اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو حضرت عمر ہوتے کی
👈اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو حضرت عمر ہوتے کی
👈 حدیث کا جائزہ:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ حدیث مسند أحمد، رقم: 17405، جامع الترمذي، رقم: 3686 اور المستدرك للحاكم، رقم: 4495 وغیرھم میں درج ہے، اسکا متن:
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو، أَنَّ مِشْرَحَ بْنَ هَاعَانَ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَوْ كَانَ مِنْ بَعْدِي نَبِيٌّ، لَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ "
ہم سے بیان کیا ابو عبد الرحمان نے، اس نے کہا کہ ہم سے بیان کیا حیوہ نے، اس نے کہا کہ ہم سے بیان کیا بکر بن عمرو نے اور اسکو مشرح بن ھاعان نے خبر دی کہ اس نے عقبہ بن عامر کو کہتے سنا تھا کہ میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے سنا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ یقیناَ عمر بن الخطاب ہوتا۔
👈حدیث کا جائزہ:
المنتخب من علل الخلل میں درج ہے کہ امام أحمد بن حنبل سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا، انہوں نے کہا: فقال: اضرب عليه؛ فإنه عندي منكر۔ اسکو کاٹ دو، کیونکہ یہ میرے نزدیک منکر ہے۔
امام ابن حجر العسقلاني اپنی کتاب تهيذيب التهذيب میں لکھتے ہیں:
وعلته : مشرح بن هاعان ، فإنه وإن وثقه ابن معين ، فقد قال ابن حبان : " يروي عن عقبة مناكير لا يتابع عليها ، فالصواب ترك ما انفرد به " .
اس حدیث کی سند میں مسئلہ مشرح بن ھاعان ہے، اسکو ابن معین نے ثقہ کہا ہے، اور ابن حبان نے کہا ہے کہ وہ عقبہ سے منکر احادیث بیان کرتا تھا اور کوئی اور سند نہیں ان احادیث کی جو اسکی حمایت کریں، تو بہتر ہے کہ وہ احادیث ترک کی جائیں جن میں وہی راوی ہے۔
💥تهيذيب التهذيب، ج 10، ص 155
امام ابن جوزي اپنی کتاب الموضوعات (یعنی گھڑی ہوئی احادیث) میں لکھتے ہیں:
عَنْ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قَالَ رَسُول الله قلى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَوْ لَمْ أُبْعَثْ فِيكُمْ لَبُعِثَ عُمَرُ " هَذَانِ حديثان لَا يصحان عَن رغول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. أما الأول: يحيى كَانَ من الْكَذَّابين الْكِبَار. قَالَ ابْن عدي: كَانَ يضع الحَدِيث، وَأما الثَّانِي فَقَالَ أَحْمد: وَيحيى بن عبد الله بن وَاقد لَيْسَ بشئ. وَقَالَ النَّسَائِيُّ: مَتْرُوكُ الْحَدِيثِ. وَقَالَ ابْن حبَان: انقلبت على مشرح صحائفه فَبَطل الِاحْتِجَاج بِهِ.
مشرح بن ھاعان نے عقبہ بن عامر سے روایت کی کہ اس نے کہا کہ رسول الله ﷺ نے کہا کہ اگر میں نہ بھیجا جاتا تو یقینا تم میں عمر کو مبعوث کیا جاتا (بطور نبی)۔ پھر ابن جوزي کہتا ہے: یہ احادیث رسول اللهﷺ سے صحیح سند سے ثابت نہیں ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ اسکی سند میں یحیی ہے اور وہ بڑے جھوٹوں میں سے تھا۔ ابن عدي نے کہا کہ وہ احادیث گھڑتا تھا۔ اور دوسری بات کہ احمد بن حنبل اور یحیی نے کہا ہے کہ وہ کوئی چیز نہیں۔ امام نسائی نے کہا کہ وہ متروک ہے حدیث میں۔ ابن حبان نے کہا کہ اس سے حدیث نہیں نقل کی جا سکتی۔
💥الموضوعات، ج 1، ص 320
اس ہی حدیث کی ایک اور سند ہے، جس میں ابو سعید ہے، اسکے متعلق امام الهيثمي نے مجمع الزوائد میں لکھا:
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ ، وَفِيهِ عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ بَشِيرٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ
اس حدیث کو طبرانی نے اپنی کتاب الأوسط میں نقلکیا ہے اور اس میں عبد المنعم بن بشیر ہے، اور وہ ضعیف راوی ہے۔
💥مجمع الزوائد، ج 9، ص 68
وعبد المنعم بن بشير متروك متهم ، قال ابن حبان: منكر الحديث جدا، لا يجوز الاحتجاج به.
وقال الختلى : سمعت ابن معين يقول: " أتيت عبد المنعم ، فأخرج إلي أحاديث أبي مودود ، نحوا من مائتي حديث كذب
عبد المنعم بن بشیر متروک اور متھم ہے، ابن حبان نے کہا کہ وہ منکر الحدیث ہے اور اس سے حدیث نقل نہیں کی جا سکتی۔
الختلي نے کہا کہ میں نے ابن معین کو کہتے سنا کہ میں عبد المنعم کے پاس آیا اور اس نے مجھے ابو مودود کی احادیث دیکھائیں، اس میں 200 گھڑی ہوئی احادیث تھیں۔
💥ميزان الإعتدال، ج 2، ص 669
لہذا یہ دو اسناد اس حدیث کی شدید ضعیف ہیں اور ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے دو اسناد پر بات کی، البتہ یہ حیث اور بہت سی اسناد سے آئی ہے، مثلا جلال الدین سیوطی اسکو اللألىء المصنوعة میں ایک سند سے لایا ہے مگر اس میں اسحاق بن نجیح ہے جو احادیث گھڑا کرتا تھا۔ اور مجھول راوی ہیں اس ہی طرح تاریخ بغداد میں خطیب بغدادی اس حدیث کو ایک اور سند سے لایا ہے پھر کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے، اور سند میں مجھول راوی ہیں۔ طبرانی نے المعجم الکبیر میں ایک اور سند سے بھی یہ حدیث نقل کی ہے، ایک کا ہم ذکر کر چکے اوپر، دوسری سند میں احمد بن رشدین مصری ہے جو متهم بالوضع ہے یعنی احادیث گھڑتا تھا، اور اس ہی سند میں الفضل بن المختار ہے جو منکر الحدیث ہے۔ اس ہی طرح اس حدیث کی مختلف اسناد ہیں مگر سب ضعیف یا موضوع ہیں، تو اس حدیث سے استدلال نہیں کیا جا فضیلت کا۔ ترمذی نے حدیث نقل کرنے کے بعد کہا ہے: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ . یعنی یہ حدیث ایک غریب حسن حدیث ہے ہم اسکو سوائے مشرح بن ھاعان کے کسی اور سے نہیں جانتے، یعنی ہر سند میں مشرح بن ھاعان موجود ہے، البانی نے صرف اسکو اس لیئے حسن کہا کیونکہ ابن معین نے مشرح کو ثقہ کہا ہے، ورنہ ہم اوپر نقل کر چکے کہ اوپر باقی محدثین کی کیا رائے ہے اسکے متعلق۔
اگر اس پر اعتبار کر بھی لیا جائے تو اسکا مطلب ہوگا کہ حضرت عمر در اصل حضرت ابو بکر سے افضل تھے، جبکہ اہل سنت کا ماننا ہے کہ تمام انبیاء کے بعد حضرت ابو بکر سب سے افضل ہیں، تو اس حدیث کے تحت حضرت عمر کو پہلا خلیفہ ہونا چاہیئے تھا، کیونکہ وہ سب سے افضل ہیں۔ اور یہ بات اہل سنت قبول نہیں کر سکتے، لہذا یہی درست ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے بلکہ موضوع یعنی گھڑی ہوئی ہے۔ اللہ جل وعلا سے دعاء ہے کہ ہمیں آنحضرت ﷺ پر جھوٹ باندھنے سے محفوظ رکھے۔
Comments
Post a Comment