روئیت الہی کا عقیدہ.

روئیت الہی کا عقیدہ.
تحریر:
فراز حیدر شاہ نقوی  .

روئیت الہی  یعنی خدا کو ظاہری آنکھوں  سے دیکھنے  کے متعلق مسلمانوں  کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے. مکتب اہل بیت ع اور معتزلہ  کے مطابق  خدا کو ظاہری آنکھوں  سے دیکھنا  نہ تو دنیا میں ممکن ہے اور نہ ہی آخرت میں.
اسکے برعکس  اہل تسنن کی اکثریت کا یہ ماننا ہے کہ خدا کو دنیا میں تو نہیں  دیکھا جا سکتا لیکن اسے آخرت میں ضرور دیکھا جا سکتا ہے .
اپنے اس عقیدے پر وہ قرآن و احادیث سے جو دلائل پیش کرتے ہیں آئیے پہلے  ان کا جائزہ  لیتے ہیں پھر آخر میں مکتب اہل بیت ع کے دلائل کو بھی پیش کریں گے .
اگر اس موضوع  پر تفصیلی گفتگو کی جائے  تو تحریر  بہت طوالت اختیار کر جائے گی اس لیے کوشش ہوگی کہ اسے مختصر  ترین رکھا جائے جس میں بہت ساری چیزیں مجبورا حذف کرنی پڑیں گی.

روئیت خدا کی دلیل قرآن سے.
 وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ﴿ۙ۲۲﴾۲۲۔ بہت سے چہرے اس روز شاداب ہوں گے،
اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ﴿ۚ۲۳﴾۲۳۔ وہ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے
وَ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍۭ بَاسِرَۃٌ ﴿ۙ۲۴﴾۲۴۔ اور بہت سے چہرے اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے،
تَظُنُّ اَنۡ یُّفۡعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ ﴿ؕ۲۵﴾۲۵۔ جو گمان کریں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ معاملہ ہونے والا ہے

سورہ قیامت.  آیت 22..25
آیت مبارکہ  میں دو گروہوں  کا تذکرہ ہے ایک روشن چہرے والے اور دوسرا بگڑے ہوئے چہروں  والے. 
اگر آیت کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھا  جائے تو یہاں اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ کا مطلب بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ روشن چہرے والے افراد  اپنے پروردگار کی رحمت کی طرف دیکھ رہے ہوں گے .
بعض مفسرین نے نَاظِرَۃٌ کا معنی انتظار سے کیا ہے۔ یعنی اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں ہوں گے اور استعمالات عرب سے اس کی شاہد مثال پیش کی ہے۔ اس جگہ بھی اِلٰی کے ساتھ مذکور ہے ہو سکتا ہے معنی یہ ہوں: منتظرۃ لثواب ربھا۔ یہ چہرے اپنے رب کی طرف سے ثواب کے منتظر ہوں گے۔
مجمع البیان میں آیا ہے کہ یہی موقف مجاہد، حسن، سعید بن جبیر اور ضحاک نے اختیار کیا ہے .
جبکہ دوسرے گروہ کا بھی تذکرہ  موجود  ہے جو کہ رحمت  کے بالکل متضاد ہے یعنی وہ گروہ بگڑے ہوئے چہروں کے ساتھ عذاب الہی کا منتظر  ہوگا.

"دیکھ رہا ہونا اور دیکھ لینا میں فرق "
لفظ دیکھ رہے ہوں گے سے روئیت کا استدلال کرنا  اس لحاظ سے  بھی درست نہیں ہے کیونکہ دیکھ رہا ہونا اور دیکھ لینا میں بہت فرق ہے. 
مثال کے طور پر 29 ماہ رمضان کو لوگ چاند کی طرف دیکھ رہے ہوں گے لیکن لازمی نہیں ہے کہ نظر بھی آ جائے .
اب دیکھنے والا یہی کہہ  سکتا ہے کہ وہ آسمان پر چاند کی طرف دیکھتا رہا لیکن اس کی اس سہی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس نے دیکھ بھی لیا ہو.
اب آپکو  دیکھنے اور دیکھ لینے میں ایک فرق قرآن کی آیت سے واضح کرتے ہیں 
 تَرٰىہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ وَ ہُمۡ لَا یُبۡصِرُوۡنَ﴿۱۹۸﴾
  انہیں دیکھتے ہو کہ بظاہر وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے۔
یعنی ثابت ہوا کہ کسی کہ نظر کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ دکھائی  بھی دے.
اب ایک بات قابل غور ہے کہ رسول اللہ ص جو انسانوں  کی طرح جسم رکھتے ہیں انہیں بھی دیکھنے  والے کچھ افراد  کے متعلق کہا گیا کہ وہ دیکھ نہیں پاتے تو کجا خدا جو جسمانیت سے پاک و مبری ہستی ہے اسکی جانب دیکھنے والوں کی نگاہیں اسکا ادراک  کر لیں گی.
ایک چیز اور ہے کہ دونوں  گروہ وہاں موجود  ہوں گے تو کیا خدا ایک ہی گروہ کو محدود ہو کر  جلوہ دکھائے ? کیا دوسرا گروہ اندھا  کر دیا جائے گا یا خدا محدود  ہو کر روشن چہرے والوں  کے ہی سامنے آئے گا ?

احادیث.
کچھ  روایات  اس ضمن میں لائی جاتی ہیں جن میں سب سے مشہور  ہم آپکے سامنے رکھتے ہیں. 
  جریر سے نقل ھوا ھے كہ پیغمبر ا كرم (ص)چاند كو دیكھ رھے تھے اور اسی موقع پر آپ نے فرمایا:

”تم لوگ اپنے پروردگار كو دیكھو گے جس طرح سے اس چاند كو دیكھ رھے ھو۔۔۔“۔
( صحیح بخاری، ج۱، ص ۱۱۱، باب ۲۶، و ۳۵، و صحیح مسلم، ج۵، ص ۱۳۶۔)
حدیث کا جواب
1۔ مذكورہ روایات ”خبر واحد “ھیں لہٰذا عقیدہ كی بحث میں ان كی كوئی اہمیت  نہیں ھے۔

2۔ چونكہ یہ روایات قرآن كریم كی آیات كے مخالف ھیں (جو کہ آخر میں ہم آخر میں پیش کریں گے) قرآن میں واضح آیت موجود ہے  لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ۔۔۔۔ (۴۲ شوریٰ: ۱۱)
 لہٰذا ان كا كوئی اعتبار نھیں ھے۔

3۔ ایک حدیث میں قیس بن ابی جازم ھے لہٰذا اس كی وجہ سے سند روایت ضعیف ھے؛ چنانچہ عبداللہ بن یحییٰ بن سعید كہتے ھیں:”وہ منكر احادیث كو نقل كرتا تھا، اور یعقوب دو كہتے ھیں: ”ھمارےعلماء نے اس كے بارے میں بہت سی باتیں كہیں ھیں، بہت سے لوگوں نے ان پر لعن و طن كی ھے۔۔۔
( میزان الاعتدال، نمبر ۶۹۰۸)

عدم روئیت  پر عقلی دللیل
ہرعاقل جانتا ھے كہ كسی چیز كو آنكھوں سے دیكھنا صرف اسی صورت میں ممكن ھے كہ جس چیز كودیكھا جارھا ھے وہ دیكھنے والے كے سامنے ایك خاص سمت اور جگہ میں موجود ھو، اور یہ بات خداوندعالم كے بارے میں محال ھے۔  (كیونكہ خداوندعالم نہ كسی خاص جگہ میں ھے اور نہ وہ كوئی سمت ركھتا ھے)
ہم کسی چیز کو خاص جہت، شکل اور رنگ میں دیکھ سکتے ہیں جب وہ ہمارے سامنے ہو۔ زیادہ دور بھی نہ ہو، آنکھوں کے زیادہ نزدیک بھی نہ ہو۔ روشنی کی شعاعیں اس چیز سے منعکس ہو کر آنکھ پر پڑیں اور خدا ان ساری چیزوں سے پاک ہے.

عدم روئیت  پر قرآن سے دلائل. 

عدم روئیت پر  سب سے محکم اور واضح  آیت مبارکہ یہ ہے
 لاَتُدْرِكُہُ الْاٴَبْصَارُ وَھو یُدْرِكُ الْاٴَبْصَارَ وَھو اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ 
. سورہ انعام، (۶) آیت ۱۰۳۔

ترجمہ :۔اس كو آنكھیں دیكھ نھیں سكتیں اور وہ لوگوں كی نظروں كو خوب دیكھتا ھے ، وہ بڑا باریك بین خبردار ھے.

اس آیت مبارکہ میں  بالکل واضح ہے کہ نگاہیں  اسکا ادراک  نہیں  کر سکتی یعنی  نگاہوں  میں یہ طاقت  ہی نہیں  ہے کہ وہ اسکا ادارک کریں. 
اب اگر یہاں پر یہ کہا جائے کہ نگاہیں  دنیا میں اسکا ادراک نہیں  کر سکتی آخرت میں کر لیں گی تو یہ سراسر  غلط  ہوگا کیونکہ یہاں کہیں بھی مخصوص نہیں  کیا گیا کہ دنیا میں نہیں  کر سکتیں  بلکے کلی قائدہ دیا گیا ہے جس میں دنیا و آخرت دونوں شامل ہیں. اس سے آگے والی آیت میں  وَھو یُدْرِكُ الْاٴَبْصَارَ یعنی وہ نگاہوں  کو پا لیتا ہے  سے یہ بالکل واضح ہے کہ آیت دنیا و آخرت  دونوں کے متعلق ہے  کہ وہ یہاں بھی نگاہوں  کا ادراک  رکھتا ہے وہاں بھی رکھے  گا  جبکہ نگاہیں  اسے یہاں بھی نہیں  پا سکتی  وہاں بھی نہیں  پا سکیں گی.
 
دوسری دلیل

 اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ وَ لٰکِنِ انۡظُرۡ اِلَی الۡجَبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰىنِیۡ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبۡحٰنَکَ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۴۳﴾۱۴۳۔
سورہ اعراف 
 اور جب موسیٰ ہماری مقررہ میعاد پر آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے: پروردگارا ! مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کروں، فرمایا: تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھو پس اگر وہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کرنے لگے: پاک ہے تیری ذات میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔
 اس آیت میں رویت خدا كے امكان كو ایک محال چیز پر موقوف كیا گیا ہے.
یہ قصہ متعدد مرتبہ قرآن میں آیا ہے کہ جہاں قوم موسی ع نے مطالبہ کیا کہ خدا انہیں  اپنا دیدار کروائے .
جب موسی ع  نے یہ مطالبہ رکھا  تو خالق کائنات نے  فرمایا لَنۡ تَرٰىنِیۡ ہرگز نہیں دیکھ پاو گے اور آگے اس پر ایک محکم دلیل بھی قائم کی کہ ہم اپنی ایک تجلی پہاڑ پر گرائیں  گے اگر قائم رہا تو سمجھنا کہ مجھے دیکھ لو گے لیکن پہاڑ کا ریزہ ریزہ ہو جانا اس بات کی دلیل بنا کہ پروردگار کو کبھی نہیں دیکھا جا سکتا .
اگر اسے یوم محشر  دیکھنا ممکن ہوتا تو خالق  فرما دیتا موسی ع اپنی قوم سے کہو کہ میں انہیں روز قیامت  اپنا جلوہ دکھاوں گا کیونکہ  میں یہاں نہیں  وہاں دکھائی دوں گا. 

روئیت الہی  کا مطالبہ  گستاخی  ہے.
خدا کے دیدار  کا مطالبہ  اسکی بارگاہ میں ایک گستاخانہ فعل تھا جسے خالق نے بیان کرتے ہوئے فرمایا 
    فَقَالُوۡۤا اَرِنَا اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلۡمِہِمۡ ۔۔۔۔ (۴ نساء : ۱۵۳) انہوں نے کہا: ہمیں علانیہ طور پر اللہ دکھا دو ان کی اسی زیادتی کی وجہ سے انہیں بجلی نے آ لیا۔

تیسری  دلیل
وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَوۡ نَرٰی رَبَّنَا ؕ لَقَدِ اسۡتَکۡبَرُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ وَ عَتَوۡ عُتُوًّا کَبِیۡرًا﴿۲۱﴾۲۱۔ سورہ فرقان

 اور جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں: ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کیے گئے یا ہم اپنے رب کو کیوں نہیں دیکھ لیتے؟ یہ لوگ اپنے خیال میں خود کو بہت بڑا سمجھ رہے ہیں اور بڑی حد تک سرکش ہو گئے ہیں۔

زرا اس آیت پر غور فرمائیں  قیامت  کے منکرین  نے دو مطالبے  کئیے ایک تو یہ کہ خالق ہم پر فرشتے  نازل کرے اور دوسرا  وہ ہمیں نظر آ جائے .
پروردگار نے دوسرے مطالبے  جوابا یہ نہیں  کہا کہ جب ہم سے ملاقات  کرو گے تو دیکھ  بھی لو گے  بلکے انہیں متکبر  و سرکش کہا ہے.
اگر روئیت خدا یوم محشر  ممکن ہوتی تو خالق ضرور کہتا کہ جب ہم سے ملاقات  کرو گے تو تمھارا  یہ مطالبہ پورا ہو جائے گا. 
اب ہم شیعہ سنی  کتب میں  عدم رویت پر پائے جانے والی کچھ روایات  پیش کرتے ہیں. 
۔ امام مسلم نے جناب حضرت  عائشہ سے نقل كیا ھے: ”جو شخص یہ گمان كرتا ھو كہ محمد (ص)نے اپنے پرودرگار كو دیكھا ھے تو اس نے خدا كی طرف ناروا نسبت دی ھے“
. صحیح مسلم، ج۱، ص ۱۱۰۔

۔ نسائی نے ابو ذر سے نقل كیا ھے: ”پیغمبر اكرم (ص)نے خدا كا دیدار دل كی آنكھوں سے كیا ھے، نہ كہ سر كی آنكھوں سے مشاہدہ كیا
 تفسیر نسائی، ج۲، ص ۲۴۵، ارشاد الساری، ج ۵، ص ۲۷۶، رازی، المطالب العالیہ، ج۱، ص ۸۷۔
 ابن ماجہ بھی نقل كرتے ھیں؛ پیغمبر اكرم (ص)سے كسی نے میت كے بارے میں سوال كیا تو آپ نے فرمایا: میت كو اس سوال كے جواب میں كہ خدا دكھائی نھیں دیتا، نیک جزا دی جائے گی
 سنن ابن ماجة، ج 2، ص 2426

اسماعیل بن فضل كہتے ھیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال كیا كہ كیا خداوندعالم روز قیامت دكھائی دے گا؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:

”خداوندعالم اس چیز سے پاك و پاكیزہ ھے، اے ابن فضل ! آنكھوں سے صرف وھی چیزیں دیكھی جاتی ھیں جن میں رنگ اور كیفیت پائی جاتی ھو جبكہ خداوندعالم رنگوں اور كیفیتوں كا خالق ھے.
 بحار الانوار، ج4 ، ص 31

حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایک شخص كے جواب میں جس نے بروزقیامت رویت خدا كے بارے میں سوال كیا تھا، فرمایا : ”ہرگزقلبی مشاہدہ ان ظاہری آنكھوں سے دیكھنے كی

طرح نھیں ھوسكتا؛ خداوندعالم پاك وپاكیزہ ھے ہراس چیزسے جس سے مشبہہ اور ملحدین،خدا كی توصیف كرتے ھیں التوحید شیخ صدوق، ص ۱۷۔

 حضرت علی علیہ السلام خداوندعالم كی توصیف بیان كرتے ھوئے فرماتے ھیں: ” (تمام) مدح و تعریف خداوندعالم سے مخصوص ھیں جو ۔۔۔ آنكھوں سے دكھائی نھیں دیتا ھے، اور كوئی پردہ اسے نھیں چھپا سكتا. 
نهج البلاغة، خطبه 1
8 رَبّاً لَمْ اَرَہُ قَالَ وَ کَیْفَ رَاَیْتَہُ قَالَ وَیْلَکَ لَا تُدْرِکُہُ الْعُیُونُ فِی مُشَاھَدَۃِ الْاَبْصَارِ وَلَکِنْ رَاَتْہُ الْقُلُوبُ بِحَقَائِقِ الْاِیْمَانِ۔۔۔ (الکافی۱: ۹۷ باب ابطال الرویۃ)جب آپ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں تو کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ فرمایا: میں ایسے رب کی عبادت نہیں کرتا جسے میں نے دیکھا نہ ہو۔ عرض کیا: کیسے دیکھا ہے؟ 
فرمایا: بصر کے مشاہدے کے ذریعے آنکھیں اسے نہیں دیکھتیں بلکہ دل اسے دیکھتے ہیں ایمان کے حقائق کی روشنی میں
دوسری جگہ فرمایا:
اَبْیَنُ مِمَّا تَرَی الْعُیُونُ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ خ ۱۵۵)وہ ان چیزوں سے بھی زیادہ (اپنے مقام پر) ثابت و آشکار ہے کہ جنہیں آنکھیں دیکھتی ہیں۔

امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

لم ترہ العیون بمشاہدۃ الابصار و لکن رأتہ القلوب بحقائق الایمان ۔۔۔۔ (الکافی ۱: ۱۷ باب فی ابطال الرؤیۃ)اگرچہ اس کو آنکھوں کے مشاہدے سے نہیں دیکھا جا سکتا مگر اس کو دلوں نے حقیقت بینی سے دیکھا ہے.
ائمہ اہل بیت عليھم السلام نے قلبی دیدار كے امكان كی وضاحت فرمائی ھے۔
یہاں بہت ساری روایات  کو ہم چھوڑ  رہے ہیں جنکی جانب کتاب التوحید  شیخ صدوق اور الکافی وغیرہ  سے رجوع  کیا جا سکتا ہے.
اہل بیت علیھم السلام كی تمام احادیث سے یہ نتیجہ نكلتا ھے كہ صرف ان مادی آنكھوں سے دیدارخدا محال ھے، لیكن قلبی دیدار (جس كو باطنی مشاہدہ كیا جاتا ھے) مومنین كے لئے ممكن ہے.
تحریر ذیادہ  لمبی  ہو جانے پر معذرت  یہ موضوع  بہت تفصیل  طلب  ہے بہت ساری چیزیں اس میں مزید  بیان کی جا سکتی ہیں جن میں اقوال مفسرین  و محدثین  شامل ہیں البتہ  متلاشیان  حق کے لئے اتنا بھی کافی ہے .
دعا ہے پروردگار  ہمیں حدیث ثقلین کے عین مطابق قرآن و عترت رسول اللہ ص  سے متمسک  رکھے .
اللھم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجھم و لعن اعدائھم. 
التماس دعا
 سید فراز حیدر شاہ نقوی.

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات