السَّابِقُونَ

علیک السلام ۔۔

مرحوم سيد مرتضي رحمة الله عليه اس سلسلے میں فرماتے ہیں۔۔

وأول ما نقوله: إن ظاهر هذه الآية لا تقتضي أن السبق المذكور فيها إنما هو السبق إلي اظهار الإيمان والاسلام واتباع النبي صلي الله عليه وآله، لأن لفظ ( السابقين ) مشتركة غير مختصة بالسبق إلي شئ بعينه.

وقد يجوز أن يكون المراد بها السبق إلي الطاعات، فقد يقال لمن تقدم في الفضل والخير: سابق ومتقدم. قال الله تعالي: (وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ. أُوْلَئكَ الْمُقَرَّبُون ) (الواقعة / 10 و 11 ) فإنما أراد المعني الذي ذكرناه، وقال تعالي: (ثمُ َّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَ مِنهْم مُّقْتَصِدٌ وَ مِنهْمْ سَابِقُ بِالْخَيرْاتِ ) (فاطر / 32 ) ويكون معني قوله تعالي ( الأولون ) التأكيد للسبق والتقدم والتدبير فيه، كما يقال: سابق بالخيرات أول سابق.

وإذا لم يكن هاهنا دلالة تدل علي أن المراد بالسبق في الآية إلي الإسلام فقد بطل غرض المخالفين وإذا ادعوا فيمن يذهبون إلي فضله وتقدمه أنه داخل في هذه الآية إذا حملنا علي السبق في الخير والدين احتاجوا إلي دليل غير ظاهر الآية، وأني لهم بذلك.

 ظاہر آیت سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں سبقت سے مراد ایمان اور اسلام کے اظہار  میں سبقت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت میں سبقت مراد نہیں ہے ۔کیونکہ لفظ (السابقون)  ایک مشترک لفظ ہے کہ جو کسی ایک معنی کے ساتھ مختص نہیں ہے۔{لہذا اس سے ایمان اور سلام کے اظہار میں سبقت ہی مراد ہونا ضروری نہیں ہے }

دوسری طرف سے یہاں یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ یہاں پر سبقت سے مراد اطاعت اور پیروی میں سبقت اور پہل کرنا مراد ہے جیساکہ کبھی جو نیک اور اچھے کاموں میں دوسروں پر فضیلت اور دوسروں سے ممتاز حیثیت رکھتے ہوں، تو ایسے افراد کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دوسروں سے آگے ہیں اور دوسروں پر ان کو سبقت حاصل ہے۔

 جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے : (وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ. أُوْلَئكَ الْمُقَرَّبُون ) اور سبقت کرنے والے تو سبقت کرنے والے ہی ہیں،  یہی اللہ کے مقرب بھی ہیں ، اس آیت میں اللہ نے سبقت کو اسی معنی میں استعمال کیا ہے جو ہم نے یہاں مراد لیا۔جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے (ثمُ َّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَ مِنهْم مُّقْتَصِدٌ وَ مِنهْمْ سَابِقُ بِالْخَيرْاتِ) 

 پھر ہم نے اس کتاب کا وارث ان افراد کو قرار دیا جنہیں اپنے بندوں میں سے چن لیا کہ ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض اعتدال پسند ہیں اور بعض خدا کی اجازت سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں اور درحقیقت یہی بہت بڑا فضل و شرف ہے۔

 اور مذکورہ آیت میں (الْأَوَّلُونَ) سے مراد اسی سبقت کی تاکید کرنا اور اسی میں ہی غور و فکر کرنا ہے۔ جیساکہ جو زیادہ نیکی کرتا ہو اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے  کہ نیکی کرنے میں پہلے نمبر پر ہے.

لہذا اس آیت میں سبقت سے اسلام میں سبقت مراد ہونے پر دلیل نہ ہونے سے مخالفین کے مقصد اور استدلال خود بخود باطل ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اسلام لانے میں سبقت کی بنیاد پر کسی کو اس آیت میں داخل کر کے اس کے لئے فضیلت ثابت کرنا چاہئے تو یہ مقصد اس آیت سے حاصل نہیں ہوگا۔انہیں اس کام کے لئے اس آیت کے ظاہر کے علاوہ کوئی اور دلیل لانا ہوگا اور یہ لوگ کہاں سے ایسی دلیل لاسکتے ہیں؟

المرتضي علم الهدي، أبو القاسم علي بن الحسين بن موسي بن محمد بن موسي بن إبراهيم بن الإمام موسي الكاظم عليه السلام (متوفاي436هـ)، رسائل المرتضي، ج 3، ص 88،


--------------

Azhar Abbas

 اللہ کا یہ وعدہ مومنین میں سے «السابقون الأولون» کے ساتھ مختص نہیں ہے۔بلکہ یہ وعدہ عام ہے۔ اللہ کا یہ وعدہ ہر اس مومن کے لئے ہے کہ جو نیک اور صالح ہوں اور شائستگی رکھتے ہوں۔   جیساکہ سورہ توبہ کی ۷۲ نمبر آیت میں اللہ فرماتا ہے۔۔۔

وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنينَ وَالْمُؤْمِناتِ جَنَّاتٍ تَجْري مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدينَ فيها وَمَساكِنَ طَيِّبَةً في جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظيم .

خدا نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے بہشتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہیں گے اور بہشت ہائے جاودانی میں نفیس مکانات کا (وعدہ کیا ہے) اور خدا کی رضا مندی تو سب سے بڑھ کر نعمت ہے یہی بڑی کامیابی ہے۔

یقینی بات ہے کہ مومنین سے اللہ کا وعدہ ان کے معصوم ہونے پر دلیل نہیں ہے۔ یہ وعدہ ان لوگوں کو خطاء اور لغزش سے بچاو کے لئے نہیں ہے۔ لہذا یہ وعدہ دائمی اور مطلق نہیں ہوسکتا

 (بلکہ اس طرح کا وعدہ ہمیشہ قید و شرط کے ساتھ ہے)

لہذا یوں کہنا بہتر ہے کہ  اللہ کا ان سے راضی رہنا اور ان کا بہشت میں داخل ہونا ان کے آئیندہ کے کردار اور آئیندہ نیک کام انجام دینے کے ساتھ مشروط ہے۔۔۔


---------------

پھر 

شیخ طوسی رضوان الله تعالي عليه اس سلسلے میں فرماتے ہیں۔۔۔۔

علي أنهم لو كانوا هم المعنيين بالآية [ السبق الي الإسلام لا الإيمان و السبق الظاهري لا الباطني] لم يمنع ذلك من وقوع الخطأ منهم ولا أوجب لهم العصمة لأن الرضي المذكور في الآية وما أعد الله من النعيم إنما يكون مشروطا بالإقامة علي ذلك والموافاة به، وذلك يجري مجري قوله " وعد الله المؤمنين والمؤمنات جنات تجري من تحتها الأنهار " (التوبة / 72) ولا أحد يقول إن ذلك يوجب لهم العصمة ولا يؤمن وقوع الخطأ منهم بل ذلك مشروط بما ذكرناه وكذلك حكم الآية.

اگر مذکورہ آیت میں سبقت سے مراد اسلام لانے میں سبقت ہو، ایمان میں سبقت مراد نہ ہو،اسی طرح ظاہری اسلام لانا مراد ہو باطنی  اور حقیقی اسلام لانا مراد نہ ہو تو اس سے یہ لازم تو نہیں آتا کہ  ان سے کوئی خطاء بھی سرزد نہ ہو اور وہ لوگ خطاء اور گناہ سے معصوم ہوں۔ ۔کیونکہ اللہ نے اگر  کسی سے رضایت کا اعلان کیا ہے اور کسی کو بہشت کا وعدہ دیا ہے تو یہ دین میں ثابت قدمی ، دین کے ساتھ وفاداری اور دین کی پاسداری کے ساتھ مشروط ہے اور یہ وعدہ اللہ کے اس وعدے کی طرح ہے " وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنينَ وَ الْمُؤْمِناتِ جَنَّاتٍ تَجْري مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدينَ فيها التوبة : 72" اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے بہشتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اب کوئی یہاں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس وعدے کی وجہ سے ان کا معصوم ہونا لازم آتا ہے ۔ یہ وعدہ ان کو خطاء اور غلط کام کے انجام دینے سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ یہاں یہ وعدہ اسی چیز کے ساتھ مشروط ہے جس کا ہم نے ذکر کیا۔

الطوسي، الشيخ أبو جعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاي460هـ) الرسائل العشر، ص 128


Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات