تراویح کی بابت فرقۂ زیدیہ کا تناقض

تراویح کی بابت فرقۂ زیدیہ کا تناقض

بقلم: سید علی اصدق نقوی

صلات تراویح کا مسئلہ مکاتب اسلامیہ کے مابین فروعات بالخصوص عبادات میں اہم مسائل میں شمار ہوتا ہے۔ اہل تسنن کے یہاں تراویح ہر ماہ رمضان کے معمولات میں سے ہے اور اس کو جائز بلکہ مستحب شمار کیا جاتا ہے گرچہ اہل تسنن سے منسلک مکاتب میں اس کی رکعات اور دیگر جزئیات میں اختلاف ممکن ہے۔ جبکہ اہل تشیع سے منسلک مکاتب جو تاریخ کے ساتھ منقرض نہ ہوئے بلکہ آج موجود ہیں (اثنا عشریہ، اسماعیلیہ اور زیدیہ) کے یہاں تراویح کو بدعت اور ناجائز سمجھا جاتا ہے اور اس کے شواہد وہ کتب اہل سنت سے بھی پیش کرتے ہیں۔ اثنا عشریہ کا موقف تو واضح ہے اور اس پر ان کی کتب میں متواتر اخبار ہیں جس سبب ان کا اعادہ یہاں غیر ضروری ہے (1)۔ پس اثنا عشریہ کے یہاں ائمۂ اہل بیت علیہم السلام سے تراویح کے جماعت میں عدم جواز اور اس کی ممانعت پر مذمت پر احادیث کثیرہ ہیں۔ اثنا عشریہ کے علاوہ اسماعیلیہ کی کتب میں بھی ائمہ علیہم السلام سے تراویح کو بدعت محرمہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ قاضی نعمان مغربی نے روایت کیا ہے:

وعن أبي جعفر محمد بن علي صلوات الله عليه أنه دخل مسجد النبي (صلع)، وابن هشام يخطب يوم جمعة من شهر رمضان وهو قول: هذا شهر فرض الله عز وجل صيامه، وسن رسول الله (صلع) قيامه، فقال أبو جعفر: كذب ابن هشام، ما كانت صلاة رسول الله (صلع) في شهر رمضان إلا كصلاته في غيره.
وعن أبي عبد الله جعفر بن محمد صلوات الله عليه أنه قال: صوم شهر رمضان فريضة، والقيام في جماعة في ليله بدعة، وما صلاها رسول الله (صلع) ولو كان خيرا ما تركها، وقد صلى في بعض ليالي شهر رمضان وحده (صلع)، فقام قوم خلفه فلما أحس بهم دخل بيته، ففعل ذلك ثلث ليال، فلما أصبح بعد ثلث ليال صعد المنبر فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: أيها الناس، لا تصلوا غير الفريضة ليلا في شهر رمضان ولا في غيره في جماعة، إن الذي صنعتم بدعة، ولا تصلوا ضحى، فإن الصلاة ضحى بدعة، وكل بدعة ضلالة، وكل ضلالة سبيلها إلى النار، ثم نزل وهو يقول: عمل قليل في سنة خير من عمل كثير في بدعة.
وقد روت العامة مثل هذا عن رسول الله (صلع)، وإن الصلاة نافلة في جماعة في ليل شهر رمضان لم تكن في عهد رسول الله (صلع)، ولم تكن في أيام أبى بكر ولا في صدر من أيام عمر حتى أحدث ذلك عمر فاتبعوه عليه، وقد رووا نهى رسول الله (صلع) نعوذ بالله من البدعة في دينه وارتكاب نهى رسول الله (صلع).

اور (روایت ہے) امام ابو جعفر محمد بن علی صلوات اللہ علیہ سے کہ وہ مسجدِ نبوی (صلع) میں داخل ہوئے، اور ابنِ ہشام جمعے کے دن ماہِ رمضان میں خطبہ دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا: ’’یہ وہ مہینہ ہے جس کے روزے اللہ عز وجل نے فرض کیے ہیں، اور اس کے قیام (تراویح) کو رسول اللہ (صلع) نے سنت قرار دیا ہے۔‘‘ تو ابو جعفر (ع) نے فرمایا: ’’ابنِ ہشام نے جھوٹ کہا، رسول اللہ (صلع) کی نماز (عبادت) ماہِ رمضان میں ایسی ہی تھی جیسے دیگر مہینوں میں ہوتی تھی (یعنی کوئی مخصوص جماعتی قیام نہیں تھا)۔‘‘

اور (روایت ہے) امام ابو عبد اللہ جعفر بن محمد صلوات اللہ علیہ سے کہ انہوں نے فرمایا: ’’ماہِ رمضان کے روزے فرض ہیں، اور اس کی رات میں جماعت کے ساتھ قیام کرنا بدعت ہے، اور رسول اللہ (صلع) نے یہ نماز کبھی نہیں پڑھی، اور اگر یہ کوئی خیر (نیکی) ہوتی تو آپ (صلع) اسے ہرگز نہ چھوڑتے۔ ہاں، آپ (صلع) نے ماہِ رمضان کی بعض راتوں میں تنہا نماز پڑھی، تو کچھ لوگ آپ (صلع) کے پیچھے کھڑے ہو گئے، جب آپ (صلع) نے ان کے پیچھے کھڑے ہونے کو محسوس کیا تو اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ یہ عمل آپ (صلع) نے تین راتوں تک کیا۔ جب تیسری رات کے بعد صبح ہوئی تو آپ (صلع) منبر پر چڑھے اور اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: ’’اے لوگو! رمضان کے مہینے میں اور نہ ہی غیر رمضان میں رات کے وقت فرض نماز کے علاوہ کسی اور نماز کو جماعت کے ساتھ ادا نہ کرو۔ بے شک جو عمل تم نے کیا یہ بدعت ہے، اور چاشت (اشراق) کی نماز نہ پڑھو، کیونکہ چاشت کی نماز بھی بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی کا انجام آگ ہے۔‘‘
پھر منبر سے اترتے ہوئے فرما رہے تھے: ’’سنت کے مطابق تھوڑا عمل کرنا بدعت میں زیادہ عمل کرنے سے بہتر ہے۔‘‘

اور عامہ (اہلِ سنت) نے بھی رسول اللہ (صلع) سے اسی مفہوم کی روایت نقل کی ہے کہ ماہِ رمضان کی راتوں میں نفل نمازوں کو جماعت سے ادا کرنا رسول اللہ (صلع) کے زمانے میں نہ تھا، اور نہ ہی ابو بکر کے زمانے میں، اور نہ ہی عمر کے ابتدائی دور میں، یہاں تک کہ عمر نے اس عمل کو ایجاد کیا اور لوگ ان کے پیچھے چل پڑے۔ حالانکہ یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلع) نے دین میں بدعت سے اللہ کی پناہ مانگی اور اپنے منع کردہ کام کو اختیار کرنے سے روکا (2)۔

اب جب ہم زیدیہ کی کتب کی طرف رجوع کرتے ہیں تو کوئی شک نہیں کہ ان کے یہاں تراویح کے بدعت اور حرام ہونے پر اہل بیت علیہم السلام کی احادیث مروی ہیں جیسا کہ بیان ہوا ہے:

(صلاة التراويح) [والدليل على نسخها ] قال في الجامع الكافي قال القاسم عليه السلام ايضا فيما حدثنا علي بن هرون عن أحمد بن سهل عن عثمان بن محمد القومسي قال: سألت القاسم بن ابراهيم عن القيام في شهر رمضان جماعة: فقال لا نعرفها. وذكر عن علي عليه السلام أنه نهى عن ذلك. وفيه أيضا قال الحسن بن يحيى عليهما السلام: أجمع ال رسول اللّٰه صلى الله عليه وآله وسلم على أن التراويح ليست بسنة من رسول اللّٰه صلى الله عليه وآله وسلم ولا من أمير المؤمنين (عليه السلام) وأنَّ عليا (عليه السلام) نهى عنها .

(نمازِ تراویح) [اور اس کے منسوخ ہونے کی دلیل:]  ’’جامع کافی‘‘ میں آیا ہے کہ (زیدی امام) قاسم علیہ السلام نے بھی کہا، جیسا کہ ہمیں علی بن ہارون نے احمد بن سہل سے، اور انہوں نے عثمان بن محمد القومسی سے روایت کیا، کہ: میں نے (زیدی امام) قاسم بن ابراہیم سے ماہِ رمضان میں جماعت کے ساتھ قیام (نمازِ تراویح) کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: ’’ہم اس (عمل) کو نہیں جانتے (یعنی یہ ہمارے نزدیک مشروع نہیں ہے)۔‘‘ اور ذکر کیا کہ علی علیہ السلام نے اس سے منع فرمایا تھا۔  اور اسی کتاب میں یہ بھی آیا ہے کہ حسن بن یحییٰ علیہما السلام نے کہا: ’’آلِ رسول اللہ علیہم السلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تراویح رسول اللہ (ص) کی سنت نہیں ہے، اور نہ ہی امیرالمومنین (علیہ السلام) کی سنت ہے، بلکہ علی علیہ السلام نے تو اس سے منع فرمایا تھا۔‘‘  اگر چاہو تو میں اس کا خلاصہ یا شرح بھی کر سکتا ہوں تاکہ مفہوم مزید واضح ہو (3)۔

و ایضاً ایک زیدی فقہی کتاب میں آتا ہے:

وَأَمَّا التَّرَاوِيحُ فَمَنْدُوبَةٌ لِلْمُنْفَرِدِ ( ش ) صَلَاةُ الْمُنْفَرِدِ أَحَبُّ إلَيَّ ( هـ ) فَأَمَّا التَّجْمِيعُ فِيهَا بِدْعَةٌ لِقَوْلِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ "صَلَاةُ الضُّحَى بِدْعَةٌ ، وَصَلَاةُ النَّوَافِلِ فِي رَمَضَانَ جَمَاعَةً بِدْعَةٌ ( ح ك ى مد ) بَلْ قُرْبَةٌ ( ابْنُ سُرَيْجٍ وَغَيْرُهُ ) وَأَفْضَلُ مِنْ الِانْفِرَادِ ، لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ { عَرَفْتُ اجْتِمَاعَكُمْ } الْخَبَرَ ، وَلِفِعْلِ إذْ أَخْرَجَ الْقَنَادِيلَ لَهَا ، وَتَصْوِيبُ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ إيَّاهُ ، وَلِفِعْلِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، وَلِقَوْلِ عُمَرَ : وَنِعْمَتْ الْبِدْعَةُ ."   قُلْت : كَلَامُ عَلِيٍّ أَصْرَحُ وَأَرْجَحُ لِلْحَظْرِ ، وَكُلُّ مَا ذَكَرُوا مُحْتَمَلٌ ، وَتَصْوِيبُهُ التَّجْمِيعَ مَعَ أُبَيٍّ يَحْتَمِلُ كَوْنُهُ فَرِيضَةً

اور رہا تراویح کا معاملہ تو (شافعی) کے نزدیک (یہ) تنہا پڑھنے والے کے لیے مستحب ہے، (اور) اہل بیت کے نزدیک:  نزدیک تنہا (انفرادی) نماز پڑھنا زیادہ پسندیدہ ہے۔‘  اور جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا بدعت ہے، اس قولِ علی علیہ السلام کی وجہ سے کہ: ’’چاشت (ضحیٰ) کی نماز بدعت ہے، اور (ابو حنیفہ، مالک، یحیی اور احمد بن حنبل کے مطابق) رمضان میں نفل نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنا بھی بدعت ہے۔‘  لیکن (بعض کے نزدیک) یہ (جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا) قربت (یعنی نیکی) ہے، جیسا کہ ابن سُریج اور دیگر علماء نے کہا، اور یہ انفرادیت سے افضل ہے، اس حدیث کی بنیاد پر جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے تمہارے اجتماع  کو پہچان لیا۔‘‘ الخبر۔  اور (یہ دلیل بھی دی جاتی ہے) کہ (حضرت عمر نے) اس کے لیئے قنادیل (چراغ) نکلوائے، اور علی علیہ السلام نے اس پر موافقت کی، اور علی علیہ السلام کے عمل کی بنیاد پر بھی (کہ انہوں نے بھی ایسا کیا)، اور حضرت عمر کے اس قول کی بنیاد پر بھی کہ: ’’یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے!‘‘  میں (صاحب کتاب) کہتا ہوں: علی علیہ السلام کا کلام (بدعت ہونے کے بارے میں) زیادہ واضح اور ممانعت کے لیے زیادہ راجح (ترجیح رکھنے والا) ہے، اور جو کچھ (تراویح کی جماعت کے جواز میں) بیان کیا گیا ہے وہ احتمال (شبہہ) رکھتا ہے، اور (حضرت عمر کا) ابیّ (بن کعب) کے ساتھ جماعت کی توثیق اس وقت قابلِ قبول ہو سکتی ہے جب وہ (تراویح کی جماعت کو) فرض (واجب) سمجھتے ہوں (4)۔

درحالیکہ بعض  زیدی اخبار میں تراویح کا جواز و استحباب مروی ہے اور اس پر ان کے ائمہ و فقہاء نے فتویٰ دیا ہے۔ مثلاً مسند زید بن علی علیہما السلام میں ہے:

باب القيام في شهر رمضان: حدثني زيد بن علي عن ابيه عن جده عن علي عليهم السلام انه أمر الذي يصلي بالناس صلاة القيام في شهر رمضان ان يصلي بهم عشرين ركعة يسلم في كل ركعتين ويراوح ما بين كل أربع ركعات فيرجع ذو الحاجة ويتوضأ الرجل وان يوتر بهم من آخر الليل حين الانصراف.

باب: ماہِ رمضان میں (رات کی نماز کا) قیام: مجھ سے زید بن علی نے بیان کیا جنہوں نے اپنے والد سے جنہوں نے اپنے جد سے جنہوں نے علی علیہم السلام سے روایت کہ انہوں نے اس کو حکم دیا جو لوگوں ماہ رمضان میں قیام کی نماز پڑھائے کہ ان کے ساتھ بیس رکعات پڑھے جس میں ہر دو رکعت میں سلام کرے اور  ہر چار رکعات بعد آرام کرے تاکہ جس کو ضرورت ہو وہ ضرورت پوری کرکے لوٹے اور وضوء والا وضوء کرلے، اور وتر کی نماز انہیں آخرِ شب واپسی کے وقت پڑھائے (5)۔

درآنحالیکہ اسی روایت کے حاشیے میں درج ہے:

وعند العترة ان التجميع بها بدعة، وهو المعتمد عند مقلديهم الآن

“اور عترت کے نزدیک ماہ رمضان میں تراویح کی نماز کو جماعت سے پڑھنا بدعت ہے، اور یہی ان کے مقدلین کے یہاں آج معتمد قول ہے۔”

اور ہمارے نزدیک یہ روایت موضوع ہے کیونکہ اس دور میں یہ الفاظ نماز میں “ويراوح” کے ساتھ استعمال ہونا غریب ہے کہ لفظ تراویح مستحدث ہے اور صدیوں بعد متعارف ہوا تھا۔ بعض زیدی روایات میں ہے کہ تراویح کو گھر والوں کے ساتھ جماعت میں پڑھنا مستحب ہے:

من كان يصلي بأهله بالليل وشهر رمضان
[٧٧٩] وبه قال: حدّثنا محمد، قال: حدّثني عبد اللّٰه بن موسى عن أبيه عن جده عبد اللّه بن الحسن أنه كان يصلّي بأهله في منزله بالليل في شهر رمضان نحوأ مما يصلي في المساجد التراويح.

"جو شخص (اپنے) اہل خانہ کے ساتھ رات کو اور رمضان کے مہینے میں نماز پڑھتا تھا۔"
[٧٧٩] اور اسی سند سے (یہ روایت) ہے: محمد نے ہم سے بیان کیا، کہا: مجھے عبداللہ بن موسیٰ نے اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا عبداللہ بن حسن سے خبر دی کہ وہ رمضان کے مہینے میں رات کو اپنے گھر والوں کے ساتھ ویسی ہی نماز پڑھا کرتے تھے جیسی (لوگ) مسجدوں میں تراویح کی نماز پڑھتے ہیں۔ (6) 

ایک اور زیدی فقہی کتاب میں ہے کہ ان کے بعض ائمہ نے اس کو بدعت اور بعض نے سنت قرار دیا ہے:

(فأما) صلاة (التراويح جماعة) فبدعة عند القاسم والناصر وهى عشرون ركعة بعشر تسليمات في كل ليلة من ليالى رمضان وقال زيد بن على وعبد الله بن الحسن وعبد الله بن موسى بن جعفر أنها سنة وهو قول الفقهاء واختاره في الانتصار.

"رہی (رمضان میں) تراویح کی نماز باجماعت، تو قاسم (بن إبراهيم) اور ناصر (الحق) کے نزدیک یہ بدعت ہے، اور یہ (تراویح) بیس رکعتیں ہیں، ہر رات رمضان کی راتوں میں دس سلاموں کے ساتھ۔  جبکہ زید بن علی، عبد اللہ بن حسن، اور عبد اللہ بن موسیٰ بن جعفر کا کہنا ہے کہ یہ سنت ہے، اور یہی فقہاء کا قول ہے، اور اسی کو انہوں نے اپنی کتاب 'الانتصار' میں اختیار کیا ہے۔" (7)

و نیز زیدی امام المؤید یحیی بن حمزہ نے اپنی کتاب الانتصار میں تراویح کے جواز کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

وروي أن عليا عليه السلام رأى القناديل في المساجد فقال: رحم الله عمر نور مساجدنا نور الله قبره. فصوب ما فعله عمر، وفي هذا دلالة على جوازها… فلنا: قد أوردنا من الأحاديث ما يدل على جوازها وحسنها وكونها سُنّة، فإذا ورد من الأخبار ما يخالف ما ذكرناه وجب تأويله حذرًا من تناقض الأدلة وتدافعها، فإن الرسول ﷺ قد صوّبهم فيما فعلوه من صلاتها، وفي هذا دلالة على حسنها وكونها سُنّة.  ثم نقول: لمَ منعتم من صلاة التراويح؟ هل كان المنع من أجل أنها ليست سُنّة؟ فقد دللنا على فعل الرسول ﷺ لها، وفعل أمير المؤمنين كرم الله وجهه وغيره من الصحابة رضي الله عنهم، وفي هذا دلالة على كونها سُنّة.  وإن كان المنع من جهة أنها لا تصلى جماعة، فلا وجه لذلك لأمرين:  فلأننا قد رأينا من السُّنن ما يصلى جماعة كصلاة العيدين على رأي من يرى أنها سُنّة، وصلاة الكسوفين، وصلاة الاستسقاء، فإن هذه كلها سُنن وقد شُرعت فيها الجماعة، بل لا تُقام لها صورة إلا بالاجتماع. فهكذا صلاة التراويح هي سُنّة من السُّنن والجماعة فيها مشروعة، فإذن لا وجه لإنكارها. وهذا الذي اخترناه من كونها سُنّة في ليالي رمضان محكي عن زيد بن علي وعبد الله بن الحسن وعبد الله بن موسى بن جعفر.

روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے مساجد میں قندیلیں (چراغ) دیکھیں تو فرمایا: اللہ عمر پر رحم کرے، اس نے ہماری مساجد کو روشن کیا، اللہ اس کی قبر کو روشن کرے۔۔۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ ہم وہ احادیث پیش کر چکے ہیں جو تراویح کی نماز کے جائز اور اچھا عمل ہونے اور اس کے سنت ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ پس اگر کوئی ایسی روایت وارد ہو جو ہمارے بیان کردہ کے خلاف ہو، تو واجب ہے کہ اس کی تأویل کی جائے تاکہ دلائل میں تناقض اور ایک دوسرے کی نفی لازم نہ آئے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے اس عمل (یعنی تراویح کی نماز پڑھنے) کو پسند فرمایا اور اس پر ان کی تحسین فرمائی، اور یہی اس کے اچھا اور سنت ہونے کی دلیل ہے۔  پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ آخر آپ لوگوں نے تراویح کی نماز سے کیوں روکا؟ کیا اس وجہ سے کہ یہ سنت نہیں ہے؟ حالانکہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اس نماز کو پڑھنے پر دلیل دے چکے ہیں، اور امیر المؤمنین (حضرت علیؑ) کا اس پر عمل اور دیگر صحابہ کرامؓ کا بھی عمل ثابت ہے، اور یہ سب اس کے سنت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔  اور اگر آپ کا روکنے کا سبب یہ ہے کہ یہ نماز باجماعت نہیں ہونی چاہیے، تو اس کا بھی کوئی جواز نہیں، دو وجہ سے:  کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر سنت نمازیں بھی باجماعت ادا کی جاتی ہیں، جیسے عیدین کی نماز (ان کے نزدیک جو ان کو سنت سمجھتے ہیں)، اور سورج و چاند گرہن کی نماز (کسوفین)، اور بارش کے لیے استسقاء کی نماز۔ یہ سب نمازیں سنت ہیں اور ان میں جماعت مشروع ہے بلکہ ان کی اصل صورت ہی جماعت کے بغیر قائم نہیں ہوتی۔  پس اسی طرح تراویح کی نماز بھی رمضان کی راتوں میں ایک سنت ہے اور اس میں جماعت بھی مشروع ہے۔ لہٰذا اس کا انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور تراویح کے رمضان کی راتوں میں سنت ہونے کا جو قول ہم نے اختیار کیا ہے، یہ قول زید بن علی، عبد اللہ بن الحسن، اور عبد اللہ بن موسیٰ بن جعفر سے منقول ہے (8)۔

زیدی امام مجد الدین مؤیدی نے ان متعارض روایات کے مابین جمع کرنے کی کوشش کی کہ اگر سنت نہ اعتبار کرتے ہوئے تراویح کو پڑھا جائے تو یہ بدعت نہیں ہے:

((قَالَ [الْقومسيُّ]: سَأَلْتُ الْقَاسِمَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ عليه السلام عَنِ الْقِيَامِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فِي جَمَاعَةٍ فَقَالَ: لَا نَعْرِفُهَا، وَذَكَرَ عَنْ عَلِيٍّ عليه السلام: (أَنَّهُ نَهَى عَنْ ذَلِكَ)، وَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ يَحْيَى: أَجْمَعَ آلُ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم عَلَى أَنَّ التَّرَاوِيحَ لَيْسَتْ بِسُنَّةٍ مِنْ رَسُولِ اللهِ تَاَةِ، وَلَا مِنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، وَأَنَّ عَلِيًّا قَدْ تَهَى عَنْهَا، وَأَنَّ الصَّلَاةَ عِنْدَهُمْ وُحْدَانًا أَفْضَل، وَكَذَلِكَ السُّنَّةُ إِلَّا فِي الْفَرِيضَةِ، فَإِنَّ الجَمَاعَةَ فِيهَا أَفْضَل. اه. [قَال السَّيَّاغيُّ]: وَقَدْ يُجْمَعُ بَيْنَ هَدَا وَرِوَايَةِ الْأَصْلِ بِأَنَّ مَا رَوَاهُ فِي (الْجَامِعِ [الكَافِي]) آخِرُ الْأَمْرَيْنِ مِن اجْتِهَادِهِ عليه السلام، وَيُشْعِرُ بِذَلِكَ قَوْلُهُ: وَإِنَّ عَلِيًّا قَدْ نَهَى عَنْهَا؛ فَإِنَهُ يُفْهَمُ مِنْهُ سَابِقِيَّةُ الْإِذْنِ مِنْهُ عليه السلام بِذَلِكَ). إِلَخْ. قَالَ الْإِمَامُ الْحُجَّةُ مَجْدُ الدِّينِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورِ الْمُؤَيَّدِيُّ عليه السلام: هَذَا الْجَمْعُ لَا يَصِحُّ عَلَى الْقَوْلِ بِأَنَّ قَوْلَهُ عليه السلام حُجَّةٌ، وَهْوَ الحَقُّ الَّذِي عَلَيْهِ قُدَمَاءُ الْعِثْرَةِ عليهم السلام وَغَيْرُهُمْ؛ لِقَوْلِ الرَّسُولِ صلى الله عليه وآله وسلم ((عَلِيٌّ مَعَ الْحَقِّ وَالْقُرْآنِ))، وَمَا فِي مَعْنَاهُ مِمَّا هُوَ مَعْلُومٌ، وَقَدْ بَسَطَ الْاحْتِجَاجَ عَلَى ذَلِكَ فِي (شَرْحِ الْغَايَةِ)، وَجَعْتُ الْأَدِلَّةَ عَلَى ذَلِكَ فِي (لَوَامِعِ الْأَنْوَارِ)، فَمَنْ أَرَادَ الْاسْتِكْمَالَ بَحَثَ ذَلِكَ، فَلَا يَسَعُ الْحَالُ الْاسْتِكْمَالَ. وَالْأَوْلَى فِي الْجَمْعِ أَنْ يُقَالَ: إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام رَخَصَ فِي التَّرَاوِيحِ أَوَّلا حَيْثُ لَمْ يَعْتَقِدُوهَا سُنَّةً؛ لِأَنَّهُ كَانَ لَا يَسْتَجِيزُ النَّهْيَ عَنِ الصَّلَاةِ عَلَى الْإِطْلَاقِ، وَهِذَا تَلَا قَوْلَهُ تَعَالَى -فِي عَدَمِ النَّهْي عَن بَعْضِ الرَّكعَاتِ الَّتِي لَمْ تُشْرَعْ عِنْدَهُ بخُصُوصِهَا-: (أَرَءَيْتَ ٱلَّذِي يَنْهَىٰ ٣ عَبْدًا إِذَا صَلَّى ٧) (العلق]، ثُمَّ لَمَّا عَرَفَ أنَّهُمْ قَد اتَّخَذُوهَا سُنَّةٌ، وَتَعَصَّبُوا عَلَيْهَا نَهَى عَنْهَا؛ لِأَنَّ اعْتِقَادَ السُّنَّةِ فِيمَا لَيْسَ بِسُنَّةِ بِدْعَةٌ. أَمَّا مَعَ عَدَمِ اعْتِقَادِ أَنَّهَا سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللهِ يُعَا فَلَا مَانِعَ مِنْ فِعْلِهَا، وَحِهِذًا كَانَ يَفْعَلُهَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْحَسَنِ. وَقَالَ حَفِيدُهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى عَليَلا: مَنْ أَدْرَكْتُ مِنْ أَهْلِي كَانُوا يَفْعَلُونَهُ. وَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عليه السلام: أنّا أَفْعَلُهُ، أَيْ يُصَلِّي بِأَهْلِهِ، مَعَ قَوْلِهِ اليَام : لَا نَعْرِفُهَا، أَيْ لَا نَعْرِفُ أَنَّهَا سُنَّةٌ، وَقَالَ: وَذُكِرَ عَنْ عَلِيِّ عَاليَامُ أَنَّهُ نَهَى عَنْ ذَلِكَ - أَيْ أَنْ تُفْعَلَ عَلَى أَنَّهَا سُنَّةُ-، وَإِلَّا تَنَاقَضَ قَوْلُهُ وَفِعْلُهُ. وَكَذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ يَحْيَى عاليَّاما إِنَّمَا حَكَى إِجْمَاعَ أَهْلِ الْبَيْتِ عَليَّلُا عَلَى أَنَّهَا لَيْسَتْ بِسُنَّةِ مِنْ رَسُولِ اللهِ  وَاَم وَلَا مِنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ نليَلا، وَأَنَّهُ قَدْ نَهَى عَنْهَا -أَيْ فِي آخِرِ الْأَمْرِ - لَمَّا عَلِمَ أنَّهُمْ قَدْ قَالُوا: إِنَّها سُنَّةٌ. فَهَذَا الجَمْعُ هُوَ الصَّحِيحُ، وَهْوَ أَعْدَلُ الْأَقْوَالِ، وَهْوَ أَنَّهَا غَيْرُ سُنَّةٍ مِنْ رَسُولِ الله وَلَوْعَاَم، وَأَنَّهُ لَا حَرَجَ عَلَى مَنْ فَعَلَهَا غَيْرَ مُعْتَقِدٍ وَلَا قَائِلٍ بِأَنَّها سُنَّةً. أَمَّا أنَّهَا غَيْرُ سُنَّةٍ مِنْ رَسُولِ اللهِ وَوْعَاَمِ، فَلأَنَّهُ قَدْ صَحَّ بِاتَّفَاقِ الجَمِيعِ أَنَّهُ تَرَكَهَا، وَمَنْ أَثْبَتَ أَنَّهُ وَ ه صَلَّاهَا فَقَدْ أَثْبَتَ أَنَّهُ تَرَكَهَا بَعْدَ ذَلِكَ، وَقَالَ نَهُمْ: (صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ، صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ أَزْكَى لَهُ))، بِهَذَا أَوْ مَعْنَاهُ بِرِوَايَةِ الْبُخَارِيِّ وَغَيْرِهِ.

[قومسی نے کہا:] میں نے قاسم بن ابراہیم (علیہ السلام) سے رمضان کے مہینے میں جماعت کے ساتھ قیام (نماز) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ’’ہم اس کو نہیں جانتے (یعنی اس کا کوئی ثبوت یا رواج ہمارے پاس نہیں ہے)‘‘۔ اور انہوں نے علی (علیہ السلام) سے یہ نقل کیا کہ: ’’انہوں نے اس سے منع فرمایا‘‘۔  اور حسن بن یحییٰ نے کہا: ’’آلِ رسول (علیہم السلام) کا اس بات پر اجماع ہے کہ تراویح رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) کی سنت نہیں ہے، نہ ہی امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی سنت ہے، اور علی (علیہ السلام) نے اس سے منع فرمایا۔ اور ان کے نزدیک انفرادی نماز افضل ہے، اور یہی سنت ہے، سوائے فرض نماز کے، کہ اس میں جماعت افضل ہے۔‘‘  [سیاğı نے کہا:] ان دونوں روایتوں (رخصت اور ممانعت) کے درمیان یوں جمع کیا جا سکتا ہے کہ "الجامع الکافی" میں جو روایت آئی ہے، وہ قاسم (علیہ السلام) کے اجتہاد میں آخری رائے تھی، اور اس پر ان کے اس قول سے بھی اشارہ ہوتا ہے کہ ’’علی (علیہ السلام) نے اس (تراویح) سے منع فرمایا‘‘ کیونکہ اس سے پہلے اجازت دیے جانے کا امکان نکلتا ہے۔  [امام مجدالدین بن محمد بن منصور المؤیدی (علیہ السلام) نے کہا:] یہ جمع (یعنی دونوں روایتوں میں تطبیق) اس صورت میں صحیح نہیں ہوگی اگر یہ مانا جائے کہ علی (علیہ السلام) کا قول حجت ہے، اور یہی حق ہے جس پر قدیم ائمۂ عترت (علیہم السلام) اور دیگر حضرات قائم ہیں، رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) کے اس فرمان کی وجہ سے: ’’علی حق اور قرآن کے ساتھ ہیں‘‘ اور دیگر معروف نصوص کی بنا پر۔  اور میں نے اس مسئلے پر تفصیلی دلائل ’’شرح الغایہ‘‘ میں بیان کیے ہیں اور ’’لوامع الانوار‘‘ میں بھی دلائل ذکر کیے ہیں، تو جو چاہے اس میں مزید تحقیق کرے، کیونکہ اس وقت تفصیل کی گنجائش نہیں۔  اور اقرب (زیادہ قرین قیاس) یہ ہے کہ کہا جائے: امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے ابتدا میں تراویح میں رخصت دی تھی جب لوگ اس کو سنت نہیں سمجھتے تھے، کیونکہ وہ (علی علیہ السلام) مطلق طور پر نماز سے روکنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول سے بھی واضح ہے: ’’کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو نماز پڑھنے سے روکتا ہے؟‘‘ (العلق: 9)  پھر جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اسے سنت سمجھ کر اس پر جم گئے ہیں تو منع فرما دیا، کیونکہ سنت نہ ہونے والی چیز کو سنت سمجھ لینا بدعت ہے۔  البتہ جب یہ اعتقاد نہ ہو کہ یہ رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) کی سنت ہے تو اس کے کرنے میں کوئی مانع نہیں، اور یہی عمل عبداللہ بن حسن کا تھا، اور ان کے پوتے عبداللہ بن موسیٰ (علیہما السلام) نے فرمایا: ’’میں نے اپنے اہلِ بیت میں جن کو پایا وہ اسے کرتے تھے۔‘‘  اور قاسم بن ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: ’’میں بھی یہ کرتا ہوں‘‘ یعنی اپنے اہل خانہ کے ساتھ (نماز پڑھتا ہوں)۔ مگر ان کا قول ’’ہم اسے نہیں جانتے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسے سنت نہیں مانتے۔  اور انہوں نے کہا کہ علی (علیہ السلام) سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے اس سے منع فرمایا۔ یعنی اس طور پر کرنے سے کہ اسے سنت سمجھا جائے، ورنہ ان کا قول اور عمل متناقض (متضاد) ہو جاتے۔  اسی طرح حسن بن یحییٰ (علیہ السلام) نے جو اجماع اہلِ بیت (علیہم السلام) نقل کیا ہے، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ تراویح رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) کی سنت نہیں ہے، اور نہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی سنت ہے، اور علی (علیہ السلام) نے اس وقت منع فرمایا جب انہیں معلوم ہوا کہ لوگ اسے سنت کہہ رہے ہیں۔  پس یہی تطبیق (جمع) صحیح اور سب سے بہتر ہے: کہ تراویح رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) کی سنت نہیں ہے، اور جو شخص اسے کرے مگر سنت یا اس کا قائل نہ ہو تو اس پر کوئی حرج نہیں۔  جہاں تک یہ کہ تراویح رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) کی سنت نہیں ہے تو یہ اس لیے کہ یہ بات سب کے اتفاق سے ثابت ہے کہ آپ (صلى الله عليه وآله) نے اسے ترک کر دیا تھا، اور جس نے یہ ثابت کیا کہ آپ (صلى الله عليه وآله) نے اسے پڑھا، اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ بعد میں آپ (صلى الله عليه وآله) نے اسے ترک کر دیا تھا، اور فرمایا: ’’اپنے گھروں میں نماز پڑھو، انسان کی نماز اس کے گھر میں زیادہ باعثِ برکت ہے‘‘ (بخاری اور دیگر کتب میں اسی مفہوم کی روایت موجود ہے)۔ (9)

لہذا ان کی کتب میں یہ تضاد واضح ہے کہ بعض ائمہ نے تراویح کو بدعت اور ناجائز کہا ہے جبکہ بعض نے جائز قرار دیا ہے۔ اور یہی امر صلات الضحیٰ یعنی نماز چاشت کے لیئے ہے کہ ان کے بعض ائمہ نے اس کو جائز جبکہ بعض نے بدعت و حرام قرار دیا ہے۔ تراویح کی بابت بعض زیدی روایات میں ہے کہ امام علی علیہ السلام نے اس کا حکم دیا جیسا کہ مسند زید میں ہے، اور بعض روایات میں اس نماز کی رخصت دی کیونکہ اس کے سنت ہونے کا اعتماد نہ رکھا جاتا تھا جبکہ بعض میں ہے کہ بعد میں انہوں نے اس سے منع فرمایا کیونکہ اس کو سنت سمجھا جانے لگا۔ حالانکہ یہ دلیل درست نہیں کیونکہ حضرت عمر اور حضرت عثمان کے دور سے ہی اس عمل کو سنت کا درجہ حاصل ہو چکا تھا تو امام علی علیہ السلام نے کس حکمت کے تحت کچھ عرصہ اس کی رخصت دی اس گمان سے کہ اس کو سنت نہیں سمجھا جاتا حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے؟ لہذا یہ معلوم ہوا کہ یہ کیفیت جمع غلط ہے اور زیدی ائمہ کے تضادات کی امثلہ میں سے یہ ایک مثال ہے جس میں وہ مختلف قول رکھتے ہیں۔ اور یہ تضاد اتفاقی نہیں بلکہ حق و باطل میں آمیزش اور اہل اعتزال اور اہل رائے کے اختلاط اور بتریہ کا موقف اختیار کرنے کے سبب ہے کہ اہل تسنن اور اہل تشیع کے یہاں واضح اختلافی مسئلے میں بھی زیدیہ کے یہاں مختلف اقوال ملتے ہیں جس میں سے اس ایک قول اس کے جواز کا جبکہ آج کا اکثریتی موقف تراویح کے بدعت ہونے کا ہے اور ان کے درمیان جمع کا موقف ہے کہ آغاز میں مولا علی علیہ السلام کی جانب سے اس کی رخصت تھی کہ یہ سنت نہ سمجھی جاتی اور بعد میں امام علی علیہ السلام نے اس سے منع فرمایا تاہم اب بھی ان کے یہاں گھر میں گھر والوں کے ساتھ جماعت میں تراویح پڑھنا جائز ہے۔ 

پس تمام اہل سنت کے ساتھ (رکعات اور دیگر بعض جزئیات کے اختلاف کے ساتھ) تراویح جائز و مستحب ہے اور اہل تشیع سے وابستہ گروہوں (اثنا عشریہ، اسماعیلیہ، زیدیہ) کے نزدیک تراویح بدعت ہے مگر زیدیہ کے یہاں اہل اعتزال اور اہل رائے سے قربت کے باعث بعض کلامی و فقہی مسائل میں اختلافی اقوال ملتے ہیں جس سبب ان کے یہاں اکثریتی موقف میں تو تراویح بدعت و ناجائز ہے لیکن بعض کے نزدیک یہ مطلقا جائز ہے یا گھر والوں کے ساتھ جماعت میں جائز ہے یا سنت کا اعتقاد نہ رکھتے ہوئے جائز ہے اور بعض کے نزدیک امام علی علیہ السلام کی طرف سے یہ ابتدائی طور پر بھی جائز ہوا کرتی تھی مگر بعد میں امام علی علیہ السلام سے اس کی ممانعت وارد ہوئی۔

مآخذ:

(1) ينظر: وسائل الشيعة، الرقم: 10062 - 10067
(2) دعائم الإسلام، ج 1، ص 213
(3) الاعتصام بحبل الله المتين، ج 2، 105
(4) البحر الزخار الجامع لمذاهب علماء الأمصار، ج 4، ص 174
(5) مسند زيد بن علي، ص 158 - 159
(6) أمالي أحمد بن عيسى بن زيد بن علي، الرقم: 779
(7) شرح الأزهار، ج 2، ص 293
(8) الإنتصار، ج 4، ص 183 - 190
(9) مجمع الفوائد، ص 517 - 519

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات