: اہل بیت و صحابہ کی توہین پر عمر قید کا بل


[8/23, 06:48] Qurban Bhai Bahl: اہل بیت و صحابہ کی توہین پر عمر قید کا بل

موجودہ قانونی پوزیشن:
اہل بیت و صحابہ کی توہین تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 اے کے تحت ایک قابلِ ضمانت جرم ہے جس پر تین سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ اس جرم کے الزام کی سماعت درجہ اول یا درجہ دوم کا مجسٹریٹ کرتا ہے۔

تاریخی پسِ منظر:
توہین مذہب کی دفعات تعزیرات پاکستان میں تقسیم ہند سے پہلے سے موجود ہیں۔ انگریز دور سے جو قوانین برصغیر پاک و ہند پر نافذ کیے گئے ان میں توہین مذہب کی دفعات شامل تھیں۔ لیکن 1980 سے 1986 کے عرصے میں ان دفعات میں خاصی ترامیم کی گئیں اور ان دفعات کی موجودہ صورت اسی دور میں سامنے آئی۔

تعزیرات پاکستان میں دفعہ 298 اے کو 1980 میں ایک ترمیمی بل کے ذریعے شامل کیا گیا۔ 2010 میں قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا کہ توہین اہل بیت و صحابہ کے الزمات کی تحقیق ایک اعلیٰ سطحی پولیس افسر کے ذریعے کی جائے لیکن اس پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔

ترمیمی بل 2021:
جولائی 2021 میں جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے متحدہ مجلس عمل کے پانچ دیگر اور تحریک انصاف کے دو اراکین اسمبلی کی تائید سے اہل بیت و صحابہ کی گستاخی پر مجوزہ ترمیمی بل پیش کیا۔ بل قومی اسمبلی کی داخلہ امور کی قائمہ کمیٹی میں زیر غور آیا جہاں مسلم لیگ ن کے اراکین نے بل کی مخالفت جبکہ تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل کے اراکین نے بل کی حمایت میں دلائل دئیے۔ اگلے مرحلے میں یہ بل قومی اسمبلی کے ایوان میں ووٹنگ کے لیے پیش ہوگا۔

ترمیمی بل کے ذریعے تجویز کیا گیا ہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 اے کی سزا تین سال قید سے بڑھا کر دس سال سے عمر قید تک کی جائے۔ نیز اس بل کے ذریعے تجویز کیا گیا ہے کہ ضابطہ فوجداری کے شیڈول میں ترمیم کرکے اس جرم کو قابل ضمانت سے ناقابل ضمانت بنایا جائے اور اس کی سماعت کا اختیار مجسٹریٹ سے لیکر سیشن عدالت کو دیا جائے۔

تبصرہ:
تعزیرات پاکستان میں توہین مذہب کے باب میں تقریباً ان تمام امور پر قانون سازی موجود ہے جن پر مذہبی طبقات حساس ہیں۔ ظاہرا کوئی ایسا امر نہیں ہے جس پر اس ضمن میں قانون سازی نہ ہوئی ہو۔ توہین مذہب کے قوانین کے حوالے سے جو تشویش درپیش ہے وہ اس قانون کے غلط استعمال کے حوالے سے ہے۔ قانونی و اکیڈمک حلقوں نے کئی دفعہ اس کی نشاندہی کی ہے کہ مذہب سے متعلق قوانین کا غلط استعمال روکنے کے لیے ضابطوں میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ مثلا سنہ 2010 میں ایک رکن اسمبلی نے توہین صحابہ کے الزامات کی تحقیقات کے لیے اعلی سطحی پولیس افسر کے تعین کی تجویز دی جس پر خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔ یا بعض اوقات ماہرین قانون نے ان جرائم کو قابل راضی نامہ بنائے جانے کی بات کی جس پر بھی کبھی پیش رفت نہیں ہوئی۔

شرعی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان میں مرسوم تمام فقہی مکاتب فکر کے نزدیک توہین مذہب سمیت متعدد جرائم میں توبہ کا دروازہ کھلا ہے لیکن رائج ملکی قوانین میں توبہ کی صورت میں تخفیف یا سزا کی معافی کا تصور شامل نہیں کیا گیا۔

جرم و سزا سے متعلق تحقیق کرنے والے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق توہین مذہب کے الزامات کا سب سے زیادہ نشانہ مذہبی اقلیتیں بنتی ہیں۔ دوسری طرف مشتعل ہجوم توہین مذہب کے الزامات کی آڑ میں مذہبی اقلیتوں کی عبادتگاہوں اور دیگر مالی و جانی اثاثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال، جھوٹے الزامات اور مشتعل ہجوم کی طرف سے توہین مذہب کی آڑ میں پہنچائے جانے والے نقصانات کے تدارک کے لیے ضابطہ جاتی اصلاحات کی جاتیں اور توہین مذہب کے قوانین کی آڑ میں رواداری اور بقائے باہمی کو درپیش بالقوہ خطرے کو روکا جاتا لیکن اس منطقی مطالبے پر کان دھرے بغیر ان قوانین کی سزاؤں میں بے جا اضافہ اور انہیں مزید سخت گیر قوانین کے طور پر سامنے لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جس سے مذہبی اقلیتوں کو درپیش خطرہ دوبرابر ہوجائے گا۔

اگر اس مسئلے کو فقہی اعتبار سے بھی زیر غور لائیں تو اہل بیت اور صحابہ کی گستاخی سے متعلق سزاؤں پر مختلف فقہی مکاتب فکر کے درمیان اختلاف ہے۔ حتی صحابی و اہل بیت کی تعریف اور مقام پر بھی اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک تمام صحابہ عادل جبکہ بعض دیگر کے نزدیک بنا بر مستنداتِ تاریخی سب صحابہ عادل نہیں ہیں۔ ممکن ہے کسی ایک یا چند کے نزدیک صحابہ جزو ایمان ہوں لیکن دیگر بعض صحابہ کے حوالے سے تعدیل ایمان کا نظریہ رکھتے ہیں جس پر قرآن مجید کی آیات و تاریخی شواہد گواہ ہیں۔ بلکہ خود صحابہ کے اپنے درمیان اختلافات اس حد تک وسیع تھے کہ صحابہ کے درمیان جنگیں تک ہوئی ہیں۔

خلاصہ کلام اصحاب کا موضوع تمام مکاتب فکر کے درمیان متفق علیہ نہیں ہے اور جب موضوع متفق علیہ نہیں ہے تو اس پر سخت گیر قوانین کا اطلاق درست نہیں؛ اس سے امتیازی قوانین جنم لیں گے۔ اصحاب کرام سمیت دیگر مکاتب فکر کے مقدسات کی توہین سے پرہیز ہر مسلمان کا دینی و شرعی وظیفہ ہے لیکن ان سے یہ توقع نہیں رکھی جانی چاہیے کہ وہ صحابہ کو وہی مقام دیں جو بعض دیگر کے نزدیک صحابہ کو حاصل ہے۔ یہ عقیدتی اور نظریاتی اختلاف ہے جو صدیوں سے مختلف مسالک کے درمیان چلا آرہا ہے لہذا اس پر پہلے سے موجود قوانین کافی و وافی ہیں مزید سخت گیر قوانین امتیازی قانونی رویے پیدا کریں گے۔

پاکستان جہاں مختلف مسالک اور مکاتب فکر کے لوگ بستے ہیں یہاں مشترکات پر تو قانون سازی ہوسکتی ہے لیکن اختلافی مسائل پر قانون سازی سے امتیازی قانونی رویے جنم لیں گے۔ ہماری اس بات کی تائید گزشتہ چار عشروں میں ہونے والی مذہبی قانون سازی اور اس کے اثرات ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا تاثر ایک سخت گیر مذہبی ریاست کا ہے۔ جہاں سخت گیر مذہبی طبقات قانون سازی سمیت جملہ ریاستی امور میں مداخلت کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں سنہ73 کا آئین ایک متفقہ دستاویز ہے جس میں مذہبی اقلیتوں سمیت جملہ شہریوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ سخت گیر قوانین بعض اوقات ان آئینی حقوق کی پائمالی کا باعث بن جاتے ہیں۔

بانی پاکستان اور مفکر پاکستان حضرات قائد اعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کے فرمودات میں جس مثالی اسلامی فلاحی ریاست کی تصویر کشی کی گئی ہے وہ ایک سخت گیر مذہبی ریاست ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک ایسی ریاست ہے جس میں تمام مذہبی و مسلکی طبقات سمیت جملہ شہریوں کے حقوق محفوظ ہیں اور کسی کو محض عددی برتری کیوجہ سے کسی قسم کی کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ پاکستانی قانون ساز اداروں کو قانون سازی کے عمل میں بانی پاکستان و مفکر پاکستان کے پیش کردہ بنیادی اصولوں اور بنیادی ڈھانچے کو سامنے رکھنا چاہیے اور ایسے قوانین بنانے سے گریز کرنا چاہیے جو ایک طرف بنیادی آئینی حقوق کو متاثر کرتے ہوں اور دوسری طرف پاکستان کو ایک سخت گیر مذہبی و مسلکی ریاست کے طور پر پیش کریں۔

تجاویز:
مجوزہ ترمیمی بل کے حوالے سے ہماری تجویز ہے کہ:

1- اہل بیت و صحابہ کی توہین پر سزاؤں میں اضافے کو مسترد کیا اور اس کی بجائے توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کے سدباب کے لیے قانون سازی کی جائے۔

2- توہین اہل بیت و صحابہ سمیت توہین مذہب کے جملہ جرائم میں توبہ کی صورت میں تخفیف و معافی کی شق شامل کی جائے۔

3- توہین مذہب کے جرائم کو قابل راضی نامہ بنایا جائے۔

4- توہین مذہب کے جھوٹے الزامات پر الزام لگانے والے کے خلاف قانونی چارہ جویی کی جائے اور توہین مذہب کے جھوٹے الزام کو باقاعدہ ایک ترمیمی بل کے ذریعے جرم قرار دیا جائے۔

5- توہین مذہب کے مقدمات کی سماعت کا اختیار ہائی کورٹ کے سپرد کیا جائے۔

6- توہین مذہب سے متعلق جرائم کی تحقیقات اعلیٰ سطحی پولیس افسر سے کروائی جائے۔

7- توہین مذہب سے متعلق جرائم میں ملزموں کے نام اور شناخت اس وقت تک ظاہر نہ کی جائے جب تک ان پر الزام ثابت نہ ہوجائے تاکہ ان کی سماجی حیثیت محفوظ رہے۔
[8/23, 06:48] Qurban Bhai Bahl: اسکو تمام اھم افراد اور ماتمی شخصیات سے شئیر کریں تاکہ اس بل کو روکنے میں سب اکا کردار اور عوامی شعور کی بیداری ضروری ھے

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات