ایک روایت پر تحقیق : وضو میں پاؤں کا دھونا
*_انجینئیر محمد علی مرزا صاحب کے شاگرد خاص علی الاحسن نقوی صاحب کا ایک سوال اور اس پہ میرا اسی نقطہ پر رہتے ہوئے مختصرا جواب_*
*تحریر: فخر عباس زائر اعوان*
*علی الاحسن نقوی* صاحب نے وضو پر ایک روایت نقل کرتے ہوئے ایک اعتراض کیا اور اس کا مجھ سے جواب طلب کیا
علی صاحب کی تحریر کی ہیڈنگ کچھ یوں ہے ""کیا اثنا عشری امامی شیعہ کی متفقہ صحیح السند حدیث مبارکہ میں واضح لکھا ہے کہ سیدنا حضرت رسول الله صل الله علیہ و علی آلہ و بارک و سلم نے حضرت سیدنا امام مولا علی علیہ السلام کو وضو کا عملی طریقہ خود سکھایا تھا اور دونوں پیروں کو دھونے کا حکم دیا تھا؟"""
اور اس کے ضمن میں الفقیہ ، تہذیب الاحکام و الاستبصار سے ایک روایت پیش کی اور ساتھ میں مراۃ العقول کا بھی حوالہ دیا ۔
پہلے اس اس روایت پر آتے ہیں اور اس کی تصحیح پر جو علی الاحسن صاحب نے ""صحیح السند"" کہہ کے نقل کی
فأما ما رواه محمد بن الحسن الصفار، عن عبيد الله بن المنبه، عن الحسين بن علوان، عن عمرو بن خالد ، عن زيد بن علي، عن آبائه، عن علي (ع) قال : جلست أتوضأ فأقبل رسول الله (ص) حين ابتدأت في الوضوء، فقال لي : تمضمض واستنشق واستن، ثم غسلت ثلاثاً فقال: قد يجزيك من ذلك المرتان، فغسلت ذراعي ومسحت برأسي مرتين، فقال : قد يجزيك من ذلك المرة، وغسلت قدمي، فقال لي : يا علي خلل بين الأصابع لا تخلل بالنار
اردو ترجمہ:
حضرت زید بن علی اپنے آباؤ اجداد رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت کرتے ہیں ۔ کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں ایک دفعہ بیٹھا وضو کر رہا تھا کہ اتنے میں حضور صلی الہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے۔ ابھی میں نے وضو شروع ہی کیا تھا۔ تو آپ صل الله علیہ و علی آلہ و بارک و سلم نے ارشاد فرمایا کلی کرو اور ناک میں پانی ڈال کر صاف کرو۔ پھر میں نے تین مرتبہ منہ دھویا۔ اس پر آپ نے فرمایا۔ دو دفعہ ہی کافی تھا۔ پھر میں نے اپنے دونوں بازو دھوئے۔ اور اپنے سر کا دو مرتبہ مسح کیا۔ آپ نے فرمایا ایک دفعہ ہی کافی تھا۔ پھر میں نے اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ آپ نے فرمایا ۔ اے علی! انگلیوں کے درمیان خلال۔ اللہ تمہیں اگ کے خلال سے بچائے ۔
تهذيب الأحكام - الشيخ الطوسي - ج ١ - الصفحة ١٨
من لايحضره الفقيه جلد ۱ ش ۳۳۱۲
مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول المؤلف : العلامة المجلسي الجزء : 13 صفحة : 113
الاستبصار - الشيخ الطوسي - ج 1 - الصفحة 65 – 66
مصباح الفقيه - ط.ق المؤلف : الهمداني، آقا رضا الجزء 1
صفحة 171
وسائل الشيعة (الإسلامية) - الحر العاملي - ج 1 - الصفحة 296 – 297
تهذيب الأحكام المؤلف : شيخ الطائفة الجزء 1 الصفحہ 93
_*پہلے ہم اس روایت کے مین مآخذ کے مصنف کے قول پر بات کرتے ہیں*_
*شیخ طوسی رح اس روایت کو "الاستبصار " میں نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:*
فهذا خبر موافق للعامة وقد ورد مورد التقية لان المعلوم الذي لا يتخالج فيه الشك من مذاهب أئمتنا عليهم السلام القول بالمسح على الرجلين وذلك أشهر من أن يدخل فيه شك أو ارتياب ، بين ذلك أن رواة هذا الخبر كلهم عامة ورجال الزيدية وما يختصون بروايته لا يعمل به على ما بين في غير موضع ۔
"" یہ روایت عامہ یعنی اہلسنت کے موافق ہے اور تقیہ کے ضمن میں وارد ہوئی ہے کیونکہ جو معلوم ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے آئمہ علیھم السلام کے مذہب پاوں پر مسح کرنے کا قول ہے۔ اور اسی طرح مشہور ہے کہ اس میں کوئی شک یا شبہ داخل نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خبر کے راوی سب عامی(اہلسنت) ہیں، اور زیدیہ کے آدمی اور جو روایت کرتے ہیں، ان پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ جس پر کہیں اور واضح کیا گیا ہے۔""
*شیخ طوسی رح اس روایت کو "تہذیب الاحکام " میں نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:*
فهذا الخبر موافق للعامة قد ورد مورد التقية لان المعلوم من مذهب الأئمة عليهم السلام مسح الرجلين في الوضوء دون غسلهما وذلك أشهر من أن يختلج أحدا فيه الريب وإذا كان الامر على ما قلناه لم يجز ان تعارض به الاخبار التي قدمناها ولا ظاهر القرآن . ثم قال أيده الله تعالى : ( فان نسي تنظيف رجليه بالغسل قبل الوضوء أو أخره لسبب من الأسباب فليجعل بينه وبين وضوئه مهلة ويفرق بينهما بزمان قل أو كثر ولا يتابع بينه ليفصل الوضوء المأمور به من غيره ) . فقد مضى شرحه وما في معناه . ثم قال أيده الله تعالى : ( وليس في مسح الاذنين سنة ولا فضيلة ومن مسح ظاهر اذنيه وباطنهما فقد أبدع ) . فالذي يدل عليه ان غسل الأعضاء في الطهارة ومسحها حكم شرعي فينبغي أن يتبع في ذلك دليلا شرعيا وليس في الشرع ما يدل على وجوب مسح الاذنين في الوضوء ومن أثبت في الشريعة حكما من غير دليل شرعي فهو مبدع بلا خلاف بين المسلمين ،
"" یہ روایت عامہ یعنی اہلسنت کے موافق ہے اور تقیہ کے مورد میں ہے چونکہ جو تو واضح ہے کہ ائمہ علیھم السلام کا جو مذہب ہے وہ وضو کے دوران پاوں پہ مسح کرنا ہے نا کہ ان کو دھونا اور یہ بات اس قدر مشہور ہے کہ کوئی اس میں شک نہیں کر سکتا اور جب آپ کو یہ بات معلوم ہو گئی تو ہم کہتے ہیں کہ اس کے بعد کسی قسم کا کوئی روایات جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ان کے ساتھ تعارض پیدا نہیں ہوتا اور نا ہی ظاہر قرآن کیساتھ کوئی یہاں پر تعارض پیدا ہو گا۔
شیخ طوسی رح فرماتے ہیں : اگر کوئی وضو سے پہلے یا آخر میں نظافت کیلئیے پاوں دھونا بھول جائے تو پاوں کے اس دھونے اور وضو کے درمیان فاصلہ رکھے ، ان دونوں کے درمیان (پاوں سے میل کچیل صاف کرنے اور وضو کے درمیان) مہلت قائم رکھے تا کہ ان دونوں کے درمیان تھوڑے یا زیادہ وقفہ کی جدائی ہو جائے اور ان دونوں کے درمیان متابعت نا ہو تا کہ فاصلہ ہو جائے اس وضو کا کہ جس کا حکم دیا گیا ہے اس کے علاوہ سے۔ اس کی وضاحت اور معنی گزر چکے ہیں""۔
*اسی روایت کے حوالوں میں سے ایک حوالہ وسائل الشیعہ کا بھی دیا گیا جبکہ علامہ حر عاملی رح نے وسائل الشیعہ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد شیخ ظوسی رح کا الاستبصار کا قول نقل کیا اور کہا*
أقول : وقد تواتر ذلك كما في أحاديث كيفية الوضوء وغيرها ، وهذا يحتمل النسخ ويكون نقله للتقية ، ويحتمل كون الغسل للتنظيف لا من الوضوء ۔
میں کہتا ہوں: یہ بات جیسا کہ احادیث میں کیفیت وضو وغیرہ تواتر کیساتھ نقل ہوئی ہے۔ اور اسے منسوخ پر حمل کیا جائے گا اور تقیہ کے طور پر نقل کیا گیا ہے۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ دھونا صفائی کے لیے ہو نہ کہ وضو کے لیے""
علی الاحسن صاحب نے مراۃ العقول کا حوالہ دیا جبکہ یہ روایت الکافی یا مراۃ العقول میں ہے ہی نہیں ۔
*_اب آتے ہیں اس روایت کی سند پر ۔ سند کچھ یوں ہے: فاما ما رواه محمد بن الحسن الصفار عن عبد الله بن المنبه عن الحسين بن علوان عن عمرو بن خالد عن زيد بن علي عن آبائه عن علي عليهم السلام قال :_*
1: سند میں پہلا راوی جس پہ اعتراض ہے وہ ہے عبد اللہ بن المنبہ کہ جس بارے شیعہ مآخذ کتب رجال میں تذکرہ نہیں ملتا جیسا کہ سید خوئی رح نے بھی ذکر کیا ،سوائے اس کے کہ شیخ طوسی رح نے اس سند میں اہلسنت و زیدی رواۃ کا تذکرہ کیا ہے جیسا کہ آقا تفرشی رح نے *"نقد الرجال"" جلد:3 ، رقم:3216* میں نقل کیا ہے
عبد الله بن المنبه : ذكر الشيخ في الاستبصار في باب ( وجوب المسح على الرجلين ) حديثا وفيه عبد الله بن المنبه ، وقال : دواء هذا الخبر كلهم عامة ورجال الزيدية۔
اور یہ راوی مجھول بھی ہے کہ جس کی وثاقت پر کوئی قول موجود نہیں۔
2: دوسرا راوی *حسین بن علوان* ہے کہ جس کے بارے شیخ نجاشی رح اپنی کتاب الرجال رقم:116 میں کہتے ہیں : ""مولاهم كوفي عامي"" یعنی یہ عامہ اہلسنت میں سے تھا
اور شیخ کشی رح رقم:733 میں لکھتے ہیں : ""والحسين بن علوان ، والكلبي ، هؤلاء من رجال العامة"" حسین بن علوان اور کلبی ، یہ اہلسنت میں سے تھے""
3: تیسرا راوی *عمرو بن خالد* ہے کہ جس کے بارے شیخ کشی رح اپنی رجال رقم:419 میں کہتے ہیں: ""عمرو بن خالد وكان من رؤساء الزيدية"" عمرو بن خالد زیدیہ کے سرداروں میں سے تھا۔
اور شیخ طوسی رح نے اپنی رجال رقم:1534 میں ان کو "بتری" کہا جو زیدیہ کا ہی ایک فرقہ ہے ۔
علی الاحسن صاحب سے گزارش ہے کہ جب مین مآخذ سے روایت نقل کی جا رہی ہے تو اس روایت بارے اس مصنف کی رائے بھی لازمی نقل کی جانی چاھئیے کہ شیخ طوسی رح نے تو اس روایت کو رد کیا ہے کہ اول یہ روایت اہلسنت کے موافق ہے دوسرا اس میں اہلسنت و زیدی راوی ہیں تو بھلا احادیث کے اجماع کے مقابل ایک ایسی روایت جس کی سند ہی ضعیف اور اہلسنت و امامی مخالف رواۃ پر مشتمل ہے تو ایک ضعیف و مخالف مذھب رواۃ کی روایت کو خود سے "صحیح السند" کہہ کر متواترات پر تھونپنا کس قاعدہ کے تحت ہے؟ جبکہ امامیہ اثنا عشریہ میں قرآن کی آیت کے بعد متواتر احادیث کا اجماع ہے کہ پاوں پر مسح کرنا ہی ائمہ علیھم السلام کا مذھب ہے۔
علی الاحسن صاحب نے ایک مجھول و مخالف مذھب روایت کو صحیح السند کہہ کے جواب تو طلب کیا لیکن تبرکا ہماری طرف سے بھی ایک روایت قبول کیجئیے
*اہلسنت امام ابو داود طیالسی اپنی "المسند" جلد:1، رقم:141 میں نقل کرتے ہیں*
١٤١ - حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ ، يَقُولُ: «صَلَّى عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ الظُّهْرَ فِي الرَّحَبَةِ ثُمَّ جَلَسَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ حَتَّى حَضَرَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ أُتِيَ بِكُوزٍ مِنْ مَاءٍ، فَصَبَّ مِنْهُ كَفًّا فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَمَسَحَ عَلَى رَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ،
امام طیالسی کہتے ہیں کہ امام علی ع نے عصر کیلئیے وضو کیا اور اپنے چہرہ و ہاتھوں کو دھویا اور سر و اوں کا مسح کیا
اس کتاب کے محقق الدکتور محمد بن عبد المحسن التُرکی نے اس روایت کی *""سند کو صحیح ""* کہا ہے
جبکہ اہلسنت امام البخاري نے اپنی *صحیح رقم:5616* میں اسی روایت کے متن میں لفظ"مسح" کو حذف کردیا ۔ جبکہ طیالسی و بخاری کی سند ایک ہے جسکی نشاندہی ابن حجر نے *"الفتح الباری" جلد:10 ، صفحہ:71* ، اور بد الدین العینی نے *"عمدۃ القاری: جلد:21 ، صفحہ:191* میں بھی کی ہے ۔ البخاری کی عبارت کچھ یوں ہے
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابودَاود، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ المَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ، سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: "أَنَّهُ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ قَعَدَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ فِي رَحَبَةِ الكُوفَةِ، حَتَّى حَضَرَتْ صَلاَةُ العَصْرِ، ثُمَّ أُتِيَ بِمَاءٍ، فَشَرِبَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَذَكَرَ رَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ،
وضو پر طویل بحث کی بجائے فقط علی الاحسن صاحب کے اعتراض تک ہی رہتے ہوئے آخر میں مختصرا اہلسنت کے مشہور محقق عالم ابن حزم کا وضو بارے قرآن کی آیت کے ضمن میں ایک اقرار کہ قرآن میں پاوں کے مسح کا ذکر ہے اور اصحاب کی ایک جماعت جس میں امام علی علیہ السلام بھی شامل ہیں اور اس بات کی دلیل کیلئیے چند احادیث بھی نقل کیں، کو ذکر کرتے ہوئے بحث کو تمام کروں گا
*ابن حزم متوفا 456 ہجری اپنی کتاب "المحلٰی" جلد:2 ، صفحہ:56 میں لکھتے ہیں*
http://shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/1029_%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AD%D9%84%D9%89-%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%AD%D8%B2%D9%85-%D8%AC-%D9%A2/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_56
""* 200 - مسألة - وأما قولنا في الرجلين فان القرآن نزل بالمسح، قال الله تعالى (وامسحوا برءوسكم وأرجلكم) وسواء قرئ بخفض اللام أو بفتحها هي على كل حال (1) عطف على الرؤوس: إما على اللفظ وإما على الموضع، لا يجوز غير ذلك، لأنه لا يجوز أن يحال بين المعطوف والمعطوف عليه بقضية مبتدأة. وهكذا جاء عن ابن عباس: نزل القرآن بالمسح - يعني في الرجلين في الوضوء * وقد قال بالمسح على الرجلين جماعة من السلف، منهم علي بن أبي طالب وابن عباس والحسن وعكرمة والشعبي وجماعة غيرهم، وهو قول الطبري، ورويت في ذلك آثار * منها أثر من طريق همام عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة ثنا علي بن يحيى بن خلاد عن أبيه عن عمه - هو رفاعة بن رافع - أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (انها لا يجوز صلاة أحدكم حتى يسبغ الوضوء كما أمره الله عز وجل ثم يغسل وجهه ويديه إلى المرفقين ويمسح رأسه ورجليه إلى الكعبين) * وعن إسحاق بن راهويه ثنا عيسى بن يونس (2) عن الأعمش عن عبد خير عن علي (كنت أرى باطن القدمين أحق بالمسح حتى رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح ظاهرهما)""
""پاوں کے مسح کے بارے میں ہم نے جو کہا تھا ،تو اس لئے کہ قرآن میں پائوں کے مسح کاحکم ہے.اللہ تعالیٰٰ کاارشاد ہے کہ(اورتم مسح کرو اپنے سروں کا اور اپنے پائوں کا" (سورہ مائدہ ،6"
ارجل کے لام کو خواہ فتحہ کے ساتھ پڑھاجائے یاکسرہ کے ساتھ ، یہ ہر حال میں روس پر عطف ہے کیونکہ معطوف اور معطوف علیہ کے مابین کوئی نیا قضیہ حائل نہیں ہو سکتا.
ابن عباس رض سے بھی منقول ہے کہ قرآن مجید میں پاوں کے مسح کا حکم نازل ہوا ہے *_.یہی وجہ کہ سلف میں سے ایک جماعت پاوں کے مسح کی قائل ہے.مثلا` حضرت علی علیہ السلام ، ابن عباس ، حسن بصری ،،عکرمہ ، شعبی اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے حضرات،امام طبری کا قول بھی یہی ہے.اس سلسلے میں کئ آثار بھی منقول ہیں۔_*
چنانچہ ایک اثر بطریق ہمام از اسحاق بن عبد اللہ از علی بن یحییٰٰ از پدر خود بیان کیا ہے کہ حضرت رفاعہ بن رافع سے روایت ہے کہ انھوں نے *_آنحضرت (ص) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اس وقت تک تم میں سے کسی کی نماز درست نہیں ،،جب تک کہ وہ اس طرح اچھے طریقے سے وضو نہ کر لے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ،پھر اپنے چہرے کو دھوئے ،پھر ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوئے اور پھر سر کا اور پائوں کا ٹخنوں تک مسح کرے_* ""
وسلام
Comments
Post a Comment