجہ یہ ھے ۔ کہ یقینا ابو سفیان فتح مکہ 8 ھجری میں مسلمان ھوا ھے ۔ جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےام حبیبہ سے فتح مکہ سے بہت پہلے شادی کر رکھی تھی ۔
ابوعبیدہ ، خلیفہ بن خیاط ، ابن برقی اور جمہور نے کہا ھے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے ام حبیبہ سے 6 ھجری میں شادی کی تھی اور کہا گیا ھے ۔ سات ھجری میں قاضی نے کہا کہ : مسلم کی یہ روایت انتہائی عجیب و غریب ھے اور ابوسفیان کا مدینہ میں کفر کی حالت میں آنا مشہور ھے ۔ ابن حزم نے کہا ھے : یہ حدیث بعض راویوں کا وھم ھے اسلیئے اسمیں اختلاف نہیں ھے ۔ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام حبیبہ سے عام الفتح سے کافی پہلے شادی کی تھی ۔ اور ام حبیبہ حبشہ کے مہاجرین میں سے تھی ۔ جبکہ اسکا باپ کافر تھا اور ابن حزم سے دوسری روایت ھوئی ھے کہ اسمیں کہا یہ حدیث بناوٹی اور جعلی ھے اور اسکی مشکل اس حدیث کا راوی عکرمہ بن عمار راوی ھے ۔ جسنے ابو زمیل سے روایت کی ھے ۔۔۔۔
حوالہ ملاحظہ فرمائیں :
النووي ، أبو زكريا يحيى بن شرف بن مري ، شرح النووي على صحيح مسلم جلد 16 صفہہ 63 ناشر دار إحياء التراث العربي بيروت الطبعة الثانية 1392 ھ ۔
شمس الدين ذهبي متوفي 748 هـ نے ميزان الإعتدال میں لکھا ھے : وفي صحيح مسلم قد ساق له أصلا منكرا عن سماك الحنفي عن ابن عباس في الثلاثة التي طلبها أبو سفيان وثلاثة أحاديث أخر بالإسناد .
اس حدیث اور دوسری تین احادیث صحیح مسلم میں منکرات نقل ھوئی ھیں ... الذهبي ، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان أبو عبد الله ، ميزان الاعتدال في نقد الرجال ، ج 5 ، ص 116 ، تحقيق : الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت ، الطبعة : الأولى ، 1995م .
إبن ملقن شافعي متوفي 804 هـ نے بھی اس روایت پر تنقید کرتے ھوئے لکھا ھے : هذا من الأحاديث المشهورة بالإشكال المعروفة بالإعضال ، ووجه الإشكال : أنّ أبا سفيان إنّما أسلم يوم الفتح ، والفتح سنة ثمان ، والنبي كان قد تزّوجها قبل ذلك بزمن طويل . قَالَ خليفة بن خياط : والمشهور على أنّه تزّوجها سنة ست ، ودخل بها سنة سبع . وقيل : تزّوجها سنة سبع ، وقيل : سنة خمس : یہ حدیث ان احادیث میں سے ھے جو اشکال اور اعتراض میں مشہور ھیں اورکراہیت میں معروف ھیں اعتراض یہ ھے کہ ابوسفیان یوم فتح کو مسلمان ھوا ھے اور وہ ۸ ھجری ھے ۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام حبیبہ سے ایک زمان قبل شادی کر لی تھی ۔ خلیفہ بن خیاط نے کہا ھے ۔ کہ مشہور ھے شادی ۶ ھجری میں ھوئی اور زفاف ۷ ھجری میں ۔ بعض نے سات اور بعض نے پانچ ھجری کہا ھے ۔ ملاحظہ ھوں : الأنصاري الشافعي سراج الدين أبي حفص عمر بن علي بن أحمد المعروف بابن الملقن ، البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير جلد 6 صفہہ 731 تحقيق مصطفى أبو الغيط و عبدالله بن سليمان وياسر بن كمال ناشر دار الهجرة للنشر والتوزيع - الرياض السعودية الطبعة الاولى 1425هـ 2004م .
ابن قيم الجوزيه (متوفي 751هـ)ابن تیمیہ کے خاص شاگرد نے اس روایت پر تفصیلی اعتراض کیا ھے ۔ بعض کیطرف اشارہ کرتے ھیں :
👈 (صرف ترجمہ) : یعنی یہ حدیث عوام کیلیئے مورد اعتراض واقع ھوئی ھے ۔ اسلیئے کہ ام حبیبہ نے ابوسفیان کے مسلمان ھونے سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے شادی کی تھی ۔ اور یہ شادی حبشہ میں نجاشی نے کروائی تھی ۔ لھذا کیسے ھو سکتا ھے کہ فتح مکہ کیبعد ابوسفیان پیغمر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے کہا ۔ کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کرنا چاہتا ھوں ۔ ایک جماعت نے کہا : کہ یہ حدیث جھوٹی اور کذب ھے اور ابن حزم نے کہا ۔ اس حدیث کو عکرمہ بن عمار نے رسول اکرم (ص) پر جھوٹ باندھا ھے ۔
لیکن بعض نے اس حدیث کا دفاع کیا ھے اور کہا ھے ۔ کہ صحیح مسلم میں جعلی اور گھڑی ھوئی احادیث نہیں ھے ۔ لہذا اسکی توجیہ کی ھے اور کہا کہ : ابوسفیان نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست کی ۔ وہ دوبارہ ام حبیبہ سے نکاح کریں تاکہ اسکی عزت مسلمانوں میں پیدا ھو لیکن توجیہ صحیح نہیں ھے ۔ اسلیئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکی درخواست کو قبول کیا ھے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وعدہ خلافی نہیں کیا کرتے ۔ جبکہ کسی نے نہیں کہا ھے کہ دوبارہ نکاح کیا گیا ۔ اور ایسی کوئی بات ھوتی تو ضرور نقل ھوتی ۔ پس معلوم ھوتا ھے کہ اسکی کوئی حقیقت نہیں ھے ۔
بعض نے یہ کہا ھے ۔ کہ محدثین اور مورخین حبشہ میں ھونے والی ام حبیبہ کی شادی کو قبول نہیں کرتے ۔ بلکہ مدینے میں ام حبیبہ کے لوٹنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام حبیبہ سے شادی کرتے ھیں اس قول کو ابو محمد مننری نے نقل کیا ھے لیکن یہ توجیہ ضعیف ترین قول ھے ۔
👈👈👈 ضیعف ھونے کے دلائل یہ ھیں :
اول : اس توجیہ اور جواب کو کہیں نہیں دیکھا گیا اور نہ کسی مورد اطمینان شخص نے نقل کیا ھے ۔
دوم : ام حبیبہ کا نکاح حبشہ میں تواتر سے نقل ھوا ھے ۔ جسطرح سے حضرت خدیجہ و عائشہ کا مکہ میں اور حفصہ ، صفیہ ، اور میمونہ کا مدینہ میں ھونا متواتر اور اتنا مشہور ھے کہ جو یقین اور قطع تک پہنچ گیا ھے اور اگر کوئی اسکے خلاف ماخذ ھوتا بھی تو اسکو غلط قرار دیا جائے گا اور اسکیطرف توجہ بھی نہیں ھو گی ۔
سوم : جو کوئی بھی سیرت اور تاریخ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے آشنا ھے وہ جانتا ھے ۔ کہ ام حبیبہ کی شادی فتح مکہ کیبعد نہیں ھوئی اور کوئی ایسا گمان بھی نہیں کر سکتا ۔
چہارم : ابو سفیان مدینے آتا ھے اور ام حبیبہ کے ہاں جاکر جب مسند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیٹھنا چاہتا ھے تو ام حبیبہ مسند کو ھٹا دیتی ھے ۔ ابو سفیان کہتا ھے کہ : بیٹی کیا یہ مسند میرے لائق نہیں ھے یا میں اسکا لائق نہیں ھوں ?? : ام حبیبہ کہتی ھے ۔ یہ مسند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسند ھے ۔ {اشارہ اس بات کیطرف ھے تم کافر اسکے لائق نہیں ھو} ابوسفیان نے کہا : تم میرے بعد شر اور بدبختی میں چلی جاو گی ۔
پنجم : ام حبیبہ اپنے شوہر عبداللہ بن جحش کے ساتھ حبشہ میں مہاجرت اختیار کیئے ھوئے تھے ۔ چونکہ انکا شوھر مرتد اور عیسائی ھو گیا تھا ۔ اور اسی جگہ مر گیا تھا ۔ ام حبیبہ حبشہ سے آنے کیبعد مدینے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے گھر جاتی ھیں اور اپنے باپ کے گھر میں نہیں تھی ۔ اس ماجرے میں کسی کو بھی شک و شبہ نہیں ھے ۔ اور ساتھ میں ابوسفیان فتح مکہ کے بعد مسلمان ھوا پس ابوسفیان کیسے اس حدیث میں کہتا ھے ?? کہ میری بیٹی سے نکاح کرلو . جو عرب کی خوبصورت ترین اور جمیل ترین عورت ھے . کیا ام حبیبہ حبشہ کیبعد اور اسکے مسلمان ھونے سے پہلے اپنے ابوسفیان کے گھر تھی ?? جو محال ھے ۔ اسلیئے انکی شادی فتح مکہ سے پہلے تھی اورابوسفیان فتح مکہ کے بعد مسلمان ھوا ۔
ابن جوزی کہتا ھے : کہ یہ روایت بلا شبہ اشتباہ ھے ۔ جو بعض راویان حدیث سے ھوا اور وہ عکرمہ بن عمار ھے اسلیئے مورخوں کا اجماع ھے کہ ام حبیبہ عبداللہ بن حجش کی بیوی تھی ۔ اور انسے ایک اولاد بھی تھی اور حبشہ ھجرت کی ۔ لیکن عبد اللہ عیسائی ھوگیا اور ام حبیبہ مسلمان رھی ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجاشی کو پیغام بھیجا کہ ام حبیبہ کا نکاح مجھ سے کر دو اور ۴ ھزار درھم مہر رکھیں ۔ یہ واقعہ 7 ھجری میں پیش آیا ۔ لیکن ابو سفیان صلح کے زمانے میں مدینہ آیا اوراپنی بیٹی ام حبیبہ کے گھر گیا مسند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کو ام حبیبہ نے ہٹایا ۔ تاکہ ابوسفیان نہ بیٹھے ابو سفیان اور معاویہ کا مسلمان ھونا بلا خلاف و اختلاف ۸ ھجری فتح مکہ کے بعد ھے ۔ اور کوئی سند و مدرک نہیں ھے ۔ کہ اسے امیر قرار دیا گیا ھو ??
ایک دیگر گروہ نے جیسے بیہقی اور مننری کہتے ھیں کہ :
احتمال پایا جاتا ھے ابو سفیان نے اپنے مدینے کبھی آنے کیبعد جو ام حبیبہ کا شوہر مر چکا تھا شادی کی پیشکش کی ھو اور دو پیشکش مسلمان ھونے کیبعد کی ھو اور راوی نے تینوں کو جمع کر دیا ھو ۔
لیکن یہ احتمال بھی ضعیف ھے اور بیبنیاد ھے اسلیئے کہ ابوسفیان ھجرت اور فتح مکہ سے پہلے صلح کے زمانے میں مدینے آیا تھا ۔ جب ام حبیبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے گھر میں تھی اور اس سے پہلے جنگ احزاب کے علاوہ مدینے نہیں آیا تھا اسکے علاوہ ابوسفیان کافر تھا اور کافر مسلمان پر ولایت نہیں رکھتا ھے پس ابوسفیان کی خواہش کہ میں اپنی بیٹی کی آپ سے شادی کرنا چاہتا ھوں ۔ جھوٹ اور باطل ھے ۔ ساتھ میں حدیث سے صاف ظاھر ھے کہ یہ تینوں خواہش ایک ساتھ طلب کی گئی ھیں اور دوسری طرف یہ کہا جا رہا ھے کہ کتابت وحی معاویہ اور امیر ھونے کی خواھش مسلمان ھونے کیبعد کی گئی ۔ جبکہ بعض خواھش کفر کے زمانے میں کی ۔ کیا یہ قابل جمع ھیں ??
نتیجہ : وہ تمام توجیحات جو اس حدیث کے بارے میں کہی گئی . سب باطل اور بیبنیاد ھیں اور علمی لحاظ سے اسکا کوئی فائدہ نہیں ۔ اور یہ کہنا بالکل درست ھے ۔ کہ اس حدیث میں بہت اشتباھات ھیں ۔ ملاحظہ ھو : الزرعي الدمشقي محمد بن أبي بكر أيوب (معروف به ابن قيم الجوزية) جلاء الأفهام في فضل الصلاة على محمد خير الأنام جلد 1 صفہہ 243 ـ 249 تحقيق شعيب الأرناؤوط عبد القادر الأرناؤوط ناشر دار العروبة ۔
👈 معاویہ کا کاتب وحی ھونا اور علماء اھلسنت :
👈۔معاويه معمولی خطوط کا کاتب تھا ۔۔۔۔۔
بہت سے اھلسنت کے بزرگ علماء یہ عقیدہ رکھتے ھیں ۔ کہ معاویہ فقط معمولی خطوط ِرسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھتا تھا
شمس الدين ذهبي متوفي 748هـ سير اعلام النبلاء میں لکھتے ھیں :
ونقل المفضل الغلابي عن أبي الحسن الكوفي قال كان زيد بن ثابت كاتب الوحي وكان معاوية كاتبا فيما بين النبي صلى الله عليه وسلم وبين العرب : زيد بن ثابت كاتب وحي تھے اور معاویہ عرب کو خط لکھتا تھا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی طرف سے : الذهبي ، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان أبو عبد الله ، سير أعلام النبلاء ، جلد 3 صفہہ 123 تحقيق شعيب الأرناؤوط محمد نعيم العرقسوسي ناشر مؤسسة الرسالة بيروت الطبعة التاسعة 1413هـ ۔۔
ابن حجر عسقلاني (متوفي852هـ) نے بھی الإصابة میں لکھا ھے کہ :
وقال المدائني كان زيد بن ثابت يكتب الوحي وكان معاوية يكتب للنبي صلى الله عليه وسلم فيما بينه وبين العرب : مدائني کہتے ھیں : زيد بن ثابت کاتب وحی تھے اور معاویہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کیطرف سے عرب کو خطوط لکھتا تھا ۔۔۔ : العسقلاني ، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل الشافعي الإصابة في تمييز الصحابة جلد 6 صفہہ 153 تحقيق علي محمد البجاوي ناشر دار الجيل بيروت الطبعة الأولى 1412 - 1992 ۔۔۔
👈 ابن أبي الحديد شافعي متوفي655هـ لکھتے ھیں کہ :
تاریخ اور سیرت پیامبر گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محققین لکھتے ھیں ۔ کہ علی علیہ السلام اور زید بن ثابت اور زید بن ارقم وحی کو لکھا کر تا تھے ۔ جبکہ حنظلہ بن ربیع تیمی اور معاویہ خطوط لکھا کرتے تھے ۔ جو دیگر ممالک اور قبائل کو لکھے جاتے تھے اور انکی حوائج کو لکھتے تھے ۔ اسی طرح بیت المال حساب کتاب ۔
إبن أبي الحديد المعتزلي ، أبو حامد عز الدين بن هبة الله ، شرح نهج البلاغة جلد 1 صفہہ 201 ـ 202 تحقيق محمد عبد الكريم النمري ، ناشر دارالكتب العلمية بيروت لبنان الطبعة الأولى 1418هـ - 1998م
محمود أبورية مصري (متوفي 1385هـ) اهلسنت کے عالم معاویہ کے کاتب وحی ھونے کیبارے میں لکھتے ھیں ۔
(صرف ترجمہ) :
ایک گروہ نے معاویہ کی چاپلوسی اور تقرب کیلیئے اسکے لیئے کاتب وحی لقب جعل کیا ھے ۔ اور کہتے ھیں : معاویہ نے ایت الکرسی کو اس سونے کے قلم سے لکھا ھے جسے جبرئیل آسمان سے معاویہ کیلیئے ھدیہ کے طور پر لائے تھے ۔ اور یہ بات لوگوں میں مشہور ھو گئی ۔ جبکہ یہ جھوٹ اور باطل ھے اور عقل اسے تسلیم نہیں کرتی ۔ اسلیئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے اطمنیان ھو کہ جو معاویہ لکھ رہا ھے وہ وحی ھے اسلیئے وہ خود اور اسکا باپ اور اسکی ماں نے ناچاھتے ھوئے اسلام قبول کیا ھے ۔ اور انکے دلوں میں ایمان داخل بھی نہیں ھوا ھے ۔ اسے عقل سلیم قبول نہیں کرتی ۔۔ جہاں تک نقل کا تعلق ھے تو کوئی بھی خبر صحیح اسکی تائید نہیں کرتی اور مدعین کاتب وحی معاویہ پر لازم ھے کہ وہ مثال لائے ایک آیت جسے معاویہ نے لکھا ھو وہ بتائیں ??? لیکن ممکن ھے غیر وحی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کیلیئے لکھا ھو ۔ لیکن قران لکھا ھو یہ محال ھے ?? مدائنی نے لکھا ھے زید بن ثابت وحی لکھتے تھے اور معاویہ خطوط عرب کیلیئے لکھتا تھا ۔۔ محمود أبو رية شيخ المضيرة أبو هريرة صفہہ 205 ناشر منشورات مؤسسة الأعلمي للمطبوعات ، بيروت ، الثالثة ۔
👈كتابت وحي ، گناہ سے معصوم نہیں بناتی :
کاتب وحي کا مرتد ھو جانا ۔۔۔۔۔۔
اگر ھم فرض بھی کرلیں ۔ کہ معاویہ کاتب وحی تھا ۔ پھر بھی اسکے لیئے فضیلت ثابت نہیں ھوتی ۔ اور یہ امر باعث نہیں بنتا کہ وہ گناہ سے معصوم بن جائے ۔ اسلیئے کہ عبد اللہ بن ابی سرح شیعہ سنی اتفاقی قول کے مطابق ، کاتب وحی تھا ۔ لیکن زمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ میں مرتد ھو گیا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے اسکے قتل کا حکم دیا ۔ اگرچہ وہ کعبہ کے پردے تھامے ھوئے ھو ۔
ابن أبي شيبه نے المصنف میں ، نسائي نے المجتبي میں ، ذهبي نے تاريخ الإسلام میں ، ابن كثير دمشقي نے البداية و النهاية میں اور دیگر علمائے اھلسنت نے نقل کیا ھے کہ :
عن مصعب بن سعدٍ عن أَبِيهِ قَالَ : لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْح مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللَّهِ النَّاسَ إِلاَّ أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَقَالَ أُقْتُلُوهُمْ وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلقِينَ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ : عِكْرِمَةَ بْنَ أَبي جَهْلٍ ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ خَطْلٍ ، وَمَقِيسَ بْنَ صُبَابَةَ ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبي سَرْحٍ ۔۔۔۔
فتح مکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمان صادر فرمایا : کہ اھل مکہ کو چھوڑ دیا جائے ۔ سوائے چار افراد کے اور دو عورتوں کے : اور انہیں قتل کر دو اگرچہ انہیں کعبہ کے غلاف سے لپٹا ھوا پائو ۔ عکرمہ بن ابوجہل ، عبد اللہ بن خطل ، مقیس بن صبانہ اور عبداللہ بن ابی سرح ۔۔۔۔ : إبن أبي شيبة الكوفي ، أبو بكر عبد الله بن محمد ، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار جلد 7 صفہہ 404 ، تحقيق كمال يوسف الحوت ناشر مكتبة الرشد الرياض الطبعة الأولى ، 1409 . النسائي ، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن ، المجتبى من السنن ، جلد 7 صفہہ 105 تحقيق عبدالفتاح أبو غدة ناشر مكتب المطبوعات الإسلامية حلب الطبعة الثانية 1406 - 1986 ۔ الذهبي ، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان أبو عبد الله ، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام ، جلد 2 صفہہ 552 ، تحقيق عمر عبد السلام تدمرى ناشر دار الكتاب العربي لبنان بيروت الطبعة الأولى ، 1407هـ - 1987م . إبن كثير القرشي ، إسماعيل بن عمر أبو الفداء ، البداية والنهاية جلد 4 صفہہ 298 ناشر مكتبة المعارف بيروت ۔
سمرقندي متوفي367هـ تفسير آيه 93 سوره انعام میں لکھتے ھیں :
«وَ مَنْ قالَ سَأُنْزِلُ مِثْلَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ» يعني عبد الله بن أبي سرح كان كاتب الوحي فكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا أملى عليه «سميعاً عليماً» يكتب عليماً حكيماً وإذا أملى عليه «عليماً حكيماً» كتب هو سميعاً بصيراً وشك وقال إن كان محمد صلى الله عليه وسلم يوحى إليه فقد أوحي إلي وإن كان ينزل إليه فقد أنزل إلي مثل ما أنزل إليه فلحق بالمشركين وكفر : جسنے کہا کہ میں عنقریب جو خدا نازل کرتا ھے میں بھی نازل کرونگا ۔ یہ عبد اللہ بن ابی سرح نے کہا تھا ۔ جو کاتب وحی تھا جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اسے کہتے تھے لکھو سميعا عليما)،وہ لکھتا تھا : سميعا حكيما اور جب فرماتے تھے لکھو ۔ (عليما حكيما) وہ لکھتا تھا : سميعا بصير ۔ اسی دوران اپنے عمل کی توجیہ میں کہتا تھا ۔ اگر محمد (ص) پر وحی نازل ھوتی ھے تو مجھ پر بھی وحی نازل ھوتی ھے ۔ اسکے بعد مشرکین سے جا ملا ۔
السمرقندي ، نصر بن محمد بن أحمد أبو الليث ، تفسير السمرقندي المسمى بحر العلوم جلد 1 صفہہ 487 تحقيق د.محمود مطرجي ناشر دار الفكر بيروت ۔
👈 کاتب وحی کی میت کو زمین نے قبول نہیں کیا :
قابل توجہ بات یہ ھے ۔ ایک کاتب وحی مرتد ھوگیا اور عیسائیوں کے پاس جاکر پناہ گزین ھوا جب مرا تو زمین نے اسکی لاش قبول نہیں کی ۔ مسلم نيشابوري (متوفي261هـ) لکھتے ھیں : حدثني محمد بن رَافِعٍ حدثنا أبو النَّضْرِ حدثنا سُلَيْمَانُ وهو بن الْمُغِيرَةِ عن ثَابِتٍ عن أَنَسِ بن مَالِكٍ قال كان مِنَّا رَجُلٌ من بَنِي النَّجَّارِ قد قَرَأَ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ وكان يَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَانْطَلَقَ هَارِبًا حتى لَحِقَ بِأَهْلِ الْكِتَابِ قال فَرَفَعُوهُ قالوا هذا قد كان يَكْتُبُ لِمُحَمَّدٍ فَأُعْجِبُوا بِهِ فما لَبِثَ أَنْ قَصَمَ الله عُنُقَهُ فِيهِمْ فَحَفَرُوا له فَوَارَوْهُ فَأَصْبَحَتْ الْأَرْضُ قد نَبَذَتْهُ على وَجْهِهَا ثُمَّ عَادُوا فَحَفَرُوا له فَوَارَوْهُ فَأَصْبَحَتْ الْأَرْضُ قد بَذَتْهُ على وَجْهِهَا ثُمَّ عَادُوا فَحَفَرُوا له فَوَارَوْهُ فَأَصْبَحَتْ الْأَرْضُ قد نَبَذَتْهُ على وَجْهِهَا فَتَرَكُوهُ مَنْبُوذًا .
انس بن مالك کہتے ہیں :
بنو نجار کا ایک شخص جسنے سورہ بقرہ اور آل عمران کو پڑھا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلیئے لکھا تھا ۔ بھاگ گیا اور اھل کتاب سے جا ملا ۔ اھل کتاب کا اس شخص کو پناہ دینا فائدہ مند تھا اسیلیئے اسکا احترام کرتے اور اسے عزت دیتے تھے ۔ کچھ عرصے میں ھی اسکا انتقال ھو جاتا ھے ۔ قبر بنائی جاتی ھے اور اسے دفن کر دیتے ھیں ۔ لیکن لاش فورا باھر واپس آ جاتی ۔ درحقیقت اسکی لاش کو زمین قبول نہیں کر رھی تھی ۔ تین مرتبہ کوشش کی گئی ۔ لیکن ناکام ھوئے اور لاش کو ایسے ھی چھوڑ دیا ۔ ملاحظہ ھو : النيسابوري ، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ) ، صحيح مسلم جلد 4 صفہہ 2145 حدیث2781 كِتَاب صِفَاتِ الْمُنَافِقِينَ وَأَحْكَامِهِمْ ، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي ناشر دار إحياء التراث العربي بيروت ۔
👈👈👈.معاويه کی علي عليه السلام سے دشمنی :
کاتب وحی ھونا جب عبد اللہ بن ابی سرح کیلیئے کوئی فائدہ مند ثابت نہیں ھوا اور اسے واصل جہنم ھونے سے نہ بچا سکا تو معاویہ کو کیسے گناہ سے پاک کر سکتا ھے اور اسے کیسے گناہ سے مانع بن سکتا ھے ??? کیا کاتب وحی ھونا اس بات کی اجازت دیتا ھے کہ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خروج کرے اور ایک لاکھ مسلمانوں کے قتل کا جبران کر سکے ??? کیا علی علیہ السلام کو گالیاں دینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دینے کے مترادف نہیں ھے ?? کیا اسکا کاتب وحی ھونا اسے اس عظیم گناہ سے پاک کر سکتا ھے ???
ابن تيميه حراني نے اعتراف کیا ھے کہ :
معاوية بن أبو سفيان نے سعد بن ابی وقاص کو حکم دیا تھا ۔ کہ علی علیہ السلام کو گالیاں دیں : وأما حديث سعد لما أمره معاوية بالسب فأبى فقال ما منعك أن تسب علي بن أبي طالب فقال ثلاث قالهن رسول الله صلى الله عليه وسلم فلن أسبه لأن يكون لي واحدة منهن أحب إلي من حمر النعم الحديث فهذا حديث صحيح رواه مسلم فيصحيحه : معاويه نے سعد بن أبي وقاص کو حکم دیا کہ علی {علیہ السلام} کو گالیاں دے لیکن انہوں نے ممانعت کی ۔ معاویہ نے کہا : تم کو کس چیز نے روکا ھے ۔ علی [ع] کو گالیاں دینے سے ?? سعد نے کہا کہ تین فضیلتیں علی [ع] کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ھیں ۔ انکی بناء پر کبھی بھی سب و شتم نہیں کرونگا ۔ اگر ایک بھی فضیلت ان تین میں سے میرے لیئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ۔ تو میرے نزدیک سرخ اونٹوں سے گران بہا ھوتی یہ حدیث صحیح ھے اور مسلم نے اسے صحیح میں نقل کیا ھے ۔
إبن تيمية الحراني ، أحمد بن عبد الحليم أبو العباس ، منهاج السنة النبوية جلد 5 صفہہ 42 تحقيق : د. محمد رشاد سالم ، ناشر مؤسسة قرطبة الطبعة الأولى ، 1406 .
احمد بن حنبل نے مسند میں ، نسائي نے خصائص امير مؤمنین عليه السلام میں اور ذهبي نے تاريخ الإسلام و ... میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ھے کہ امیر المومنین علی بن ابیطالب (ع) کو سب و دشنام دینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب و دشنام دینے کے برابر ھے : عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لِي أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ قُلْتُ مَعَاذَ اللَّهِ أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي : عبد الله جدلي کہتے ھیں : میں ام سلمہ کے پاس آیا تو انھوں نے کہا آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو گالیاں دی جا رھی ھیں ۔ میںنے کہا معاذ اللہ ۔۔۔۔ ام سلمہ نے کہا : میںنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ھے ۔ کہ جسنے علی [ع] کو گالی دی ۔ گویا اسنے مجھے گالی دی ۔
الشيباني ، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفي241هـ) ، مسند أحمد بن حنبل ، ج 6 ، ص 323 ، ح26791 ، ناشر : مؤسسة قرطبة – مصر .
النسائي ، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن ، خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب ، ج 1 ، ص 111 ، ح 91 ، باب ذكر قول النبي صلى الله عليه وسلم من سب عليا فقد سبني ، تحقيق : أحمد ميرين البلوشي ، ناشر : مكتبة المعلا - الكويت ، الطبعة : الأولى ، 1406 .
الذهبي ، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان أبو عبد الله ، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام ، ج 3 ، ص 634 ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمرى ، ناشر : دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت ، الطبعة : الأولى ، 1407هـ - 1987م .
حاكم نيشابوري اس روایت کو نقل کرنے کیبعد کہتے ھیں :
هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه : اسکی سند صحیح ھے ۔ لیکن بخاری اور مسلم نے اپنی صحیین میں ذکر نہیں کی ۔ الحاكم النيسابوري ، محمد بن عبدالله أبو عبدالله ،المستدرك على الصحيحين ، جلد 3 صفہہ 130 ، تحقيق مصطفى عبد القادر عطا ، ناشر دار الكتب العلمية - بيروت ، الطبعة : الأولى ، 1411هـ - 1990م ۔۔
هيثمي بھی کہتے ھیں :
رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح غير أبى عبد الله الجدلي وهو ثقة
اسے روایت کو احمد نے نقل کیا ھے ۔ اور اسکے تمام راوی صحیح راوی ھیں ۔ سوائے عبد اللہ جدلی کے وہ ثقہ ھے ۔۔ الهيثمي ، علي بن أبي بكر الهيثمي ، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ، جلد 9 صفہہ 130 ، ناشر دار الريان للتراث دارالكتاب العربي القاهرة بيروت - 1407 ۔
👈 عیسائی اور کاتب وحی :
اگر ھم فرض بھی کر لیں ۔ کہ معاویہ کاتب وحی تھا ۔ تب بھی اسکی فضیلت نہیں بنتی ۔ اسلیئے اھلسنت کے عقیدہ کیمطابق عیسائی افراد بھی کاتب وحی تھے ۔ یہ اسوجہ سے کہ لکھنے والے کم تھے ۔
أبو القاسم بغوي (متفاي317هـ) «محيي السنة» کے لقب سے نوازا گیا ۔ وہ لکھتے ھیں : وسأل رجل أحمد وأنا أسمع ، بلغني أن نصارى يكتبون المصاحف فهل يكون ذلك ؟ قال : نعم ، نصارى الحيرة كانوا يكتبون المصاحف وإنما كانوا يكتبونها لقلّة من كان يكتبها ۔
ایک شخص نے امام احمد بن حنبل سے سوال کیا ۔ مینے سنا ھے کہ عیسائی بھی قرآن لکھا کرتے تھے ۔ کیا یہ بات صحیح ھے ?? امام احمد نے کہا بالکل صحیح ھے ۔ حبرہ کے عیسائی قرآن لکھا کرتے تھے اسلیئے کہ لکھنے والوں کی کمی تھی : البغوي ، أبو القاسم عبد الله بن محمد بن عبد العزيز جزء في مسائل عن الإمام أحمد بن حنبل جلد 1 صفہہ 21 ۔ ابن قيم الجوزيه (متوفي 751هـ) نے بدائع الفوائد میں اور شمس الدين زركشي (متوفي772هـ) نے شرح مختصر الخرقيم. میں اور أبو القاسم اصفهاني (متوفي 502 ) نے محاضرات الأدباء میں لکھا ھے : وقال رجل لأحمد بلغني أن نصاري يكتبون المصاحف فهل يكون ذلك؟ قال: نعم، نصارى الحيرة كانوا يكتبون المصاحف وإنما كانوا يكتبون لقلة من كان يكتبها فقال رجل: يعجبك ذلك ?? فقال لا يعجبني : ایک شخص نے امام احمد بن حنبل سے سوال کیا : کیا عیسائی قران لکھا کرتے تھے . یہ بات صحیح ھے ??
کہا جی ہاں !! صحیح بات ھے . حبرہ کے نصاری قران لکھا کرتے تھے اور وہ اسوجہ سے کہ لکھنے والوں کی کمی تھی ۔ دوسرے شخص نے پوچھا ۔ کیا تمہیں تعجب ھوا ھے ?? اس نے کہا . نہیں مجھے تعجب نہیں ھوا ھے : الزرعي الدمشقي محمد بن أبي بكر أيوب أبو عبد الله (مشهور به ابن القيم الجوزية ) بدائع الفوائد جلد 4 صفہہ 851 ، تحقيق هشام عبد العزيز عطا - عادل عبد الحميد العدوي - أشرف أحمد الج ، ناشر مكتبة نزار مصطفى الباز مكة المكرمة ، الطبعة الأولى ، 1416 - 1996 : الزركشي المصري الحنبلي ، شمس الدين أبي عبد الله محمد بن عبد الله ، شرح الزركشي على مختصر الخرقي ، ج 1 ، ص 49 ، تحقيق : قدم له ووضع حواشيه: عبد المنعم خليل إبراهيم ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت ، الطبعة : الأولى ، 1423هـ - 2002م : اس بناء پر کاتب وحی ھونا کوئی انوکھی فضلیت نہیں !! معاویہ کیلیئے اگر ھے تو نصاری اور عبد اللہ بنی ابی سرح کیلیئے بھی ھونی چاھیئے ???
معاویہ کے مسلمان ھونے کی تاریخ :
شیعہ سنی اتفاق ھے ۔ کہ معاویہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے پہلے بیس سالوں میں مشرک تھا اور مسلمان کا کٹر دشمن تھا ۔ 8 ھجری فتح مکہ کیوقت اسلام کے دوسرے بڑے دشمنوں کیساتھ تلوار سے ڈر کر اسلام لایا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کا لقب طلقاء رکھا ۔ اور انکے قتل سے صرف نظر کی ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام کا عقیدہ تھا ۔ کہ یہ لوگ اسلام نہیں لائے ھیں بلکہ تسلیم ھوئے ھیں آپ نہج البلاغہ نامہ 16 میں فرماتے ھیں : فَوَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسَمَةَ مَا أَسْلَمُوا وَ لَكِنِ اسْتَسْلَمُوا وَ أَسَرُّوا الْكُفْرَ فَلَمَّا وَجَدُوا أَعْوَاناً عَلَيْهِ أَظْهَرُوه ۔
خدا کی قسم ۔۔۔۔۔ !! جسنے دانہ کو شگافتہ کیا ۔ اور جاندار اشیاء کو پیدا کیا یہ لوگ کبھی اسلام نہیں لائے ۔ لیکن تسلیم ھوئے اور کفر کو چھپا رکھا اور جب ساتھی مل گئے تو اپنے کفر کا آشکار اظہار کر دیا
عمار یاسر بھی امام علیہ السلام کی پیروی کرتے ھوئے ان لوگوں کے بارے میں کہتے ھیں : فقال واللّه ما أسلموا ، ولكن استسلموا وأأَسَرُّوا الْكُفْرَ فَلَمَّا رأوا عليه أَعْوَاناً عَلَيْهِ أَظْهَرُوهُ : خدا کی قسم ۔ یہ لوگ کبھی اسلام نہیں لائے لیکن تسلیم ھوئے اور کفر کو چھپا رکھا اور جب ساتھی مل گئے تو اپنے کفر کا آشکار اظہار کر دیا ۔
الهيثمي ، علي بن أبي بكر الهيثمي ، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جلد 1 صفہہ 113 ناشر دار الريان للتراث دار الكتاب العربي القاهرة بيروت - 1407 ۔
إبن أبي الحديد معتزلي لکھتے ھیں :
لما نظر علي عليه السلام إلى رايات معاوية وأهل الشام ، قال : والذي فلق الحبة ، وبرأ النسمة ، ما أسلموا ولكن استسلموا ، وأسروا الكفر ؛ فلما وجدوا عليه أعواناً ، رجعوا إلى عداوتهم لنا : جب امام علی علیہ السلام نے معاویہ اور اھل شام کے پرچم دیکھے تو فرمایا :
خدا کی قسم ۔۔۔۔۔ !! جسنے دانہ کو شگافتہ کیا اور جاندار اشیاء کو پیدا کیا ۔ یہ لوگ کبھی اسلام نہیں لائے ۔ لیکن تسلیم ھوئے اور کفر کو چھپا رکھا اور جب ساتھی مل گئے ۔ ھماری عداوت پر دوبارہ لوٹ گئے
إبن أبي الحديد المعتزلي ، أبو حامد عز الدين بن هبة الله ، شرح نهج البلاغة جلد 4 صفہہ 18 تحقيق محمد عبدالكريم النمري ناشر دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان ، الطبعة الأولى 1418هـ - 1998م ۔
اس بناء پر کیسے ایسے شخص پر اعتماد کرتے اور اسے کاتب وحی قرر دے دیتے ??? اس بات سے تو قطع نظر کہ معاویہ بن ابو سفیان فتح مکہ میں اسلام لایا اور اسی مکہ میں رہا اور رسول اکرم (ص) مدینے لوٹ گئے ۔ اس بناء پر کوئی خاص موقع نہیں ملا ۔ کہ معاویہ وحی کو لکھتا ۔۔۔۔۔۔
👈👈👈 کتابتِ وحیِ معاویہ کتب شیعہ میں :
کتب شیعہ میں بھی روایت پائی جاتی ھے ۔ کیونکہ جس دور میں شیعہ کتب لکھی گئیں ۔ تقیہ کا اور ظلم کا دور تھا ۔ کتاب منظر پہ لانے کیلیئے کئی سنی روایات کو بھی نقل کرنا پڑتا تھا ۔ اسی لیئے ھم اپنی کتب کو صحاح اربعہ کا نام نہیں دیتے ۔ صحیح ترین کتاب بس پاک پروردگار کا قرآن مجید ھے ۔ اسی لیئے ایسی کوئی بھی روایت جو قرآن پاک کی مخالفت کرتی ھو ۔ ھمارے نزدیک اسکی پر کاھ جیسی بھی اھمیت نہیں ھے ۔ بیشک وہ کسی شیعہ کتاب میں ھی کیوں نہ ھو ۔ مگر اس سے بھی مکتب تسنن کو کوئی فائیدہ نہیں ھے ۔۔۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں !! معاویہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلیئے لکھتا تھا ۔ لیکن اس روایت سے یہ ثابت نہیں ھوتا کہ وہ وحی کو لکھتا تھا : شيخ صدوق رضوان الله تعالي عليه (متوفي 381 هـ) معاني الأخبار میں لکھتے ھیں :
عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عليه السلام) يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلي الله عليه وآله وسلم) وَ مُعَاوِيَةُ يَكْتُبُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَ أَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى خَاصِرَتِهِ بِالسَّيْفِ مَنْ أَدْرَكَ هَذَا يَوْماً أَمِيراً فَلْيَبْقُرْ خَاصِرَتَهُ بِالسَّيْفِ فَرَآهُ رَجُلٌ مِمَّنْ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص يَوْماً وَ هُوَ يَخْطُبُ بِالشَّامِ عَلَى النَّاسِ فَاخْتَرَطَ سَيْفَهُ ثُمَّ مَشَى إِلَيْهِ فَحَالَ النَّاسُ بَيْنَهُ وَ بَيْنَهُ فَقَالُوا يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا لَكَ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ع يَقُولُ مَنْ أَدْرَكَ هَذَا يَوْماً أَمِيراً فَلْيَبْقُرْ خَاصِرَتَهُ بِالسَّيْفِ قَالَ فَقَالَ أَ تَدْرِي مَنِ اسْتَعْمَلَهُ قَالَ لَا قَالُوا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرُ فَقَالَ الرَّجُلُ سَمْعاً وَ طَاعَةً لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِين : ابو حمزہ ثمالی کہتے ھیں :
میںنے امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا ھے کہ : معاویہ رسول (ص) کے پاس لکھنے میں مشغول تھا ۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تلوار سے معاویہ کے پیٹ کیطرف اشارہ کر کے فرمایا : جو کوئی اس آدمی کو حاکم دیکھے لازم ھے کہ اسکا پیٹ تلوار سے پارا کر دے ۔ ایک شخص جسنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث سنی تھی ۔ جب شام میں معاویہ کو دیکھا کہ لوگوں سے خطاب کر رہا ھے تو تلوار لیکر معاویہ کیطرف دوڑا لیکن لوگوں نے اسے روک دیا ۔ اور معاویہ تک جانے نہیں دیا ۔ لوگوں نے کہا : اے اللہ کے بندے کیا کر رھے ھو ?? اسنے کہا : میںنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ھے ۔ کہ جو کوئی اسے حاکم دیکھے اسکا پیٹ تلوار سے پھاڑ دے ۔ لوگوں نے کہا ۔ پتہ ھے معاویہ کو کسنے امیر بنایا ھے ?? کہا معلوم نہیں ھے ۔ لوگوں نے کہا : اسے امیر المومنین عمر نے بنایا ھے ۔ تب اس شخص نے کہا : میں دل و جان سے عمر کا مطیع ھوں : الصدوق أبو جعفر محمد بن علي بن الحسين ، معاني الأخبار ، صفہہ347 ناشر جامعه مدرسين اول ، 1403 ق ۔
👈👈👈👈 نتيجہ (ماحصل) :
اولا : معاویہ کا کاتب وحی ھونا ثابت ھی نہیں ۔ بلکہ شدت سے اسکی نفی کی گئی ھے ۔
ثانياً : فرض بھی کر لیا جائے ۔ کہ معاویہ پر کاتب وحی ہونے کا عنوان آتا ھے ۔ تب بھی اسکی کوئی امتیاز اور فضیلت نہیں ھے ۔ اسلیئے کہ اسنے اپنی زندگی میں ایسے کام سرانجام دیئے ۔ اور بدعات انجام دی جو کاتب وحی کا عنوان کو ختم کر دیتی ھیں ۔ اور شیخ صدوق کی نقل کردہ روایت میں تو پیغمبر اکرم (ص) کیطرف سے اسے دیکھتے ھی قتل کر دینے کا حکم ھے ۔۔۔۔۔ !! 👉👉👉
التماس دعا :
سید فاخر حسین رضوی ۔
Comments
Post a Comment