سوشل میڈیا پر بے جا بحث مباحثے اور سیرت اہلبیت علیہم السلام_______

☘️ *سوشل میڈیا پر بے جا بحث مباحثے اور سیرت اہلبیت علیہم السلام_______!!*


📜 *تحریر:* عون نقوی



اس واقعے کو حکیم بزرگ و فلاسفر عظیم بو علی سینا سے منسوب کیا جاتا ہے کہ ایک دن بو علی سینا سفر پر نکلے، سفر کے دوران ایک قہوے خانے کے آگے رُکے تاکہ کچھ آرام کریں اور پھر سفر کو آگے جاری رکھ سکیں، اپنے گھوڑے سے اترے اور اسے ایک درخت سے باندھا اس کے آگے تھوڑا سا چارہ ڈالا اور خود قہوہ پینے بیٹھ گئے. گدھے پر سوار ایک اور شخص بھی وہاں آ پہنچا اور اپنے گدھے کو بو علی سینا کے گھوڑے کے ساتھ باندھ دیا تاکہ گدھا بھی گھوڑے کے ساتھ چارہ کھانے میں شریک ہو جائے اور خود بو علی سینا کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا. بو علی سینا نے اس سے کہا اپنے گدھے کو میرے گھوڑے کے ساتھ مت باندھو کیونکہ وہ میرے گھوڑے کا چارہ کھا رہا ہے اور گھوڑا اس پہ حملہ بھی کر سکتا ہے جس سے گدھے کی ٹانگ ٹوٹ سکتی ہے.

اس شخص نے کوئی جواب نہ دیا اور قہوہ پینے میں مشغول رہا اتنے میں گھوڑے نے گدھے کو ایک لات ماری جس سے گدھا زخمی ہو گیا اور لنگڑانے لگا، اس شخص نے بوعلی سینا پر چڑھائی کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے گھوڑے نے میرے گدھے کو زخمی کیا ہے تمہیں مجھے اسکی خسارت دینی ہوگی، بو علی سینا خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا، گدھے سوار شخص نے ہجوم اکٹھا کرلیا لیکن بو علی سینا پھر بھی خاموش رہے گویا خود کو گونگا بہرا ظاہر کرنے لگے. لوگوں نے دیکھا تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص تو گونگا بہرا ہے بول سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے.

جھگڑا طول پکڑ گیا یہاں تک کہ معاملہ اس شہر کے قاضی تک جا پہنچا، قاضی نے اس گدھے سوار کی بات سنی اور پھر بو علی سینا سے پوچھا، لیکن بو علی سینا اس بار بھی خاموش رہے. قاضی نے کہا کہ یہ شخص تو گونگا ہے بول نہیں سکتا یہ سن کر اس گدھے سوار نے کہا کہ قاضی صاحب یہ جان بوجھ کر گونگا بہرا بنا ہوا ہے جبکہ خود اس نے مجھ سے بات کی. قاضی نے پوچھا کہ اس نے تم سے کیا بات کہی تھی؟ مکمل اور پوری تفصیل سے بتاؤ. اس نے کہا کہ جب میں اس قہوے خانے پر پہنچا تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے گدھے کو اس کے گھوڑے کے ساتھ نا باندھوں ورنہ اسکا گھوڑا میرے گدھے کو زخمی کردے گا. یہ سن کر قاضی ہنسنے لگا اور بو علی سینا کی ظرافت پر انہیں آفرین کہا. اور اس طرح سے بو علی سینا بے قصور اور وہ شخص خود اپنی باتوں میں پھنس کر قصور وار ثابت ہوا. اور اس روز کے بعد یہ واقعہ ضرب المثل بن گیا *"احمق کی باتوں کا جواب سکوت ہے"*.

یہ واقعہ اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے کہ ہم اپنی گفتگو میں داخل ہوں یہ معلوم ہو جائے کہ بحث اور مباحثے کے موضوع سے احمق و جاھل  شخص خارج ہے. کیونکہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: *وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا.*
اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں. جاھل و احمق شخص کے پاس استدلال نہیں ہوتا بلکہ وہ فقط مناظرہ جیتنا چاہتا ہے اور وہ بھی ہر قیمت پر. یہ واقعہ تو آپ سب نے سنا ہی ہوگا کہ ایک عالم اور جاھل کا مباحثہ ہوا تو عالم نے کہا کہ 2+2 چار ہوتے ہیں لیکن جاھل نے کہا کہ 2+2 پانچ بنتے ہیں. عالم نے پوچھا کہ تمہارے پاس اسکی کیا دلیل ہے تو اس نے کہا دلیل کس بات کی؟ جب میں مانتا ہی نہیں ہوں کہ 2+2 چار ہوتے ہیں تو تم کیسے منوا لوگے؟

روایات اہلبیت علیہم السلام میں  بے جا اور ڈھٹائی پر مبنی جدل و مباحثے کرنے سے منع کیا گیا ہے. امیرالمومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
*مَنْ ضَنَّ بِعِرضِهِ فَلْیَدَعِ الْمِرَاء.*
جس شخص کو اپنی عزت پیاری ہے اسے چاہیے کہ بے جا اور لجاجت آمیز گفتگو سے پرہیز کرے. (٢)
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:
*لَا تُمَار فَیَذھَب بَهَاؤکَ وَ لَا تُمَازِح فَیَجتَرَءأَ عَلَیکَ.*
مراء (لجاجت آمیز گفتگو) سے پرہیز کرو یہ تمہاری شخصیت لے جائے گی اور زیادہ مزاح مت کرو کہ لوگوں کو تمہارے خلاف جسور بنا دے گا. (٣)
سوشل میڈیا پر بھی زیادہ تر ایسے افراد بیٹھے ہیں جنکو ہر حال میں بحث جیتنی ہے اور مخالف کو ہرانا ہے. ان میں سے بیشتر افراد ایسے ہیں جو احساس کمتری کا شکار ہیں اپنی تصویر ڈالتے ہیں تو لائیکس نہیں ملتے، کوئی اور گفتگو کریں تو کمنٹس نہیں ملتے آخر میں رہ جاتی ہے فضول اور تفرقہ انگیز ابحاث جن میں انکی پوسٹ پر ہزاروں کمنٹس آتے ہیں، یہ لوگ حتی یہ بھی نہیں دیکھ رہے ہوتے کہ کمنٹس میری پوسٹ کی حمایت میں آ رہے ہیں یا مخالفت میں؟ اس سے قوم و مکتب کے نوجوانوں کا وقت ضائع ہو رہا ہے یا خود مکتب بدنام ہو رہا ہے؟ یہ فقط اپنی پوسٹ کے کمنٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد پر خوش ہوتے ہیں.

ایسے لوگوں سے بحث مباحثہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے، آخر میں ایک سنجیدہ طبقہ رہ جاتا ہے جو واقعی آپ سے علمی اختلاف رکھتا ہے جس سے آپ کو بحث کرنی ہے اس کے بھی آداب وارد ہوئے ہیں. روایات اہلبیت علیہم السلام کی روشنی میں مخالف سے بحث کرتے ہوئے چند چیزوں کا خیال رکھیں، یہ آپ پر ضروری ہے کہ آپ ان آداب کا خیال رکھیں. اگر مخالف ان آداب کا خیال نہیں رکھتا تو آپ اسے بحث میں جیتنے دیں، در اصل یہاں پر آپ کی ہار میں ہی آپکی جیت ہے.

*١. توہین کا جواب مت دیں.*
اگر مخالف بحث کے دوران آپ کی ذات پر حملہ کرتا ہے اور توہین پر اتر آتا ہے تو اسکا جواب مت دیں، توہین کا جواب توہین نہیں ہے بلکہ صبر ہے. رسول اللہ ص جب مشرکین کے ساتھ بحث کے لیے بیٹھتے تو اکثر اوقات وہ آپ ص کی توہین کرتے لیکن آپ خاموش رہتے اور اجازت دیتے کہ طرفِ مقابل اپنے اندر کی آگ کو باہر نکال سکے. ایک بار ایک مشرک نے کہا: *مَا اَنْتَ یَا مُحَمَّد! اِلَّا مَسْحُورا وَ لَسْتَ بَِنَبِی. فَقَالَ رَسُولُ اللّه: ھَلْ بَقِیَ مِن کَلَامِکَ شَیء؟.*
تم کون ہو اے محمد! تم فقط ___ہو اور ہرگز نبی نہیں ہو. آپ ص نے فرمایا کہ کیا تم نے سب کہہ دیا یا اب بھی کچھ کہنا باقی ہے؟ (٤)

*٢. اپنے آپکو ضبط کریں اور بھڑک نہ جائیں.*
بعض اوقات مخالف جان بوجھ کر ایسا سوال کرتا ہے جس سے چاہتا ہے کہ آپ غضبناک ہوں اور آپ سے کوئی غلطی ہو، اس کے لیے وہ تہمت، توہین یا جھوٹے پروپیگنڈے کا سہارہ لیتا ہے لیکن یہاں پر خود کو کنٹرول کرنا ہے اور بھڑک نہیں جانا. ایک شخص خلیفہ دوم کے پاس آیا اور پوچھا: *اَخْبِرنِی اَیْنَ ھُوَ اللّه* مجھے بتائیے اللہ کہاں ہے؟ خلیفہ دوم غضبناک ہو گئے اور کہا کہ یہ کیسا سوال ہے؟ امام علی علیہ السلام وہاں موجود تھے آپ نے فرمایا: *لَا تَعضَب یَا اَبَا حَفص! حَتَّی لَا یَقُول اِنَّکَ قَد عَجَّزتَ.* اے ابو حفص! غضبناک مت ہوں تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اپنی ناتوانی کی وجہ سے جواب نہیں دے سکے. (٥)
*٣. متواضع رہیں خود کو عالم ثابت مت کریں.*
بعض لوگ خواہمخواہ خود کو مخالف سے بڑا عالم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ بات واضح کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ مخالف کم عالم ہے اور میں بڑا عالم ہوں اسلئے موضوع سے ہٹ کر ادھر ادھر کی باتیں کریں گے یا اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے مختلف و غیر ضروری حوالے دینگے گویا انہوں نے ہر کتاب پڑھی ہوئی ہے. ایک بار امام باقر علیہ السلام اور کشیش مسیح کے درمیان مناظرہ ہوگیا تو اس نے امام سے پوچھا: *أَفَمَن عُلَمَائِهِم أنتَ أَم مَن جهَالهم؟*
کیا آپ اس امت کے علماء میں سے ہیں یا جھلا میں سے؟ 
*فَقَالَ: لَسْتُ مِن جهالهم.*
آپ نے فرمایا: میں جھلا میں سے نہیں ہوں. (٦)
یہاں پر امام باقر علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ میں بہت بڑا عالم ہوں، میرے پاس علم لدنی ہے، میں انبیاء و رسل اور اپنے باپ دادا کے علم کا وارث ہوں فقط فرمایا کہ میں جاھلوں میں سے نہیں حالانکہ امام اگر یہ سب کہتے بھی تو کوئی جھوٹ نہیں تھا.

*٤. توہین آمیز و نفرت انگیز باتوں سے پرہیز*
اسلام تفکر و عقلانیت کا دین ہے اس دین میں کسی کی توہین یا فحاشی حرام ہے، سورہ انعام میں بے جان پتھر اور لکڑی کے بتوں کی توہین کرنے سے منع کیا گیا ہے، اور مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ تم کافروں کے جھوٹے خدا کی توہین مت کرو تاکہ وہ تمہارے سچے خدا کو برا بھلا نہ کہیں، اگر تم نے انکے جھوٹے خدا کی توہین کی اور وہ طیش میں آکر اللہ اور اسکے رسول کی توہین کریں تو اس میں قصور آپ کا ہے.
اللہ تعالٰی کا قرآن کریم میں ارشاد فرمانا ہے:
*وَ لَا تَسُبُوا الَّذِینَ یَدعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَیَسُبُو اللّهَ عَدوَاََ بِغَیرِ عِلم.*
اور وہ لوگ(کفار) جو اللہ کے علاوہ کسی اور کو پکارتے ہیں کو دشنام مت دو تاکہ وہ بھی از روۓ عداوت اللہ کو دشنام نہ دیں. (٧)
جنگ صفین کے موقع پر امام علی علیہ السلام کی فوج میں سے چند افراد نے امیر شام پر سب و شتم کیا تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
*اِنِّی اُکرِہُ لَکُم اَن تَکُونُوا سَبَابِین.*
میں یہ بات تم لوگوں کے بارے میں پسند نہیں کرتا کہ تم سب و شتم کرنے والوں می سے ہو جاؤ. (٨).

*٥. مخالف کے مقدسات کا احترام.*
اسلام آباد میں برطانوی تشیع کے ایک مبلغ بلکہ ایجنٹ نے اہل تسنن کی ایک مقدس شخصیت کی تکفیر کی جس کے نتیجے میں ابھی تک وطن عزیز میں آگ لگی ہوئی ہے اور شیعہ کافر کے نعرے لگ رہے ہیں اور بعض جگہوں پر اس کے نتیجے میں مومنین کو شہید بھی کردیا گیا. جبکہ سیرت آئمہ معصومین علیہم السلام میں ایسا نظر نہیں آتا، مامون کے دربار میں امام جواد علیہ السلام کا درباری مفتی یحیی ابن اکثم سے مناظرہ ہو جاتا ہے جس میں درباری مفتی خلفاء کے فضائل بیان کرتے ہوئے روایات کو استدلال کے طور پر پیش کرتا ہے اور کہتا ہے: *إِنَّ السّکِینَةَ تَنطِق عَلَی لِسَان عُمر.* سکون اور آرامش عمر کی زبان پر سخن کرتی ہے. امام نے یہاں پر طرف مقابل کے مقدسات کی توہین کرنا شروع نہیں کردی بلکہ استدلال اور برھان سے اسکی دلیل کو خود اسکے خلاف استعمال کیا اور فرمایا کہ میں عمر کی خصوصیات کا منکر نہیں لیکن ابوبکر جو عمر سے افضل تھے وہ تو کہتے تھے کہ: *إِنَّ لِی شَیطَاناََ یَعتَرینی فَاِذَا ملتس فَسَدّونی.* میرے ساتھ ایک شیطان رہتا ہے اور وہ بعض اوقات مجھ پر مسلط ہوجاتا ہے تو جب دیکھو میں راہ راست سے منحرف ہو رہا ہوں تو مجھے راہ راست پر لے آؤ. (٩)
امام علیہ السلام نے اس موقع پر بار بار اس جملے کا تکرار کیا کہ میں خلفاء کی بعض اچھی باتوں کا انکار نہیں کرتا اور ساتھ میں ہر اس فضیلت کا بھی دلیل و منطق سے رد پیش کیا جو یحیی بن اکثم پیش کررہا تھا اس طرح امام علیہ السلام نے بغیر کسی کی توہین کئے باطل کو بھی واضح اور حق کا بھی دفاع کیا.

*٦. بحث کا ھدف معین کیا جائے.*
سوشل میڈیا پر اکثر بحثوں کا ھدف معین نہیں ہوتا، لا أقل ھدف یہ نہیں ہوتا کہ کوئی علمی اختلاف دور کیا جائے یا علمی نکات سیکھے جائیں بلکہ مقصد فقط اندر کی بھڑاس نکالنا یا مخالف کی بولتی بند کرانا ہوتا ہے، اگر کسی جگہ پر ایسی بحث ہو رہی ہے تو اس میں مت کود پڑیں. اگر بحث کا مقصد علم کا حصول نہیں بلکہ مخالف کو ہرانا مقصود ہے تو اس بحث میں پڑنے سے کنارہ کشی ضروری ہے.
امیرالمومنین امام علی علیہ کی خدمت میں شام کا ایک پروپیگنڈہ زدہ شخص حاضر ہوا اور کہا کہ میں آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہوں، امام علی علیہ السلام بھی جانتے تھے کہ اس کا ھدف کسی سوال کے جواب تک پہنچنا نہیں بلکہ فقط شخصی حملے اور بھڑاس نکالنا چاہتا ہے. امام علی علیہ السلام نے فرمایا: *سَلْ تَفَقُّهاََ وَ لَا تَسُئَل تَعَنُّتا.*
سمجھنے کی غرض سے پوچھو دوسرے کو زحمت میں ڈالنے کے لئے سوال نہ کر. (١٠)
اور یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہوتا کہ کون سمجھنے کیلئے بحث کررہا ہے اور کون الجھنے کے لیے بحث کرنا چاہ رہا ہے.


▪️ *نوٹ:*
تحریر میں کسی قسم کی کٹنگ یا اضافہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی.

➖➖➖➖➖➖➖➖

📚  *مصادر و مراجع:*
١. القرآن، سورة الفرقان: ٦٣.
٢. نهج البلاغه، حکمت ٣٥٤.
٣. تحف العقول، ص٨٨٦.
٤. بحارالأنوار، ج۹، ص۲۷۳.
٥. مجلسی، ج١٠، ص٦٠.
٦. الكافي، ج٨، ص١٢٣. 
٧. القرآن، سورة الأنعام: ١٠٨.
٨. نهج البلاغه، خطبه٢٠٦.
٩. طبرسی، ج٢، ص٤٤٨.
١٠. نهج البلاغه، حکمت ٣٢٠.


┈••❃ *البِرّ اسلامی فڪـرى مرڪـز* ❃••┈

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات