یا علی مدد
یا علی مدد
کہتے ہیں کہ ماوراء اسباب میں مانگنا شرک ہے اور دنیا چونکہ اسباب کی ہے اس میں ایک دوسرے کی مدد لینا شرک نہیں۔۔
عرض کیا: ماوراء اسباب میں ایسی کیا خامی ہے جو اسباب والی میں نہیں؟
مدد تو مدد ہے، کسی بھی لحاظ سے غیر خدا سے ہو کیوں کر جائز ہو سکتی ہے؟ خاص طور پر جب ہم سورہ مبارکہ فاتحہ میں اقرار کر چکے ہوں کہ "صرف اور صرف تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔"
ماوراء اسباب میں ایک دوسرے سے اس لئے فقط مدد نہیں لے سکتے کہ وہاں پر ہم پہنچ نہیں سکتے، ہمارا بس نہیں، یعنی جہاں پر بھی ہمارا بس چلے تو ہم خدا کو بھول جائیں گے؟ خدا سے بے نیاز ہو جائیں گے؟
کیا خدا علی کل شیء قدیر نہیں ہے؟ اور کیا خدا کی قدرت کا دائرہ اسباب و ماوراء اسباب دونوں پر نہیں؟ تو پھر فقط ماوراء اسباب تک خدا کو محدود کرنے کی وجہ؟
اور کیا اسباب میں مدد لینے سے صرف اور صرف اللہ سے مدد کا قانون ٹوٹ نہیں جاتا؟؟
اسی چیز کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ فاطر ( جسے سورہ ملائکہ بھی کہا جاتا ہے،) میں اس طرح بیان کیا۔۔
يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْـرُ اللّـٰهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ ۖ فَاَنّـٰى تُؤْفَكُـوْنَ (3)
اے لوگو اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو تم پر ہے، بھلا اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو،؟ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں، پھر کہاں الٹے جا رہے ہو۔
رزق کا بہت وسیع مفہوم ہے، علم، مال، دولت، نیک اولاد، اچھا گھر، عزت و شہرت یہ سب بھی رزق میں شامل ہیں۔۔
اللہ تو کہہ رہا ہے اسباب کی دنیا میں بھی ہر چیز تمہیں میں دیتا ہوں، و ایاک نستعین ۔ کو ملا کر پڑھیں، پالنے والے اسباب کی دنیا میں تو دیتا ہے تو پس ہر طرح کی مدد بھی تجھ سے۔۔
لہذا جو کہتے ہیں کہ اسباب کی دنیا میں غیر خدا سے مدد لی جا سکتی ہے، حقیقت میں شرک یہی ہے، گرچہ نادانی میں مرتکب ہو رہے ہوں۔
بلکہ میں جتنا قرآن مجید کے ایات کی تلاوت کرتا جاتا ہوں، میرے لیے یہ واضح ہوتا جاتا ہے کہ عادی و مادی اسباب میں کسی بھی غیر خدا پر تکیہ نہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی توحید پرست کرتے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام میں جب بیمار ہوتا ہوں تو شفا اللہ دیتا ہے، موت و زندگی اسی کے ہاتھ میں ہے۔۔
کیا اللہ کے علاوہ تمہارا کوئی خالق ہے جو آسمان و زمین سے تمہیں رزق دیتا ہو؟
ساری کی ساری عزت صرف اللہ کے لیے ہے۔
ملک کا مالک اللہ تو ہے، جسے چاہے عطا کرے اور جس سے چاہے چھین لے۔۔۔
ان اسباب میں سے کوئی بھی ماوراء اسباب، یا مافوق الاسباب یا غیر عادی و مادی نہیں ہے۔۔
یہاں تو مادی اسباب میں بلکہ جگہ بجگہ مادی اسباب میں ہی شرک بتایا رہا ہے، غیر مادی و ما فوق الاسباب کی تو بات ہی نہیں ہو رہی۔
اور اس کی خاص وجہ ہے ۔۔
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ نہ اسباب میں مدد لینا شرک ہے اور نہ ہی ماوراء اسباب میں۔۔ اگر کوئی ایسی شخصیت ہو جو ماوراء اسباب پر قدرت رکھتی ہو تو وہ مدد کر سکتی ہے، اور اس سے مدد حقیقت میں اللہ سے مدد لینا ہے، جس طرح اسباب میں مدد لینا اللہ سے مدد طلب کرنا ہے، کیوں کہ دونوں کو قوت و طاقت و اختیار اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہے۔۔
صادق علوی
Comments
Post a Comment