عبد اللہ اشتر المعروف عبد اللہ شاہ غازی کون تھے
عبد اللہ اشتر المعروف عبد اللہ شاہ غازی کون تھے؟
تحریر: فخر عباس زائر اعوان (جنڈ۔اٹک)
عبد اللہ اشتر(المعروف عبداللہ شاہ غازی) بن محمد نفس الزکیہ بن عبداللہ محض بن حسن کون تھے اور کس عقیدہ کے حامل تھے؟
کراچی میں موجود عبداللہ شاہ غازی کا مزار عقیدت مندوں کیلئیے ایک عظیم درگاہ ہے اور یہ حسنی سادات سے ہیں اور امام حسن المجتبی علیہ السلام کے پوتے کے پوتے ہیں۔ عبداللہ اشتر المعروف عبداللہ شاہ غازی کون تھے اور کس عقیدہ کے حامل تھے اور سندھ میں ان کا ورود کیوں ہوا؟ ان سوالوں کا جواب جاننے کیلئیے اول ان کے دادا عبداللہ محض اور ان کے باپ محمد نفس الزکیہ کے بارے جاننا بہت ضروری ہے اس کے بعد ان کے بارے ذکر کیا جائے گا کہ وہ کس عقیدہ کے حامل تھے ۔(ہم اس تحریر میں اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے فقط مآخذ تک ہی حوالہ جات نقل کریں گے)
عبد اللہ اشتر کا دادا عبد اللہ محض بن حسن بن امام حسن علیہ السلام:
عبد اللہ محض بن حسن مثنی "زیدیہ" سے تعلق رکھتا تھا اور ائمہ حق کے مخالف فتاوی دیتا تھا ۔ جیسا کہ رجال الکشی ، رقم: 634 سے واضح ہے کہ
634 - حدثني محمد بن الحسن ، قال : حدثني الحسن بن خرزاد ، عن موسى ابن القاسم البجلي ، عن إبراهيم بن أبي البلاد ، عن عمار السجستاني ، قال : زاملت أبا بحير عبد الله بن النجاشي من سجستان إلى مكة ، وكان يرى رأي الزيدية ، فلما صرنا إلى المدينة مضيت أنا إلى أبي عبد الله عليه السلام ومضى هو إلى عبد الله بن الحسن . فلما انصرف رأيته منكسرا يتقلب على فراشه ويتأوه ، قلت : مالك أبا بحير ؟ فقال : استأذن لي على صاحبك إذا أصبحت انشاء الله ، فلما أصبحنا دخلت على أبي عبد الله عليه السلام فقلت : هذا عبد الله بن النجاشي سألني أن أستأذن له عليك وهو يرى رأي الزيدية فقال ائذن له .فلما دخل عليه قربه أبو عبد الله عليه السلام ، فقال له أبو بحير : جعلت فداك أني لم أزل مقرا بفضلكم أرى الحق فيكم لا في غيركم ، وأني قتلت ثلاثة عشر رجلا من الخوارج كلهم سمعتهم يتبرأ من علي بن أبي طالب عليه السلام . فقال له أبو عبد الله عليه السلام : سألت عن هذا المسألة أحدا غيري ؟ فقال : نعم سألت عنها عبد الله بن الحسن فلم يكن عنده فيها جواب وعظم عليه ، وقال لي أنت مأخوذ في الدنيا والآخرة ، فقلت : أصلحك الله فعلى ماذا عادينا الناس في علي عليه السلام ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمار سجستانی کہتے ہیں کہ میں ابو بجیر عبداللہ بن نجاشی کے ساتھ سجستان سے مکہ کی طرف گیا ۔ وہ زیدیہ کا نظریہ رکھتا تھا ۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو میں امام صادق علیہ السلام کے پاس چلا گیا اور وہ عبد اللہ بن حسن کے پاس گیا ۔ جب وہ واپس لوٹا تو میں نے اس کی حالت متغیر دیکھی وہ بستر پر کروٹیں بدلتا اور افسوس کرتا تھا ۔ میں نے اسے کہا، ائے بجیر تجھے کیا ہوا ہے؟ اس نے مجھے کہا جب صبح ہو تو تم اپنے امام سے میرئے لئیے اِذن دخول طلب کرو گے ۔ جب صبح ہوئی تو میں امام صادق علیہ السلام کے پاس گیا اور عرض کیا: مولا، عبداللہ بن نجاشی نے مجھے کہا ہے کہ میں آپ سے اس کیلئیے اذن دخول طلب کروں جبکہ وہ زیدیہ سے تعلق رکھتا ہے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا ، اسےاجازت ہے۔ جب وہ حاضر ہوا تو امام نے اسے اپنے قریب بٹھایااور ابو بجیر نے عرض کی میں آپ پر قربان ہو جاوں میں ہمیشہ اہلبیت کی فضیلت کا اقرار کرتا ہوں اور حقِ خلافت و ولایت بھی آپ کیلئیے مانتا ہوں نہ کہ دوسروں کیلئیے ۔ میں نے تیرہ خارجیوں کو قتل کیا ہے جن سب کو میں نے امام علی بن ابی طالب علیہ السلام سے بیزاری کرتے ہوئے سُنا ۔امام نے اس سے پوچھا : کیا اس مسئلہ کے بارئے تم نے کسی دوسرے سے پوچھا ہے؟ اس نے کہا ہاں ۔ میں نے اس سے متعلق عبد اللہ بن حسن سے سوال کیا مگر اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا بلکہ اس نے اس فعل کو بہت بُرا قرار دیا اور مجھے کہا تو اس دنیا و آخرت میں گرفتار ہو گیا ، تو میں نے اسے کہا ، اللہ تیرا بھلا کرئے تو پھر ہم کس بات پر لوگوں سے امام علی علیہ السلام کے بارے دُشمنی و اختلاف کرتے ہیں۔۔۔۔(امام نے اسے اس مسئلہ کا حل بتایا جس پہ ابو بجیر امام کی امامت کا قائل ہو گیا۔حدیث تا آخر)
اسی طرح شیخ کلینی رحمہ اللہ اپنی کتاب "الکافی"، جلد: 1، صفحہ: 36باب ما يضل به بين دعوى المحق والمبطل في أمر الإمامة،جلد: 1، صفحہ: 362 میں ایک طویل روایت نقل کرتے ہیں کہ جس میں ایک سائل نے عبداللہ بن حسن سے کچھ مسائل بارے پوچھا تو عبداللہ بن حسن نے شریعت سے مخالف فتاوی دئیے اور وہی سائل جب امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس وہی سوالات لے کے گیا تو امام نے تفصیل سے اسے ہر ایک سوال کا جواب دیا اور عبداللہ بن حسن کی نفی کی ۔
اسی طرح "زیدیہ" کا عبد اللہ بن حسن بارے عقیدہ اور امام صادق علیہ السلام کا ان کو جھوٹا قرار دینا اور لعنت کرنا، بارے "بصائر الدرجات" ، جزء رابع ، باب:4، حدیث2 ، صفحہ: 194 میں شیخ محمد بن حسن صفار رحمہ اللہ روایت نقل کرتے ہیں :
حدثنا أحمد بن محمد عن علي بن الحكم عن معاوية بن وهب عن سعيد السمان قال كنت عند أبي عبد الله عليه السلام إذ دخل عليه رجلان من الزيدية فقالا أفيكم امام مفترض طاعته فقال لا قال فقالا له فأخبرنا عنك الثقات انك تعرفه وتسميهم لك وهم فلان وفلان وهم أصحاب ورع وتشمير وهم ممن لا يكذبون فغضب أبو عبد الله عليه السلام وقال ما امرتهم بهذا فلما رأيا الغضب في وجهه خرجا فقال لي أتعرف هذين قلت نعم هما من أهل سوقنا من الزيدية وهما يزعمان ان سيف رسول الله صلى الله عليه وآله عند عبد الله بن الحسن فقال كذبا لعنهما الله ولا والله ماراه عبد الله بعينيه ولا بواحد من عينيه ولا رآه أبوه الا أن يكون رآه عند علي بن الحسين بن علي وان كانا صادقين فما علامة في مقبضه ومالا ترى في موضع مضربه وان عندي لسيف رسول الله صلى الله عليه وآله ودرعه ولامته ومغفرة فان كانا صادقين فما علامة في درعه۔۔۔۔۔
سعید سمان سے روایت ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس تھا کہ زیدیہ کے دو افراد آپ کے پاس آئے ، امام نے ان سے پوچھا: کیا تم میں ایسا امام ہے کہ جس کی اطاعت فرض ہو ۔ انہوں نے کہا: نہیں ، انہوں نے امام سے کہا: ہمیں آپ کے بااعتماد لوگوں نے بتایا ہے کہ آپ اس کا اقرار کرتے ہیں اور لوگوں کو ان کا نام بھی بتا دیتے ہیں کہ وہ فلاں فلاں عبادت گزار اور پرہیزگار ہے ۔ اور ان لوگوں میں سے ہیں جو جھوٹ نہیں بولتے ۔ امام علیہ السلام بہت غضبناک ہوئے اور فرمایا: میں نے اُنہیں یہ حکم نہیں دیا تھا ۔ جب انہوں نے آپ کے چہرہ پر غیظ و غضب دیکھا تو وہ باہر نکل گئے۔ امام علیہ السلام نے سعید سے فرمایا: کیا تم انہیں پہچانتے ہو ؟ ، میں نے کہا : جی ہاں یہ ہمارے بازار والے آدمی ہیں اور دونوں زیدیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار عبد اللہ بن حسن(عبداللہ شاہ غازی کا دادا عبداللہ محض) کے پاس ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: انہوں نے جھوٹ کہا اللہ ان پر لعنت کرے ۔ اللہ کی قسم عبد اللہ نے تو اس کو اپنی دو یا ایک آنکھ سے بھی نہیں دیکھااور نہ ہی اس کے والد نے اس کو دیکھا ہے مگر علی بن حسین علیہ السلام کے پاس۔ اور اگر یہ لوگ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو اس تلوار کے دستے پہ کوئی نشانی بتائیں اور اس کے ضرب کے مقام پر کیا اثر ہے ۔ اور فرمایا: میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار ، آپ کا درع ، آپ کا طریقہ اور آپ کا خود ہے اور اگر وہ سچا ہے تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درع کی علامت بتائیں ۔۔۔۔۔(حدیث تا آخر)
یہ روایت دیگر الفاظ کے ساتھ اس باب میں متعدد اسناد سے نقل ہوئی جن میں رقم:31 ، 37 میں "صحیح اسناد" سےنقل ہوئی ہے ۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کے صحابی الشیخ محمد بن حسن صفار رضوان اللہ علیہ اپنی کتاب "بصائر الدرجات" ، جزء رابع ، باب:4 ، حدیث:1 ، صفحہ: 194 میں "بسندِ صحیح" روایت نقل کرتے ہیں کہ جس میں امام صادق علیہ السلام نے عبد اللہ بن حسن کو جھوٹا قرار دیا ہے ۔
( 1 ) حدثني العباس بن المعروف عن حماد بن عیسی عن ابن مسكان عن سليمان بن هارون قال قلت لأبي عبد الله عليه السلام ان العجلية يزعمون أن عبد الله بن الحسن يدعى ان سيف رسول الله صلى الله عليه وآله عنده قال والله لقد كذب فوالله ما هو عنده وما رآه بواحدة من عينيه قط ولا رآه عند أبوه الا أن يكون رآه عنده علي بن الحسين وان صاحبه لمحفوظ ومحفوظ له ولا يذهبن يمينا ولا شمالا فان الامر واضح والله لو أن أهل الأرض اجتمعوا على أن يحولوا هذا الأمر من موضعه الذي وضحه الله ما استطاعوا ولو أن خلق الله كلهم جميعا كفروا حتى لا يبقى أحد جاء الله لهذا الأمر باهل يكونون هم أهله .
سلیمان بن ہارون کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا: عجلیہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن حسن یہ دعوی کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار میرے پاس ہے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی قسم وہ جھوٹ کہتا ہے ، وہ اس کے پاس نہیں اور نہ ہی اس نے اسے کبھی ایک آنکھ سے بھی دیکھا ہےمگر یہ کہ اس نے اسے علی بن حسین علیہ السلام کے پاس دیکھا ہے اور بے شک اس کا ایک مالک ہے اور وہ محفوظ ہے ۔ اور وہ تلوار اس کیلئیے محفوظ ہے اس لئیے کہیں دائیں بائیں رُخ نہ کرو کیونکہ معاملہ بالکل واضح ہے۔۔۔ (حدیث تاآخر)
عبد اللہ محض بن حسن کا عقیدہ امامت پر غلط نظریہ اور امام صادق علیہ السلام کا اس کی رد کرنا:
شیخ حسن بن صفار رحمہ اللہ "بصائر الدرجات" ، جزء ثالث ، باب:14، حدیث5 ، صفحہ: 173 میں نقل کرتے ہیں۔
حدثنا محمد بن الحسين عن أحمد بن محمد بن أبي نصر عن حماد بن عثمان عن علي بن سعيد قال كنت جالسا عند أبي عبد الله ع وعنده محمد بن عبد الله بن علي إلى جنبه جالسا وفى المجلس عبد الملك بن أعين ومحمد الطيار وشهاب بن عبد ربه فقال رجل من أصحابنا جعلت فداك ان عبد الله بن الحسن يقول لنا في هذا الامر ما ليس لغيرنا فقال أبو عبد الله عليه السلام بعد كلام اما تعجبون من عبد الله يزعم أن أباه على ( 2 ) لم يكن إماما ويقول إنه ليس عندنا علم وصدق والله ما عنده علم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی بن سعید کہتے ہیں کہ ہم امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم میں سے ایک نے امام سے کہا: میں قربان جاوں عبد اللہ بن حسن کہتا ہے کہ جو امر ہمارے لئیے نہیں وہ امر ہمارے غیر کیلئیے بھی نہیں ۔ امام نے کچھ کلام کے بعد کہا کیا تمہیں عبد اللہ بن حسن پر تعجب نہیں ہوتا کہ جو کہتا ہے کہ ہمارے جد امام علی علیہ السلام امام نہیں تھے اور کہتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی عِلم نہیں ہے ۔ اور اللہ کی قسم اس کے پاس کوئی عِلم نہیں ہے۔۔۔۔۔(حدیث تا آخر)
شیخ حسن بن صفار رحمہ اللہ "بصائر الدرجات" ، جزء ثالث ، باب:14، حدیث15 ، صفحہ: 176 میں نقل کرتے ہیں۔
( 15 ) حدثنا يعقوب بن يزيد ومحمد بن الحسين عن محمد بن أبي عمير عن عمر بن أذينة عن علي بن سعد قال كنت قاعدا عند أبي عبد الله عليه السلام وعنده أناس من أصحابنا۔۔۔۔۔۔۔۔فقال محمد بن عبد الله بن علي العجب لعبد الله بن الحسن انه يهزأ ويقول هذا في جفركم الذي تدعون فغضب أبو عبد الله عليه السلام فقال العجب لعبد الله بن الحسن يقول ليس فينا امام صدق ما هو بامام ولا كان أبوه إماما ويزعم أن علي بن أبي طالب لم يكن إماما و يرد ذلك۔۔۔۔
علی بن سعید کہتے ہیں میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس کھڑا تھا اور ہمارے ساتھیوں میں سے دیگر بھی موجود تھے۔۔۔۔محمد بن عبد اللہ بن علی نے کہا ، عبد اللہ بن حسن پر تعجب ہے کہ وہ مزاح اُڑاتا ہے اور کہتا ہے کیا یہ بات تمہارے جفر میں ہے جس کا تم دعوی کرتے ہو۔ امام صادق علیہ السلام جلال میں آ گئے اور فرمایا: عبد اللہ بن حسن پر تعجب ہے وہ کہتا ہے کہ ہم میں کوئی امام نہیں ہے ۔ وہ سچ کہتا ہے نہ وہ امام ہے اور نہ ہی اس کا والد امام ہے ۔ اور وہ کہتا ہے کہ علی بن ابی طالب علیہ السلام بھی امام نہیں ہیں اور وہ امامت کا رد کرتا ہے اور جفر کے متعلق بھی اس کا یہی کہنا ہے ۔۔۔۔۔(حدیث تا آخر)
عبداللہ شاہ غازی کے دادا عبد اللہ محض بن حسن کا اپنے بیٹے محمد(عبد اللہ شاہ غازی کے باپ ) کیلئیے مہدویت کا دعوی کرنا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کیلئیے نازیبا جملے کہنا اور امام علیہ السلام کا عبداللہ بن حسن کو اگلے حالات سے آگاہ کرنا:
ابو الفرج اصفہانی متوفاء 356 ہجری، اپنی کتاب مقاتل الطالبین صفحہ:141 اور 173میں اور شیخ مفید رحمہ اللہ متوفاء 413 ہجری اپنی کتاب الارشاد جلد:2 ، صفحہ:190 سے 192 میں اور الشیخ فضل بن حسن طبرسی رحمہ اللہ متوفاء 548 ہجری نے اپنی کتاب "إعلام الورى" جلد:1، باب :5 ، صفحہ:526 میں اور آقا قطب الدین راوندی رحمہ اللہ متوفاء 573 ہجری اپنی کتاب الخرائج والجرائح ، جلد:2 ، باب :15 ، رقم:85صفحہ:765میں نقل کرتے ہیں : "بنی ہاشم کی ایک جماعت مقام ابواء (مکہ و مدینہ کے درمیان) میں اکٹھی ہوئی کہ جن میں ابراہیم بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس ، ابو جعفر منصور (منصور دوانقی) بن علی ، عبد اللہ بن حسن (عبداللہ محض)، اس کے دونوں بیٹے محمد و ابراہیم اور محمد بن عبداللہ بن عمروبن عثمان تھے تو صالح بن علی نے کہا کہ تمہیں علم ہے کہ تم وہ لوگ ہوکہ جن کی طرف لوگوں کی نظریں اُٹھتی ہیں اور خدا نے تمہیں اس جگہ جمع کر دیا ہے پس کسی شخص کیلئیے اپنے میں سے عقد بیعت باندھو اور اپنی طرف سے اس کو یہ حقِ بیعت دو اور اس پر ایک دوسرے سے عہد و میثاق کرو یہاں تک کہ اللہ تمہیں فتح دئے اور وہ بہترین فتح دینے والا ہے پس عبد اللہ بن حسن نے اللہ کی حمد و ثناء کی ، پھر کہا کہ :
یہ حقیقت ہے کہ تم جانتے ہو کہ میرا یہ بیٹا وہ مہدی ہے پس آو اور اس کی بیعت کرو ۔
ابو جعفر(منصور دوانقی) نے کہا کس چیز کیلئیے اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہو ۔ اللہ کی قسم تم سب جانتے ہو کہ لوگ اس جوان (محمد نفس الذکیہ بن عبد اللہ بن حسن) سے ہٹ کر نہ تو کسی اور کی طرف جھکیں(اطاعت کریں) گے ۔ اور نہ ہی کسی کی طرف لبیک کہیں گے ۔ اس کی مراد محمد بن عبد اللہ تھی ۔
وہ لوگ کہنے لگے اللہ کی قسم تو نے سچ کہا ہے ، یہ وہ چیز ہے ، جسے ہم جانتے ہیں ۔ پَس سب نے محمد بن عبد اللہ کی بیعت کر لی اور اس کے ہاتھ کو مَس کیا ۔
عیسی کہتا ہے کہ عبد اللہ بن حسن کا قاصد میرے والد کیلئیے پیغام لایا کہ ہم ایک معاملہ کیلئیے اکٹھے ہوئے ہیں ، آپ تشریف لائیں اور یہی پیغام جعفر بن محمد(امام صادق علیہ السلام) کی طرف بھی بھیجا اور عیسی کے علاوہ کسی اور کا کہنا ہے کہ عبد اللہ بن حسن (عبد اللہ شاہ غازی کے دادا) نے حاضرین سے کہا کہ جعفر(امام صادق علیہ السلام) کو نہ بلاو کیونکہ ہمیں خوف ہے کہ وہ ہمارے معاملے کو خراب کر دیں گے ۔
اس سے آگے شیخ مفید رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں : جب امام جعفر صادق بن محمد علیہ السلام آئے تو عبد اللہ بن حسن نے اپنے پہلو میں آپ کو جگہ دی اور پہلے کی مانند گفتگو کو دوہرایا جس پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایسا نہ کرو کیونکہ اس بات کا ابھی وقت نہیں آیا اور اگر تم یعنی عبد اللہ سمجھتے ہو کہ تمہارا یہ بیٹا وہی مہدی ہے تو یہ وہ نہیں ہے اور نہ ہی اُس مہدی کے قیام کا وقت ہے ۔ اور اگر تم چاہتے ہو کہ اس سے اللہ کیلئیے غضب و غصہ کھاتے ہوئے خروج کراو اور وہ اَمربالمعروف اور نہی المنکرکرئے تو اللہ کی قسم آپ کو چھوڑ کر آپ کے بیٹے کی بیعت نہیں کریں گے کیونکہ آپ ہمارے بزرگ ہیں ۔ عبد اللہ بن حسن غصہ میں آ گیا اور امام سے کہا میں آپ کی مخالفت کو جانتا ہوں اور اللہ کی قسم اللہ نے اپنے غیب پر آپ کو مطلع نہیں کیا ، لیکن میرے بیٹے کا حسد آپ کو اس چیز پر اُبھاررہا ہے ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی قسم یہ حسد مجھے نہیں اُبھارتا ۔ تم تو نہیں البتہ یہ شخص(منصور دوانقی) اس کے بھائی اور بیٹے اور ساتھ ہی آپ نے ابو العباس سفاح کی پُشت پر ہاتھ رکھا ، یہ بادشاہ بنیں گے ۔ پھر امام نے عبد اللہ بن حسن کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوے فرمایا: خاموش رہو ، اللہ کی قسم تجھے اور نہ ہی تیرے دونوں بیٹوں میں سے کسی کو یہ خلافت نہیں ملے گی بلکہ یہ انہیں (ابو العباس سفاح) کیلئیے ہے اور تیرے دونوں بیٹے قتل ہوں گے ۔
شیخ مفید رحمہ اللہ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعدامام سے شامی کے مناظرہ کو نقل کرنے سے پہلے کہتے ہیں : وهذا حديث مشهور كالذي قبله ، لا يختلف العلماء بالأخبار في صحتهما ، وهما مما يدلان على إمامة أبي عبد الله الصادق عليه السلام
"یہ واقعہ بھی گذشتہ واقعہ کی طرح مشہور ہے اور علماء اخبار میں سے کسی نے ان واقعات کی صحت سے انکار نہیں کیا اور یہ واقعات امام صادق علیہ السلام کی امامت پر دلالت کرتے ہیں"
عبد اللہ شاہ غازی کے والد محمد نفس زکیہ نے نہ فقط خود کی مہدویت کا دعوی کیا بلکہ اس کیلئیے امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیعت مانگی اور جب امام نے انکار کیا تو امام کے خلاف نازیبا جملوں کا تکرار کیا اور امام صادق علیہ السلام کو قید میں ڈلوا دیا اور امام کو سخت اذیت دینے کا حکم دیا۔ جیسا کہ شیخ کلینی رحمہ اللہ اپنی کتاب "الکافی"، جلد: 1، صفحہ: 36باب ما يضل به بين دعوى المحق والمبطل في أمر الإمامة،جلد: 1، صفحہ: 362 میں نقل کرتے ہیں:
محمد بن عبد اللہ ظاہر ہوا اور لوگوں کو اپنی بیعت کی طرف بلایا۔ عیسی کہتے ہیں: میں اس کی بیعت کرنے والوں میں سے تیسرا شخص تھا۔ لوگ اس کی بیعت کو جمع ہوئے، اور قریش ، انصار اور عرب میں سے کسی نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔ موسی کہتا ہیں: اور محمد نے عیسی بن زید بن علی بن حسین سے قوم کے بزرگوں کے پاس اس کی بیعت کےلئیے جانے کی مشاورت کی، اور یہ محمد نفس زکیہ کے معتبر بندوں میں سے تھا اور اس کے سپاہیوں کا رئیس بھی تھا۔ عیسی بن زید نے اسے مشورہ دیا : اگر آپ ان کو نرمی سے بلائیں گے تو وہ نہیں آئیں گے، اگر وہ قبول نہ کریں تو آپ ان کے لیئے سخت رویہ رکھیں گے،اور آپ ان کو میرے حوالے کر دیجئیے۔ تو محمد نے اس سے کہا: ان سے تو جیسا سلوک کرنا چاہتا ہے وہ کر۔ عیسی نے کہا: اُن کے سربراہ اور بڑے یعنی ابو عبد اللہ جعفر بن محمد علیہ السلام کو پیغام بھیجیئے، اگر آپ ان سے سخت رویہ رکھیں گے تو وہ سب جان جائیں گے کہ آپ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو امام ابو عبد اللہ صادق علیہ السلام سے کیا۔ اور اس نے کہا: خدا کی قسم، کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ وہ ابو عبد اللہ یعنی امام صادق علیہ السلام کو لے آئے اور ان کے سامنے روک دیا۔ تو عیسی بن زید نے امام سے کہا: تسلیم کرلیں، آپ سلامتی سے رہیں گے۔ تو امام صادق علیہ السلام نے اس سے فرمایا: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کیا کوئی نئی نبوت آئی ہے؟ تو محمد نے ان سے کہا: نہیں، لیکن آپ بیعت کریں، آپ اپنی جان و مالک و اولاد کو امان دیں گے، اور خود کو جنگ کرنے پر مجبور نہ کریں۔ تو امام صادق علیہ السلام نے اس سے فرمایا: نہ میں جنگ چاہتا ہوں نہ لڑنا چاہتا ہوں۔ میں تمہارے باپ کے پاس بھی آیا تھا اور ان کو خبردار کیا تھا اس بارے میں جو کچھ ان کے ساتھ ہوا، لیکن خبردار کرنا تقدیر سے فائدہ نہیں دے سکتی۔ اے بھتیجے، تمہیں نوجوان کے ساتھ رہنا چاہیئے اور بوڑھوں کو چھوڑ دو۔ تو محمد نے ان سے کہا: آپ کی اور میری عمر تو بہت قریب کی ہے۔ تو امام صادق علیہ السلام نے اس سے فرمایا: میں یہاں تمہیں ہرانے نہیں آیا نہ ہی میں تم سے آگے بڑھنے آیا ہوں اس چیز میں جس میں تم ہو۔ تو محمد نے کہا: نہیں، خدا کی قسم، آپ کو میری بیعت کرنی ہی پڑے گی۔ تو امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے بھتیجے، مجھے نہ طلب ہے نہ جنگ کرنی ہے، میں تو ریگستان میں نکل کر جانا چاہتا ہوں، مگر مجھے اس چیز نے روکے رکھا ہے اور مجھ پر بہت بوجھ ڈالا ہے، حتی کہ میری زوجہ نے مجھ سے اس بارے میں ایک سے زیادہ مرتبہ بات کی ہے، مجھے اس بات سے صرف کمزوری روکتی ہے۔ خدا اور صلہ رحمی کی خاطر اس سے ہمیں بچاؤ کہ ہم مصیبت میں پڑیں۔ تو اس نے کہا: اے ابا عبد اللہ، ابو دوانیق کی وفات ہو چکی ہے، یعنی ابو جعفر کی۔ تو امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: تو پھر تم مجھ سے کیا چاہتے ہو اگر وہ مر چکا ہے؟ اس نے کہا: میں آپ کے ذریعے سے عزت چاہتا ہوں۔ تو امام نے فرمایا: جو تم چاہتے ہو اس تک کوئی رستہ نہیں۔ نہیں، خدا کی قسم، ابو دوانیق تو بس نیند کی موت مرا ہے (یعنی تمہارے خوابوں میں ہی اسکی وفات ہوئی ہے)۔ تو اس نے کہا: خدا کی قسم، آپ میری بیعت کریں گے، چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے، پھر آپ کو اپنی بیعت پر ستائش نہیں ملے گی۔ تو امام نے اس بات کا سختی سے انکار کردیا، اور اس (محمد بن عبد اللہ بن حسن) نے ان کو قید میں ڈالنے کا حکم دیدیا (اور عیسی بن زید نے امام سے غلیظ زبان استعمال کی اور محمد نفس زکیہ نے بھی) ۔ محمد نے عیسی بن زید کو امام سے سختی کرنے کا کہا اور قید کروا دیا ( یہ روایت طویل ہے جس میں مکمل احوال ذکر کئیے گئے )
عبد اللہ شاہ غازی کا والد محمدبن عبد اللہ بن حسن بھی زیدیوں میں سے تھا:
شیخ حسن بن صفار رحمہ اللہ "بصائر الدرجات" ، جزء ثالث ، باب:14، حدیث15 ، صفحہ: 176 میں نقل کرتے ہیں۔
( 15 ) حدثنا يعقوب بن يزيد ومحمد بن الحسين عن محمد بن أبي عمير عن عمر بن أذينة عن علي بن سعد قال كنت قاعدا عند أبي عبد الله عليه السلام وعنده أناس من أصحابنا فقال له معلى بن خنيس جعلت فداك ما لقيت من الحسن بن الحسن ثم قال له الطيار جعلت فداك بينا انا أمشي في بعض السكك إذ لقيت محمد بن عبد الله بن الحسن على حمار حوله أناس من الزيدية فقال لي أيها الرجل إلى إلى فان رسول الله قال من صلى صلواتنا واستقبل قبلتنا واكل ذبيحتنا فذلك المسلم الذي له ذمة الله وذمة رسوله من شاء أقام ومن شاء ظعن فقلت له اتق الله ولا تغرنك هؤلاء الذين حولك فقال أبو عبد الله للطيار ولم تقل له غير هذا قال لا قال فهلا قلت له ان رسول الله صلى الله عليه وآله قال ذلك والمسلمون مقرون له بالطاعة فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وآله ووقع الاختلاف انقطع ذلك
علی بن سعید کہتے ہیں میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس کھڑا تھا اور ہمارے ساتھیوں میں سے دیگر بھی موجود تھے تو معلی بن خنیس نے امام سے کہا: میں آپ پر قربان جاوں مجھے حسن بن حسن نہیں ملا، پھر طیار نے کہا: میں آپ پر قربان جاوں میں ایک دفعہ گلیوں سے گزر رہا تھا مجھے محمد بن عبد اللہ بن حسن ملا جو ایک گدھے پر سوار تھا اور زیدیہ کے کچھ لوگ اس کے گرد تھے۔ اس نے مجھ سے کہا اِدھر آو ،اِدھر آو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کو اپنا قبلہ بنائے اور ہمارا ذبیحہ بھی کھائے تو وہ ایسا مسلمان ہے جس کا ذمہ اللہ اور اس کے رسول نے لیا ہے پھر وہ چاھے ٹھہرے یا کوچ کرئے ۔ میں نے اسے کہا ڈر جاو ، یہ لوگ جو تمہارے پاس ہیں تمہیں دھوکہ میں نہ ڈال دیں ۔امام نے طیار سے کہا: تم نے اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا؟ طیار نے کہا: نہیں ۔ پس امام نے فرمایا: تم نے یہ کیوں نہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت یہ کہا تھا جب لوگ اطاعت پر قائم تھے اور جب آپ کی وفات ہو گئی تو اختلاف ہو گیا اور یہ بات قطع ہو گئی ۔۔۔۔(حدیث تا آخر)
شیخ محمد بن حسن صفار رحمہ اللہ اپنی کتاب "بصائر الدرجات "، جزء رابع، باب:2 صفحہ:188 میں اور اپنی دیگر متعدد روایات میں اور شیخ کلینی رحمہ اللہ "الکافی "جلد:8، رقم:594 میں نقل کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے عبد اللہ اشتر شاہ غازی کے باپ محمد بن عبد اللہ بن حسن کے دعوی کی تردید کی ۔
حدثنا محمد بن الحسين عن عبد الرحمن ابن أبي هاشم وجعفر بن بشير عن عنبسة عن المعلى بن خنيس قال كنت عنه أبى عبد الله عليه السلام إذ اقبل محمد بن عبد الله بن الحسن فسلم ثم ذهب ورق له أبو عبد الله ودمعت عينه فقلت له لقد رأيتك صنعت به ما لم تكن تصنع قال رققت له لأنه ينسب في امر ليس له لم أجده في كتاب على من خلفاء هذه الأمة ولا ملوكها .
بسندِ صحیح روایت ہے معلی بن خنیس کہتے ہیں کہ میں امام صادق علیہ السلام کے پاس تھا کہ اچانک محمد بن عبداللہ بن حسن آ گئے، انہوں نے سلام کیا اور پھر چلے گئے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے دل میں ان کیلئیے نرمی پیداہوئی اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ میں نے کہا ، میں نے آپ کو وہ کچھ کرتے دیکھا جو اس سے قبل نہیں دیکھا ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: میں ان کیلئِے اس لئیے نرم ہوا کہ وہ ایسے اَمر کی طرف منسوب ہوتے ہیں جو ان کیلئیے نہیں ۔ کتابِ علی علیہ السلام میں نہ ہی وہ اس امت کے خلفاء میں شامل ہیں اور نہ ہی بادشاہوں میں ان کا نام درج ہے
اس کے علاوہ بصائر کے اس باب میں ان کی امامت کی نفی میں مزید متعدد روایات ذکر ہوئیں
عبد اللہ اشتر المعروف عبد اللہ شاہ غازی سندھ کیوں آیا؟
جب ہم تاریخ و روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عبد اللہ اشتر اپنے والد محمد نفس زکیہ کے ہر قدم پہ ہمراہ تھا اور اس کے باطل دعوی مہدویت کی ترویج اور اس کے قیام کیلئیے افراد کو جمع کرنے میں پیش پیش تھا ۔ اب اس بارے دو آراء ہیں ۔ کہ عبد اللہ شاہ غازی سندھ میں کیوں آیا ۔ پہلی رائے کے مطابق جب عبد اللہ شاہ غازی کے والد محمد نفس زکیہ نے قیام کیا اور جب نفس زکیہ و ہمنواء زیدیوں کو قتل کر دیا گیا تو اس کے بعد وہ سندھ کی طرف بھاگ آئے اور منصور دوانقی کے گورنر نے ان کو قتل کروایا ۔ جیسا کہ ابو الفرج اصفہانی متوفا 356 ہجری نے "مقاتل الطالبین" صفحہ:206 میں عبد اللہ اشتر کے احوال میں نقل کیا ہے کہ
كان عبد الله بن محمد بن مسعدة المعلم أخرجه بعد قتل أبيه إلى بلد الهند فقتل بها ، ووجه برأسه إلى أبي جعفر المنصور . ثم قدم بابنه محمد بن عبد الله بن محمد بعد ذلك ۔
عبد اللہ اشتر کے باپ محمد کے قتل کے بعد عبداللہ بن محمد بن مسعدہ معلم نے آپ کو ہندوستان کی طرف نکال دیا اور وہ وہی قتل ہوا اور اس کے سر کو ابوجعفر منصور(منصور دوانقی) کے پاس بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد ان کا بیٹا محمد بن عبداللہ بن محمد ، ابن مسعدہ کے ہمراہ واپس (مدینہ) آ گیا ۔
اور صفحہ:207 میں ابو الفرج اصفہانی نے نقل کیا ہے
حدثني عيسى بن عبد الله بن مسعدة قال : لما قتل محمد خرجنا بابنه الأشتر عبد الله بن محمد فأتينا الكوفة ثم انحدرنا إلى البصرة ثم خرجنا إلى السند
عیسی بن عبداللہ بن مسعدہ کہتا ہے ، جب محمد قتل ہو گیا تو ہم اس کے بیٹے عبداللہ اشتر کے ہمراہ نکل کر کوفہ آ گئے اور پھر وہاں سے بصرہ اور وہاں سے سندھ کی طرف نکل گئے ۔
اور مشہور مورخ ابو الحسن مسعودی متوفا 346 ہجری نے اپنی کتاب "مروج الذھب" جلد: 3، صفحہ:358 میں نقل کیا ہے ۔
محمد کے بھائی اور اس کے بیٹے شہروں میں اس کی امامت کی دعوت دیتے ہوئے پھیل گئے ۔ اس کا بیٹا علی بن محمد مصر گیا اور وہیں قتل ہوا ۔ اس کا دوسرا بیٹا عبداللہ خراسان کی طرف گیا اور جب اس کی تلاش کی گئی تو وہ سندھ بھاگ گیا اور وہیں قتل ہوا ۔
اور دوسری رائے کے مطابق عبد اللہ اشتر اپنے والد کے کہنے پر سندھ آیا اور ان کی ناحق امامت کی بیعت سندھ کے عباسی حکومت کے گورنر عمرو بن حفص سے طلب کی جس کو اس نے نہ صرف قبول کیا بلکہ سندھ و درباری و خاندان کے امراء سے بھی محمد نفس زکیہ کیلئیے بیعت لی جیسا مورخ محمد بن جریر طبری نے "تاریخ طبری" جلد: ، صفحہ: میں 151 ہجری کے احوال میں تفصیلا نقل کیا ہے۔اور یہاں ہمارا مقصود عبد اللہ کے سندھ میں احوال کی بجائے اس کے سندھ میں آنے کا مقصد و اس کے مسلک کا ہے ، اس لئیے اس کی سندھ میں مکمل احوال کی تفصیل کی بجائے اس تحریر میں فقط عبد اللہ شاہ غازی کے مسلک و سندھ میں آنےکے مقصد کا تذکرہ ہے ۔
عبد اللہ شاہ غازی کے مسلک کی مزید وضاحت:
محمد بن جریر طبری نے "تاریخ طبری" جلد:6 ، صفحہ:289 میں 151 ہجری کے احوال میں نقل کیا ہے
محمد بن عبد الله ابنه عبد الله بن محمد الذي يقال له الأشتر في نفر من الزيدية إلى البصرة وأمرهم أن يشتروا مهارة خيل عتاق بها ويمضوا بها معهم إلى السند۔
"محمد بن عبد اللہ نے خروج کرنے کے بعد اپنے بیٹے عبد اللہ اشتر کو چند زیدیوں کے ساتھ بصرہ بھیجا اور ہدایت کی وہاں سے نہایت عمدہ و تیز رو گھوڑے خرید کر عمرو بن حفص کے پاس سندھ چلے جاو"
اور صفحہ:290 میں طبری نے ذکر کیا کہ جب عبد اللہ اشتر سندھ کے مشرک رئیس کے ہاں مقیم ہوئے جو ان کی حد درجہ تعظیم کیا کرتا تھا تو اس وقت:
وتسللت إليه الزيدية حتى صار إليه منهم أربعمائة إنسان من أهل البصائر فكان يركب فيهم فيصيد ويتنزه في هيئة الملوك وآلاتهم
اب زیدی رفتہ رفتہ عبد اللہ اشتر کے پاس پہنچ کر قیام پذیر ہونے لگے ، اس طرح اچھے ذی اثر مدبر، بہادر اور علماء عبد اللہ کے پاس جمع ہو گئے ۔ عبد اللہ اس جماعت کی معیت میں سیر و شکار کیلئیے شہزادوں کی طرح پورے تزک و احتشام کے ساتھ سواری میں نکلتا تھا ۔
اوپر ذکر کردہ احوال سے واضح ہو گیا کہ عبد اللہ اشتر المعروف عبد اللہ شاہ غازی اپنے باپ کی باطل امامت کی ترویج و بیعت لینے کیلئیے سندھ آیا اور یہ اور اس کا باپ و دادا زیدی مسلک سے تھے جیسا کہ اوپر احادیث میں تفصیلا ذکر ہو چکا ہے اور یہ خود بھی زیدیوں ہی کے ہمراہ سندھ آیا اور اپنے باپ کے قتل کے بعد زیدی علماء کو سندھ بلواء کے اس کی ترویج کی ۔
محاصل: عبد اللہ اشتر المعروف عبداللہ شاہ غازی بن محمد نفس زکیہ بن عبد اللہ محض سندھ میں اپنے باپ کی ناحق امامت مہدویت کی ترویج و بیعت لینے آیا اور زیدی مسلک سے تعلق رکھتا تھا ۔ اور رہی بات کراچی میں عبد اللہ شاہ غازی سے منسوب موجودہ مزار کی تو تاریخ طبری کہ جس کا حوالہ اوپر نقل کیا جا چکا ہے ، کے مطابق عبد اللہ اشتر المعروف عبد اللہ شاہ غازی کا قتل اندرونِ سندھ کے رئیس کی جاگیر میں دریائے سندھ کے کنارے ہوا اور دوسری روایت کے مطابق ان کے قتل کے بعد ان کے ہمنواوں نے ان کے سر قلم کئیے جانے کے خوف سے انہیں دریا برد کر دیا تھا ۔
Comments
Post a Comment