شرمگاہ: شرعی مسئلہ اور اس کی وضاحت
*سوال: آپ کے فقہاء محرم خاتون جیسے والدہ اور بہن کےلئے اپنے محرم مرد جیسے والد اور بھائی کے سامنے سینہ کھلا رکھنے کو جائز قرار دیتے ہیں ، شرم سے ڈوب مرو ؟*
جواب:
سب سے پہلے آپ فقہاء کا فتویٰ پڑھ لیں اور سمجھ لیں ، اس کے بعد ہم آیات و روایات سےمکمل گفتگو کریں گے ، اور یاد رکھیں دین ہمارے ذاتی جذبات اور ذاتی پسند اور ذاتی رائے کا نام نہیں ہے ، جو روایت و آیت سے ثابت ہوگا وہی حکم معصوم ہوگا کہ جسے قبول کرنا ہمارے اوپر واجب ہے۔
*شرعی مسئلہ اور اس کی وضاحت:*
32 مسألة: يجوز النظر إلى المحارم التي يحرم عليه نكاحهن نسبا أو رضاعا أو مصاهرة ما عدا العورة مع عدم تلذذ و ريبة و كذا نظرهن إليه(العروۃ ج2، ص803 )
ترجمہ: ان محرم خواتین کو دیکھنا جائز ہے کہ جن سے نکاح حرام ہوتا ہے چاہے وہ نسبی محرم ہوں ، رضاعی محرم ہوں یا مصاھرہ سے محرم ہوں (جیسے ساس، سسر) ، سوائے شرمگاہ کے ، اور بغیر جنسی شہوت اور شک کے اور اس طرح محرم خواتین کا مرودں کو بھی دیکھنا جائز ہے۔(شرمگاہ کے علاوہ اور بغیر شھوت کے)
*سب سے پہلے شرعی مسئلہ کی وضاحت ضروری ہے:*
بغیر جنسی شھوت کے یا شک والی صورت کے دیکھنا جائز ہے ، جب کہ عملی صورت حال ایسی نہیں ہے چونکہ اگر کوئی عورت کے سینہ کی طرف دیکھے گا چاہے وہ محرم ہی کیوں نہ ہو تو کم ازکم جنسی شھوت ابھرے گی یا کم از کم مشکوک صورتحال پیدا ہوگی ، تو عام صورت حال میں اس خطرےکے پیش نظر دیکھنا جائز نہیں ہو گا جیسا کہ فتویٰ میں واضح لکھا ہواہے۔
اب رہ گئی کہ وہ خاص صورتیں جو کبھی کبار پیش آتی ہیں کہ جب والدہ بہت بوڑھی ہو یا والدہ دودھ پلا رہی ہو یا اس جیسے وہ حالات کہ جن میں شھوت اور شک والی کوئی صورت بھی نہیں ہوتی وہاں دیکھنا جائز ہے۔
۔
*روایات معصومین علیہم السلام میں کیا لکھا ہوا ہے؟*
*خلاصہ یہ ہے:*
روایات معصومین علیہم السلام میں شرمگاہ کی حد بندی ناف سے لیکر گھٹنوں تک کی گئی ہے ، اس کے علاوہ سینہ کو شرمگاہ میں شمار نہیں کیا گیا اور یہی تمام مسلمانوں کا اتفاقی نظریہ ہے ، سوائے اہل سنت میں شافعی اور حنبلی مذہب والے کہ جن کے مطابق محرم مردوں کے سامنے خاتون فقط سر اور پاؤں اور ہاتھ کھلے رکھ سکتی ہے ، اس کے علاوہ تمام بدن محرم کےلئے شرمگاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہمارے پاس صحیح السند روایات سے یہ دلائل دیے گئے ہیں کہ شرمگاہ کی حد بندی میں یا تو پیچھے اور سامنے والی شرمگاہ شامل ہے یا پھر ناف سے گھٹنوں تک کا حصہ شامل ہے اور جو ایک ضعیف روایت اہل سنت کے مذہب کے موافق ہے اس کو فقہاء نے قبول نہیں کیا اور کراہت پر یا بہتری پر محمول فرمایا ہے ۔
*پس ہمارے سوشل میڈیا فقہاء دشمن مؤمنین کا نظریہ اہل سنت میں شافعیوں اور حنبلیوں جیسا ہے کہ جس کا کوئی شیعہ فقیہ آج تک قائل نہیں ہے.*
*تفصیلی جواب:*
*شرمگاہ کی حد بندی کلام معصومین علیہم السلام میں:*
اس مختصر وضاحت کے بعد یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرمگاہ سے کیا مراد ہے؟ کیا خاتون کا سینہ شرمگاہ شمار ہوتا ہے؟
جواب: شرمگاہ سے مراد قبل اور دبر ہے یعنی سامنے اور پیچھے کی شرمگاہ ، سینہ شرمگاہ میں شامل نہیں ہے جیسا کہ بہت ساری روایات میں اسی بات کو امام معصوم نے بتلایا ہےاور وسائل الشیعہ میں شرمگاہ کی حد بندی پر پورا باب موجود ہے۔
وسائل الشيعة؛ ج2، ص: 34 4 بَابُ حَدِّ الْعَوْرَةِ الَّتِي يَجِبُ سَتْرُهَا:اس شرمگاہ کی حد بندی کہ جس کا چھپانا واجب ہے۔
پہلی روایت:
1401- 2- «6» وَ بِإِسْنَادِهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي يَحْيَى الْوَاسِطِيِّ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْمَاضِي ع قَالَ: الْعَوْرَةُ عَوْرَتَانِ الْقُبُلُ وَ الدُّبُرُ-
ترجمہ: امام علیہ السلام نے فرمایا شرمگاہ دو ہیں ، ایک قبل (یعنی سامنے والی شرمگاہ) اور ایک دبر (یعنی پیچھے والی شرمگاہ)
دوسری روایت:
1402- 3- «9» قَالَ الْكُلَيْنِيُّ وَ قَالَ فِي رِوَايَةٍ أُخْرَى فَأَمَّا الدُّبُرُ فَقَدْ سَتَرَتْهُ الْأَلْيَتَانِ- وَ أَمَّا الْقُبُلُ فَاسْتُرْهُ بِيَدِكَ.
ترجمہ : امام علیہ السلام نے فرمایا کہ جہاں تک دبر کا تعلق ہے تو اسے سرین کے گوشت نے چھپا دیا ہے ، پس تم قُبُل (سامنے والی شرمگاہ کو ) کو ہاتھ سے چھپا لو ۔
تیسری روایت:
1403- 4- «1» مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ قَالَ: قَالَ الصَّادِقُ ع الْفَخِذُ لَيْسَ مِنَ الْعَوْرَةِ.
ترجمہ: امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ران شرمگاہ کا حصہ نہیں ہے۔
اسی طرح شرمگاہ کے بارے میں ایک اور روایت بھی ہے کہ جس میں ناف اور گھٹنے کے درمیان کو شرمگاہ قرار دیا گیا ہے (وَ الْعَوْرَةُ مَا بَيْنَ السُّرَّةِ وَ الرُّكْبَةِ.) اور یہ روایت ان روایات سے ٹکرا رہی ہے کہ جس میں واضح طور پر امام علیہ السلام نے ران کو شرمگاہ کا حصہ شمار نہیں کیا اور اسی وجہ سے فقہاء کےد رمیان شرمگاہ کی حد بندی میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے ، سید سیستانی دام ظلہ العالی فرماتے ہیں کہ احتیاط یہ ہے کہ ناف اور گھٹنے کے درمیانی حصے کو شرمگاہ میں شمار کیا جائے۔
یعنی زیادہ سے زیادہ شرمگاہ کی حد بندی ناف اور گھٹنے کے درمیان کے حصے کی گئی ہے اور عورت کے سینہ کو شرمگاہ میں کسی بھی روایت میں شمار نہیں کیا گیا اور نہ ہی آج تک کسی فقیہ نے ایسا کہا ہے ۔
*پس خلاصہ کلام یہ ہوا کہ خاتون کے سینہ کو کسی بھی روایت میں شرمگاہ سے تعبیر نہیں کیا گیا*
اب آتے ہیں کہ سوشل میڈیا کہ مؤمنین کونسی ضعیف روایت سے یہ استدلال کر رہے ہیں ۔
لیکن سوشل میڈیا کے ان فقہاء دشمن مؤمنین کی خدمت میں ہم عرض کرتے ہیں کہ یہ نظریہ تمام شیعہ سنی مسلمانوں کا ہے اور فقط شافعی اور مالکی مذہب والے اس میں مخالف ہیں جیسا کہ صاحب جواھر الکلام شیخ محمد حسن نجفی قدس سرہ نے لکھا ہے کہ یہ مسئلہ ضروریات دین میں سے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ، سوائے شافعیوں کا اختلاف اور فاضل کے اختلاف کے۔
*شافعیوں اور حنابلہ کا نظریہ:*
کتاب الفقه على المذاهب الأربعة – الجزيري ج 1، ص 174 میں لکھا ہے:
المالكية قالوا : إن عورتها مع محارمها الرجال هي جميع بدنهاما عدا الوجه والأطراف وهي : الرأس والعنق واليدان والرجلان
الحنابلة قالوا : إن عورتها مع محارمها الرجال هي جميع بدنها ما عدا الوجه والرقبة والرأس واليدين والقدم والساق
مالکی مذھب والے کہتےہیں کہ: عورت کی شرمگاہ اپنے محرم مردوں کےلئے اس کا تمام بدن ہے ، سوائے اس کے چہرے کے اور چہرے کی اطراف جو کہ سر ، گردن ، دونوں بازو اور دونوں پاؤں ہیں ۔
حنبلی مذھب والے کہتے ہیں کہ: عورت کی شرمگاہ اپنے محرم مردوں کےلئے اس کا تمام بدن ہے سوائے چہرے، گردن ، سر، پاؤں اور پنڈلیوں کے ۔
۔
اور جب مذھب امامیہ کا نظریہ لکھا گیا توکتاب( الفقه على المذاهب الأربعة و مذهب أهل البيت وفقاً لمذهب أهل البيت عليهم السلام کی جلد 1 ص 290 ) پر یوں لکھا گیا ہے:
أهل البيت (ع): يجوز لكل من الرجل و المرأة أن ينظر إلى بدن محارمه ما عدا العورة منه من دون تلذذ
مکتب اہل بیت علیہم السلام میں مرد اور عورت دونوں کےلئے جائز ہے کہ اپنے محرم کے تمام بدن کو دیکھیں سوائے شرمگاہ کے اور وہ بھی بغیر جنسی لذت کے ۔
۔
*اب یہاں پر دو نظریات سامنے آ گئے:*
1:شروع سے اب تک تمام شیعہ فقہاء کا اور تمام مسلمانوں کا یہی نظریہ ہےکہ خاتون کا سینہ شرمگاہ میں شامل نہیں ہے۔
2: جبکہ اہل سنت میں سے حنبلی اور شافعی کہتے ہیں کہ خاتون کا سینہ بھی شرمگاہ کا حصہ ہے جیسا کہ اوپر آپ پڑھ چکے ہیں۔
اسی وجہ سے ہمارے ہاں جو ایک ضعیف روایت ذکر کی جاتی ہےکہ جس سے یہ ظاھر ہوتا ہےکہ خاتون کے قدم اور گردن اور سر اور ہاتھوں کے علاوہ تمام تر بدن شرمگاہ ہے تو اس روایت کو فقہاءنے کراھت پرمحمول فرمایا ہے چونکہ یہ روایت دیگر صحیح السند روایات سے ٹکرا رہی ہے اور پھر اہل سنت کے مذھب کے مطابق بھی جا رہی ہے۔
*اب یہاں پر اس روایت پر ہم کلام کرتے ہیں*
قرآن مجید کی سورہ نورمیں آیت ہے:
وَ قُلْ لِلْمُؤْمِناتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصارِهِنَّ وَ يَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَ لا يُبْدينَ زينَتَهُنَّ إِلاَّ ما ظَهَرَ مِنْها وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ وَ لا يُبْدينَ زينَتَهُنَّ إِلاَّ لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبائِهِنَّ أَوْ آباءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنائِهِنَّ أَوْ أَبْناءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوانِهِنَّ أَوْ بَني إِخْوانِهِنَّ أَوْ بَني أَخَواتِهِنَّ أَوْ نِسائِهِنَّ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُنَّ أَوِ التَّابِعينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلى عَوْراتِ النِّساءِ وَ لا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ ما يُخْفينَ مِنْ زينَتِهِنَّ وَ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَميعاً أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون (نور آیت 31)
ترجمہ: اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے اور اپنے دوپٹہ کو اپنے گریبان پر رکھیں اور اپنی زینت کو اپنے باپ دادا.شوہر. شوہر کے باپ دادا .اپنی اولاد ,اور اپنے شوہر کی اولاد اپنے بھائی اور بھائیوں کی اولاد اور بہنوں کی اولاد اور اپنی عورتوں اور اپنے غلام اور کنیزوں اور ایسے تابع افراد جن میں عورت کی طرف سے کوئی خواہش نہیں رہ گئی ہے اور وہ بچےّ جو عورتوں کے پردہ کی بات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں ان سب کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریں اور خبردار اپنے پاؤں پٹک کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوجائے اور صاحبانِ ایمان تم سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتے رہو کہ شاید اسی طرح تمہیں فلاح اور نجات حاصل ہوجائے۔
اس آیت میں دو باتیں ہیں:
پہلی بات :اس آیت میں چند ایک محرم رشتوں کا ذکر ہوا ہے لیکن فقہاء فرماتے ہیں کہ چونکہ روایات میں دیگر محرم رشتے بھی ذکر ہیں جیسے ساس ، سسر ، پھپھی ، خالہ ، شادی شدہ لونڈی وغیرہ تو ان کےلئے بھی یہی حکم ہے ۔ چونکہ روایات میں تمام نسبی و رضاعی محرم افراد کا ایک ہی حکم ہے۔
دوسری بات :اس کے علاوہ آیت میں یہ بیان ہوا کہ خاتون اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنی زینت کا اظہار سوائے محرم رشتہ داروں کے کسی کے سامنے نہ کرے ۔
اب محرم رشتہ داروں کےلئے زینت سے کیا مراد ہے تو یہاں پر ایک ضعیف روایت ذکر کی جاتی ہے جو کہ شافعی اور حنبلی مذھب کے مطابق جا رہی ہے۔
روایت یہ ہے:
في رواية أبي الجارود عن أبي جعفر ع في قوله: وَ لا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا ما ظَهَرَ مِنْها فهي الثياب و الكحل و الخاتم و خضاب الكف و السوار، و الزينة ثلاث: زينة للناس و زينة للمحرم و زينة للزوج، فأما زينة الناس فقد ذكرناه، و أما زينة المحرم فموضع القلادة فما فوقها و الدملج «1» و ما دونه و الخلخال و ما أسفل منه و أما زينة للزوج فالجسد كله(مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، ج14، ص: 276)
ابی جارود امام محمد باقر علیہ السلام نے روایت کرتا ہے :
قرآن کی اس آیت(وَ لا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا ما ظَهَرَ مِنْها) میں زینت سے مراد کپڑے ، سرمہ ، انگوٹھی، ہاتھ کی مہندی اور کنگن ہے اور زینت کی تین اقسام ہیں: لوگوں کےلئے، محرم کےلئے اور شوھر کےلئے۔
1:لوگوں کےلئے یہی زینت ہے جو ہم نے بیان کر دی ہے۔
2:محرم کےلئے زینت ہار پہننے کی جگہ اور اس کے اوپر والا حصہ ہے(یعنی گردن اور سر) اور ہاتھ کے کنگن اور اس نیچے والا حصہ ، پازیب اور اس سے نیچے والا حصہ ہے۔
2:شوھر کےلئے پورا جسم زینت ہے۔
۔
پس اس روایت کے مطابق خاتون محرم کےلئے فقط اپنا سراو گردن کا حصہ، اپنے پاؤں اور ہاتھ کلائیوں تک ظاھر کر سکتی ہے ، باقی بدن ظاھر نہیں کر سکتی اور یہ وہی شافعی اور حنبلی فقہ والا نظریہ ہے ۔
جبکہ یہ روایت صحیح السند دیگر روایات کے خلاف بھی ہے کہ جس میں محرم خاتون کے سامنے فقط ناف اور گھٹنے کا مابین حصے کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ایک *محرم خاتون* کے بارے میں یہ روایت ملاحظہ ہو:
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ فِي قُرْبِ الْإِسْنَادِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ ظَرِيفٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُلْوَانَ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ ع أَنَّهُ قَالَ: إِذَا زَوَّجَ الرَّجُلُ أَمَتَهُ فَلَا يَنْظُرَنَّ إِلَى عَوْرَتِهَا- وَ الْعَوْرَةُ مَا بَيْنَ السُّرَّةِ وَ الرُّكْبَةِ.( وسائل الشيعة؛ ج21، ص: 148)
امام علیہ السلام نے فرمایا کہ جو کوئی بندہ اپنی لونڈی کی شادی کر دے تو وہ اس لونڈی کی شرمگاہ کو نہیں دیکھ سکتا اور شرمگاہ سے مراد ناف اور گھٹنوں کا درمیانی حصہ ہے۔
نوٹ:جس لونڈی کی مالک شادی کر دے تو وہ لونڈی محرم ہو جاتی ہے اور اس سے نکاح حرام ہوجاتا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے روایت ہے:
حَدِيثِ مِسْمَعٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع عَشْرٌ لَا يَحِلُّ نِكَاحُهُنَّ وَ لَا غِشْيَانُهُنَّ- إِلَى أَنْ قَالَ وَ أَمَتُكَ وَ لَهَا زَوْجٌ وَ هِيَ تَحْتَهُ.( وسائل الشيعة؛ ج21، ص: 148)
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ دس قسم کی لونڈیوں سے نکاح اور جماع حرام ہوجاتا ہے یہاں تک کہ امام نے فرمایا:
کہ تمہاری وہ لونڈی کہ جس کا شوھر ہو اور وہ لونڈی تمہارے تحت ہو (یعنی آزاد نہ کی ہو تم نے)
روایات میں تفصیلی طور پر وہ دس قسمیں بیان ہوئی ہیں کہ جن میں سے لونڈی کی والدہ ، لونڈی کی بیٹی ، لونڈی کی رضاعی ماں وغیرہ بہت ساری قسمیں امام علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں۔
پس یہاں پر ایک خاتون کا ایک محرم رشتہ ہے اور امام علیہ السلام نے فقط فرمایا کہ ناف اور گھٹنوں کے درمیانی حصے کو چھپانا واجب ہے۔
اس کے علاوہ بھی دیگر روایات سے طویل استدلال موجود ہے کہ جسے ذکر کرنا اس مقالے کو بہت لمبا کر دے گا۔
جبکہ واضح ہے کہ ہمارے ہاں تمام شیعہ فقہاء کا متفق علیہ نظریہ ہے کہ شرمگاہ یا تو قبل اور دبر(سامنے اورپیچھے کی شرمگاہ) ہے یاپھر فقط ناف اور گھٹنوں کا درمیانی حصہ ہے ۔
باقی جو اوپر روایت زینت کے باب میں ذکر ہوئی ہے تو اس کا تعلق یا زینت کے باب سے ہے یا پھر اہل سنت کے موافق ہونے سے اسے چھوڑ دیا جائے گا یا پھر روایت کے ضعیف السند ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا جائے گا یا پھر جائز اور حرمت والی دلیل کو جمع کر کے اس زینت والی روایت کو کراھت یا استحباب و اولویت(یعنی بہتر ہے ) پر محمول کیا جائے گا جیسا کہ صاحب جواھر الکلام والے نے لکھا ہے کہ :
لكنه محمول على خصوص الزينة بعنوان الأولوية كما هو واضح.( جواهر الكلام في شرح شرائع الإسلام، ج29، ص: 73)
ترجمہ :یہ روایت فقط زینت کے باب میں ہے اور اسے اولویت یعنی بہتر ہے کہ عنوان سے لیا جائے گا جیسا کہ واضح ہے۔
یعنی بہتر ہے کہ خاتون روایت میں ان زینت کے مقامات کے علاوہ کوئی مقام محرم مرد کے سامنے ظاھر نہ کرے ، پس یہ بہتر ہے ۔
اور محرم خاتون کےلئے شرمگاہ کے علاوہ یعنی ناف اور گھٹنوں کے درمیانی حصہ کے علاوہ باقی بدن کا حصہ اپنے محرم سے چھپانا واجب نہیں ہے لیکن اگر جنسی شہوت اور شک کی صورت ہو تو چھپانا واجب ہوگا۔
لیکن شہوت اور شک کی صورت کے علاوہ اسے حرام کہنا اپنے مزاج کی بنیاد پر ، یا صحیح السند روایات کی مخالفت میں یا اہل سنت کی موافقت میں یہ کسی بھی صورت درست نہیں ہے۔
🤲خدا ہم سب مؤمنین کو آپس میں اتحاد و اتفاق عطا فرمائے اور اپنے اختلافی مسائل کو علمی انداز اور خوش اسلوبی سے حل کرنے کی توفیق دے ۔
آمین اللھم صل علی محمد و آل محمد وعجل فرجہم
✍️تحریر:ابو حیدر متعلم حوزہ علمیہ نجف اشرف عراق
Comments
Post a Comment