حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر 120 سال
حدیث: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر 120 سال ہونے کے بارے میں روایت کی جرح
قادیانی حضرات "کنز العمال" میں مذکور اس روایت کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام 120 سال زندہ رہے اور پھر وفات پا گئے، حالانکہ اس روایت کی سند اور متن دونوں پر شدید علمی نقد موجود ہے۔
1. روایت کی اسناد کا تجزیہ (سند کی جرح)
یہ روایت مختلف کتب میں مختلف اسناد کے ساتھ منقول ہوئی ہے، مگر بنیادی طور پر ابن سعد، حلیة الاولیاء، مستدرک حاکم، طبرانی اور دیلمی میں پائی جاتی ہے۔
الف) ابن سعد کی روایت (بروایت یحییٰ بن جعدہ)
🔹 سند:
یہ روایت ابن سعد نے یحییٰ بن جعدہ سے مرسلاً بیان کی ہے، یعنی اس میں کوئی صحابی مذکور نہیں، بلکہ تابعی براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر رہا ہے۔
🔹 جرح:
1. یحییٰ بن جعدہ تابعی ہیں، مگر ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سماع ثابت نہیں، اس لیے یہ مرسل روایت ہے، جو اصولِ حدیث کے مطابق ضعیف شمار ہوتی ہے۔
2. امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، اور دیگر محدثین کے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں ہوتی، خاص طور پر عقائد میں۔
3. مرسل روایت کو قبول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی صحیح روایت سے تقویت پائے، مگر یہ روایت کسی صحیح روایت سے تقویت نہیں پاتی بلکہ دیگر ضعیف یا مرسل طرق میں ہی منقول ہے۔
ب) حلیة الاولیاء کی روایت (بروایت زید بن ارقم)
🔹 سند:
یہ روایت حلیة الاولیاء میں زید بن ارقم کی سند سے مروی ہے، مگر اس میں بھی کئی کمزور راوی موجود ہیں۔
🔹 جرح:
1. امام ابو نعیم (مصنفِ حلیة الاولیاء) نے کئی ضعیف اور غیر معروف روایات اپنی کتاب میں نقل کی ہیں، اس لیے اس کتاب میں موجود روایات پر تحقیق ضروری ہوتی ہے۔
2. یہ روایت دیگر طرق میں مرسل اور ضعیف ہے، لہذا اس کی سند بھی ضعیف ہے۔
ج) مستدرک حاکم کی روایت (بروایت علی رضی اللہ عنہ)
🔹 سند:
یہ روایت مستدرک حاکم میں منقول ہے، مگر اس کی سند میں بعض کمزور راوی موجود ہیں۔
🔹 جرح:
1. امام حاکم بعض اوقات ضعیف روایات کو صحیح کہہ دیتے ہیں، اس لیے ان کی تصحیح پر محدثین کا متفق ہونا ضروری ہوتا ہے، جبکہ اس روایت کو امام ذہبی، ابن حجر، اور دیگر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
2. اس روایت میں موجود کئی الفاظ دیگر صحیح احادیث سے متصادم ہیں، خاص طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی اور نزولِ ثانی سے متعلق احادیث سے
د) طبرانی کی روایت (بروایت فاطمہ الزہراء)
🔹 سند:
یہ روایت امام طبرانی نے فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے، مگر اس کی سند بھی ضعیف ہے۔
🔹 جرح:
1. اس روایت کی سند میں "نامعلوم راوی" (مجہول) موجود ہیں، جو کہ روایت کو ضعیف بنا دیتے ہیں۔
2. امام طبرانی خود کہتے ہیں کہ ان کی کئی روایات ضعیف ہیں اور مکمل تحقیق کے بغیر ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
3. اس روایت کا مضمون بھی دیگر ضعیف یا مرسل روایات سے اخذ کیا گیا معلوم ہوتا ہے، جو اس کے ضعف کو مزید بڑھاتا ہے
ہ) دیلمی کی روایت (بروایت عائشہ رضی اللہ عنہا)
🔹 سند:
دیلمی کی روایت سند کے لحاظ سے نہایت کمزور ہے اور ضعیف راویوں پر مشتمل ہے۔
🔹 جرح:
1. دیلمی کی کتب میں اکثر روایات ضعیف یا موضوع (من گھڑت) ہوتی ہیں، اس لیے ان پر تنہا اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
2. اس روایت کی سند میں راویوں کی حالت مشکوک ہے، اور دیگر صحیح احادیث سے اس کی کوئی تصدیق نہیں ملتی
2. روایت کے متن پر جرح (متن کا تجزیہ)
1. یہ روایت قرآن اور صحیح احادیث کے خلاف ہے۔
قرآن (سورۃ النساء 4:157-158) کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا، نہ کہ وہ 120 سال تک زمین پر رہے۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم کی متعدد احادیث حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کو بیان کرتی ہیں، جو ثابت کرتا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور ابھی دنیا میں واپس آئیں گے۔
2. یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کے بارے میں موجود دیگر صحیح احادیث سے متصادم ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "میری عمر ساٹھ سے ستر کے درمیان ہوگی اور میری امت کی عمر بھی عموماً ایسی ہی ہوگی" (سنن ترمذی، حدیث: 3550)۔
اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق "ستّر سال" کا ذکر ہے، جو دیگر صحیح روایات سے میل نہیں کھاتا۔
3. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی 120 سالہ عمر کا دعویٰ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
اگر یہ بات واقعی صحیح ہوتی، تو صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، ترمذی، اور دیگر کتب میں اس کا ذکر ضرور ہوتا، مگر ایسا نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ روایت ضعیف یا من گھڑت ہے اور اسے کسی بھی مضبوط عقیدے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
3. خلاصۂ جرح
✅ یہ روایت ضعیف، مرسل اور ناقابلِ اعتماد ہے، کیونکہ:
1. سند میں مرسل اور ضعیف راوی موجود ہیں۔
2. یہ روایت قرآن و حدیث کے صریح دلائل سے متصادم ہے۔
3. اس روایت کی تصدیق کسی بھی صحیح حدیث سے نہیں ہوتی۔
4. محدثین نے اس روایت کو ضعیف یا موضوع قرار دیا ہے۔
Comments
Post a Comment