کرسمس، حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ ولادت؟

کرسمس، حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ ولادت؟
 
 
دنیاء کی سات ارب آبادی میں سے دو ارب سے زیادہ عیسائی ہیں۔ اور وہ ہر سال کرسمس مناتے ہیں جس تاریخ کو انکے مطابق حضرت عیسی المسیح بن مریم علیہما السلام کی ولادت ہوئی ہے۔ مگر سوال بنتا ہے کہ کیا واقعی آپ علیہ السلام کی تاریخی ولادت 25 دسمبر ہے۔ اس کیلئے ہمیں تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ پہلے عرض ہے کہ پوری بائبل کی 66 کتب (یا رومن کیتھولک فرقے کی 73 کتب) میں کہیں بھی یہ بات نہیں لکھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی کس دن ولادت ہوئی۔ بلکہ انکے ولادت کے سال میں بھی بائبل میں تضاد ہے۔ آیت ہے:
 
Τοῦ δὲ Ἰησοῦ γεννηθέντος ἐν Βηθλέεμ τῆς Ἰουδαίας ἐν ἡμέραις Ἡρῴδου τοῦ βασιλέως, ἰδοὺ μάγοι ἀπὸ ἀνατολῶν παρεγένοντο εἰς Ἱεροσόλυμα
 
 عیسی،‏ ہیرودیس بادشاہ کے زمانے میں یہودیہ کے شہر بیت‌لحم میں پیدا ہوئے۔‏ اِس کے بعد مشرق سے کچھ نجومی یروشلیم آئے۔
 
متی کی انجیل، باب 2، آیت 1
 
ہمیں معلوم ہے کہ ہیرودیس یا Herod the Great جو کہ روم کا بادشاہ تھا، اسکی وفات چار سال قبل از مسیح یعنی 4 BCE میں ہوگئی تھی، اور متی کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہیرڈ دا گریٹ کے زمانے میں ہوئی تھی تو کم از کم چار سال قبل از مسیح بنتا ہے سال ولادت آپ کا۔ یاد رہے عیسائیوں کے مطابق متی اور دیگر تمام بائبل کے تقریبا 40 مصنفین کی عیانت روح القدس کر رہا تھا جب وہ کچھ لکھ رہے تھے تو جو بھی الفاظ ہیں وہ تمام خدا کی طرف سے ہیں انکے مطابق۔ اب لوقا کیا کہتا ہے جسکو روح القدس عیانت کر رہی ہے لکھنے میں اور یہ انجیل متی کی انجیل کے تقریبا پانچ سال بعد ہی لکھی گئی ہے۔ آیت ہے:
 
Ἐγένετο δὲ ἐν ταῖς ἡμέραις ἐκείναις ἐξῆλθεν δόγμα παρὰ Καίσαρος Αὐγούστου ἀπογράφεσθαι πᾶσαν τὴν οἰκουμένην. αὕτη ἀπογραφὴ πρώτη ἐγένετο ἡγεμονεύοντος τῆς Συρίας Κυρηνίου. καὶ ἐπορεύοντο πάντες ἀπογράφεσθαι, ἕκαστος εἰς τὴν ἑαυτοῦ πόλιν.
 
 اُن دنوں میں قیصر اوگوستُس نے حکم جاری کِیا کہ پوری سلطنت میں مردم شماری کرائی جائے۔ ‏یہ پہلی مردم‌ شماری سُوریہ کے حاکم،‏ کوِرِنیُس کے زمانے میں ہوئی۔‏)‏۔ اور سب لوگ اپنا نام لکھوانے کے لیے اپنے اپنے آبائی شہر گئے۔
 
لوقا کی انجیل، باب 2، آیات 1 تا 3
 
تو ہم دیکھتے ہیں کہ لوقا کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت تب ہوئی جب قیصر اوگوستس نے حکم دیا کہ مردم شماری کی جائے ساری سلطنت میں، مورخین نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ چھے سال بعد از مسیح (6 AD) میں پیش آیا تھا، دس سال کا فرق ہے چار سال قبل از مسیح اور چھے سال بعد از مسیح میں۔ تو سالِ پیدائش ہی ہم بائبل سے متعین نہیں کر سکتے اور یہ ایک تضاد ہے، بلکہ خود تاریخ سے بھی متضاد ہے لوقا کی انجیل اس معاملے میں کیونکہ مردم شماری میں یہ کہیں نہیں تھا کہ لوگ اپنے ابا و اجداد کے شہروں میں واپس جائیں، لوقا نے یہ کہانی ایجاد کی تاکہ مریم علیہا السلام بیت لحب میں آئیں اور وہاں ولادت ہو تاکہ یھودی کتب کی پیشن گوئی پوری ہو حضرت داود علیہ السلام کے متعلق، خیر وہ ایک الگ موضوع ہے۔ در اصل کوئی ایسی مردم شماری اوگستس کے دور حکومت میں ہوئی ہی نہیں تھی جس میں ساری کی ساری سلطنت کی مردم شماری کی گئی ہو۔ البتہ یہ ایک الگ موضوع ہے بائبل کے اندرونی تضادات اور تاریخی غلطیاں۔ ہمیں نہیں پتا لوقا کون تھا جس نے یہ انجیل لکھی، ہمیں فقط یہ معلوم ہے کہ جس نے بھی یہ لکھی اس نے بائبل کی ایک اور کتاب، “اعمال” بھی لکھی اور کہ وہ ایک بہت پڑھا لکھا یونانی زبان بولنے والا عیسائی تھا جو پہلی صدی عیسوی کے آخر میں رہتا تھا۔ تو وہ جو کچھ لکھ رہا تھا اسکا چشم دید گواہ نہیں تھا بلکہ وہ اپنے سامنے مرقس کی انجیل اور متی کے انجیل اور ایک اور کتاب جسکو ہم “کیو سورس (Q source)” بولتے ہیں رکھ کر لکھ رہا تھا اپنی انجیل، اس تمام مواد کو ترتیب دیکر جیسا کہ اس نے پہلے باب کی آیت 3 میں لکھا ہے۔ بہر حال بائبل سے ہم سال ولادت کا تعین نہیں کر سکتے، مگر ایک آیت ملتی ہے جس سے ہم شاید موسم کا تعین کر سکتے ہیں، آیت ہے:
 
Καὶ ποιμένες ἦσαν ἐν τῇ χώρᾳ τῇ αὐτῇ ἀγραυλοῦντες καὶ φυλάσσοντες φυλακὰς τῆς νυκτὸς ἐπὶ τὴν ποίμνην αὐτῶν.
 
اُس علا‌قے میں چرواہے بھی تھے جو باہر میدان میں رہ رہے تھے اور رات کو اپنے گلّوں کی رکھوالی کر رہے تھے۔
 
لوقا کی انجیل، باب 2، آیت 8
 
اب اس سے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کم از کم ولادت بائبل کے مطابق سردیوں میں نہیں ہوئی، کیونکہ ولادت کے وقت کچھ چرواہے باہر موجود تھے، مگر سردیوں میں یہ کام ناممکن ہے اور یروشلیم کا موسم ایسا نہیں ہے کہ سردیوں میں یہ جانور باہر رہیں، ایسا نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ وہ اندر رہتے تھے سردی میں، تو یہ بہار یا گرمی کے موسم کی طرف اشارہ ہے۔ عیسائی علماء کے مطابق ہم جانتے ہی نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کس دن ہوئی تھی، اور نہ کبھی جان سکیں گے۔
 
جہاں تک احادیث سے ہمیں پتا چلتا ہے حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ ولادت کے متعلق تو یہ حدیث موجود ہے:
 
وَ رُوِيَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْوَشَّاءِ قَالَ کُنْتُ مَعَ أَبِي وَ أَنَا غُلَامٌ فَتَعَشَّیْنَا عِنْدَ الرِّضَا ع- لَیْلَةَ خَمْسَةٍ وَ عِشْرِینَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ فَقَالَ لَهُ لَیْلَةُ خَمْسَةٍ وَ عِشْرِینَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ وُلِدَ فِیهَا إِبْرَاهِیمُ ع وَ وُلِدَ فِیهَا عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ ع
 
حسن بن علی الوشاء سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ تھا اور ایک بچہ تھا، تو ہم امام علی الرضاء علیہ السلام کے ساتھ رات رہے، اور وہ پچیس ذی الفقدہ کی رات تھی، تو آپ علیہ السلام نے مجھے کہا کہ پچیس ذی القعدہ وہ رات ہے  جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اور جس میں حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام پیدا ہوئے۔
 
من لا يحضره الفقيه، رقم الحديث: 1814
 
مگر پھر سوال اٹھتا ہی کہ 25 دسمبر کی تاریخ کہاں سے آئی۔ اسکا جواب ہے کہ یورپ میں پہلی بار جو کرسمس منائی گئی وہ سال 336 عیسوی میں تھا، جو کہ عیسی علیہ السلام کے تین سو سال بعد ہے، اور یہ رومی بادشاہ کونسٹنٹین کے عیسائی ہونے کے بعد تھا جو کہ سال 312 میں عیسائی ہوا، جسکے بعد رومی سلطنت میں عیسائیوں پر ظلم ختم ہوا اور پھر مشرکین روم کو عیسائی کرنے کیلئے بہت سے طریقے اپنائے گئے جسکی وجہ سے عیسائیت میں تثلیث کا عقیدہ بھی شامل کیا گیا وغیرہ۔ مگر عیسائیوں سے قبل رومی مشرک ایک تہوار مناتے تھے جسکو Saturnalia کہا جاتا تھا جو سورج کے خدا کی پیدائس کی مناسبت سے منایا جاتا تھا، اور ایسے ہی شمالی یورپ میں کچھ مشرک رومی ایک Yule نامی تہوار اس ہی تاریخ کو مناتے تھے۔ اور پچیس دسمبر کو رومی winter solstice مناتے تھے جس تاریخ کو پورے سال میں رات سب سے لمبی اور دن سب سے چھوٹا ہوتا تھا۔ تو عیسائیوں نے ان مشرکانہ تہواروں کو عیسائیت میں شامل کرلیا، سورج کے خدا کی پیدائش کا دن خدا کے بیٹے کی پیدائش کا دن بن گیا، تاکہ ان مشرکین کیلئے عیسائیت میں داخل ہونا زیادہ آسان ہوجائے، بہر حال ان تہواروں کے شامل ہونے سے عیسائیت کو ایسے زخم پہنچے جو آج تک نہ بھر سکے۔ تو یہ نام Christmas ایسے ایجاد ہوا کیونکہ یونانی زبان میں Christos (Χριστός) کا مطلب ہوتا ہے مسیح، یا عبرانی میں مشیخ (מָשִׁיחַ)۔ پرانی انگریزی کے لفظ Cristemasse سے کرسمس نکلا ہے جسکو جدید انگریزی میں Christ’s Mass کہتے ہیں یعنی میسح کیلئے جمع ہونے کا دن۔ مگر ہمیں بھی عیسی علیہ السلام کو مسیح کہنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ انکو قرآن نے اس سے ہی ملقب کیا ہے، بطور مثال آیت ہے: إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّـهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ۔
 
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک ہزار سال تک کرسمس ایک بہت پرتشدد دن رہا جس دن نشے میں آکر لوگ جمع ہوکر تباہی کرتے تھے شہروں میں آکر، اور امیر لوگوں کے گھر جاکر ان سے اچھے کھانے کھلوانے کا مطالبہ کرتے تھے اور اگر یہ خواہش پوری نہ کی جائے تو قتل و غارت کی دھمکی دیتے تھے۔ یعنی کرسمس کے دن ایک ہزار سال تک ظلم اور تشدد کا سلسلہ رہا، جبھی جب عیسائی puritans امریکہ آئے انہوں نے باقاعدہ کرسمس منانے پر پابندی لگا دی، یعنی امریکہ میں کرسمس منائی ہی نہیں جاتی تھی اور پابندی عائد تھی۔ حتی کہ اگر کوئی کرسمس مناتا تو اسکو جرمانہ دینا ہوتا تھا۔ پھر انیسویں صدی میں مزید عیسائی مہاجرین امریکہ آئے جو کرسمس کی ایک نئی ثقافت لائے اور یہ موجودہ کرسمس کا کلچر ہے جو آج ہم مغرب میں دیکھتے ہیں جو کہ سب سے پہلے امریکہ میں مروجہ ہوا۔ اور پھر آج کی کرسمس ہمارے سامنے آئی جو اب ہم دیکھتے ہیں کہ منائی جاتی ہے۔ مگر خلاصہ یہی ہے کہ کسی کو نہیں معلوم حضرت عیسی علیہ السلام کی اصل یوم ولادت کیا تھی، پچیس دسمبر کو انکی پیدائش کا دن منانے کی جڑیں مشرکانہ تہواروں میں ہیں اور ایک ہزار سال تک عیسائی بھی اس دن کو برا سمجھتے رہے ہیں۔ ہاں اگر کوئی عیسائی پچیس دسمبر کو کرسمس منائے تو ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے اور ہم اسکو مبارکباد بھی دے دیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، مگر اس دن کو حتمی طور پر حضرت عیسی علیہ السلام کا یوم ولادت نہیں مانا جا سکتا جبکہ ہمیں انکا پیدائش کا سال بھی حتمی طور پر نہیں معلوم اور نہ ہمارے سامنے کوئی قرائن ہیں اسکو اس طرح سے قبول کرنے کے۔ آخر میں یہ آیت ضرور نقل کروں گا: قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ۔ کہو، اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم الله ﷻ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی الله ﷻ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے۔
 
أحقر: سيد علي أصدق نقوي
اللهم صل على محمد ﷺ وآله

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات