روایات احراق آگ رتد کی بحث و تحقیق ‏

ViewArticlePage
 
  • روایات احراق مرتد کی بحث و تحقیق  
  • 2010-09-12 10:10:17  
  • CountVisit : 80   
  • Sendtofriend
  •  
  •  
  •  جو کچھ گزشتہ فصلوں میںبیان ہوا وہ عبدا للہ بن سبا اس کے نذر آتش کرنے اور اس سلسلہ میں حدیث و رجال کی شیعہ و سنی کتابوں سے نقل کی گئی مختلف اور متناقض روایتوں کا ایک خلاصہ تھا ۔

               لیکن تعجب کی بات ہے کہ اسلامی دانشوروں اور فقہاء ، خواہ شیعہ ہوں یا سنی ان میں سے کسی ایک نے بھی ان روایتوں کے مضمون پر اعتماد نہیں کیا ہے اور شخص مرتد کو جلانے کا فتوی نہیں دیا ہے بلکہ شیعہ و سنی تمام فقہاء نے ان روایتوں کے مقابلے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ ہدی  سے نقل کی گئی روایتوں پر استناد کرکے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے نہ جلانے کا۔

               اب ہم یہاں پر مرتدوں کے بارے میں حکم کے سلسلے میں شیعہ و سنی علماء کا نظریہ بیان کریں گے اور اس کے بعد ان روایات کے بارے میں بحث وتحقیق کا نتیجہ پیش کریں گے ۔

     اہل سنت علماء کی نظر میں مرتد کا حکم

               ابو یوسف کتاب ’ ’ الخراج “ میں مرتد کے حکم کے بارے میں کہتا ہے :

               اسلام سے کفر کی طرف میلان پیدا کرنے والے اور کافر افراد جو ظاہراً اسلام لانے کے بعد پھر سے اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں اور اسی طرح یہودی و عیسائی و زرتشتی اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ اپنے پہلےمذہب اور آئین کی طرف پلٹ گئے ہوں ایسے افرا دکے حکم کے بارے میں اسلامی علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔

               ان میں سے بعض کہتے ہیں : اس قسم کے افراد کو توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں آنے کی دعوت دی جانی چاہئے اور اگر انہوں نے قبول نہ کیا توقتل کر دیا جائے  بعض دوسرے کہتے ہیں : ایسے افراد کیلئے توبہ کی تجویز ضروری نہیں ہے بلکہ جو ں ہی مرتد ہوجائیں اور اسلام سے منہ موڑیں ، انہیں قتل کیا جائے ۔

               اس کے بعد ابو یوسف طرفین کی دلیل کو جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث پر مبنی ہیں بیان کرتا ہے اور مرتد کو قابل توبہ جاننے والوں کے دلائل کے ضمن میںعمر بن خطاب کا حکم نقل کرتا ہے کہ جب اسے فتح ” تستر“ میں خبر دی گئی کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص مشرک ہو گیا ہے اور اسے گرفتا رکیا گیا ہے عمر نے کہا ؛ تم لوگوں نے اسے کیا کیا ؟ انہوں نے کہا: ہم نے اسے قتل کردیا عمرنے مسلمانوں کے اس عمل پر اعتراض کیا اور کہا: اسے پہلے ایک گھر میں قیدی بنانا چاہئے تھا اور تین دن تک اسے کھانا پانی دیتے ، اور اس مدت کے دوران اسے توبہ کرنے کی تجویز پیش کرتے اگر وہ اسے قبول کرکے دوبارہ اسلام کے دامن میں آجاتا تو اسے معاف کرتے اور اگر قبول نہ کرتا تو اسے قتل کر ڈالتے ۔

               ابو یوسف اس نظریہ کی تائید میں کہ پہلے مرتد سے توبہ کا مطالبہ کرنا چاہئے ایک داستان بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : ایک دن ” معاذ“ ، ابو موسی کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے کوئی بیٹھا ہوا ہے اس سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے ؟ ابو موسی نے کہا؛ یہ ایک یہودی ہے جس نے اسلام قبول کیا تھا لیکن دوبارہ یہودیت کی طرف پلٹے ہوئے ابھی دو مہینے گزررہے ہیں کہ ہم اسے توبہ کے ساتھ اسلام کو قبول کرنے کی پیش کش کررہے ہیں لیکن اس نے ابھی تک ہماری تجویز قبول نہیںکی ہے معاذ نے کہا:  میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک کہ خدا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے اس کا سر قلم نہ کروں ۔

               اس کے بعد ابویوسف کہتا ہے ؛ بہترین حکم اور نظریہ جو ہم نے اس بارے میں سنا (بہترین حکم کو خدا جانتا ہے ) کہ مرتدوں سے ، پہلے تو بہ طلب کی جاتی ہے اگر قبول نہ کیاتو پھر سر قلم کرتے ہیں ۔

               یہ نظریہ مشہور احادیث اور بعض فقہاء کے عقیدہ کا مضمون ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے ۔

              ابو یوسف اضافہ کرتا ہے :لیکن عورتیں جو اسلام سے منحرف ہوتی ہیں، قتل نہیں کی جائیں گی، بلکہ انھیں جیل بھیجنا چاہئے اور انھیں اسلام کی دعوت دینی چاہئے اور قبول نہ کرنے کی صورت میں مجبور کیا جانا چاہئے ۔

              ابو یوسف کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علمائے اہل سنت کا اس مطلب پر اتفاق  ہے کہ شخص مرتد کی حد ، قتل ہے اس نے قتل کی کیفیت کو بھی بیان کیا ہے کہ اس کا سر قلم کیا جانا چاہئے  اس سلسلہ میں علماء کے درمیان صرف اس بات پر اختلاف ہے کہ کیا یہ حد اور مرتد کا قتل کیا جانا تو بہ کا مطالبہ کرنے سے پہلے انجام دیا جائے یا توبہ کا مطالبہ کرنے کے بعداسے توبہ قبول نہ کرنے کی صورت میں۔

               ابن رشد ” بدایة المجتہد “ میں ” حکم مرتد“ کے باب میں کہتا ہے علمائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ اگر مرتد کو جنگ سے پہلے پکڑ لیا جائے تو اسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق قتل کیا جانا چاہئے فرمایا ہے : ہر وہ مسلمان  جو اپنا دین بدلے اسے قتل کیا جانا چاہئے “

    یہ تھا مرتد کے بارے میں علمائے اہل سنت کا نظریہ

    شیعہ علماء کی نظر میں مرتد کا حکم

               مرتد کے بارے میں شیعہ علماء کا عقیدہ ایک حدیث کا مضمون ہے جسے مرحوم کلینی ، صدوق اور شیخ طوسی نے امام صادق علیہ السلام سے اور انہوں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام سے نقل کیا ہے: مرتد کی بیوی کو اس سے جدا کرناچاہئے اس کے ہاتھ کا ذبیحہ بھی حرام ہے تین دن تک اس سے توبہ کی درخواست کی جائے گی اگر اس مدت میں اس نے توبہ نہیں کی تو چوتھے دن قتل کیا جائے گا۔

               ” من لا یحضرہ الفقیہ “ میں مذکورہ حدیث کے ضمن میں یہ جملہ بھی آیا ہے اگر صحیح اور سالم عقل رکھتا ہو ۔

               امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا: مرتد سے توبہ کی درخواست کی جانی چاہئے اگر اس نے توبہ نہ کی تو اسے قتل کرناچاہئے لیکن اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو اس سے بھی توبہ کی درخواست کی جاتی ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے اور اسلام کی طرف  دوبارہ نہ پلٹے تو اسے عمر بھر قید کی سزا دی جاتی ہے اور زندان میں بھی اس سے سختی کی جاتی ہے ۔

               حضرت امام رضا علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ کسی نے ان سے سوال کیا کہ ایک شخص مسلمان ماں باپ سے پیدا ہوا ہے ، اس کے بعد اسلام سے منحرف ہو کر کفر و الحاد کی طرف مائل ہوگیا تو کیا اس قسم کے شخص سے توبہ کی درخواست کی جائے گی؟ یا تو بہ کی درخواست کے بغیر اسے قتل کیا جائے گا؟

              امام نے جواب میں لکھا ” و یقتل“  یعنی توبہ کی درخواست کئے بغیر قتل کیا جائے گا۔

               امیر المؤمنین علیہ السلام کے ایک گورنر نے ان سے سوال کیا کہ : میں نے کئی مسلمانوں کو دیکھا کہ اسلام سے منحرف ہو کر کافر ہو گئے ہیں اور عیسائیوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہکافر ہو گیا ہے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے جواب میں لکھا : ہر مسلمان مرتد جو فطرت اسلام میں پیدا ہوا ہے، یعنی مسلمان ماں باپ سے پیدا ہوا ہے پھر اس کے بعد کافر ہو گیا تو توبہ کی درخواست کے بغیر اس کا سر قلم کرنا چاہئے، لیکن جو مسلمان فطرت اسلام میں پیدا نہیں ہوا ہے ( مسلمان ماں باپ سے پیدا نہیں ہوا ہے) اگر مرتد ہوا تو پہلے اس سے توبہ کی درخواست کرنا چاہئے، اگر اس نے توبہ نہ کی تو اس کا سر قلم کرنا لیکن، عیسائیوں کا عقیدہ کافروں سے بد تر ہے ان سے تمہیںکوئی سرو کار نہیں ہونا چاہئے۔

              امیرالمؤمنین علیہ السلام نے محمد بن ابی بکر کے مصر سے سورج او ر چاند کو پوجا کرنے والے ملحدوں اور اسلام سے منحرف ہوئے لوگوں کے بارے میں کئے گئے ایک سوال کے جواب میں یوں لکھا : جو اسلام کا دعوی کرتے تھے پھر اسلام سے منحرف  ہوئے ہیں ، انھیں قتل کرنا اور دوسرے عقاید کے ماننے والوں کو آزاد چھوڑ دینا وہ جس کی چاہیں پر ستش کریں ۔ گزشتہ روایتوں میں ا ئمہ سے روایت ہوئی ہے کہ مرتد کی حد قتل ہے ۔

              ایک روایت میں یہ بھی ملتا ہےکہ امیر المومنین نے مرتد کے بارے میں قتل کا نفاذ فرمایا ہے چنانچہ ، کلینی امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں: ایک مرتد کو امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں لایا گیا ۔ حضرت علیہ السلام نے اس شخص کا سر قلم کیا عرض کیا گیا یا امیرالمؤمنین اس شخص کی بہت بڑی دولت و ثروت ہے یہ دولت کس کو دی جانی چاہئے ؟ حضرت علیہ السلام نے فرمایا: اس کی ثروت اس کی بیوی اور بچوں اور وارثوں میں تقسیم ہوگی ۔

              پھر نقل ہو ا ہے ایک بوڑھا اسلام سے منحرف ہوکر عیسائی بنا امیر المومنین علیہ السلام نے اس سے فرمایا: کیا اسلام سے منحرف ہوگئے ہو؟ اس نے جواب میں کہا: ہاں ، فرمایا شاید اس ارتداد میں تمہارا کوئی مادی مقصد ہو اور بعد میں پھر سے اسلام کی طرف چلے آؤ؟ اس نے کہا: نہیں ۔ فرمایا : شاید کسی لڑکی سے عشق و محبت کی وجہ سے اسلام سے منحرف ہوگئے ہو اور اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد پھر سے اسلام کی طرف واپس آجاؤ گے ؟ عرض کیا : نہیں امام نے فرمایا: بہر صورت اب توبہ کر کے اسلام کی طرف واپس آجا اس نے کہا: میں اسلام کو قبول نہیں کرتا ہوں ۔ یہاں پر امام نے اسے قتل کر ڈالا ۱

              یہ ان روایتوں کا ایک حصہ تھا جو مرتد کی حد ومجازات کے بارے میں نقل کی گئی ہیں اس کے علاوہ اس مضمون کی اور بھی بہت سے روایتیں موجو د ہیں ۔

    بحث کا نتیجہ

              جو کچھ مرتد کی حد کے بارے میں بیان ہوا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مرتد کے حد کے بارے میں تمام علمائے شیعہ و سنی کا عمل و بیان اور اس بارے میں نقل کی گئی روایتیں احراق مرتد کی روایتوں کی بالکل برعکس تھیں اور ان میں یہ بات واضح ہے کہ مرتد کی حد ، قتل ہے نہ جلانا۔

               اس کے علاوہ یہ روایتیں واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ امام علیہ السلام نے مرتد کے بارے میں قتل کو عملاً نافذ کیا ہے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عربی لغت میں ” قتل “ کسی شخص کو تلوار ، نیزہ ، پتھر ، لکڑی اور زہر جیسے کسی آلہ سے مارڈالنا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں ” حرق“ آگ میں جلانا ہے اور  ”صلب“ پھانسی کے پھندے پر لٹکانا ہے ۔

               جو کچھ ہم نے اس فصل میںکہا وہ احراق سے مربوط روایتوں کا ایک ضعف تھا انشاء اللہ اگلی فصل میںمزید تحقیق کرکے دوسرے ضعیف نقطوں کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔

     

    مرتدین کے جلانے کے بارے میں روایتوں کی مزید تحقیق

     

    کیف خفیت تلک الحوادث الخطیرة علی المؤرّخین

    اتنی اہمیت کے باوجود یہ حوادث مورخین سے کیسے پوشیدہ رہے ہیں .    مؤلف

     

               ضروری ہے کہ ان روایتوں کے بارے میں کہ جوکہتی ہیں امیر المؤمنین علیہ السلام نے اپنے دین کے مطابق ارتداد کے جرم میں چند افراد کو نذر آتش کیا تو ہمیں اس سلسلے میں کچھ توقف کے ساتھ ان کے مضمون میں غور و فکرنیز ان کے مطالب کے جانچ پڑتال کریں اور سوال کریں :

               پانچویں روایت میں جوکہتا ہے : ’ ’ حسین بن علی علیہ السلام بھی مختار کے جال میں پھنس گئے تھے ، اور مختار انھیں عملی طور پر جھٹلاتے تھے “ !

              حسین ابن علی علیہ السلام کس وقت مختار کے جال میں گرفتار ہوئے تھے ؟ جبکہ حضرت( علیہ السلام) مختار کے انقلاب سے پہلے شہید ہوچکے تھے اس کے علاوہ کیا مختار کا امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کو قتل کرنا اور ان کا انتقام لینا حضرت کیلئے ابتلاء و مصیبت محسوب ہوسکتا ہے ؟ یا مختار کا امام حسین  علیہ السلام کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہچانا حضرت کو جھٹلانے کے مترادف ہوسکتا ہے ؟!

               کیا اس حدیث کو جعل کرنے والوں کا مقصد امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کی حمایت و مدد کرنا نہیں تھا ؟!

               اس کے علاوہ اسی روایت میں آیا ہے کہ عبد اللہ بن سبا نے امیر المؤمنین علیہ السلام کو جھٹلانے کیلئے عملی طور پر کوشش کی ہے او وہ حضرت کو لوگوں کی نظروں سے گرانا چاہتا ہے۔ عبد اللہ بن سبا کا کونسا عمل یا عقیدہ علی علیہ السلام کو جھٹلانے کے مترادف ہوسکتاہے ؟ کیا کسی نے عبد اللہ بن سبا سے یہ روایت کی ہے کہ اس نے کہاہوگا: ” خود علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے مجھے حکم دیا ہے میں اس کی پوچا کروں “ تا کہ عبد اللہ بن سبا کا عقیدہ اور طریقہ کار امیرالمؤمنین علیہ السلام کی نسبت افترا ہو اور انھیں سوء ظن اور دوسروں کے جھٹلانے کا سبب قرار دے ۔

              آٹھویں روایت میں آیا ہے کہ امیر المومنین  علیہ السلام اپنی بیوی ام عمرو عنزویہ کے پاس بیٹھے تھے ۔ امام علیہ السلام کی یہ بیوی جس کا نام ” ام عمرو عنزیہ “ ہے کون ہے ؟ اور کیوں اس راوی کے بغیر کسی اور نے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کیلئے اس بیوی کا کہیں ذکر تک نہیں کیا ہے ؟

               اسکے علاوہ کیا امیر المومنین علیہ السلام نے ان افراد کو دھویںکے ذریعہ قتل کیا ہے؟  چنانچہ ان روایتوں میں سے بعض میں آیا ہے کہ حضرت ﷼ نے کئی کنویں کھدوائے اور سوراخوں کے ذریعہ ان کو آپس میں متصل کرایا اور ان تمام افراد کو ان کنوؤں میںڈال دیا اور اوپر سے ان کو مضبوطی سے بند کرا دیا صرف ایک کنویں کو کھلارکھا جس میں کوئی نہیں تھا پھر اس میں آگ جلادی ، اس کنویں کا دھواں دوسرے کنوؤں میں پہنچا اور وہ سب افراد اس دھویں کی وجہ سے دم گھٹ کر نابو دہوئے ۔

               یا یہ کہ دھویں سے انھیں قتل نہیں کیا ہے بلکہ پہلے ان کے سر قلم کئے ہیں اس کے بعد ان کے اجساد کو نذر آتش کیاہے ؟

               یا زمین میں گڑھے کھدوائے ہیں اور ان گڑھوں میںلکڑی جمع کرکے اس میں آگ لگادی ہے اور جب لکڑی انگاروں میں بدل گئی تو قنبر کو حکم دیا کہ ان افراد کو ایک ایک کرکے اٹھا کر اس آگ  میں ڈال دے اور اس طرح سب کو جلا دیا ہے ؟

               کیا تنہا ابن سبا تھا جس نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کے بارے میں غلو کیا تھا اور ان کی الوہیت کا معتقد ہوا تھا اور حضرت علیہ السلام نے اسے جلادیا ہے ؟

              یا یہ کہ یہ افراد دس تھے اور ان سب دس افراد کو جلادیا ہے ؟

              یا یہ کہ وہ ستر افراد تھے اور حضرت ﷼ نے ان سب سترافراد کو نذر آتش کیا؟

               یا یہ کہ علی علیہ السلام نے اس عمل کو مکررانجام دیا ہے کہ ایک بار صرف ایک شخص کہ وہی عبد اللہ بن سبا تھا ، کو جلا دیا اوردوسری دفعہ دس افراد کو اسکے بعد ستر افراد کو اور آخر کارچوتھی بار دو افرادکو جلادیا ہے؟!

               کیا حضرت علیہ السلام نے صرف ان افراد کو نذر آتش کیا ہے جو اس کی الوہیت اور خدائی کے معتقد تھے یا بت پرست ہوئے دوا فراد کو بھی جلا دیا ہے ؟ جن افرادکو امیرالمؤمنین علیہ السلام نے جلایا تھا کیا یہ واقعہ بصرہ میں جنگ جمل کے بعد رونما ہوا  یا جس طرح نویں روایت میں آیا ہے کہ اس کام کو کسرہ میں اس وقت انجام دیا جب حضرت کو اپنی بیوی ” ام عمرو عنزیہ “ کے گھر میں اطلاع دی گئی جیسا کہ آٹھویں روایت میں بھی آیا ہے ؟!

               کیا یہ مطلب صحیح ہے کہ جب مرتدوں کو جلانے کی خبر ابن عباس کو پہنچی تو انھوں نے کہا: اگر ان کا اختیار میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں انھیں نذر آتش نہیں کرتا بلکہ انھیں قتل کر ڈالتا ، کیونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کسی کو عذاب خدا کے ذریعہ سزا نہ دینا اور اگر کوئی مسلمان اسلام سے منحرف ہو جائے تو اسے قتل کرنا“اور جب  امام علیہ السلام نے ابن عباس  کے بیان کو سنا تو فرمایا؛ افسوس ہو ام الفضل کے بیٹے پر کہنکتہ چینی کرنے  میں ماہر ہے “

               کیا امام اس عمل کے نامناسب ہونے سے بے خبر تھے اور ابن عباس نے انھیں متوجہ کیا ؟!

               یا کہ ان روایتوں کو جعل [1] کیا گیا ہے تا کہ امیر المومنین علی علیہ لسلام کی روش کو خلیفہ اول کی روش کے برابر دکھائیں اور اس طرح جن چیزوں کے بارے میں خلیفہ اول پر اعتراض ہوا ہے ان میں اسے تنہا نہ رہنے دیں اور لوگوں کو نذر آتش کرنے کے جرم میں علی علیہ السلام جیسے کو بھی ان کا شریک کا ر بنا

     

      ۱۔

    دیں اور اس طرح خلیفہ اول کے عمل کو ایک جائز اور معمولی عمل دکھلائیں ، کیونکہ ” فجائیہ سلمی “ا   اور ایک دوسرا گروہ خلیفہ اول کے حکم سے جلائے گئے تھے اور وہ اس منفی عمل اور سیاست کی وجہ سے مورد تنقید قرار پاتے تھے !

               انہوں نے ان روایتوں کو جعل کرکے روش امیر المؤمنین علیہ السلام کو خالد بن ولید کی جیسی روش معرفی کرکے یہ کہنا چاہا ہے کہ : اگر چہ خالد بن ولید نے چند مسلمانوں کو زکوٰة ادا کرنے سے انکار کرنے کے جرم میں جلادیا ہے ۲  لیکن یہ عمل صرف اس سے مخصوص نہیں ہے تا کہ اس پر اعتراض

     

       ۱۔ ” فجائیہ سلمی “ وہی ایاس بن عبدا للہ ابن عبد یا الیل سلمی ہے کہ اس نے ابوبکر سے چند جنگجو افراد اور اسلحہ بطور مدد حاصل کیا تھا تا کہ مرتدوں سے جنگ کرے لیکن مرتد وں سے جنگ کے بجائے بے گنا ہ لوگوں کا قتل و غارت کیا اپنی راہ میں ایک بے گناہ عورت کو بھی قتل کیا اسے ابوبکر کے حکم سے پکڑا گیا اس کے بعد ابوبکر نے حکم دیا کہ آگ جلائی جائے اور اس کے بعد فجائیہ کو زندہ آگ میں ڈالا گیا ۔ یہی علت تھی کہ ابوبکر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کہتا تھا : میں اپنی زندگی میں تین کام کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں فکرمند نہیں ہوں کاش ان کاموں  کو میں نے انجام نہ دیا ہوتا یہاں تک کہتاتھا میں فجائیہ سلمی کو نذر آتش کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ اسے قتل کرنا چاہتا تھا یا جلاوطن کرنا چاہتا تھا اس سلسلہ میں اس کتاب کی جلد اول فصل تحصن در خانہ ملاحظہ ہو ۔

    ۲۔ محب الدین طبری نے الریاض النضرة: ۱/ ۱۱ میں درج کیا ہے کہ قبیلہٴ بنی سلیم کے کچھ لوگ اسلام سے منحرف ہوئے ابوبکر نے خالد بن ولید کو ان کی طرف روانہ کیا خالد نے ان میں سے بعض مردوں کو گوسفند خانے میں جمع کرکے انھیں آگ لگادی عمر ابن خطاب نے اس سلسلہ میں ا بوبکر سے اعتراض کیااور کہا: تم نے ایک ایسے شخص کو ان لوگوں کی طرف روانہ کیا ہے کہ لوگوں کو خدا سے مخصوص عذاب سے سزا دیتا ہے اہل سنت علماء نے ابوبکر کے جلانے کے موضوع اور اس کے دفاع میں بہت سے مطالب بیان کئے ہیں ۔ مثلاً  فاضل قوشجی شرح تجرید میں کہتا ہے ابو بکر کا فجائیہ کو نذر آتش کرنا ان کی اجتہادی غلطی تھی اور مجتہدوں کیلئے اجتہاد میں غلطیاں کثرت سے پیش آتی ہیں فاضل قوشجی ابوبکر کے دفاع میں اپنی بات کو یوں جاری رکھتا ہے یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہماری بحث سے مربوط احادیث کے مطابق ہو یہ کہتے ہیں کہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے بہت سے افراد کو نذر آتش کیا ہے ایک جہت سے اس سے اہم تر ہیں جو ابوبکر کے بارے میں نقل ہوئی ہیں ا ور دوسری جہت سے ابوبکر کے دفاع اور عذر کی بہترین راہ ہے کیونکہ ان روایتوں کے مضمون کے مطابق امیرالمؤمنین علیہ السلام نے بھی ان افراد کو نذر آتش کرنے میں ا جتہاد کیا ہے اور اس اجتہاد میں غلطی ہو گئی ہے اور اس روش کی بھی عبداللہ ابن عبا س اور دوسرے تمام افرا د کی طرف سے انکار ہوا ہے ، لیکن خود علی اور خالد بن ولید کی نظر میں صحیح تھا فتح الباری ۶/ ۴۹۱  ) کتاب الجہاد ( باب لایعذب بعذاب الله ) کی طرف رجوع کیا جائے ۔کیونکہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے بھی دوسری وجوہ کی بنا پر چند افراد کو جلا کر نابود کیا ہے۔

               کیا با وجود اس کے کہ امام صراحتاً فرماتے ہیں کہ مرتد کی سزا قتل ہے ، عملاً اس حد کو نافذ نہیںکرتے اور مرتدوں کے ایک گروہ کو واقعاًجلا دیتے ہیں؟!

               لیکن جس شعر کو امام سے نسبت دی گئی ہے :

     لما رایت الامر امراً منکراً

    اوقدت ناری و دعوت قنبراً

    کیا امیر المؤمنین علیہ السلام نے اس شعر کو ان حوادث کی مناسبت سے جس صورت میں نقل ہوا ہے ، کہا ہے ، یا کہ ان اشعار کو جنگ صفین میں ایک قصیدہ کے ضمن میں یوں کہا ہے:

    یا عجباً لقد سمعت منکراً

    کذباً علی الله یشیب الشعراً

    یہاں تک فرماتے ہیں:

     انی اذا الموت دنا و حضرا

     شمّرت ثوبی و دعوت قنبراً

     لما راٴیت الموت موتاً احمراً

    عبات ھمدان و عبوا حمیراً

               جب موت کا وقت نزدیک پہنچا تو اپنے لباس کو جمع کیا اور خود کو موت کیلئے آمادہ کر لیا اور قنبر کو بلایا ۔ جی ہاں ، اب سرخ موت کو اپنے سا منے دیکھتا ہوں ۔ قبیلہ ہمدان کی صف آرائی کرتا ہوں اور معاویہ بھی قبیلہٴ حمیر کی “

               ان تمام اشکالا ت اور اعتراضات ، جو احراق مرتدوں کی روایتوں میں موجود ہیں کے باوجود پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ پر باقی ہے کہ کیا عبدا للہ بن سبا علی علیہ السلام  کے بارے میں غلو کرتا تھا اور ان کی الوہیت کا قائل تھا ، جیسا کہ گزشتہ روایتوں میں آیا ہے ؟ ! یا یہ کہ وہ خدا کے منزہ ہونے اور تقدس کے بارے میں غلو کرتا تھا ۔

               ( اگر اس سلسلہ میں یہ تعبیر صحیح ہو ) جیسا کہ چھٹی حدیث میں آیا ہے کہ عبد اللہ بن سبا دعا کے وقت آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانے کی مخالفت کرتا تھا اور اس عمل کو پروردگار سے دعا کرتے وقت ایک نامناسب عمل جانتا تھا ، حتی امام بھی جب اس سلسلہ میں ا س کی راہنمائی کرتے ہوئے وضاحت فرماتے ہیں ، تو پھر بھی وہ امام کی وضاحت کو قبول نہیں کرتا ہے اور اظہار کرتا ہے کہ چونکہ خداوند عالم ہر جگہ موجود ہے اور کوئی خاص مکان نہیں رکھتا ہے لہذا معنی نہیںرکھتا کہ ہم دعا کے وقت آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بلند کریں کیونکہ یہ عمل خدا کو ایک خاص جگہ اور طرف میں جاننے اور اس کیلئے خاص مکان کے قائل ہونے کے برابر ہے اور یہ عقیدہ توحید سے مطابقت نہیں رکھتا ہے ۔

               کیا اس عبدا للہ بن سبا نے مسئلہ توحید میں غلو اور افراط کا راستہ اپنایا ہے یا علی علیہ السلام کی الوہیت کا قائل ہوکر تفریط کی راہ پر چلا ہے ؟!

              کیا امام نے عبد اللہ بن سبا کو عقیدہ میں انحراف کی وجہ سے نذر آتش کیا ہے ؟ یا یہ کہ اس نے عقیدہ میں ا نحراف نہیںکیا تھا بلکہ غیب کی خبر دیتا تھا اور اسی سبب سے اسے امام کے پاس لے آئے تھے اور امام نے اس کی پیشین گوئی اور کہانت کی تائید کرکے اسے آزاد کرنے کا حکم دیا ہے ؟!

              ان تمام سوالات اور جوابات کے باوجود بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کیا عبدا للہ بن سبا بنیادی طور پر ( زط) اور ہندی  تھا یا عرب نسل تھا ؟

              اگر وہ ہندی نسل سے تھا تو اس کا اور اس کے باپ کا نام کیسے چار عربی لفظ سے تشکیل پایا ہے : (عبد) ، (الله) اور ابن ، (سبا) اگر وہ عرب نسل سے تھا، تو کیا قدیم زمانے اور جاہلیت کے زمانہ سے امام علیہ السلام کے زمانہ تک کہیں یہ سننے میں آیا ہے کہ کسی عرب نے اپنے ہم عصر کسی انسان کو اپنا خدا جان کر اس کی الوہیت کا قائل ہوا ہو؟!!

               دوسری مشکل یہ ہے کہ انسان کی پرستش کی عادت و روش اور ایک شخص معاصر کے الوہیت کا اعتقاد ، قدیم تہذیب و تمدن والی قوموں ،جیسے : روم ،ایران اور اسی طرح جاپان اور چین میں پایا جاسکتا ہے ، لیکن اسی زمانہ کے جزیرہ نما عرب کا غیر متمدن ایک صحرا نشین عرب ، جو دوسرے انسان کے سامنے تواضع اور انکساری دکھانے کیلئے آمادہ نہ تھا ، اس کا کسی انسان کی پرستش کیلئے آمادہ ہونا دور کی بات تھی ، جی ہاں صحرا نشین بتوں کی پرستش کرتے ہیں اور جن و ملائکہ کی الوہیت کے معتقد ہوتے ہیں لیکن کبھی آمادہ نہیں ہوتے کہ اپنے ہم جنس بشر کے سامنے احترام بجا لائیں اور سجدہ کریں اور اپنے جیسے کسی شخص کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔

               ان تمام اعتراضات سے قطع نظر پھر بھی یہ مشکل باقی ہے کہ : جو انسان کسی دوسرے انسان کی بندگی اور عبودیت کو قبول کرتا ہے ، اور کسی شخص کے سامنے اپنے آپ کو حقیر بناتا ہے اس عبودیت و بندگی اور اس خصو ع و خشوع میں ا س کا مقصد یا مادی و دنیوی ہے کہ اس صورت میں ا پنے اس عقیدہ و بیان میں اس قدر ہٹ دھرمی اور اصرار نہیں کرسکتا ہے کہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے کیونکہ مرنے کے بعد مادی اور دنیوی مقاصد کو پانا معنی نہیں رکھتا ہے ان حالات کے پیش نظر کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس قسم کا شخص کسی بھی قیمت پر اپنی بات سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوتا یہاں تک کہ اسے زندہ آگ میں جلادیا جائے اور وہ تمام مادی جہتوں کو ہاتھ سے گنوا دے ؟

               یا یہ کہ حقیقت میں وہ واقعی طور پر اس عبودیت و بندگی کا قائل ہے اس صورت میں یہ کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ انسان اپنے معبود سے کہے کہ تو میرا پرور دگار ہے ،تونے مجھے خلق کیا ہے، اور تومجھے رزق دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں ا س کا معبود اس کی تمام باتوں کو جھٹلادے اور ا س کے عقیدہ کے بارے میں اظہار بیزاری و تنفر کرے لیکن پھر بھی یہ شخص اس کے بارے میں ا پنے ایمان و عقیدہ سے دست بردار نہ ہو؟!!

              کیا ایک عقلمند انسان ایسے مطالب کی تصدیق کرسکتا ہے ؟ کیا اس قسم کے مطالب کی صدائے بازگشت یہ نہیں ہوسکتی کہ ایساشخص اپنے معبود سے کہتا ہے: اے میرے پروردگار ! اے میرے معبود ! تم اپنی الوہیت کا انکار کرکے غلطی کے مرتکب ہورہے ہو ، اپنی خدائی کا انکار کرکے اشتباہ کررہے ہو صحیح راستہ سے منحرف ہورہے ہو !! تم خدا ہو ، لیکن تم خود نہیں جانتے ہو! اور آخرکار تم خدا ہو اگر چہ خود اس مقام کو قبول بھی نہ کرو گے !!

               کون عاقل اس قسم کے مطلب کی تصدیق کرسکتا ہے ؟ اور کیا تاریخ بشریت میں اس قسم کی مثال پائی جاتی ہے ؟!

               جی ہاں ، ممکن ہے کچھ لوگ کسی شخص کی الوہیت کے معتقد ہوجائیں ا ور وہ شخص اس نسبت سے راضی نہ ہواا ور وہ خود اس مقام کا منکر ہو لیکن ایک شخص کے بارے میں ا س قسم کا عقیدہ کہ اس زندگی کے خاتمہ او رمرنے کے بعد ممکن ہے نہ اس کی زندگی میں جیسے کہ عیسی ٰ بن مریم اور خود علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں ا ن کی حیات کے بعد ایسا واقعہ پیش آیا ہے ۔

               لیکن کسی شخص کی الوہیت کے بارے میں اس کی زندگی میں عقیدہ رکھنا جبکہ وہ شخص اس عقیدہ اور بات سے راضی نہ ہو اور اسے جھٹلاتا ہو ، اپنے ماننے والوں کی ملامت و مذمت کرتا ہو ، اس قسم کی روداد نہ آج تک واقع ہوئی ہے اور نہ آئندہ واقع ہوگی ۔

     آخری اعتراض

               اس سلسلہ میں آخری اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ اہم حوادث، حقیقت اور بنیادی طور پر صحیح ہوتے تو معروف مورخین سے کیوں مخفی رہتے ؟ مشہور ترین اور مثالی مورخین میں سے چند ایک کے نام ہم ذیل میں درج کرتے ہیں انہوں نے اپنی کتابوں میں ان حوادث کے بارے میں کسی قسم کا اشارہ نہیں کیا ہے اور ان افراد کے جلائے جانے کے بارے میں معمولی سا ذکر تک نہیں کیا ہے ، جیسے :

                        ۱۔ ابن خیاط وفات ۲۴۰ ھء

                       ۲۔ یعقوبی  وفات ۲۸۴ ھء

                       ۳۔ طبری ، وفات ۳۱۰ ھء

                       ۴۔ ،مسعودی ، وفات ۳۳۶ ھء

                       ۵۔ ابن اثیر ، وفات  ۶۳۰ ھء

                       ۶۔ ابن کثیر ، وفات ۷۴۴ ھء

                       ۷۔ ابن خلدون ، وفات ۸۰۸ ھء

               حقیقت میں ا س مقدمہ اور جواب طلبی کے سلسلے میں مرتدین کو جلانے سے مربوط روایتوں کو نقل کرنے والوں اور ان کے حامیوں سے وضاحت طلب کی جاتی ہے کہ : اتنی اہمیت کے باوجود یہ حوادث کیوں ان مؤرخین سے مخفی رہے ہیں اور انہوں نے اپنی تاریخ کی کتابوں میں انکے بارے میں اس کی قسم کا اشارہ کیوںنہیں کیا ؟! جب کہ ان تمام مؤرخین نے ” فجائیہ سلمی “ کو نذر آتش کرنے کی روداد کو کسی قسم کے اختلاف کے بغیر اپنی کتابوںمیں تشریح اور تفصیل کے ساتھ درج کیا ہے ۔

               گزشتہ فصل میں جو کچھ بیان ہوا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ : عبد اللہ بن سبا سے مربوط روایتیں اور احراق مرتدین کے بارے میں روایتیں جو مختلف عناوین سے نقل ہوئی ہیں اور ہم نے بھی ان کے ایک حصہ کو گزشتہ فصل میں درج کیا مضبوط اور صحیح بنیاد کی حامل نہیں ہیں اور یہ سب روایتیں خودغرضوں کے افکار کی جعل کی ہوئی ہیں لیکن یہاں پر یہ سوال باقی رہتا ہے کہ یہ جعلی روایتیں کیسے شیعہ کتابوںمیں آ گئیں ؟ ہم اگلی فصل میں اس کا جواب دینے کی کوشش کریں گے ۔

     

     


    . زندیقیوں میں ایسے افراد بھی تھے جو اپنے اساتذہ کو دھوکہ دے کر ان کی کتابوں میں بعض مطالب کو حدیث کی صورت میں اضافہ کرتے تھے اور یہ استاد اس کی طرف توجہ کئے بغیر اس خیال سے اس حدیث کو نقل کرتا تھا کہ وہ اس کی اپنی ہے ۔ ہم نے اس مطلب کی وضاحت میں اپنی کتاب ” خمسون و ماٴة صحابی مختلق “  کے مقدمہ کے فصل زنادقہ میں ص۳۷  طبع بغداد میں توضیح دی ہے، آئندہ اس کی مزید وضاحت کی جائے گی ۔[1]

     
    FirstName :
    LastName :
    E-Mail :
     
    OpinionText :
    AvrRate :
    %0
    CountRate :
    0
    Rating :

    Comments

    Popular posts from this blog

    نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات