رجعت
🍁( رجعت )🍁
رجعت امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے وقت بعض فوت شدہ انسانوں کے زندہ ھونے کو کہا جاتا ھے ۔
رجعت شیعہ عقائد میں سے ھے اور اسکے اثبات کے لئے مختلف آیات و روایات سے استناد کیا جاتا ھے ۔
شیعہ علماء کے مطابق رجعت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے ساتھ رونما ھونگے لیکن اسکی کیفیت اور رجعت کرنے والوں کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ھیں ۔
🍃 رجعت کے لغوی معنیٰ :
لفظ "رجعت” مصدر ھے جو مادہ "ر ـ ج ـ ع” سے مشتق ھے اور اس کے لغوی معنی بازگشت ( لوٹنے اور پلٹنے ) کے ھیں ۔
المعجم الوسیط، ذیل ماده رجع
اس اعتقادی اصول کے لئے آیات قرآن اور احادیث میں مختلف الفاظ استعمال جوئے ھیں جیسے :
"رجعت”، "کرّۃ”، "ردّ” اور "حشر”؛ تاھم لفظ "رجعت” زیادہ مشہور ھے ۔ لفظ "مصدر مَرَہ” ھے اور اسکے معنی ایک بار پلٹنے اور واپسی کے ھیں ؛
جیسا کہ لسان عرب میں آیا ھے کہ :
رجعت مصدرِ مرہ ھے اور مادہ "رجوع” سے مشتق ھے ۔
فیومی کہتا ھے :
رجعت بفتح عین رجوع کرنے اور لوٹ آنے آنے کے ھیں اور جو رجعت پر یقین رکھتا ھے وہ دنیا میں پلٹ آنے پر ایمان رکھتا ھے ۔
( لسان العرب ج8، ص114، فیومی، مصباح المنیر، ص84 )
🍃 اصطلاحی معنیٰ :
اصطلاح میں رجعت کے معنی یہ ھیں خداوند متعال ظہور امام مہدی علیہ السلام کے وقت آپ عجل اللہ فرجہ الشریف کے بعض شیعوں کو زندہ کرے گا اور دنیا میں پلٹا دے گا تاکہ آپ عجل اللہ فرجہ الشریف کی مدد کریں اور آپ عجل اللہ فرجہ الشریف کی حکومت کا مشاہدہ کرنے کی سعادت پائیں ۔
نیز آپ عجل اللہ فرجہ الشریف کے بعض دشمنوں کو پلٹا دے گا تاکہ دنیا کا عذاب چکھ لیں اور امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی طاقت و شوکت کو دیکھ لیں اور جان لیں ۔
( مجمع البیان، ج7، ص406 )
🍃 رجعت شیعہ عقائد میں :
رجعت مسلمہ اور ناقابل شیعہ اعتقادات میں سے ھے ۔
سید مرتضیٰ اس سلسلے میں کہتے ہیں :
"شیعہ امامیہ کا عقیدہ ھے کہ خداوند متعال امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے زمانے میں مؤمنین کی ایک جماعت کو محشور کرے گا تاکہ حکومت حقہ کے ظہور سے بہرہ ور اور فیضیاب ھوں اور امام عجل اللہ فرجہ الشریف کی مدد کے عوض جزا اور ثواب پائیں اور دشمنوں کی ایک جماعت کو بھی پلٹا دے گا تاکہ ان سے انتقام لیا جائے”۔
( رسائل سید المرتضٰی ، ج1 ص125 )
علامہ طباطبائی اپنی تفسیر المیزان میں لکھتے ھیں :
غیر شیعہ فرقے عامۃ المسلمین اگرچہ ظہور مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف پر یقین رکھتے ھیں اور اسکے سلسلے میں احادیث کو تواتر کے ساتھ نقل کر چکے ھیں لیکن وہ مسئلۂ رجعت کے منکر ھوئے ھیں اور اسکو شیعہ اعتقادی خصوصیات کا جزو سمجھے ھوئے ھیں ۔
( المیزان، ج2، ص106 )
🍃 رجعت دیگر ادیان میں :
عہد عتیق میں رجعت کے موضوع کی طرف اشارہ ھوا ھے منجملہ حزقیال نے بنی اسرائیل کے زندہ ھو جانے اور آخر الزمان میں داؤد علیہ السلام کی حکومت کی طرف اشارہ کیا ھے اور دانیال نے بھی کہا ھے :
آخر الزمان میں وہ جو مٹی میں سو چکے ھیں جاگ اٹھیں گے ۔
( عہد عتیق 37: 21-27، 12: 1-3 )
عہد جدید میں بھی قیامت ثانیہ سے پہلے، مسیح کی حکومت اور انکے آباء و اجداد کے زندہ ھو جانے کیطرف اشارے ھوئے ھیں ۔
( مکاشفہ یوحنا 20: 4-6 )
🍃 رجعت کی اسناد متواتر ھیں :
رجعت کے بارے میں احادیث و اسناد اس قدر زیادہ ھیں کہ ھر قسم کے شک و شبہ کی نفی ھو جاتی ھے ۔
علامہ مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں 160 رجعت کے سلسلے می نازل اور وارد ھونے والی آیات و روایات کیطرف اشارہ کرتے ھیں اور لکھتے ھیں :
"ام لوگوں کے لئے جو آئمہ علیہم السلام کے کلام پر یقین رکھتے ھیں ـ شک و شبہ کی گنجائش باقی نھیں رھتی کہ مسئلۂ رجعت حق ھے،
اور اس باب میں آئمہ علیہم السلام سے واردہ روایات متواتر ھیں اور تقریبا 200 روایات وارد ھوئی ھیں جو اس امر پر تصریح کرتی ھیں اور ان روایات کو 40 سے زائد اکابرین علماء اور محدثّین نے 50 سے زائد معتبر کتب میں ثبت و ضبط کیا ھے ۔
جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ھیں :
شیخ صدوق، کلینی رازی، شیخ طوسی، سید مرتضیٰ علم الہدی، احمد بن علی نجاشی، محمد بن عمر کشی، محمد بن مسعود سمرقندی عیاشی، علی بن ابراہیم قمی، شیخ مفید، ابوالفتح کراجکی، محمد بن ابراہیم نعمانی، محمد بن حسن صفار قمی، ابن قولویہ، سید ابن طاؤس، فضل بن حسن طبرسی، ابن شہر آشوب سعید بن ہبۃ اللہ راوندی ۔
مجلسی بعد ازاں ان کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں جو مسئلۂ رجعت پر تالیف ھوئی ھیں ۔علاوہ ازیں بہت سی زیارات اور دعاؤں میں بھی رجعت کے عقیدے پر تاکید ھوئی ھے جیسے زیارت جامعہ، زیارت وارث، زیارت اربعین، زیارت آل یاسین، زیارت رجبیہ، دعائے وداع اور دعائے عہد ۔
( بحارالانوار، ج53، ص96 و 122، مفاتیح الجنان، زیارت جامعہ کبیره، آل یس و دعائےعہد )
🔸 نکتہ :
شیعہ رجعت پر یقین و اعتقاد راسخ رکھنے کے باوجود رجعت کے منکرین کو کا_ف_ر نھیں سمجھتے ؛
کیونکہ رجعت مذہب شیعہ کی ضروریات و مسلمات میں سے ھے اور جیسا کہ احادیث سے ثابت ھے رجعت پر ایمان، ایمان کامل اور حقیقی اسلام کی شروط میں سے ھے ۔
( تفسیر نمونہ، ج15، ص593 )
🔸 رجعت کرنے والے :
بعض روایات میں واضح طور پر ان افراد کا تذکرہ آیا ھے جو رجعت کریں گے جیسے انبیاء میں سے :
حضرت دانیال علیہ السلام، حضرت یوشع علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام، حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نیزائمۂ معصومین علیہم السلام
اصحاب میں سے :
سلمان فارسی، مقداد بن اسود، جابر بن عبداللہ انصاری، مالک اشتر نخعی، مفضل بن عمر، حمران بن اعین، اور میسر بن عبدالعزیز نیز
اصحاب کہف۔
( بحارالانوار، ج53، ص61 و 105و108 )
🍃 رجعت کے قرآنی دلائل :
قرآن جو مسلمانوں کے لئے قطعی ترین دلیل اور منبع و مآخذ ھے نہ صرف رجعت کو ایک امر محال نھیں سمجھتا بلکہ اسکو ممکن قرار دیتا ھے اور سابقہ امتوں میں رجعت کے متعدد نمونوں کیطرف کئی آیتوں میں اشارہ کرتا ھے ۔
یہ آیات دلالت کے لحاظ سے دو قسموں میں تقسیم ھوتی ھیں :
1۔ وہ آیات جو صراحت کے ساتھ رجعت پر دلالت کرتی ھیں جیسے :
الف۔ سورہ نمل آیت 83:
اس آیت میں ارشاد ہوتا ھے :
"وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ”
” اور جس دن ھم اٹھائیں گے ھر قوم میں سے ایک دستے کو ان میں سے جو ھماری آیتوں کو جھٹلاتے ھیں تو انہیں تنبیہہ کی جائے گی”۔
معصومین علیہم السلام کی روایات میں رجعت کے اثبات کے لئے اس آیت سے استناد ھوا ھے :
علامہ طباطبائی اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ھوئے لکھتے ھیں :
"آیت کے ظواہر سے معلوم ھوتا ھے کہ یہ "حشر” قیامت والے حشر سے مختلف ھے کیونکہ قیامت والا حشر امت کے ایک گروہ یا جماعت کے لئے مختص نھیں ھے بلکہ تمام امتیں اس دن محشور ھونگی حتیٰ کہ ارشاد ھوا ھیکہ :
"وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً”
اور ان سبکو اکٹھا کر کے لائیں گے تو انمیں سے کسی کو چھوڑا نھیں ھوگا۔” اور کوئی بھی باقی نھیں رھے گا ۔
جبکہ اس آیت کریمہ میں ھیکہ
"ھم امت سے ایک جماعت یا ایک فوج اور گروہ کو اٹھائیں گے”۔
وہ اپنے مدعاء کے اثبات کے لئے مزید لکھتے ھیں :
"ھمارے اس مدعا کی دلیل کہ یہ حشر قیامت والے حشر سے مختلف ھے ـ
یہ ھیکہ یہ آیت اور بعد کی دو آیتیں "دابۃ الارض” کے برآمد ھونے والی آیت کے بعد آئی ھیں جو خود اس بات کا ثبوت ھے یہ حشر قیامت سے قبل واقع ھوگا ۔
قیامت کی داستان بعض کی آیات کریمہ میں بیان ھوئی جہاں فرمایا جاتا ھے :
"وَيَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ”
اور جس دن صور پھونکا جائے گا۔”
اور پھر اس دن کے واقعات کے اوصاف بیان ھوتے ھیں چنانچہ یہ نھیں ھو سکتا کہ قیامت کے اصل موضوع کے بیان سے قبل متعلقہ واقعات میں سے ایک کو پیشگی بیان کیا جائے ۔
کیونکہ واقعات کے وقوع کی ترتیب تقاضا کرتی ھے کہ اگر ھر امت میں سے ایک گروہ کا حشر قیامت کے واقعات میں سے ھو تو اسکو نفخ صور کے بعد کی آیات میں بیان کیا جائے ۔
لیکن خداوند متعال نے ایسا نھیں کیا بلکہ نفخ صورت سے قبل ھر امت کی ایک فوج کے حشر کا تذکرہ کیا جس سے معلوم ھوتا ھے کہ یہ حشر قیامت کے واقعات میں سے نھیں ھے ۔
( المیزان، ج15، ص 570 )
اسی آیت کریمہ کی تفسیر میں بھی ائمۂ معصومین علیہم السلام سے متعدد روایات نقل ھوئی ھیں جنمیں اس آیت کو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے زمانے میں رجعت کے وقوع کی محکم دلیل قرار دیا گیا ھے ۔
( تفسیر القمی، ج2 ص36، بحارالانوار، ج53، ص51،تفسیر البرہان، ج6، ص36 )
ب۔ سوره مؤمن آیت 11:
اس آیت میں خداوند متعال کا ارشاد ھے :
"قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ”
انہوں نے کہا اے ھمارے مالک ! تو نے ھمیں دو دفعہ موت دی اور دو دفعہ زندہ کیا تو ھم اپنے گناھوں کا اقرار کرتے ھیں اب کیا نکلنے کی کوئی صورت ھے؟۔”
( بحار الانوار، ج53، ص56 و 116 و 144 )
🔸 وہ آیات جو امکان رجعت پر دلالت کرتی ھیں :
قرآن کریم کی بعض آیات ان افراد کیطرف اشارہ کرتی ھیں جو مرنے کے بعد زندہ ھوئے ھیں اور انسے نہ صرف رجعت کا اثبات ھوتا ھے بلکہ قیامت کے امکان کی گواہی بھی ملتی ھے ۔
( بحار الانوار، ج53، ص142 )
سورہ بقرہ آیت 259 :
اس آیت میں ایک شخص کے 100 سال بعد زندہ ھوجانے کا تذکرہ ھوا ھے :
"أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِـي هَـَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْماً أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِئَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَى العِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْماً فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ”
سورہ بقرہ آیت 260 :
اس آیت میں ذبح شدہ پرندوں کے زندہ ھو جانے کیطرف اشارہ ھوا ھے :
"وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءاً ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْياً وَاعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ”
” اور ( وہ واقعہ یاد کرو ) جب ابراہیم نے کہا تھا : میرے رب ! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ھے، فرمایا: کیا آپ ایمان نھیں رکھتے؟ کہا: ایمان تو رکھتا ھوں لیکن چاھتا ھوں کہ میرے دل کو اطمینان مل جائے، فرمایا: پس چار پرندوں کو پکڑ لو پھر ان کے ٹکڑے کرو پھر ان کا ایک ایک حصہ ھر پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تیزی سے آپ کے پاس چلے آئیں گے اور جان رکھو اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ھے۔”۔
سورہ کہف آیت 25 :
اس آیت میں خداوند متعال اصحاب کہف کی داستان اور 309 سال بعد انکے زندہ ھو جانے کی داستان بیان فرماتا ھے :
"وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعاً”
” اور وہ لوگ تین سو برس اپنی غار میں رھے اور اس پر نو سال بڑھ گئے "۔
( سورہ بقرہ آیت 56 )
ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ”
"پھر تمہارے مرنے کے بعد تمہیں ھم نے دوبارہ جلا دیا ( زندہ کیا ) کہ شاید اب تم شکر گزار ثابت ھو جاو”۔
"وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْساً فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا وَاللّهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذَلِكَ يُحْيِي اللّهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُون "
” اور جب کہ تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا پھر تم اس کے بارے میں جھگڑ رھے تھے اور جسے تم چھپا رھے تھے اللہ اس کو ظاہر کرنے والا تھا تو ھم نے کہا اسی گائے کا ٹکڑا اس پر مارو ۔ اس طرح اللہ مردوں کو جلاتا ھے ۔ اور تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ھے شاید اب بھی تم میں عقل آ جائے”۔
( بقرہ آیت 243 )
"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ”
” کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر نظر نھیں کی جو موت کے ڈر سے ھزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلے تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مر جاؤ، پھر انھیں زندہ کر دی”۔
سورہ آل عمران آیت 49 :
اس آیت میں خداوند متعال حضرت عیسی علیہ السلام کے زبانی ارشاد فرماتا ھے :
"قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْراً بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الأكْمَهَ والأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ”
میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے خاص معجزہ لے کر آیا ھوں کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرند کی سی صورت بناتا ھوں پھر اس میں پھونک مارتا ھوں تو وہ بحکم خدا پرند بن جاتا ھے اور پیدائشی اندھے اور کوڑھے کو شفا دیتا ھوں اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ھوں”۔
( مائدہ آیت 110 )
"إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْراً بِإِذْنِي وَتُبْرِىءُ الأَكْمَهَ وَالأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي”
"جب عیسیٰ بن مریم سے اللہ نے فرمایا: یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تمہیں اور تمہاری والدہ کو عطا کی ھے جب میں نے روح القدس کے ذریعے تمہاری تائید کی، تم گہوارے میں اور بڑے ھو کر لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور جب میں نے تمہیں کتاب، حکمت، توریت اور انجیل کی تعلیم دی اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے پرندے کا پتلا بناتے تھے پھر تم اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا اور تم مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے صحت یاب کرتے تھے اور تم میرے حکم سے مردوں کو ( زندہ کر کے ) نکال کھڑا کرتے تھے”۔
🍃 رجعت کے دلائل منابع حدیث میں :
رجعت ان موضوعات میں سے جس پر آئمہ شیعہ علیہ السلام نے ایک اعتقادی اصول کے عنوان سے تاکید کی ھے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اس خدا کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ھے کہ تم ان ساری سنتوں کا سامنا کرو گے جو سابقہ امتوں میں رائج تھیں، اور جو کچھ ان امتوں میں جاری ھوا من و عن اس امت میں جاری ھوگا یہاں تک کہ نہ تم ان سنتوں سے انحراف کرو گے اور نہ ھی وہ سنتیں جو بنی اسرائیل میں رائج تھیں تمہیں نظر انداز نہیں کریں گی ۔
( تفسیر العیاشی، ج1، ص303 ذیل آیت 19 سورہ انشقاق لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَن طَبَقٍ،تفسیر القمی، ج، 2، ص413 ذیل آیت مذکورہ )
اس حدیث کے مطابق جو کچھ سابقہ امتوں میں وقوع پذیر ھوا ھے اس امت میں بھی وقوع پذیر ھوگا اور ان سنتوں میں سے ایک "مسئلۂ رجعت” اور "مردوں کا زندہ ھو جانا” ھے جو مذکورہ آیات کے مطابق واقع ھوا ھے اور اس سنت کو اس امت میں بھی واقع ھونا ھے ۔
امام صادق علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں رجعت کو ایمان کی شرطوں میں قرار دیا ھے ۔ نیز امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام نے ایام اللہ کی تفسیر کرتے ھوئے فرمایا :
"ایام اللہ میں مہدی موعود کے ظہور، یوم رجعت اور روز قیامت شامل ھیں ۔
( بحارالانوار، ج53، ص122،ایام اللہ کا تذکرہ سورہ ابراہیم کی آیت 5 اور سورہ جاثیہ کی آیت 14 میں ھوا ھے، بحار الانوار، ج53، ص63، ج51، ص50و45 )
امام رضا علیہ السلام ایمان میں اھم اور مؤثر عقائد کا ذکر کرتے ھوئے رجعت کو ان عقائد کے زمرے میں شمار کرتے ھیں اور اسکو توحید، نبوت، امامت، معراج اور قبر میں سوال و جواب پر شیعہ عقائد کا تسلسل قرار دیتے ھیں۔
یکی از عقاید مهم و موثر در ایمان را اعتقاد به رجعت ذکر نموده و آن را در راستای اعتقاد به توحید و نبوت و امامت و معراج و سوال قبر قرار داده است۔
( عیون اخبار الرضا علیہ السلام ، ج1، ص218 )
نیز مروی ھے کہ مامون عباسی نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا :
"یا اباالحسن !
آپ رجعت کے بارے میں کیا فرماتے ھیں ؟
امام علیہ السلام نے فرمایا :
رجعت حق ھے اور سابقہ امتوں کو اسکا سامنا پڑا ھے ۔
قرآن بھی رجعت پر مہر تصدیق ثبت فرماتا ھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ھے :
پس جو پیش آتا ھے اس امت کو وہ پیش آئے گا بغیر کسی کمی اور بیشی کے وہ سب کچھ جو سابقہ امتوں پر گذرا ھے ،
اور فرمایا ھے :
جب میرے فرزندوں میں سے مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف ظہور کرے گا عیسٰی علیہ السلام آسمان سے آتر آئیں گے اور آن جناب عجل اللہ فرجہ الشریف کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے ۔
مامون نے عرض کیا :
آخرکار ھوگا کیا ؟
فرمایا :
حق اہلِ حق کی طرف پلٹے گا ۔
( عیون اخبار الرضا علیہ السلام ، ج1، ص218 )
🍃 رجعت کے موضوع پر لکھی گئی کتب :
شیعہ تعلیمات میں رجعت کا رتبہ بہت نمایاں ھے اور اسی بناء پر شیعہ علماء اور محدثین نے قدیم الایام سے اس موضوع کو خاص توجہ دی ھے اور متعدد کتب اور رسائل کی تالیف کا اہتمام کیا ھے گوکہ یہ افسوسناک امر ھیکہ انمیں سے بہت سی کتب وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ضائع ھو چکی ھیں اور انکا صرف نام کتب رجال اور فہرست میں مذکور ھے ۔
( www.ShiaOnlineLibrary.com الرجعة أو العود إلی الحیاة الدنیا بعد الموت، ص46-47 )
آقا بزرگ طہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ الی تصانیف الشیعہ میں 30 کتابوں کا تذکرہ کیا ھے جو مختلف ادوار میں اس موضوع پر لکھی گئی ھیں ۔
( الذریعہ إلی تصانیف الشیعہ، ج1، صص91-95، ج7، ص116، ج10، صص161-163، ج11، ص187 )
🔸 رجعت کے بارے میں شائع ھونے والی کتابوں میں بعض اھم ترین کتب کے نام بمع تعارف :
الرجعہ، تالیف: میرزا محمد مؤمن بن دوست محمد حسینی استرآبادی (شہید مکہ بسال 1088ہجری قمری)۔ تحقیق: فارس حسّون کریم، طبع دوئم: قم، انوارالهدی، 1417ہجری قمری۔
اس کتاب میں تمام امور میں آئمہ علیہ السلام کی طرف رجوع کرنے اور انکے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی ضرورت کے بارے میں مختصر دیباچے کے بعد رجعت کے بارے میں 100 سے زائد احادیث نقل ھوئی ھیں ۔
الایقاظ من الہجعۃ بالبرہان علی الرجعہ، تالیف: شیخ محمد بن حسن حرّ عاملی ( متوفی سنہ 1104ہجری قمری )۔
شیخ حر عاملی نے دسوں آیات کریمہ اور 170 سے زائد احادیث کے حوالے دیئے ھیں اور رجعت کے سلسلے میں دیگر دلائل پیش کئے ھیں ۔
رجعت، تالیف: محمد باقر مجلسی ( متوفی سنہ 1111 ہجری )۔
علامہ مجلسی نے یہ کتاب فارسی میں تالیف کی ھے اور اسمیں ظہور امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف اور موضوع رجعت کے بارے میں 14 احادیث نقل ھوئی ھیں ۔
یاد رھے کہ علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں بھی رجعت پر مفصل بحث کی ھے اور اس سلسلے میں 200 سے زائد حدیثوں کا حوالہ دیا ھے ۔
( بحارالأنوار، ج 53، باب الرجعۃ، ص 39-144 )
الشیعۃ والرجعۃ،
یہ ایک علمی، تاریخی اور ادبی کتاب ھے جسمیں مسئلۂ رجعت پر مفصل بحث و تحقیق ھوئی ہے۔ یہ محمد رضا طبسی نجفی ( متوفی سنہ 1405ہجری قمری ) کی تالیف ھے جو نجف اشرف کے الطبعۃ الحیدریہ نے سنہ 1375ہجری قمری میں شائع کی ھے۔
اس کتاب میں تمہیدی مباحث کے بعد چند فصلوں کے ضمن میں رجعت قرآن، دعاؤں اور زیارات نیز اجماع فقہاء اور مشاہیر کے کلام کی روشنی میں زیر بحث لائی گئی ھے ۔ اس کتاب کی پہلی فصل میں قرآن کریم کی 174 آیات کریمہ کا حوالہ دیا گیا ھے جنہیں احادیث میں رجعت سے تاویل کیا گیا ھے اور متعلقہ روایات بھی نقل کی گئی ھیں ۔
🔸 الشيعة والرجعة حالیہ برسوں میں بھی اس سلسلے میں کتب تالیف ھوئی ھیں جنمیں سے ذیل کی چند کتب کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ھے :
رجعت یا دولت کریمۂ خاندان وحی علیہ السلام ، محمد خادمی شیرازی, تصحیح علیاکبر مہدی پور، ط دوئم، قم، مؤلف، 1411ہجری قمری۔
رجعت از دیدگاه عقل، قرآن، حدیث، حسن طارمی، زیر نگرانی آیت اللہ جعفر سبحانی تبریزی، طبع نہم: قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1383ہجری شمسی۔
رجعت یا بازگشت بہ جہان، محمدرضا ضمیری، طبع اول: تہران، موعود، 1378ہجری شمسی۔
بازگشت بہ دنیا در پایان تاریخ، خدامراد سلیمیان، چاپ اوّل: قم، بوستان کتاب، 1384ہجری شمسی۔
الرجعۃ أوالعودة إلی الحیاة الدنیا بعد الموت، اوّل: قم، مرکز الرسال، 1418ہجری قمری۔
( مجلہ موعود، شہریور 1387، شماره 91، رجعت در آثار اسلامی )
___________
🔖 https://risalaat.com/?p=3955
جامعہ الکوثر "ویب سائٹ"
🤲 التماسِ دعا :
ابراهيم بن اشتر
Comments
Post a Comment