(" یہ اقتدار کا بھوکا ھے " مخالفینِ حق کا قدیم حربہ )
(" یہ اقتدار کا بھوکا ھے " مخالفینِ حق کا قدیم حربہ )
" یہ بھی مخالفینِ حق کا قدیم حربہ ھے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اُٹھے اُس پر یہ الزام فورًا چسپاں کر دیتے ہیں کہ " کچھ نہیں ، بس اقتدار کا بھوکا ھے ۔" یہی الزام فرعون نے حضرت مُوسیٰؑ اور ہارونؑ پر لگایا تھا کہ " تم اِس لیے اُٹھے ہو تمھیں ملک میں بڑائی حاصل ہو جائے ( یونس ۔ 78 ) ۔ یہی حضرت عیسیٰؑ پر لگایا گیا کہ " یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ھے ۔" اور اِسی کا شُبہ نبیﷺ کے متعلق سردارانِ قریش کو تھا ، چنانچہ کئی مرتبہ انہوں نے آپؐ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو " اپوزیشن " چھوڑ کر " حزبِ اقتدار " میں شامل ہو جاؤ ، تمھیں بادشاہ بنائے لیتے ہیں ۔
اصل بات یہ ھے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادّی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپی جان کھپاتے رہتے ہیں ، اُن کے لیے یہ تصوّر کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ھے کہ اِسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیّتی اور بےغرضی کے ساتھ فلاحِ انسانیت کی خاطر بھی اپنی جان کھپا سکتا ھے ۔ وہ خود چونکہ اپنا اثر و اقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اور اصلاح کے جھوٹے دعوے شب و روز استعمال کرتے رہتے ہیں، اس لیے یہ مکاری و فریب کاری اُن کی نگاہ میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ھے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکر و فریب کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جا سکتا ، یہ نام جو بھی لیتا ھے ضرور وہ اُن کا اپنا ہم جنس ہی ہوگا ۔ اور لطف یہ ہے کہ مُصلحین کے خلاف " اقتدار کی بھوک " کا یہ الزام ہمیشہ برسرِ اقتدار لوگ اور اُن کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں ۔ گویا خود انہیں اور اُن کے آقایانِ نامدار کو جو اقتدار حاصل ھے وہ تو اُن کا پیدائشی حق ھے ، اس کے حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں ، البتہ نہایت قابلِ ملامت ھے وہ جس کے لیے یہ " غذا " پیدائشی حق نہ تھی اور اب یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی " بھوک " محسوس کر رہے ہیں ۔ "
( سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔ تفہیم القرآن سوم ۔ تفسیر سورۃ المومنون ۔ حاشیہ 27 )
Comments
Post a Comment