ولایت تکوینی و طلب استعانت از معصومین

 ؑولایت تکوینی و طلب استعانت از معصومین در نگاہ مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمیٰ شیخ ناصر مکارم شیرازی حفظہ اللہ

قرآن کی قرآن سے تفسیر کے سلسلے میں  ایک اور مثال،  ولایت تکوینی سے مربوط ہے۔  یہ وہ موضوع ہے جس میں ہمارے مخالفین بالخصوص  متعصب وہابی،  بعض آیات کے ظواہر سے  تمسک اختیار کرتے ہوئے ، اس کا انکار کرتے ہیں ۔ جن آیات سے انہوں نے تمسک اختیار کیا ہےان میں سے بعض درج ذیل ہیں: 
الف) خدا وند متعال سورہ جن کی ۱۸ نمبر آیت میں ارشاد فرماتا ہے: 
﴿فَلا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدا﴾خدا کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔ اس بنا پر خالق و رازق خدا ہے ۔ دوسروں کو ان عناوین سے مت پکارو۔ 
سورہ فاطر کی آیت نمبر ۳ میں  صراحت کے ساتھ غیر خدا سے خالقیت اور رزاقیت کی نفی ہوئی ہے ۔ توجہ فرمائیے: 
﴿هَلْ مِنْ خالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّماءِ وَ الْأَرْض‏﴾کیا خدا کے علاوہ کوئی اور خالق ہے  جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی دیتا ہے؟
اور ان جیسی دوسری آیات جو ان سے ملتی جھلتی ہیں ، ولایت تکوینی کو خدا (کی ذات) میں منحصر قرار دیتی ہیں۔  لیکن ولایت تکوینی سے مربوط آیات انہی  دو آیات میں منحصر نہیں ؛  بلکہ ایسی آیات بھی موجود ہیں جو ان آیات کی تفسیر کرتی ہیں ۔ مثلا: سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۴۹، جس میں جناب عیسی ؑ کی نبوت اور ان کے حیران کر دینے والے معجزات  کا ذکر ہوا ہے۔ (اس آیت میں) ہم پڑھتے ہیں: 
﴿وَ رَسُولاً إِلى‏ بَني‏ إِسْرائيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فيهِ فَيَكُونُ طَيْراً بِإِذْنِ اللَّهِ وَ أُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ وَ أُحْيِ الْمَوْتى‏ بِإِذْنِ اللَّهِ وَ أُنَبِّئُكُمْ بِما تَأْكُلُونَ وَ ما تَدَّخِرُونَ في‏ بُيُوتِكُمْ إِنَّ في‏ ذلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنين‏﴾(عیسیٰؑ) بنی اسرائیل کی جانب بھیجے جائیں گے (تاکہ ان سے کہیں(  میں تمہارے رب کی جانب سے تمہارے لیے نشانیاں لایا ہوں؛ میں مٹی سے ، پرندے کی شکل کی ایک چیز بناتا ہوں ؛ اس کے بعد اس میں پھونکتا ہوں  اور وہ اذن خدا سے پرندہ ہو جاتی ہے، میں اذن الہی سے مادر زاد نابینا اور برص کی بیماری میں مبتلا شخص کو  تندرست کرتا ہوں، اور مردوں کو اذن الہی سے زندہ کرتا ہوں ؛ میں تمہیں خبر دیتا ہوں اس کی جو تم کھاتے ہو  اور اس کی جو کچھ تم اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو ۔ یقیناََ ان (معجزات ) میں  تمہارے لیے نشانیاں ہیں ، اگر تم ایمان والے ہو۔
 اس آیت کے مطابق جناب عیسیٰؑ نے بھی خلق کیا ہے، دشوار علاج بیماروں کو شفا بخشی ہے ، مردے بھی زندہ کیے ہیں ، لیکن یہ سب کے سب کام اذن الہی سے انجام پائے ہیں۔ فاعل، عیسیٰ بن مریم ؑ تھے ، لیکن خدا کی مدد اور اذن الہی کے ساتھ ۔  اور یہ وہ چیز ہے جو شرک کی مشکل کو حل کرتی ہے۔ 
 افسوس کے ساتھ(کہنا پڑتا ہے)  کہ ولایت تکوینی کے منکر افراد نے  مذکورہ آیت میں لفظ [باذن اللہ] پر توجہ نہیں کی؛ وہ چیز جو توحید و شرک کے درمیان (پائے جانے والی) سرحد ہے۔  اگر کسی کی جانب ان افعال کی نسبت اذن الہی کے بغیر دی جائے تو یہ شرک ہے ، لیکن اگر  باذن اللہ ہو ،  جیسا کہ آیہ شریفہ میں آیا ہے، (تو یہ) عین توحید ہے۔ 
اگر جناب عیسیٰؑ باذن اللہ  لاعلاج مریض کو شفا دینے پر قادر ہیں ، سو   اگر کوئی انہیں خطاب کر کے کہے: ((یا مسیح ! اشفعنی باذن اللہ)) [یعنی اے عیسیٰؑ مجھے خدا کے اذن سے شفا دیجیے] تو کیا اس نے  کوئی  ناحق کام کیا؟  کیا اس پر شرک کا الزام لگایا جا سکتا ہے؟
آیت کے مطابق ایسا شخص نہ کسی ناحق فعل کا مرتکب ہوا ہے اور نہ  توحید کی راہ سے منحرف ہوا ہے،  بلکہ وہ جنہوں نے اس پر انگشت اعتراض بلند کی ہے  وہ آیہ شریفہ  اور معارف دینی کے سمجھنے میں خطا کا شکار ہوئے ہیں۔ 
آیت میں آگے چل کر  جناب عیسیٰؑ کے علم  غیب کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔  وہ اس علم غیب کو استعمال کرتے ہوئے جو خدا نے ان کے اختیار میں دیا تھا ،  لوگوں کے گھر میں موجود عذائی مواد ، اور وہ غذا جو انہوں نے کھائی ہوتی تھی ،  کے بارے میں خبر دیتے تھے، اور آیت کا یہ حصہ  اس بات پر ایک اور شاہد ہو جو  اس سے قبل علم غیب کے بارے میں کہا گیا ہے ، کہ علم غیب ذاتی خدا کے اختیار میں ہے، لیکن تعلیمی اور اکتسابی علم غیب  کے لیے ممکن ہے کہ وہ باذن اللہ دوسروں کے اختیار میں بھی ہو۔ 
جب ہم ولایت تکوینی کے منکر  وہابیوں کے سامنے اس آیت سے تمسک اختیار کرتے ہیں ، تو وہ اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور اس کا جواب نہیں دے سکتے  ۔ ان کی خواہش تو یہ ہوتی ہے کہ کاش  قرآن میں ایسی آیت موجود نہ ہوتی!
نتیجہ یہ ہے کہ ولایت تکوینی غیر خدا کے لیے بھی امکان رکھتی ہے؛ لیکن اذن الہی کے ساتھ۔ اس بنا پر، اگر کوئی پوچھے: کیا حضرت علی ؑ  کے پاس ولایت تکوینی تھی؟ ہم جواب میں کہیں گے:  ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ خالق سماوات و ارضین تھے،  لیکن جو کچھ قرآن میں آیا ہے اس کے مطابق  مردوں کو زندہ کرنا،  دشوار علاج بلکہ لا علاج مریضو ں کو شفا دینا  اور اسی قبیل کے دوسرے کام، باذن اللہ ممکن ہیں  اور یہ وہی ولایت تکوینی ہے۔ 
 ہم لوگوں اور معصومین ؑ کے شیفتہ (محبوں)   کو بھی یہ سفارش کرتے ہیں کہ ان سے شفاعت کا تقاضا کرتے وقت باذن اللہ کی قید کا ذکر کریں،  تاکہ نادان افراد اور دشمنوں کے ہاتھ کوئی بہانہ نہ لگے ۔ یہ کام دو طرح سے ہو سکتا ہے: 
 اول  یہ کہ مثلا آپ کہیں: ((اے امیرالمومنین ؑ!  بارگاہ الہی میں  شفاعت کیجیے تاکہ  میری فلاں  خواہش پوری ہو جائے))  دوم یہ کہ آپ کہیں: (( مولا علیؑ!  میری فلاں  حاجت  کو باذن اللہ قبول فرمائیے)) 

( مبانی تفسیر قرآن: ص ۹۵ تا ۹۸) 
مترجم: سید سبطین علی نقوی امروہوی الحیدری.

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات