جاگیر فدک
(جاگیر فدک)
______________
واقعہ فدک کاخلاصہ یہ ہے کہ فدک حجاز کا ایک قریہ ہے اور مدینہ کے قریب ہے ۔مدتوں وہاں یہودی آباد تھے اور وہاں کی زمین بڑی زرخیزتھی ۔وہاں یہود کھیتی باڑی کیا کرتے تھے ۔
۷ھ میں اہل فدک نے حضور اکرم (علیہ صلواة و السلام ) کے رعب ودبدبہ سے مرعوب ہوکر فدک کی زمین ان کے حوالہ کردی تھی اور فدک خالص رسول خدا( علیہ السلام ) کی جاگیر تھی ۔کیوں کہ سورہ حشر میں اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔ (ومآ آفاء اللہ علی رسولہ منھم فما اوجفتم علیہ من خیل ولارکاب ۔ )ان میں سے اللہ جو رسول کو عطا کردے جس پر تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ۔لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہے مسلط کردے اور اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے ۔
رسول خدا(ص) نے سر زمین فدک میں اپنے ہاتھ سے گیارہ کھجوریں بھی کاشت فرمائی تھیں ۔اس کے بعد آپ نے فدک کی مکمل جاگیر اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا ع کوہبہ فرمادی ۔فدک ہبہ ہونے کے بعد مکمل طورپر حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے تصرف میں رہتا تھا ۔جب حضور اکرم کی وفات ہوئی تو حضرت ابو بکر نے حضرت مولا علی و فاطمہ علہیم السلام کو اپنا سیاسی حریف سمجھتے ہوئے فدک پر قبضہ کرلیا ۔ فدک خاندان محمد( السلام ) کے تصرف میں تھا ۔ اس قبضہ اور تصرف کا ثبوت حضرت علی علیہ السلام کے اس خط سے بھی ملتا ہے جو انہوں نے والی بصرہ عثمان بن حنیف کو تحریر کیا تھا ۔
اس خط کے ضمن میں آپ نے یہ الفاظ تحریر کیئے
بلی قد کانت فی ایدینا فدک من کل ما اظلتہ السمآء فشحت بھا نفوس قوم وسخت عنھا نفوس آخرین اس آسمان کے سایہ تلے لے دے کے ایک فدک ہمارے ہاتھوں تلے تھا ۔اس پر بھی لوگوں کے منہ سے رال ٹپکی اور دوسرے فریق نے اس کے جانے کی پروانہ کی ۔اور بہترین فیصلہ کرنے والا اللہ ہے ۔
حضرت سیدہ فاطمہ زہرا (س) ہی شرعی لحاظ سے اس جاگیر کی بلاشرکت غیر ے مالک تھیں ۔
خلیفہ کافرض تھا کہ ہبہ رسول (ص) کو اصلی حالت پر رہنے دیتے اور اس میں کسی قسم کا تصرف نہ کرتے اور اگر بالفرض حضرت ابوبکر کو اس ہبہ پر کوئی قانونی اعتراض تھا تو بھی قانون کا تقاضہ یہ تھا کہ مقدمہ کے تصفیہ تک فدک کو حضرت سیدہ (س) کے تصرف میں رہنے دیا جاتا ۔
اور اس مقدمہ کا عجیب ترین پہلو یہ ہے کہ حضرت ابو بکر کا یہ موقف تھاکہ فدک کی جاگیر حضرت سیدہ کی نہیں ہے بلکہ عامۃ المسلمین کی ہے اور یہ قومی ملکیت ہے اسی لئے اس جاگیر پر انہوں نے بزور حکومت قبضہ کرلیا ۔تو حضرت سیدہ نے اپنا قبضہ واپس لینے کا مطالبہ حضرت ابو بکر سے کیا ۔تو اب صورت حال یہ ہے کہ حضرت سیدہ(س) مدعیہ تھیں اور اس مقدمہ میں حضرت ابوبکر مدعی علیہ تھے ۔
اس مقدمہ میں ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جو فریق ثانی تھا وہی منصف بھی تھا ۔حالانکہ سیدھی سی بات تھی کہ مقدمہ حضرت ابوبکر کے خلاف تھا یا کم ازکم عوام الناس کے خلاف تھا جن کے سربراہ حضرت ابو بکر تھے تو ان دونوں صورتوں میں مقدمہ حضرت ابو بکر کے ہی خلاف تھا اب انہیں قانونی سطح پر اس مقدمہ کی سماعت کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا ۔اور نہ ہی انہیں اس مقدمہ میں منصفی کا حق حاصل تھا ۔
فدک مختلف ہاتھوں میں
مقدمہ فدک کی تفصیل سے پہلے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرات شیخین کے دور اقتدار میں فدک قومی ملکیت میں رہا۔
خلیفہ ثالث کے دور میں فدک کی پوری جاگیر مروان بن حکم کو عطا کی گئی اگر بقول شیخین فدک کی جاگیر صدقہ اور سب مسلمانوں کی ملکیت تھی تو حضرت عثمان نے یہ ساری جاگیر مروان بن حکم کو کیوں دی ؟
خدا را یہ بتایا جائے کہ حضرت ابو بکر وحضرت عمر کا طرز عمل صحیح تھا یا حضرت عثمان کا طرز عمل صحیح تھا ؟
ہمارے علمائے اہل سنت اس مقام پر حضرت ابو بکر کے کردار کو مثالی بنا کر پیش کرتے ہیں ان سے درخواست ہے کہ حضرت عثمان نے تو اس مسئلہ میں ان کے طرز عمل سے انحراف کیاتھا ۔اب ان دونوں خلفاء میں سے کون صحیح تھا اور کون غلط تھا ؟ اگر حضرت ابوبکر کا فیصلہ حق تھا تو حضرت عثمان کا فیصلہ باطل اور غصب تھا یا آپ یہاں بھی یہی تاویل کریں گے کہ جس طرح معاویہ مجتہد تھے اور اپنے اجتہاد کے ذریعہ خلیفہ راشد کی بغاوت بھی کی اور امت کو قیامت تک کے لیے تقسیم کرکے رکھ دیا اسی طرح حضرت عثمان نے بھی اجتہاد کیا اور جو وراثت وارثین رسول کو نہیں دی گئی وہ مروان کو دے دی؟ حالانکہ نص کے مقابلہ میں اجتہاد باطل ہے حضرت ابو بکر نے جو روایت پیش کی اگر آپ کے نزدیک وہ نص ہے اور اس کی بنا پر ہی سیدہ فاطمہ کو محروم کیا گیا تو پھر اس نص کے مقابلہ میں حضرت عثمان اجتہاد کیسے کر سکتے تھے ؟ اور اگر حضرت عثمان کا فیصلہ درست ہے تو شیخین کا فیصلہ غلط ٹھیرتا ہے بہر کیف فیصلہ آپ پر ہیں کہ دونوں میں سے کون غلط تھا اور کون صحیح ؟
فدک بنت رسول (س) کے ہاتھ میں تو لوگوں کو اچھا نہ لگا اب جو مروان جیسے افراد کے ہاتھوں میں چلا گیا تو اس وقت امت اسلامیہ کیوں خاموش ہوگئی ؟جب کہ حضرت ابو بکر کہہ چکے تھے کہ فدک کسی فرد واحد کی نہیں پوری امت اسلامیہ کی ملکیت ہے ؟
اور جب معاویہ بن ابو سفیان کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے فدک کی جاگیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا ۔ایک تہائی مروان بن حکم طرید رسول کے پاس رہنے دی ۔ایک تہائی حضرت عثمان کے فرزند عمروبن عثمان بن عفان کو عطا کی گئی ۔ایک تہائی اپنے بیٹے یزید بن معاویہ بن ابو سفیان کے حوالے کی گئی ۔
معاویہ کا یہ فیصلہ کس نص پر مبنی ہے اس کی وضاحت فرمادیں ؟
اور جب یزید کے بعد مروان کو حکومت ملی تو اس نے خلیفہ ثالث کے عمل کو حجت قراردیتے ہوئے اپنے دونوں شریکوں کو بے دخل کردیا اور خود سارے فدک پر قابض ہوگیا ۔ یہ کس حدیث یا آیت کی بنا پر تھا؟
بعد ازاں یہی فدک اس کے بیٹے عبد العزیز کی ملکیت بنا اور جب عبدا لعزیز کا بیٹا حضرت عمر بن عبد العزیز بر سر اقتدار آیا تو اس نے فدک سےاپنے خاندان کو بے دخل کرکے اولاد فاطمہ کے حوالہ کردیا ان کو ہمارے ہاں خلیفہ راشد تسلیم کیا جاتا ہے حضرت ابوبکر نے جوکیا وہ رُشد تھا یا حضرت عمر بن عبد العزیز نے کیا وہ رُشد تھا یا جو حضرت عثمان نے کیا وہ رُشد تھا ؟ تینوں میں سے ایک کا فیصلہ ہی رُشد ہوسکتا ہے باقی دو کا خلاف رُشد ہوگا اور وہ خلافت راشدہ کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان ہوگا ۔
پھر جب حضرت عمربن عبدالعزیز کی وفات ہوئی تو بنو امیہ میں سے یزید بر سر اقتدار آیا ۔اس نے اولاد فاطمہ سے فد ک چھین کر اولاد مروان کے حوالے کردیا ۔بنی امیہ کی حکومت کے خاتمہ تک فدک اولاد مروان کے پاس رہا ۔
اور جب بنی امیہ کی حکومت ختم ہوئی اور بنی عباس کا اقتدار شروع ہوا تو ابو العباس سفاح نے فدک اولاد فاطمہ کے حوالہ کیا ۔
منصور دوانیقی نے بنی فاطمہ سے چھین لیا ۔بعد از اں اس کے بیٹے مہدی نے فدک بنی فاطمہ کے حوالہ کیا ۔جسے ہادی اور رشید نے پھر واپس لے لیا ۔مامون الرشید عباسی نے فدک واپس کیا تھا جسے بعد میں معتصم نے واپس چھین لیا ۔ اس کے بعد کیا ہوا اس کے متعلق مورخین خاموش ہیں ۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ حکام کے ہاتھ میں فدک ایک ایسا کھلونا تھا ۔ جسے جب چاہتے وارثان بازگشت کو دے دیتے تھے اور جب چاہتے اپنے قبضہ میں لے لیا کرتے تھے ۔مامون الرشید عباسی نے فدک کی واپسی کے لئے جو تحریری احکام روانہ کیے تھے وہ انتہائی علمی قدروقیمت کے حامل ہیں ۔جس میں اس نے پوری تفصیل ووضاحت کے ساتھ وارثان فدک کی نشاندہی کی تھی ۔
مامون کی واپسی فدک
مامون الرشید عباسی کے خط کو مورخ بلاذری نے نقل کیا ہے ۔
سن 210 ہجری میں مامون الرشید نے فدک کی واپسی کے احکام جاری کیے اور اس نے مدینہ کے عامل قثم بن جعفر کو خط تحریر کیا
اما بعد فانّ امیرالمومنین بمکانۃ من دین اللہ وخلافۃ رسولہ والقرابۃ بہ اولی من ستنّ سنتہ ونفذ امرہ و سلّم لمن منحہ منحۃ وتصدّق علیہ بصدقۃ منحتہ و صدقتہ ۔وقد کان رسول اللہ اعطی فاطمۃ بنت رسول اللہ فدک وتصدّق بھا علیھا وکان امرا ظاھرا معروفا لا اختلاف فیہ فرای امیرالمومنین ان یردھا الی ورثتھا و یسلمھا الیھم تقرّبا الی اللہ باقامۃ حقہ وعدلہ والی رسول اللہ بتنقیذ امرہ وصدقتہ الخ
امیر المومنین کو اللہ کے دین میں جو مقام حاصل ہے اور انہیں رسالت مآب کی جانشینی اور جو قرابت حاصل ہے ان تمام چیزوں کا تقاضا یہ ہے کہ وہ رسول خدا(ص) کی سنت پر عمل پیرا ہوں اور نبی اکرم کے فرامین کو نفاذ میں لائیں اور رسول خدا نے جسے جو کچھ عطا کیا تھا اس عطا کو اس تک پہنچائیں ۔
جناب رسول خدا نے اپنی دختر حضرت فاطمہ زہرا (س) کو فدک عطا کیا تھا ۔یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔
اسی لئے امیر االمومنین کی یہ رائے ہے کہ فدک اس کے وارثوں کو واپس کردیا جائے اور اس عمل کے ذریعہ سے امیر المومنین اللہ کی قربت کے خواہش مند ہیں اور عدل وانصاف کی وجہ سے رسول خدا کی سنت پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں ۔
بعداز اں مامون الرشید نے اپنے ملازمین کو حکم دیا کہ سرکاری ریکارڈ میں اس بات کو لکھا جائے ۔رسول خدا کی وفات کے بعد سے ہمیشہ ایام حج میں یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ رسول خدا (ص) نے جس کسی کو کوئی صدقہ یاجاگیر عطا کی ہو تو وہ آکر وصول کرے اس کی بات کو قبول کیا جائیگا ۔اس کے باوجود آخر رسول خدا کی بیٹی کو ان کے حق سے محروم رکھنے کا کیا جواز ہے ؟
مامون الرشید نے اپنے غلام خاص مبارک طبری کو خط لکھا کہ فدک کی مکمل جاگیر کو جملہ حدود کے ساتھ اولاد فاطمہ کو واپس کیاجائے اور اس کام کی تکمیل کے لئے محمد بن یحیی بن زیدبن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب اور محمد بن یحیی اور محمد بن عبد اللہ سے مدد حاصل کی جائے اور فدک کے لئے ایسے انتظامات کیے جائیں جس کی وجہ سے وہاں زیادہ پیدا وار ہوسکے ۔
درج بالا خط ذی الحجہ 210 ھ میں لکھا گیا ۔(3)۔
محاکمہ فدک
صبّت علیّ مصائب لوانھا
صبّت علی الایام صرن لیالیا
مجھ پر اتنے مصائب آئے اگر وہ دنوں پر پڑتے تو وہ راتوں میں تبدیل ہوجاتے (ماخوذ از مرثیہ فاطمہ زہرا علیہا السلام )۔
جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی نے فدک کی جاگیر عطا فرمائی پھر آپ نے وہ جاگیر حکم خداوندی کے تحت اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کو ہبہ فرمائی ۔ رسول خدا کی حیات مبارکہ میں جناب فاطمہ اس جاگیر پر تصرف مالکانہ رکھتی تھیں اورجب جناب رسول خدا کی وفات ہوئی تو حضرت ابو بکر نے حضرت فاطمہ کے ملازمین کو فدک سے بے دخل کردیا اور اسے بحق سرکار ضبط کرلیا ۔جناب زہرا سلام اللہ علیہا کو اس واقعہ کی خبر ملی تو وہ اپنے حق کی بازیابی کے لئے حضرت ابو بکر کے دربار میں تشریف لے گئیں اور اپنے حق کا مطالبہ کیا ۔
جس کے جواب میں حضرت ابو بکر نے ایک نرالی حدیث پڑھی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے - نحن معاشر الانبیاء لا نرث ولا نورث ما ترکناہ صدقۃ ہم گروہ انبیاء نہ تو کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی ہمارا وارث ہوتا ہے ۔ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے ۔
لاوارثی حدیث اور قرآن
اس حدیث کے متعلق عرض ہے کہ اس حدیث کے واحد راوی حضرت ابو بکر ہیں اسی حدیث کی طرح حضرت ابو بکر سے ایک اور حدیث بھی مروی ہے ۔
جس وقت رسول خدا کی وفات ہوئی اور مسلمانوں میں اختلاف ہوا کہ حضور اکرم کو کہاں دفن کیا جائے تو حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ جناب رسول خدا کا فرمان ہے -
ما قبض نبی الا ودفن حیث قبض
جہاں کسی نبی کی وفات ہوئی وہ اسی جگہ ہی دفن ہوا ۔جب کہ مورخ طبری ہمیں بتاتے ہیں کہ بہت سے انبیاء کرام اپنی جائے وفات کے علاوہ دوسرے مقامات پر دفن ہوئے ہیں ۔ یہ حدیث بھی واقعات اور حقائق کے خلاف ہے تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سےانبیاء اپنی جائے وفات سے مختلف جگہوں پر دفن ہوئے تو اس صورت میں یہ حدیث کیسے صحیح ہو سکتی ہے ۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اس حدیث کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔کیونکہ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اگر انبیاء کی میراث ان کی اولاد کو نہیں ملتی تھی تو حق تویہ بنتا تھا کہ رسول خدا خود اپنی بیٹی سے کہہ دیتے کہ میری میراث تمہیں نہیں ملے گی ۔طرفہ یہ ہے کہ جس شخصیت کو میراث ملتی تھی اسے نہیں کہا اور چپکے سے یہ بات ایک غیر متعلقہ شخص کے کان میں کہہ دی گئی اور یہ لاوارثی حدیث حضرت علی نے بھی نہیں سنی تھی کیوں کہ اگر انہوں نے سنی ہوتی تو اپنی زوجہ کو حق میراث کے مطالبہ کی کبھی اجازت نہ دیتے ۔علاوہ ازایں اتنی اہم بات حضور اکرم نے صرف حضرت ابو بکر کو ہی کیوں بتائی دوسرے مسلمانوں کو اس سے بے خبر کیوں رکھا ؟ اس حدیث کو رسول اللہ کے چچا عباس بن عبد المطلب کو بھی کوئی خبر نہ تھی ورنہ وہ بھی وراثت کے مسئلہ میں سیدہ فاطمہ کے ساتھ مدعی بن کر کھڑے نہ ہوتے ۔
لا وارثی حدیث قرآن کے منافی ہے
مذکورہ حدیث لاوارثی حدیث کے متعلق حضرت سیدہ فاطمہ (س) کا موقف بڑا واضح اور ٹھوس تھا ۔ انہوں نے اس حدیث کو یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ یہ حدیث قرآن کے منافی ہے ۔
1 - قرآن مجید میں اللہ تعالی کا فرمان ہے یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے ۔بیٹے کو بیٹی کی بہ نسبت دوحصے ملیں گے (4)۔
اس آیت میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے ۔
2 -اللہ تعالی نے ہر شخص کی میراث کےمتعلق واضح ترین الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے ولکلّ جعلنا موالی ممّا ترک الوالدان و الاقربون اور ہر کسی کے ہم نے وارث ٹھہرا دئیے اس مال میں جو ماں باپ اور قرابتدارچھوڑ جائیں (5)۔
ہمارا التماس ہے کہ لفظ ولکلّ پر اچھی طرح سے غور فرمائیں اس آیت کریمہ میں بڑی وضاحت سے ہر کسی کی میراث کا اعلان کیا گیا ۔
میراث سے تعلق رکھنے والی جملہ آیات کی تلاوت کریں ۔ آپ کو کسی بھی جگہ یہ نظر نہیں آئے گا کہ اللہ نے فرمایا ہو کہ ہر کسی کے وارث ہوتے ہیں لیکن انبیاء کے نہیں ہوتے ۔میراث انبیاء کی اگر قرآن مجید میں کسی جگہ نفی وارد ہوئی ہے تو اس آیت کوبحوالہ سورت بیان کیا جائے اور قیامت تک تمام دنیا کو ہمارا یہ چیلنج ہے کہ اگر قرآن میں ایسی آیت ہے تو پیش کریں
لاوارثی حدیث کے تین اجزاء ہیں -
1 -انبیاء کسی کے وارث نہیں ہوتے ۔
2 - انبیاء کی اولاد وارث نہیں ہوتی ۔
3 - انبیاء کا ترکہ صدقہ ہوتا ہے ۔
قرآن مجید مذکورہ بالا تینوں اجزا کی نفی کرتا ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا - وورث سلیمان داؤد سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے وارث بنے ۔
اگر نبی کسی کا وارث نہیں ہوتا تو سلیمان علیہ السلام اپنے والد حضرت داؤد کے وارث کیوں بنے ؟
معلوم ہوتا ہے کہ لاوارثی حدیث کا پہلا جز صحیح نہیں ہے ۔
علاوہ ازیں مذکورہ آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ سلیمان داؤد کے وارث بنے ۔
اب جس کے سلیمان وارث بنے وہ بھی تو نبی تھے ۔ اگر لاوارثی حدیث کا دوسرا جز صحیح ہوتا یعنی نبی کا کوئی وارث نہیں ہوتا تو داؤد کی میراث کا اجراء کیوں ہوا ۔ ان کی میراث کو صدقہ کیوں نہ قراردیا گیا ۔تو گویا یہ ایک آیت لاوارثی حدیث کے تینوں اجزا کو غلط ثابت کرتی ہے ۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا قرآن مجید میں مذکور ہے -
قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيّاً (٤) وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِراً فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيّاً (٥) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيّاً (٦) يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيّاً زکریا نے کہا میرے رب میری ہڈیاں کمزورہوگئیں اور سربڑھاپے کی وجہ سے سفید ہوچکا اور اے رب میں تجھ سے دعا کرکے محروم نہیں ہوا اور میں اپنے پیچھے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری عورت بانجھ ہے مجھے اپنی طرف سے ایک وارث عطا کر جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کی جو میراث مجھے ملی ہے اس کا بھی وارث ہو اے میرے رب اسے نیک بنانا ۔اللہ تعالی نے کہا اے زکریا ! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں جس کا نام یحیی ہے اس سے پہلے ہم نے کسی کا یہ نام نہیں رکھا (6)
درج بالا آیت کو مکرر پڑھیں حضرت زکریا نے اللہ سے اپنا وارث مانگا اور اللہ نے انہیں وارث بھی دیا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز فرمایا ۔
انی خفت الموالی کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ نبوت کا وارث مراد نہیں کیونکہ حضرت زکریا کو اپنے موالی سے یہ خطرہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ زبردستی منصب نبوت پر قابض ہو جائیں گے البتہ یہ خطرہ ضرور موجود تھا کہ وہ مال و جائیداد پر قبضہ کر لیں گے اور اسی ڈر کی وجہ سے انہوں نے خدا سے اپنا وارث مانگا۔
واجعلہ رب رضیا کا جملہ بتا رہا ہے کہ وہ نبوت کا وارث نبی بیٹا نہیں مانگ رہے بلکہ اپنا ذاتی وارث مانگ رہے تھے ورنہ وہ اس کے نیک ہونے کی دعا نہ کرتے کیونکہ انہیں کم از کم یہ تو معلوم ہی تھا کہ نبی نیک ہی ہوتا ہے ۔
اگر انبیاء کی میراث ہی نہیں ہوتی تو حضرت زکریا علیہ السلام نے وارث کی درخواست کیوں کی ؟
اور اگر بالفرض انہوں نے وارث کے لئے دعا مانگ بھی لی تھی تو اللہ نے انہیں یہ کہہ کر خاموشی کیوں نہ کرا دیا کہ تم تونبی ہو ۔تم یہ کیا کہہ رہ ہو؟
نبی کی میراث ہی نہیں ہوتی ۔لہذا تمہیں وارث کی دعا ہی سرے سے نہیں مانگنی چاہیے ؟
اگر انبیاء کی میراث ہی نہیں ہوتی تو اللہ تعالی نے انہیں وارث کیوں عطا فرمایا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز کیوں کیا؟
حضرت سیدہ سلام اللہ علیھا نے مذکورہ بالا آیات کی اور ان آیات سے لا وارثی حدیث کی تردید فرمائی ۔
لیکن حضرت ابوبکر نے تمام آیات سن کربھی حضرت سیدہ کو حق دینے سے انکار کردیا ۔
پھر حضرت سیدہ نے آخر میں فرمایا -
فدونکھا مخطومۃ مرحومۃ نلقاک یو حشرک ۔فنعم الحکم اللہ والموعد القیامۃ وعند الساعۃ یخسر المبطلون ۔
اب تم اپنی خلافت کو نکیل ڈال کر اس پر سوار رہو ۔اب قیامت کے دن تجھ سے ملاقات ہوگی ۔اس وقت فیصلہ کرنے والا اللہ ہوگا اور وعدہ کا مقام قیامت ہے اور قیامت کے روز باطل پرست خسارہ اٹھائیں گے
یابن ابی قحافۃ افی کتاب اللہ ان ترث اباک ولا ارث ابی لقد جیت شیا فریا افعلی عمد ترکتم کتاب اللہ ونبذتموہ ورآء اظھرکم ؟
الم تسمع قولہ تعالی واولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ اخصّکم اللہ بایۃ اخرج ابی منھا ؟ ام تقولون اھلی ملّتین لایتوارثان ؟
اولست انا وابی من ملّۃ واحدۃ ؟ اانتم اعلم بخصوص القرآن وعمومہ من ابی وابن عمّی ؟
ابو قحافہ کے فرزند ! کیا اللہ کی کتاب کا یہی فیصلہ ہے کہ تم تو اپنے باپ کے وارث بنو اور میں اپنے والد کی میراث سے محروم رہوں ؟ تم ایک عجیب چیز لائے ہو ۔
تو کیا تم نے جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا اور اسے پس پشت ڈال دیا ؟اور کیا تم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں سنا کہ رشتہ دار ہی ایک دوسرے کے اللہ کی کتاب میں وارث ہیں ؟ اور کیا اللہ نے تمہیں میراث کے لئے مخصوص کرنے کے لئے کوئی آیت نازل فرمائی ہے جس سے میرے والد کو مستثنی قرار دیا ہے ؟ یا تم یہ کہتے ہو کہ دو ملت والے افراد ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے ؟تو کیا میں اور میرے والد ایک ہی ملت سے تعلق نہیں رکھتے ؟ اور کیا تم میرے والد اور میرے چچا زاد کی بہ نسبت قرآن کے عموم وخصوص کو زیادہ جانتے ہو؟
ان دلائل قاہرہ اور آیات قرآنیہ پڑھنے کے بعد حضرت سیدہ نے ملاحظہ کیا کہ ان باتوں کا خلیفہ پر کوئی اثر مرتب نہین ہوا تو ناراض ہو کرروتی ہوئی واپس آئیں ۔
حضرت سیدہ کو پہلے سے ہی علم تھا کہ خلیفہ انہیں فدک کبھی بھی واپس نہیں کریں گے ۔ آپ فقط اتمام حجت کے لئے تشریف لے گئی تھیں اور عملی طور پر دنیا کو دکھایا کہ جب چند روز پہلے میرے والد حدیث لکھانا چاہتے تھے تو ان ہی لوگوں نے کہا تھا ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں ہمیں قرآن کافی ہے ۔اور جب حضرت سیدہ نے اپنی میراث کے لیے قرآن پڑھا تو مقابلہ میں لاوارثی حدیث پڑھ کر سیدہ کو محروم کردیا گیا ۔
تو گویا حضرت سیدہ نے دربار میں جاکر کا ئنات کو اس بات سے آگاہ کیاکہ کل جو حدیث کا انکار کررہے تھے آج وہ قرآنی آیات کے تسلیم کرنے سے بھی انکار کررہے ہیں ۔ جناب سیدہ کو پہلے سے علم تھا کہ مجھے میرا حق فدک نہیں دیا جائے گا ۔کیونکہ جن لوگوں نے چند روز پہلے ان کے شوہر کو امورخلافت سے بے دخل کردیاتھا وہ ان سے فدک بھی چھین سکتے ہیں ۔
لاوارثی حدیث اور عقل ونقل کے تقاضے
آئیے حضرت ابوبکر کی بیان کردہ حدیث کو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں دیکھیں ۔
رسول خدا(ص) نے اپنے آپ کو شریعت طاہرہ کے احکام سے کبھی بھی مستثنی نہیں فرمایا ۔
1 - جس طرح سے یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہم گروہ انبیاء نہ تو نماز پڑھیں گے اور نہ ہی روزہ رکھیں گے (نعوذ باللہ )مذکورہ فقرہ اس لئے غلط ہے کہ نبی احکام شریعت سے مستثنی نہیں ہوتا ۔
تو جس طرح نبی نماز روزہ اور اسلام کے دیگر احکام سے مستثنی نہیں ہوتا ۔اسی طرح سے وہ اسلام کے احکام میراث سے بھی مستثنی نہیں ہوتا ۔
2 - کیا فدک کا مسئلہ جو کہ خالص شرعی مسئلہ تھا اس کے نہ دینے میں کوئی سیاسی اغراض تو کار فرما نہیں تھیں ؟
3:- کیا حضرت سیدہ کو محروم ورارث رکھ کر خلیفہ نے اپنے سیاسی حریف علی اور اس کے خاندان کو اپنے سرنگوں تو نہیں کرنا چاہتے تھے ؟
4 - اور کیا اس مسئلہ کا تعلق اقتصادیات سے تو نیں تھا ؟
یعنی اس ذریعہ سے علی (ع) اور ان کے خاندان کو نان شبینہ سے محروم رکھنا تو مقصود نہ تھا ؟
5:- اور کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ علی (ع) کی مالی حالت کمزور کرکے انہیں خلافت کا امیدوار بننے سے روکنا مقصود ہو؟
6 - اور کیا فدک چھین لینے میں یہ حکمت عملی تو مد نظر نہ تھی کہ جن لوگوں نے حضرت ابو بکر کی خلافت کا انکار کیا تھا ۔انہیں مرتد اور مانعین زکواۃ کہہ کر ان پر لشکر کشی کی گئی تھی ۔ تو کیا فدک کے چھین لینے میں یہ تصور تو کار فرما نہ تھا کہ اگر فدک علی کے پاس ہوگا تو ممکن ہے کہ وہ ہمارے مخالفین کی مالی امداد کریں ؟
7 - کیا فدک چھیننے میں یہ فلسفہ تو مضمر نہ تھا کہ آل محمد کے وقار کو لوگوں کی نگاہوں میں گرادیا جائے لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ خود رسول خدا(ص) ان لوگوں کو اپنی میراث سے محروم کرگئے ہیں ؟
تو جن لوگوں کو رسول خدا کی میراث کا حق نہیں ہے انہیں ان کی خلافت کا حقدار کیسے سمجھاجائے ؟
8 - کیا سلب فدک میں بہت سے عوامل کا فرما تھے ؟
9 - اور اگر حضرت ابو بکر کی بیان کردہ حدیث کو درست بھی مان لیا جائے تو اس حدیث کا اطلاق صرف پیغمبر اکرم کے لئے ہوگا یا دوسرے انبیاء پر بھی اس کا انطباق ہوگا ؟
10 -آخر رسول خدا اپنی پیاری بیٹی کو محروم ارث کیوں رکھنا چاہتے تھے ؟
11 - کیا خدانخواستہ حضور کریم کو یہ اندیشہ تھا کہ ان کے بعد ان کی بیٹی اور داماد فدک کی کمائی کو غلط مصرف میں لائیں گے ؟
12 - اگر حضور کریم کو یہی اندیشہ تھا تو انہوں نے اپنی حیات مبارکہ میں اپنی بیٹی کی تحویل میں کیوں دے دیا تھا ؟
13 - اور کیا یہ خدشہ اس لیے پیدا ہوا تھا کہ حضرت سیدہ نے اپنے والد کی حیات طیبہ میں اس جاگیر سے سوء استفادہ کیا تھا ؟
14 - اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو کب اور کیسے ؟
علامہ ابن ابی الحدید معتزلی نے اسی مسئلہ کے متعلق قاضی القضاۃ اور سید مرتضی کا ایک خوبصورت مباحثہ نقل کیا ہے ۔قاضی القضاۃ وراثت انبیاء کی نفی کرتے تھے ۔جبکہ سید مرتضی میراث انبیاء کا اثبات کرتے تھے ۔
قاضی القضاۃ کا موقف یہ تھا کہ قرآن مجید میں انبیاء کی میراث کا جو تذکرہ کیا گیا ہے اس سے علم وفضل کی میراث مراد ہے ۔مالی مراد نہیں ہے ۔
سید مرتضی کا موقف تھا کہ میراث کا اطلاق پہلے مال ودولت اور زمین پر ہوتا ہے ۔اور یہ اطلاق حقیقی ہوتا ہے ۔علم وفضل کے لئے مجازی طور پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے اور اصول قرآن یہ ہے کہ مجازی معنی صرف اس وقت درست قرار پاتا ہے جب کہ حقیقی معنی متعذر ومحال ہو ۔ انبیاء اگر مالی میراث حاصل کریں تو اس سے کونسی شرعی اور عقلی قباحت لازم آتی ہے کہ ہم حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔اور اگر قاضی القضاۃ کی بات کو تسلیم بھی کرلیاجائے کہ انبیاء کی میراث مالی کی بجائے معنوی یعنی علم وفضل پر مشتمل ہوتی ہے تو اس کا مقصد یہ بھی ہوگا کہ آل نبی پیغمبر کے علم وفضل کے وارث ہیں ۔
اور اگر آل نبی پیغمبر کے علم وفضل کے وارث ہیں تو ان وارثان علم وفضل کی موجودگی میں حضرت ابو بکر کی خلافت کا جواز کیاتھا (7)۔
فدک بعنوان ہبہ
جناب سیدہ نے فدک کا مطالبہ بطور ہبہ بھی کیا تھا جس پر حضرت ابوبکر نے گواہوں کا مطالبہ کیا ۔حضرت سیدہ کی طرف سے حضرت علی اور حضرت ام ایمن نے گواہی دی ۔
مگر حضرت ابوبکر نے اس گواہی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ نصاب شہادت مکمل نہیں ہے ۔کیونکہ علی سیدہ کے شوہر ہیں ۔ اور ام ایمن ایک کنیز ہے ۔
حالانکہ شہادت ہر لحاظ سے کامل و اکمل تھی ۔
حضرت علی علیہ السلام کی گواہی کس قدر مستند ہے ۔اس کے لیے سورہ آل عمران کی اس آیت کریمہ کی تلاوت کریں -
شہد اللہ انہ لا الہ الا ھو و الملائکۃ و اولو العلم قآئما بالقسط لا الہ الا ھو العزیز الحکیم ۔
اللہ خود اس بات کا گواہ ہے کہ اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں اور ملائکہ اوروہ اہل علم جو عدل پر قائم ہیں کہ اس غالب اور صاحب حکمت اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے ۔
اس آیت میں توحید کے گواہوں میں خود اللہ تعالی اور ملائکہ اور عدل پر قائم رہنے والے اہل علم کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔
وہ اہل علم جو عدل پر قائم ہیں وہ توحید کے گواہ ہیں ۔اورعدل پر قائم رہنے والے علماء میں علی (ع) سر فہرست ہیں کیونکہ علی (ع) کے علم کے متعلق رسول خدا کی مشہور حدیث ہے ۔انا مدینۃ العلم وعلی بابھا میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔
اور جہاں تک عادل ہونے کاتعلق ہے تو علی جیسا عادل چشم فلک نے نہیں دیکھا ۔جب علی توحید کے گواہ ہیں تو پھر فدک کے گواہ کیوں نہیں ہوسکتے ؟عجیب بات ہے کہ توحید کی شہادت کے لئے تو علی کی گواہی مستند مانی جائے اور تھوڑی سی جائیداد کے لئے ان کی گواہی کو ٹھکرا دیا جائے ؟ علی صرف توحید کے گواہ نہیں ہیں وہ رسالت محمدیہ کے بھی گواہ ہیں ۔جیسا کہ سورہ رعد کی آخری آیت میں ارشاد خداوندی ہے - ویقول الذین کفروا لست مرسلا قل کفی باللہ شھیدا بینی وبینکم ومن عندہ علم الکتاب ۔
اور کافر کہتے ہیں کہ تو رسول نہیں ہے ۔کہہ دیں کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے اللہ کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا مکمل علم موجود ہے ۔قول اصح کے مطابق من عندہ علم الکتاب سے مراد حضرت علی (ع) ہیں۔
اس آیت کریمہ میں حضرت علی علیہ السلام کو رسالت کا گواہ قرار دیا گیا ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو علی (ع) رسالت محمدیہ کے گواہ ہیں ۔ان کی گواہی کو فدک کے لیے معتبر کیوں نہیں تسلیم کیا ؟
دربار خلافت میں عظیم شخصیات موجود تھیں جن میں سے ایک مدعیہ تھیں سیدہ فاطمہ س جو ایک جائیداد لینے کے لیے جھوٹ نہیں بول سکتی تھیں کہ رسول خدا نے تو فدک ہنہ نہ کیا ہو اور وہ جھوٹا دعوی لیکر کھڑی ہو جائیں کہ میرے والد نے یہ جائیداد مجھے دی تھی۔ اور تین شحصیات وہ تھیں جنہیں چادر میں لیکر پیغمبر اکرم نے کہا تھا اللھم ھؤلاء أھل بیتی یعنی علی، حسن، حسین، ان کے علاوہ ام ایمن تھیں کسی زمانہ میں باندی تھیں لیکن اب وہ ایک آزاد عورت تھیں، اور یہ کس نے کہہ دیا کہ مومنہ باندی کی گواہی قبول نہیں یا عورت کی گواہی نصف ہے ؟ عورت کی آدھی گواہی کا فلسفہ بھی ایک بناوٹی ہے کتاب و سنت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں، سورہ بقرہ کی آیت قرض والے مضمون کا واقعاتی شہادت سے کوئی تعلق نہیں۔
اب ان چاروں شخصیات ( علی فاطمہ حسن حسین علہیم الصلوات و السلام ) کی گواہی کتنی معتبر ہے ؟ اس کیلئے واقعہ مباہلہ کو مد نظر رکھیں ۔
مباہلہ کی گواہی
جب عیسائی علماء دلائل نبوی سن کر مطئمن نہ ہوئے تو اللہ تعالی نے آیت مباہلہ نازل کی اور ارشاد فرمایا - فمن حاجّک فیہ من بعد ما جآ ء ک من العلم فقل تعالوا ندع ابنا ءنا وابناءکم و نساءنا ونساءکم وانفسنا وانفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اللہ علی الکاذبین (8)۔
جو علم آنے کے بعد تم سے جھگڑا کرے تو کہ دو کہ آؤ ہم اپنے بیٹے بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ او ر ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ اور ہم اپنی جانوں کو لائیں اور تو اپنی جانوں کو لاؤ پھر دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں ۔
جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو رسول خدا (ص) علی (ع) کے گھر تشریف لائے اور علی و فاطمہ اور حسن وحسین (علیھم السلام ) کو اپنی چادر پہنائی اور کہا پروردگار یہ میرے اہل بیت ہیں ۔
رسول خدا ان عظیم شخصیات کو لے کر مباہلہ کے لئے روانہ ہوئے جب عیسائی علماء نے ان نورانی چہروں کو دیکھا تو جزیہ دینا قبول کیا اور مباہلہ سے معذرت کرلی اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار شخصیات پورے اسلام کی گواہ ہیں اور ان کی گواہی کا عیسائیوں نے بھی احترام کیا تھا ۔
مباہلہ کے چند ہی دن بعد یہی چاروں شخصیات دربار خلافت میں گئیں ۔ان میں ایک مدعیہ تھیں اور تین گواہ تھے ۔
انسانی ذہن کو انتہائی تعجب ہوتا ہے کہ جن شخصیات کو اللہ نے پوری امت اسلامیہ میں سے بطور نمونہ جماعت صادقین بنا کر غیر مسلموں کے مقابلہ میں بھیجا تھا ان شخصیات کی گواہی کو خلیفۃ المسلمین نے رد کردیا- حضرت ابو بکر ( رض ) کا حق تھا کہ حضرت سیدہ کے دعوی کو بےچون وچرا تسلیم کرلیتے۔ کیونکہ تاریخ وحدیث کا مشہور واقعہ ہے کہ حضور کے ساتھ ایک اعرابی نے ناقہ کے متعلق تنازعہ کیا ۔ ہردو فریق ناقہ کی ملکیت کے دعویدار تھے ۔اعرابی نے رسول خدا (ع) سے گواہ طلب کیا تو حضرت خزیمہ بن ثابت نے حضور کے حق کے متعلق گواہی دی ۔ اور جب حضرت خزیمہ سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ گواہی بغیر علم کے کیوں دے دی ہے ؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم محمد کی نبوت اور وحی کی بھی تو گواہی دیتے ہیں جب کہ ہم نے جبریل امین کو اپنی آنکھوں سے اترتے نہیں دیکھا ۔جب ہم نبوت ورسالت جیسے عظیم منصب کی ان دیکھے گواہی دے دیتے ہیں تو کیا ہم اپنے نبی کے لئے ایک اونٹنی کی گواہی نہیں دیں گے ؟ رسول خدا (ص) نے حضرت خزیمہ کی شہادت کو صحیح قراردیا اور انہیں ذو الشہادتین یعنی دو گواہیوں والا قراردیا ۔ کیا علی اور فاطمہ حضرت خزیمہ سے فروتر تھے کہ ان کی گواہی تسلیم نہیں کی گئی جبکہ ہزار خزیمہ جناب علی اور زہراء کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے، پھر عجیب تر بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکر جناب سیدہ سے گواہ طلب کرتے ہیں لیکن خود جو روایت پیش کی اس کے کوئی گواہ پیش نہیں کیے اور نہ ہی جناب سیدہ نے گواہ طلب کیے حالانکہ وہ اس روایت کو ایک من گھڑت اور جھوٹی روایت سمجھتی تھیں اور اسے خلاف قرآن کہہ کر دلائل قرآنی کے ساتھ رد کر رہی تھیں وہ کہہ سکتی تھیں کہ جس روایت سے گھر کے لوگوں سمیت پوری امت بے خبر ہے اس پر آپ گواہ پیش کریں بعد میں حضرت عمر نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا جب ان کے دور میں کوئی صحابی حدیث روایت کرتا تو حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ اپنی اس روایت پر گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں دُرے ماروں گا تو جب ایک ایسی روایت پیش کی گئی جس سے رسول خدا کی نہ اولاد آگاہ تھی اور نہ امت کا کوئی فرد آگاہ تھا اور روایت بھی ایسی تھی جو براہ راست قرآن کے بیان کردہ قانون کو توڑ کر پیغمبر کے خاندان کو وراثت سے محروم کررہی تھی اسے آنکھیں بند کرکے کیوں قبول کیا گیا اور کیوں نہ حضرت ابوبکر سے گواہ مانگے گئے ؟ اگر کہا جائے کہ وہ تو ابوبکر تھے جو صدیق تھے گواہوں کی کیا ضرورت تھی تو یہاں بھی علی اور فاطمہ تھے کیا وہ جھوٹ بول رہے تھے ؟ یا حضرت عمر جن صحابہ سے روایت کردہ حدیث پر گواہ طلب کرتے تھے کیا وہ جھوٹے تھے یا وہ حدیثیں گھڑ کر بیان کرتے تھے کہ حضرت عمر کو گواہوں کی ضرورت پڑتی تھی اگر کہا جائے کہ حضرت عمر احتیاط کے پہلو سے ایسا کرتے تھے تو ہم کہتے ہیں حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے معاملہ میں احتیاط کہاں چلی گئی ؟
حضرت خزیمہ کی طرح اگر حضرت ابو بکر بھی حضرت سیدہ کی روایت ہبہ کو بدون شہود تسلیم کر لیتے تو یہ ان کے لئے زیادہ مناسب تھا ۔اس کے برعکس حضرت ابو بکر کی لاوارثی حدیث کے متعلق جناب زہرا (س) نے ان سے گواہ نہیں مانگے تھے ۔جب کہ حضرت سیدہ س کا اس روایت کی صحت سے بھی انکار تھا ۔
اور علی (ع) جیسے صدیق اکبر فاروق اعظم علیہ السلام کی گواہی رد کرنے کا بھی حضرت ابو بکر کے پاس کوئی جواز نہیں تھا ۔اور ام ایمن جو کہ جناب رسول خدا علیہ السلام کی دایہ تھیں جن کی پوری زندگی اسلام اور رسول اسلام ع کی خدمت میں گزری تھی ان کی گواہی کو رد کرنے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی تھی ۔
فاعتبروا یا اولی الابصار
شعبہ نشر و اشاعت
مرکزی جامع مسجد امام الصادق (ع)
پارس
وادئ کاغان
Comments
Post a Comment