چاند اورسورج گرہن کا مشہورِ زمانہ مرزائی دھوکہ
"چاند اورسورج گرہن کا مشہورِ زمانہ مرزائی دھوکہ"
قادیانی دارقطنی کی درج ذیل روایت پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب امام مہدی آئے گا تو اس کے وقت میں چاند کی 13 کو چاند گرہن اور 27 تاریخ کو سورج گرہن لگے گا پس جب مرزا صاحب نے امام مہدی ہونے کا دعوی کیا تو اسی سال چاند اور سورج کو گرہن لگا تھا۔ لہذا یہ اس بات کی نشانی ہے کہ مرزا صاحب ہی سچے امام مہدی ہیں۔
آیئے پہلے روایت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر اس کا علمی رد کرتے ہیں۔
"حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْإِصْطَخْرِيُّ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلٍ , ثنا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ , ثنا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ , عَنْ جَابِرٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ , قَالَ: «إِنَّ لَمَهْدِيِّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ , يَنْخَسِفُ الْقَمَرُ لَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ , وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ , وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ» "
( سنن الدارقطني ، جلد 2 صفحات 419 تا 420 )
ترجمہ :۔
عمرو بن شمر ( جعفی کوفی ) نے جابر ( بن یزدی جعفی ) سے اور اس نے " محمد بن علی " سے روایت کیا ہے ، انہوں نے کہا کہ : ہمارے مہدی کی دو ایسی نشانیاں ہیں کہ جب سے زمین و آسمان بنے ہیں یہ دونوں کبھی واقع نہیں ہوئیں ( پہلی نشانی ) رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن ہوگا اور ( دوسری نشانی ) رمضان کے نصف میں سورج گرہن ہوگا ، اور یہ دونوں ( گرہن ) جب سے زمین و آسمان بنے ہیں کبھی نہیں لگے ۔
خود مرزا صاحب نے اس روایت کے بارے میں یوں لکھا ہے کہ
" فاخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر الانام ان الشمس تنکسف عند ظھور المھدی فی النصف من ھذہ الایام یعنی الثامن والعشرین قبل نصف النھار "
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ سورج گرہن مہدی کے ظہور کے وقت ایام کسوف کے نصف میں ہوگا یعنی اٹھائیسویں تاریخ میں دوپہر کے وقت "
( روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 209 )
ایک اور جگہ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ
"فاعلموا ایھا الجھلاء والسفھاء ان ھذا حدیث من خاتم النبیین وخیر المرسلین وقد کتب فی الدارقطنی الذی مر علی تالیفہ ازید من الف سنۃ "
اے جاہلو اور بےوقوفو ! جان لو کہ یہ خاتم النبیین اور خیرالمرسلین ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی حدیث ہے جو دارقطنی نے لکھی ہے جس کی تالیف پر ہزار سال سے زیادہ کا عرضہ گزر چکا ہے"
( روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 353 )
مرزا صاحب اس روایت کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ
"ترجمہ تمام حدیث کا یہ ہے کہ ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں جب سے زمین و آسمان کی بنیاد ڈالی گئی وہ نشان کسی مامور اور مرسل اور نبی کے لئے ظہور میں نہیں آئے۔"
( روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 132 )
ایک اور جگہ یوں لکھا ہے کہ
" اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ رمضان کے مہینہ میں کبھی دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی مدعی رسالت یا نبوت کے وقت میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے جیسا کہ حدیث کے ظاہر الفاظ اسی پر دلالت کر رہے ہیں ، اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی مدعی نبوت یا رسالت کے وقت میں دونوں گرہن رمضان میں کبھی زمانہ میں جمع ہوئے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت دے۔"
( روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 203 )
مرزا صاحب کی تحریرات سے اس روایت کے بارے میں درج ذیل باتیں ثابت ہویئں۔
1۔ دارقطنی میں موجود روایت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
2۔ اگر کسی مدعی مہدویت کے دور میں یہ گرہن لگ جائے تو وہ سچا ثابت ہوگا۔
3۔ مرزا صاحب سے پہلے کسی مدعی مہدویت یا نبوت کے دور میں یہ گرہن نہیں لگا۔
4۔چاند گرہن لگنے کی تاریخ چاند کی 13 اور سورج گرہن لگنے کی تاریخ چاند کی 28 ہے۔
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
جواب نمبر 1
مرزا صاحب نے اس بات کو " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان " لکھا ، جبکہ دنیا کی کسی کتاب میں یہ ذکر نہیں کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے ، آج بھی جماعت مرزائیہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اسی ضد پر اڑی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جبکہ وہ خود جس کتاب کے حوالے سے یہ ( جھوٹی ) روایت پیش کرتے ہیں اس میں بھی یہ نہیں لکھا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز نہیں بلکہ کسی " محمد بن علی " نامی بزرگ کی طرف منسوب قول ہے ( جماعت مرزائیہ کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حضرت زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ کے بیٹے امام باقر رحمتہ اللہ علیہ ہیں ، اگر اس دعویٰ کو صحیح بھی فرض کر لیا جائے تو بھی یہ بات حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز نہیں بن سکتی بلکہ امام باقر تو صحابی بھی نہیں کہ یہ فرض کیا جائے کہ انہوں نے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوگی) ۔ لہذا اس قول کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ کر اس سے استدلال کرنا جہالت ہے۔
جواب نمبر 2
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"جو روایت امام بخاری( رحمتہ اللہ علیہ) کی شرط کے مخالف ہو وہ قابل قبول نہیں"
(روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 119 تا 120 )
اس کے علاوہ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ
"میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح اور مخدوش ہیں اور ایک بھی ان میں سے صحیح نہیں۔"
(روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356)
جب یہ روایت بخاری و مسلم میں بھی نہیں اور مہدی کے بارے میں تمام روایات مرزا صاحب کے نزدیک جھوٹی ہیں تو پھران ساری جھوٹی روایات میں یہ سچی روایت کیسے نکل آئی؟
جواب نمبر 3
جو تاریخیں قادیانی حضرات بتاتے ہیں ان دو تاریخوں پر چاند اور سورج گرہن گزشتہ 1300 سال میں 60 دفعہ واقع ہو چکا ہے۔
(حدائق النجوم صفحہ 702 تا 707)
مطلب اس کو مرزا صاحب کے لئے خاص کرنا انتہائی بڑا دھوکہ ہے۔
جواب نمبر 4
ایران میں مرزا محمد علی باب نے 1260 ہجری میں مھدویت کا دعوٰی کیا اور اس کے سات سال بعد 1267 ہجری میں 13 رمضان کو چاند گرہن لگا اور 28 رمضان کو سورج گرہن لگا۔
(اسٹرونومی مؤلفہ مسٹر نارمن لو کیٹر صفحہ 102، ویوز آف دی گلوبز صفحہ 263 تا 276 ، حدائق النجوم صفحہ 702 تا 707)
اب اگر اسی نشانی کے مطابق کسی کو امام مہدی ماننا ہے تو مرزا محمد علی باب امام مہدی کیوں نہیں ہے؟
جواب نمبر 5
13 اور 28 کو گرہن کا ہونا ایک معمول کی بات ہے نہ کہ خلافِ معمول۔ جبکہ روایت کے الفاظ معمول سے ہٹ کے ہیں کہ یہ دونوں نشانیاں اس سے قبل واقع نہیں ہوئی ہوں گی۔ تو لازم ٹھہرا کہ چاند گرہن اپنا 12، 13، 14 والا معمول چھوڑ دے اور سورج اپنا 27، 28، 29 والا معمول چھوڑ دے۔لیکن چاند اور سورج کا اپنا معمول نہ چھوڑنا اس بات کی نشانی ہے کہ مرزا صاحب اس روایت میں بتائی گئی نشانی پر پورا نہیں اترے۔
جواب نمبر 6
اس روایت کے عربی الفاظ میں صاف طور پر یہ بیان ہے کہ " چاند گرہن رمضان کی پہلی رات کو " لَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ " اور سورج گرہن ماہ رمضان کے نصف " وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ " میں لگے گا ، اور واقعی رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن اور ماہ رمضان کے نصف میں سورج گرہن آج تک نہیں لگا۔
اگر یہ چاند اور سورج کو گرہن لگنا مرزا صاحب کی سچائی کا نشان ہوتا تو اس گرہن کو رمضان کی یکم اور 13 تاریخ کو لگنا چاہیے تھا جبکہ مرزا صاحب کے وقت رمضان کی 13 اور 28 تاریخ کو گرہن لگا تھا۔
مزید غور کریں تو سمجھ آئے گی کہ تین دنوں کے درمیان کو نصف نہیں کہتے بلکہ اسے وسط کہتے ہیں حدیث شریف میں نصف کا لفظ ہے اس سے مراد مہینے کا نصف ہے۔ النصف مِنہُ کی ضمیر کا مرجع رمضان ہے جو پہلے کلام میں مذکور ہے مگر قادیانی اس ضمیر کو نامعلوم اور غیر مذکور چیز کی طرف لوٹاتے ہیں۔
یہاں قادیانی کہتے ہیں کہ پہلی تاریخ کے چاند کو ہلال کہا جاتا ہے نہ کہ قمر۔ اگر پہلی رمضان کا چاند مراد ہوتا تو حدیث میں لفظ ہلال ہوتا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مہینہ کی پہلی شب سے لیکر آخری شب تک کے چاند کو عربی میں قمر کہتے ہیں صرف چاند کے مختلف اوقات مختلف حالتوں اور مختلف صفات کے لحاظ سے کبھی اسی قمر کو ہلال اور کبھی بدر کہا جاتا ہے لیکن ہوتا وہ بھی قمر ہی ہے ،، آسان لفظوں میں ایسے سمجھیں کہ قمر کا اردو ترجمہ ہے " چاند " اور جس طرح اردو میں پہلی رات سے آخری رات تک کے چاند کو چاند ہی کہتے ہیں اسی طرح عربی میں پورے مہینے کے چاند کا اصلی نام " قمر " ہی ہے ،
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
"وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ"
اور چاند ہے کہ ہم نے اس کی منزلیں ناپ تول کر مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ وہ جب ( ان منزلوں کے دورے سے ) سے لوٹ کر آتا ہے تو کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح ( پتلا ) ہو کر رہ جاتا ہے ۔
( سورہ یٰسٓ آیت 39 )
ایک اور جگہ ارشاد ہے
"هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ "
اور اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا اور چاند کو سراپا نور ، اور اس کے ( سفر ) کے لئے منزلیں مقرر کر دیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور ( مہینوں کا ) حساب معلوم کر سکو ۔
( سورہ یونس آیت 5 )
ان دونوں آیات میں پورے مہینے کے چاند پر قمر کا لفظ بولا گیا ہے خواہ وہ پہلی رات کا چاند ہو یا کسی دوسری تاریخ کا ، یہی بات آئمہ لغت نے بھی لکھی ہے۔
چنانچہ مشہور لغت کی کتاب " تاج العروس من جواھر القاموس " میں لکھا ہے ۔
" الهِلالُ بِالكَسْرغُرَّةُ القَمَرِ "
ہلال کہتے ہیں قمر کی ابتدائی صورت کو ،
آگے لکھا ہے
" يُسَمَّى القَمَرُ لِلَيْلَتَيْن مِنْ أَوَّلِ الشَّهْرِ هِلَالًا "
قمر کا نام مہینے کی پہلی دو راتوں تک ہلال رکھا گیا ہے ۔
( تاج العروس من جواھر القاموس ، جلد 31 صفحہ 144 )
آپ نے دیکھا کہ صاف طور پر لکھا ہے کہ ہلال " قمر " کا ہی نام ہے ، اگر مرزا صاحب کی یہ جاہلانہ منطق ایک منٹ کے لئے تسلیم بھی کر لی جائے کہ " قمر " کا اطلاق مہینے کی شروع کی تین راتوں یا سات راتوں کے بعد والے چاند پر ہوتا ہے تو پھر بھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ چاند گرہن رمضان کی تیرھویں رات کو ہوگا کیونکہ اس جھوٹی روایت میں الفاظ ہیں " يَنْخَسِفُ الْقَمَرُ لَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ " جس کا ترجمہ ہے کہ
" قمر رمضان کی پہلی رات میں گرہن ہوگا "
تو مرزا صاحب کی منطق کے مطابق بھی "قمر " کی پہلی رات چوتھی یا آٹھویں شب ہے تو کیا مرزا صاحب کی زندگی میں رمضان کی چوتھی یا آٹھویں شب کو چاند گرہن ہوا ؟
اور مرزا صاحب نے " تَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ " کے بارے میں نہیں بتایا کہ " شمس" یعنی سورج کا اطلاق بھی صرف قمری مہینہ کی 27 ، 28 اور 29 تاریخ کے سورج پر ہی ہوتا ہے یا مہینہ کے نصف اور 14 اور 15 تاریخ کو نکلنے والے سورج کو بھی " شمس " ہی کہتے ہیں ؟؟
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن پاک نے واضح فرما دیا کہ چاند کی ہر منزل پر اس کا نام قمر ہے حتٰی کہ کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح باریک ہو جائے یعنی پہلی رات کا چاند ہو پھر بھی اس کا نام قمر ہے۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی پیش کردہ روایت کے مطابق بھی مرزا صاحب کے وقت میں گرہن نہیں لگا تھا لہذا مرزا صاحب دعوی مہدویت میں اپنے اصول کے مطابق کذاب ہیں۔
جواب نمبر 7
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
" ترجمہ تمام حدیث کا یہ ہے کہ ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں جب سے زمین و آسمان کی بنیاد ڈالی گئی وہ نشان کسی مامور اور مرسل اور نبی کے لئے ظہور میں نہیں آئے۔"
(روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 132 )
ایک اور جگہ مرزا صاحب نے یوں لکھا ہے کہ
"اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ رمضان کے مہینہ میں کبھی دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی مدعی رسالت یا نبوت کے وقت میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے جیسا کہ حدیث کے ظاہر الفاظ اسی پر دلالت کر رہے ہیں ، اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی مدعی نبوت یا رسالت کے وقت میں دونوں گرہن رمضان میں کبھی زمانہ میں جمع ہوئے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت دے۔"
(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 203 )
مرزا صاحب کے حوالہ جات سے پتہ چلا کہ یہ چاند اور سورج کو گرہن لگنے کا نشان کسی بھی ایسے وقت میں نہیں ہوا کہ جب کوئی مامور ، مرسل یا نبی کا دعوی کرنے والا موجود ہو۔
اصل بات یہ ہے کہ اس روایت میں دو بار یہ ذکر ہے کہ " ایسا گرہن جب سے زمین و آسمان بنے ہیں کبھی نہیں لگا "
یہاں ہرگز ایسا کوئی ذکر نہیں کہ
"کسی مدعی مہدیت کے زمانے میں ایسا چاند یا سورج گرہن نہیں لگا "
بلکہ مطلقاََ ایسا گرہن نہ لگنے کا ذکر ہے ،اور جیسا گرہن مرزا صاحب کی زندگی میں بتایا جاتا ہے ویسا گرہن مرزا صاحب سے پہلے کئی بار لگ چکا ہے اور مرزا صاحب کے بعد بھی جب تک یہ نظام فلکی موجود ہے لگتا رہے گا۔
اور مزے کی بات سنہ 1851ء بمطابق 1267ھ میں جب مرزا صاحب کی عمر ابھی گیارہ یا بارہ سال تھی رمضان المبارک کی انہی تاریخوں میں یعنی 13 رمضان کو چاند گرہن اور 28 رمضان کو سورج گرہن لگا تھا اور اس وقت " محمد احمد سوڈانی " موجود تھا جس نے بھی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
اگر اس روایت سے مرزا صاحب کے مفہوم کے مطابق یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ گرہن کسی بھی امام مہدی کا دعوی کرنے والے کے دور میں نہیں لگا تو مرزا صاحب پھر بھی کذاب ثابت ہوتے ہیں کیونکہ مرزا صاحب سے پہلے امام مہدی ہونے کے دعویدار "محمد احمد سوڈانی" کے دور میں بھی یہ گرہن لگ چکا ہے۔
لہذا ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کا بنایا گیا مفہوم بھی غلط ہے اور ان کا امام مہدی ہونے کا دعوی بھی جھوٹا ہے۔
جواب نمبر 8
اس جھوٹی روایت میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس کا ترجمہ ہو کہ
"جب سے زمین و آسمان بنے ہیں یہ نشان کسی مامور ، مرسل اور نبی یا کسی مدعی نبوت و رسالت کے لئے ظہور میں نہیں آئے"
بلکہ روایت کے الفاظ کا ترجمہ صرف یہ ہے کہ
"جب سے زمین و آسمان کی پیدائش ہوئی ہے ایسا چاند گرہن اور سورج گرہن کبھی نہیں ہوا"
اس میں نہ مامور کا کوئی ذکر اور نہ مدعی نبوت و رسالت کا لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرزا صاحب کا دعوائے مہدیت دراصل مرزا صاحب کا دعوائے نبوت و رسالت بھی تھا ؟
کیا مرزا صاحب کی یہ بات سچ ہے کہ جب ان کے مطابق رمضان المبارک سنہ 1894ء میں سورج اور چاند گرہن ہوئے تو اس وقت تک مرزا صاحب نبوت و رسالت کا دعویٰ کر چکے تھے؟
کیونکہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ کسی مدعی نبوت و رسالت کے وقت میں بھی کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے؟
ہرگز نہیں کیونکہ مرزا صاحب نے اس کے تین سال بعد جنوری 1897ء میں مولوی غلام دستگیر صاحب کے جواب میں ایک اشتہار شائع کیا اور اس میں لکھا کہ
" ان پر واضح رہے کہ ہم بھی مدعی نبوت پر لعنت بیجھتے ہیں اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت جو زیر سایہ نبوت محمدیہ اور باتباع آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم اولیاء اللہ کو ملتی ہے اس کے ہم قائل ہیں"
تین سطروں کے بعد آگے لکھا
"غرض جبکہ نبوت کا دعویٰ اس طرف سے بھی نہیں صرف ولایت اور مجددیت کا دعویٰ ہے"
(مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 2 )
خلاصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کی تشریح کے مطابق بھی مرزا صاحب کذاب ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ مرزا صاحب کے مطابق یہ چاند اور سورج کو گرہن اس وقت لگنا تھا جب نبوت و رسالت کا دعویدار موجود ہو۔ جبکہ یہ گرہن 1894ء میں لگا تھا اور 1897ء تک مرزا صاحب نبوت کا دعوی کرنے والے پر لعنت بھی بھیجتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ میرا نبوت کا دعوی نہیں ہے بلکہ مجدد اور ولایت کا دعوی ہے۔
جواب نمبر 9
یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے اور کذاب روایوں نے " محمد بن علی" کے نام سے گھڑی ہے۔اس کے دو روایوں کا تعارف ملاحظہ فرمائیں۔
1۔" عمر و بن شمر الجعفی الکوفی "
ان کا تعارف حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ نے کچھ یوں کروایا ہے ۔
1۔امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
" یہ کچھ بھی نہیں۔"
2۔امام جوزجانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
" یہ جھوٹا ہے۔"
3۔امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں
" یہ رافضی ہے جو صحابہ کو گالیاں دیتا تھا اور ثقہ لوگوں کے نام سے موضوع حدیثیں بنایا کرتا تھا۔"
4۔امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
"یہ منکر الحدیث ہے۔"
5۔امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
" یہ ضعیف ہے۔"
6۔خود امام دارقطنی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
" یہ ضعیف ہے۔"
7۔امام سیلمانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
" یہ رافضیوں کے لئے حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔"
8۔امام ابو حاتم رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں
" یہ منکرالحدیث ، ضعیف اور متروک ہے۔"
9۔امام ابو زرعہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں
" یہ ضعیف ہے۔"
10۔امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
" یہ ثقہ نہیں ہے اور اسکی حدیث نہ لکھی جائے۔"
11۔امام ابن سعد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
" یہ بہت زیادہ ضعیف اور متروک الحدیث ہے۔"
12۔ام ساجی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں
" یہ متروک الحدیث ہے۔"
13۔امام ابو احمد حاکم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
"یہ جابر جفعی سے موضوع روایات بیان کیا کرتا تھا۔"
14۔امام عقیلی رحمتہ اللہ علیہ ، امام ابن جارود رحمتہ اللہ علیہ ، امام دولابی رحمتہ اللہ علیہ اور امام ابن شاہین رحمتہ اللہ نے اسے ضعیف روایوں میں شمار کیا ہے۔
15۔امام ابو نعیم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
"یہ جابر جفعی سے منکر اور موضوع حدیثیں بیان کیا کرتا تھا۔"
( لسان المیزان ۔ جلد 6 صفحہ 210 تا 211 )
خود امام دارقطنی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب
"الضعفاء والمتروکون"( یعنی وہ روای جو ضعیف اور متروک ہیں)میں عمرو بن شمر کوفی کا تذکرہ بھی کیا ہے
( الضعفاء والمتروکون للدارقطنی ، صفحہ 308 )
2۔"جابر بن یزید الجفعی الکوفی "
اس روایت کے ایک راوی یہ صاحب ہیں اگرچہ بعض ائمہ سے ان کی توثیق منقول ہے لیکن اکثریت انہیں ثقہ نہیں سمجھتی ، ملاحظہ فرمائیں۔
1۔امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
"جابر جھوٹا ہے ۔"
2۔امام لیث بن سلیم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
"وہ جھوٹا ہے۔"
3۔امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
"میں نے جابر جفعی سے بڑا جھوٹا نہیں دیکھا۔"
4۔امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں
"امام یحییٰ قطان رحمتہ اللہ علیہ نے جابر کو ترک کردیا تھا۔"
5۔امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے
"وہ متروک ہے ۔"
6۔امام ابو داؤد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
"میرے نزدیک وہ حدیث میں قوی نہیں ہے۔"
7۔امام ابن عیینہ رحمتہ اللہ علیہ کا کہنا ہے
"میں نے جابر کو ترک کردیا۔"
8۔امام سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
"جابر ( بارہوں امام ) کی رجعت پر ایمان رکھتا تھا۔"
9۔امام جوزجانی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں
"وہ کذاب ( جھوٹا ) ہے۔"
10۔امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں
"وہ سبائی تھا اور عبداللہ بن سبا کے گروہ سے تھا۔"
11۔امام عقیلی رحمتہ اللہ علیہ امام زائدہ رحمتہ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں
"واہ روافضی تھا اور صحابہ رضی اللہ عنھم کو گالیاں دیتا تھا۔"
( میزان الاعتدال ، جلد 1 صفحات 351 تا 354 )
12۔امام ذہبی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
"جابر شیعہ کے بڑے علماء میں سے تھا ، اگرچہ امام شعبہ رحمتہ اللہ علیہ نے اسکی توثیق کی ہے لیکن وہ توثیق شاذ ہے ، حفاظ حدیث کے نزدیک یہ متروک روای ہے ۔
( الکاشف فی من لہ روایۃ فی الکتب السنۃ ، جلد 1 صفحہ 288 )
13۔ابو عوانہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں
"سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ اور شعبہ رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے جابر( جفعی ) سے حدیث لینے سے منع کیا ۔"
14۔یحییٰ بن یعلی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں
"اللہ کی قسم وہ جھوٹا تھا۔"
15۔امام عقیلی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں
"سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ نے اسے جھوٹا کہا ہے۔"
16۔امام ابن سعد رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں
"وہ بہت زیادہ ضعیف تھا۔"
17۔امام ساجی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
"سفیان بن عیینہ رحمتہ اللہ علیہ نے اسے جھوٹا کہا ہے۔"
18۔میمونی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کیا جابر جفعی جھوٹ بولتا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم ۔
( تہذیب التہذیب ، جلد 1 صفحہ 283 تا 286 )
19۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
"یہ ضعیف اور رافضی ہے۔"
( تقریب التھذیب ، صفحہ 137 )
قارئین محترم ! ہمارے خیال میں یہ روایت جس میں چاند اور سورج گرہن کو مہدی کی نشانی بتایا گیا کہ عمرو بن شمر نے گھڑی ہے اور " محمد بن علی " کے نام سے تھوپ دی ہے ، اور تمام علماء حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ " عمرو بن شمر " کا کام ہی جھوٹی روایتیں بنانا تھا ۔
جواب نمبر 10
اپنی اسی کتاب میں مرزا صاحب نے دوبارہ یہ جھوٹ اس طرح لکھا کہ :۔
"فاعلموا ایھا الجھلاء والسفھاء ان ھذا حدیث من خاتم النبیین وخیر المرسلین وقد کتب فی الدارقطنی الذی مر علی تالیفہ ازید من الف سنۃ"
"اے جاہلو اور بےوقوفو ! جان لو کہ یہ خاتم النبیین اور خیرالمرسلین ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی حدیث ہے جو دارقطنی نے لکھی ہے جس کی تالیف پر ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔"
(روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 353 )
کیا مرزا صاحب کا کوئی ماننے والا یہ بات ثابت کر سکتا ہے کہ امام دارقطنی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ کتاب صرف تین یا چار سال کی عمر میں تالیف کی تھی ؟
تاکہ مرزا صاحب کی یہ بات سچ ثابت ہوجائے کہ سنہ 1311ہجری تک اس کتاب کی تالیف پر " ہزار سال کا عرصہ " گزر چکا تھا ؟؟
مرزا صاحب کی یہ کتاب "نورالحق حصہ دوم" پہلی بار سنہ 1311 ہجری میں شائع ہوئی۔
( جیسا کہ کتاب کے بار اول کے ٹائٹل پر لکھا ہے )
اور مرزا صاحب نے اسی کتاب میں لکھا ہے کہ
"سنن دارقطنی کی تالیف پر ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے "
اب اگر 1311 ہجری میں سے ایک ہزار سال نکالیں جائیں تو جواب آتا ہے 311 ہجری ، اور اس وقت امام دارقطنی رحمتہ اللہ علیہ کی عمر صرف پانچ سال تھی کیونکہ ان کی پیدائش سنہ 306 ہجری میں ہوئی تھی۔
مرزا صاحب کی تحریر کے مطابق تو یہ کتاب بھی امام دارقطنی کی ثابت نہیں ہورہی تو پھر اس روایت کو اس قدر صحیح قرار دے کر اس سے استدلال کرنا کیسے درست ہے؟؟؟
اب آخر میں اس روایت کے بارے میں قادیانیوں کے چند سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔
سوال نمبر 1
اگر یہ روایت جھوٹی تھی تو امام دارقطنی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیوں کی ؟
جیسا کہ مرزا صاحب نے بھی لکھا ہے کہ
" اگر در حقیقت بعض روای مرتبہء اعتبار سے گرے ہوئے تھے تو یہ اعتراض دارقطنی پر ہوگا کہ اس نے ایسی حدیث کو لکھ کر مسلمانوں کو کیوں دھوکہ دیا ؟ یعنی یہ حدیث اگر قابل اعتبار نہیں تھی تو دارقطنی نے اپنی صحیح میں کیوں اس کو درج کیا ؟ "
( روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 133 )
جواب
اس کا جواب یہ ہے کہ محدثین کا کام روایات کو ان کی سندوں کے ساتھ جمع کرنا اور اس کا ذکر کرنا ہوتا ہے ، اب یہ علماء اصول حدیث اور محققین کا کام ہے کہ وہ ہر روایت کے متن اور سند کی جانچ پرکھ کریں ، محض کسی روایت کا کسی حدیث کی کتاب میں مذکور ہونا ہرگز اس روایت کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں اور نہ اصول حدیث کا کوئی ایسا قاعدہ ہے ، پھر ہماری زیر بحث روایت ( بفرض محال اگر صحیح بھی ہو ) تو نہ کسی صحابی کا قول اور نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بلکہ سنن دارقطنی میں بھی صرف کسی " محمد بن علی " نام شخص کی طرف منسوب قول ہے جو حجت نہیں اور نہ ہی امام دارقطنی رحمتہ اللہ علیہ نے کہیں لکھا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔
سوال نمبر 2
رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن اور رمضان کے نصف میں سورج گرہن ہو ہی نہیں سکتا۔؟
جواب
اگر رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن اور نصف رمضان کو سورج گرہن ہو ہی نہیں سکتا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایت جھوٹی ہے کیونکہ اس میں تو یہی ذکر ہے کہ رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن اور رمضان کے نصف میں سورج گرہن ہوگا ، نیز اس روایت میں دو بار یہ بیان ہوا ہے کہ ایسا گرہن جب سے زمین و آسمان بنے ہیں کبھی نہیں لگا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس روایت میں ایسے گرہن کی بات ہو رہی ہے جو خلاف عادت ہوگا ، اور جیسا گرہن مرزا قادیانی کی زندگی میں لگا ( یعنی رمضان کی تیرھویں رات کو چاند گرہن اور اٹھائیس رمضان کو سورج گرہن ) ایسا گرہن تو مرزا سے پہلے بھی ہزاروں بار لگ چکا ہے اور جب تک زمین و آسمان ہیں لگتا رہے گا بلکہ جیسا بیان ہوا تھا کہ " سوڈانی مہدی " کی زندگی میں بھی لگ چکا ہے ۔
سوال نمبر 3
مہینے کی پہلی رات کے چاند کو " ہلال " کہتے ہیں جبکہ روایت میں " قمر " کا لفظ ہے ۔ مرزا صاحب نے بھی یہ مغالطہ دیا ہے کہ اس روایت میں ہے کہ "يَنْخکسِفُ الْقَمَرُ لَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ " جس کا ترجمہ ہے کہ "رمضان کی پہلی رات کو قمر یعنی چاند گرہن ہوگا " یہاں مہینے کی سب سے پہلی رات ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ پہلی رات کے چاند کو عربی میں " ھلال " کہتے ہیں نہ کہ " قمر " لہذا اس کا مطلب یہی ہے کہ چاند گرہن والی تین راتوں یعنی 13 ، 14 اور 15 میں سے پہلی رات کو چاند گرہن ہوگا۔
چنانچہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"مولویت کو بدنام کرنے والو ! ذرا سوچو ! حدیث میں چاند گرہن میں قمر کا لفظ آیا ہے پس اگر یہ مقصور ہوتا کہ پہلی رات میں چاند گرہن ہوگا تو حدیث میں قمر کا لفظ نہ آتا بلکہ ہلال کا لفظ آتا کیونکہ کوئی شخص اہل لغت اور اہل ذبان میں سے پہلی رات کے چاند پر قمر کا اطلاق نہیں کرتا بلکہ وہ تین رات تک ہلال کے نام سے موسوم ہوتا ہے۔"
( روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 331 )
ایک اور جگہ یوں لکھا ہے
"اے حضرات ! خدا سے ڈرو جبکہ حدیث میں قمر کا لفظ موجود ہے اور بالاتفاق قمر اس کو کہتے ہیں جو تین کے بعد یا سات دن کے بعد کا چاند ہوتا ہے۔"
( روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 138 تا 139 )
جواب
مہینہ کی پہلی شب سے لیکر آخری شب تک کے چاند کو عربی میں قمر کہتے ہیں صرف چاند کے مختلف اوقات مختلف حالتوں اور مختلف صفات کے لحاظ سے کبھی اسی قمر کو ہلال اور کبھی بدر کہا جاتا ہے لیکن ہوتا وہ بھی قمر ہی ہے ،، آسان لفظوں میں ایسے سمجھیں کہ قمر کا اردو ترجمہ ہے " چاند " اور جس طرح اردو میں پہلی رات سے آخری رات تک کے چاند کو چاند ہی کہتے ہیں اسی طرح عربی میں پورے مہینے کے چاند کا اصلی نام " قمر " ہی ہے ،
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
"وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ"
اور چاند ہے کہ ہم نے اس کی منزلیں ناپ تول کر مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ وہ جب ( ان منزلوں کے دورے سے ) سے لوٹ کر آتا ہے تو کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح ( پتلا ) ہو کر رہ جاتا ہے ۔
( سورہ یٰسٓ آیت 39 )
ایک اور جگہ ارشاد ہے
"هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ "
اور اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا اور چاند کو سراپا نور ، اور اس کے ( سفر ) کے لئے منزلیں مقرر کر دیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور ( مہینوں کا ) حساب معلوم کر سکو ۔
( سورہ یونس آیت 5 )
ان دونوں آیات میں پورے مہینے کے چاند پر قمر کا لفظ بولا گیا ہے خواہ وہ پہلی رات کا چاند ہو یا کسی دوسری تاریخ کا ، یہی بات آئمہ لغت نے بھی لکھی ہے۔
چنانچہ مشہور لغت کی کتاب " تاج العروس من جواھر القاموس " میں لکھا ہے ۔
" الهِلالُ بِالكَسْرغُرَّةُ القَمَرِ "
ہلال کہتے ہیں قمر کی ابتدائی صورت کو ،
آگے لکھا ہے
" يُسَمَّى القَمَرُ لِلَيْلَتَيْن مِنْ أَوَّلِ الشَّهْرِ هِلَالًا "
قمر کا نام مہینے کی پہلی دو راتوں تک ہلال رکھا گیا ہے ۔
( تاج العروس من جواھر القاموس ، جلد 31 صفحہ 144 )
آپ نے دیکھا کہ صاف طور پر لکھا ہے کہ ہلال " قمر " کا ہی نام ہے ، اگر مرزا صاحب کی یہ جاہلانہ منطق ایک منٹ کے لئے تسلیم بھی کر لی جائے کہ " قمر " کا اطلاق مہینے کی شروع کی تین راتوں یا سات راتوں کے بعد والے چاند پر ہوتا ہے تو پھر بھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ چاند گرہن رمضان کی تیرھویں رات کو ہوگا کیونکہ اس جھوٹی روایت میں الفاظ ہیں " يَنْخَسِفُ الْقَمَرُ لَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ " جس کا ترجمہ ہے کہ
" قمر رمضان کی پہلی رات میں گرہن ہوگا "
تو مرزا صاحب کی منطق کے مطابق بھی "قمر " کی پہلی رات چوتھی یا آٹھویں شب ہے تو کیا مرزا صاحب کی زندگی میں رمضان کی چوتھی یا آٹھویں شب کو چاند گرہن ہوا ؟
اور مرزا صاحب نے " تَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ " کے بارے میں نہیں بتایا کہ " شمس" یعنی سورج کا اطلاق بھی صرف قمری مہینہ کی 27 ، 28 اور 29 تاریخ کے سورج پر ہی ہوتا ہے یا مہینہ کے نصف اور 14 اور 15 تاریخ کو نکلنے والے سورج کو بھی " شمس " ہی کہتے ہیں ؟؟
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن پاک نے واضح فرما دیا کہ چاند کی ہر منزل پر اس کا نام قمر ہے حتٰی کہ کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح باریک ہو جائے یعنی پہلی رات کا چاند ہو پھر بھی اس کا نام قمر ہے۔
سوال نمبر 4
اس روایت میں بیان کی گئی بات کا پورا ہو جانا ثابت کرتا ہے کہ یہ روایت سچی ہے؟
جواب
مرزائی دعویٰ ہی غلط ہے اس روایت میں بیان کی گئی بات پوری ہوئی ، کیا مرزا صاحب کا کوئی پیروکار بتا سکتا ہے کہ اس روایت کے الفاظ کے مطابق رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن اور رمضان کے نصف میں سورج گرہن کب لگا ؟
نیز یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں بلکہ عمروبن شمر جیسے رافضی اور جھوٹے روای کی گھڑی ہوئی روایت ہے جو اس نے " محمد بن علی " کی طرف منسوب کر دی ۔
روایت نمبر 3
قادیانی ایک اور روایت بھی پیش کرتے ہیں اور اس سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس روایت میں سیدنا عیسی علیہ السلام کو امام مہدی کہا گیا ہے۔ لہذا سیدنا عیسی علیہ السلام ہی امام مہدی ہیں۔ آیئے پہلے پوری روایت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں اور پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا علمی رد کرتے ہیں۔
"عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ ، عن النبی صلی الله علیہ وسلم ، قال یوشک من عاش منکم أن یلقی عیسی بن مریم اماما مھدیا و حکما عدلا، فیکسر الصليب و یقتل الخنزیر و توضع الجزیة ، و تضع الحرب اوزارھا۔"
حضور صلی الله علیہ وسلم نے (اپنی امت سے خطاب کرتے ہوئے) فرمایا کہ قریب ہے کہ تم میں سے جو زندہ رہے وہ مریم کے بیٹے عیسی (علیہ السلام) سے ملے جو ایک ہدایت یافتہ امام اور انصاف کرنے والے حاکم ہوں گے۔ پس آپ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے ۔ اور جزیہ رکھ دیا جائے گا۔ اور جنگ اپنے ہتھیار پھینک کر ختم ہوجائے گی۔
(مسند احمد حدیث نمبر 9323)
جواب نمبر 1
اس روایت میں سیدنا عیسی علیہ السلام کے لئے "اماما مھدیا" کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جس کا ترجمہ " ہدایت یافتہ امام" ہے۔ یعنی سیدنا عیسی علیہ السلام ہدایت یافتہ امام ہوں گے ۔
اگر ان الفاظ کی وجہ سے سیدنا عیسی علیہ السلام امام مہدی ثابت ہوتے ہیں تو انہی الفاظ کی وجہ سے حضرت امیر معاویہ، حضرت جریر بن عبداللہ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کیوں امام مہدی ثابت نہیں ہوتے کیونکہ احادیث میں ان کے لئے بھی "مھدیا" کا لفظ آیا ہے۔
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ
اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا
اے اللہ! گھوڑے کی پشت پر اسے ثبات عطا فرما ‘ اور اسے دوسروں کو ہدایت کی راہ دکھانے والا اور خود ہدایت یافتہ بنا۔
(بخاری حدیث نمبر 3020)
2۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا: ”اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے،
(ترمذی حدیث نمبر 3842)
3۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم
عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ۔
تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا،
(ابوداؤد حدیث نمبر 4607)
اس روایت میں بلکہ کسی بھی صحیح روایت میں تو دور دور تک ذکر نہیں کہ جس امام مہدی کے آنے کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے وہ سیدنا عیسی علیہ السلام ہیں۔
جواب نمبر 2
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ بالفرض اگر تمہاری بات مان کر عیسی علیہ السلام کو ہی امام مہدی مان لیا جائے تو مرزا صاحب تو پھر بھی امام مہدی ثابت نہیں ہوتے کیونکہ مرزا صاحب کی ماں کا نام مریم نہیں بلکہ چراغ بی بی ہے اور اس روایت میں ان عیسی علیہ السلام کے بارے میں بتایا گیا ہے جو بنی اسرائیل کے رسول تھے اور امت محمدیہ میں دوبارہ حاکم اور خلیفہ کی حیثیت سے تشریف لائیں گے۔
Comments
Post a Comment