جبر و تفویض اور اختیار


جبر و تفویض اور اختیار

الف: جبر کے لغوی معنی

''جبر'' لغت میں زو رزبردستی سے کوئی کام کرانے کو کہتے ہیں اور ''مجبور'' اس کو کہتے ہیں جس کو زور زبردستی سے کوئی کام کرایا جائے ۔


''جبر'' اس اصطلاح میں یہ ہے : 
خدا وند عالم نے بندوں کو جو اعمال وہ بجا لاتے ہیں ، ان پر مجبور کیا ہے، خواہ نیک کام ہو یا بد ،براہو یا اچھا وہ بھی اس طرح سے کہ بندہ اس سلسلہ میں اس کی نا فرمانی ،خلاف ورزی اور ترک فعل پر ارادہ واختیار نہیں رکھتا۔
مکتب جبر کے ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے انسان کو جو کچھ پیش آتا ہے وہی اس کی پہلے سے تعین شدہ سر نوشت ہے، انسان مجبور ہے وہ کوئی اختیار نہیں رکھتا ہے ،یہ اشاعرہ کا قول ہے

ج: تفویض کے لغوی معنی

تفویض لغت میں حوالہ کرنے اور اختیار دینے کے معنی میں ہے۔

د: تفویض اسلا می عقائد کے علما ء کی اصطلاح میں
''تفویض'' اس اصطلاح میں یعنی: خدا وند عالم نے بندوں کے امور (افعال )خود ان کے سپرد کر دئے ہیں جو چاہیں آزادی اوراختیا ر سے انجام دیں اور خدا وند عالم ان کے افعال پر کوئی قدرت نہیں رکھتا، یہ فرقۂ ''معتزلہ'' کا قول ہے۔

سَیَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَاۤ اَشۡرَکۡنَا وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمۡنَا مِنۡ شَیۡءٍ ؕ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ حَتّٰی ذَاقُوۡا بَاۡسَنَا ؕ قُلۡ ہَلۡ عِنۡدَکُمۡ مِّنۡ عِلۡمٍ فَتُخۡرِجُوۡہُ لَنَا ؕ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا تَخۡرُصُوۡنَ﴿۱۴۸﴾

مشرکین کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام گردانتے، اسی طرح ان سے پہلے والوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارا عذاب چکھ لیا، کہدیجئے: کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے لا سکو؟ تم تو صرف گمان کے پیچھے چلتے ہو اور یہ کہ تم فقط قیاس آرائیاں کرتے ہو۔

قُلۡ فَلِلّٰہِ الۡحُجَّۃُ الۡبَالِغَۃُ ۚ فَلَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۴۹﴾

۱۴۹۔کہدیجئے: اللہ کے پاس نتیجہ خیز دلائل ہیں،پس اگر وہ چاہتا تو تم سب کو (جبراً) ہدایت دے دیتا۔

تفسیر آیات

۱۔ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَاۤ اَشۡرَکۡنَا: مشرکین اپنے شرک و کفر کی توجیہ پیش کریں گے کہ ہم اللہ کی مشیت کے مطابق شرک کر رہے ہیں، ورنہ اگر اللہ ہم سے شرک نہ چاہتا تو ممکن نہ تھا کہ ہم شرک کا عمل انجام دیتے۔ لہٰذا ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہے۔

۲۔ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تم سے پہلے کفر و شرک کرنے والے یہی طریقہ تکذیب اختیار کرتے رہے ہیں جو سراسر ظن و تخمین پر مبنی ہے۔ تم نے مشیت سے جبر مراد لیا ہے۔ اگر اللہ تربیت و تعلیم، استدلال و تعقل کا راستہ چھوڑ کر جبر کا راستہ اختیار فرماتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا، جیسے تمہارے جسمانی نظام کو قائم رکھنے کے لیے قلب و جگر کو ہدایت دے رکھی ہے لیکن اس مسلوب الاختیار ہدایت سے غرض خلقت اور مقصد شریعت پورا نہیں ہوتا۔

۳۔ قُلۡ ہَلۡ عِنۡدَکُمۡ مِّنۡ عِلۡمٍ: اللہ کی مشیت کو اس کی رضا مندی سے تعبیر کرنا ایک نہایت فحش غلطی ہے، جس میں کچھ اسلامی مذاہب بھی مبتلا ہیں۔ مشیت الٰہی یہ ہے کہ انسان خود مختار اور اپنے ارادے میں آزاد ہے تاکہ اسے امتحان میں ڈالنا، مکلف بنانا اور اس کے اعمال کے لیے ثواب و عقاب مرتب کرنا درست رہ جائے۔ انسان اللہ کی اس عدم جبر کی مشیت کے تحت خود مختار ہے۔ اسی خود مختاری کے تحت گناہ بھی کرتا ہے اور ثواب کا کام بھی کرتا ہے۔ اچھے عمل کو اس نے پسند کیا اور گناہ کو ناپسند کیا ہے۔

انسان کو خود مختار نہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اختیار و انتخاب کا اہل نہیں ہے۔ یعنی اس کی اتنی عقل نہیں ہے کہ اس کو آزادی دی جائے۔ اس طرح یہ انسان نہیں رہتا۔ ہم اس مطلب کے دوسرے لفظوں میں واضح انداز میں بیان کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے دو ارادے ہیں: ایک تخلیقی و تکوینی ارادہ، دوسرا تشریعی اور تقنینی ارادہ ہے۔ ارادہ تکوینی یعنی عالم خلق و ایجاد میں صرف اللہ کا ارادہ چلتا ہے:

ا ِاِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ (۳۶ یٰس: ۸۲)

جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے ہو جا، پس وہ ہو جاتی ہے۔

کائنات میں جو کچھ وجود میں آتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ کسی غیر خدا سے کوئی چیز وجود میں نہیں آتی۔

ارادہ تشریعی میں ایسا نہیں ہے کہ جو کچھ اللہ نے حکم دیا اس پر ساری دنیا عمل کرے۔ اللہ نے ارادہ تکوین میں فرمایا: کُنۡ فَیَکُوۡنُ ہو جا، بس وہ ہو جاتا ہے۔ نہ ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا لیکن ارادہ تشریع میں جب فرمایا: اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ نماز قائم کرو تو کوئی نماز پڑھتا ہے اور کوئی نہیں پڑھتا۔ اس سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ارادے ایک جیسے نہیں ہیں۔ اس بات کے ذہن نشین کر لینے کے بعد یہ بھی ذہین نشین کر لیں کہ بندے کا تعلق اللہ کے ارادۂ تخلیق اور تشریع دونوں کے ساتھ ہے۔ اللہ کے ارادۂ تخلیق میں بندے کا کوئی ارادہ نہیں چلتا۔ مثلاً قلب و جگر پر اللہ کا حکم چلتا ہے، بندے کا نہیں مگر اللہ کے ارادہ تشریع میں بندے کا ارادہ چلتا ہے۔ اللہ کے حکم تشریع اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ پر کوئی عمل کرتا ہے، کوئی نہیں کرتا۔ یہ اس لیے ہے کہ یہاں انسان اپنے ارادے میں آزاد ہے، اس آزادی سے غلط فائدہ اٹھانے کو گناہ کہتے ہیں۔ یہاں چونکہ انسان مجبور نہیں، خود مختار ہے۔ اللہ کے ارادۂ تشریعی پر عمل کرنا اطاعت ہے اور عمل نہ کرنا معصیت ہے اس لیے اس سے امتحان لینے، مکلف بنانے اور سزا و جزا کا قانون وضع ہوتا ہے۔

اس جگہ علمی المیہ یہ ہوا کہ ایک مکتب فکر نے اللہ کے ارادۂ تکوینی یعنی تخلیقی اور ارادۂ تشریعی دونوں میں امتیاز نہیں کیا بلکہ دونوں کو ایک جیسے قرار دیا کہ انسان سے جو بھی عمل صادر ہوتا ہے وہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ جیسے بارش کا نزول اللہ کی طرف سے ہے۔ اس علمی المیہ کے نتیجے میں اللہ کی شان میں گستاخانہ نظریہ، نظریہ جبر و جود میں آیا جس کے تحت اطاعت بھی اللہ کی طرف سے اور معصیت بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ اس طرح انسان کا کوئی عمل اپنا نہیں ہوتا، اللہ کا ہوتا ہے۔ انسان مجبور ہے۔ اس کا اپنا کوئی ارادہ نافذ نہیں ہے حالانکہ خود مختاری انسان کی ساخت کی بنیادی اینٹ ہے۔ مجبور اور انسان دو متضاد چیزیں۔ مجبور انسان موجود نہیں ہے بلکہ یہ ایک موہومہ اور مفروضہ ہے۔ مشرکین بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم سے جو شرک صادر ہو رہا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے، اگر اللہ نہ چاہتا تو ہم شرک نہ کر پاتے۔

جبر و تفویض : جبر ، اشاعرہ کا نظریہ ہے۔ ان کے نزدیک انسان کے افعال کا فاعل، خود انسان نہیں ہے۔ فاعل اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان صرف آلہ کار ہے۔ جیسے کاتب انسان ہے، قلم آلۂ کار ہے۔ تفویض ، معتزلہ کا نظریہ ہے: اس نظریے کے تحت انسان کا ارادہ علت تامہ ہے۔ اللہ نے یہ قدرت انسان کے سپرد کی ہے۔ اب اللہ روک نہیں سکتا، انسان خود جو چاہے کر سکتا ہے۔ جبر والے کہتے ہیں صرف اللہ کا ارادہ نافذ ہے۔ تفویض والے کہتے ہیں صرف انسان کا خدا داد ارادہ نافذ ہے۔ یہ دونوں مسالک، ارادۂ خالق اور ارادۂ مخلوق کو باہم متضاد سمجھتے ہیں۔ ان دونوں کو یک جا نہیں کر سکے اس لیے ان دونوں نے ایک ارادے کی نفی کی ہے۔ جبر والوں نے انسانی ارادے کی نفی کی ہے اور تفویض والوں نے اللہ کے ارادے کی نفی کی ہے جب کہ قرآن دونوں ارادوں کا قائل ہے۔ البتہ انسان کا ارادہ اللہ کے ارادے کے ذیل میں ہے۔ انسان میں قدرت اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا انتخاب بندے کی طرف سے ہے۔ قرآن دونوں نظریوں کو مسترد کرتا ہے اور اپنے کام کو ہدایت کا نام دیتا ہے۔ ہدایت وہاں ہو سکتی ہے جہاں انسان فعل و ترک میں خود مختار ہو۔ جبر کی صورت میں ہدایت نہیں ہوتی۔ ہدایت کا مطلب آزادی ہے۔ قرآن اپنے موقف کو صاف اور واضح لفظوں میں بیان کرتا ہے:

وَ مَا عَلَیۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ (۳۶ یٰس: ۱۷)

اور ہم پر تو فقط واضح طور پر پیغام پہنچانا (فرض) ہے اور بس۔

ہدایت کا مطلب پیغام سمجھانا ہے، آگے آزادی ہے:

اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا (۷۶ دھر : ۳)

ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا۔

جبر کی صورت میں عقل اور قانون کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ حیوانات اور دیوانے کے لیے قانون بے معنی ہے۔ گاڑی اور ڈرائیور میں یہی فرق ہے۔ گاڑی جبر کے تحت چلتی ہے اور ڈرائیور ارادہ رکھتا ہے۔ چنانچہ مکلف ہونے کے لیے عقل، قدرت اور اختیار شرط ہے۔ عقل اور قدرت کی شرط جبر اور تفویض کے باطل ہونے پر واضح دلیل ہے۔

نظریۂ جبر معاویہ کے دور کی پیداوار اور سیاسی عزائم پر مبنی ہے اور اپنی حکومت کے استحکام کے لیے اس نظریہ کو رواج دیا گیا۔ چونکہ جبر کے تحت حکومت اللہ کی طرف سے ہے اور جو حکومت اللہ کی طرف سے ہے اس کے خلاف قیام کرنا کفر ہے۔ جیسا کہ ابن زیاد نے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے کہا: آپ کے بھائی علی اکبر کو اللہ نے قتل کیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: لوگوں نے قتل کیا۔ ملاحظہ بلاذری انساب الاشراف ۲: ۲۰۷۔

اہم نکات
۱۔ علمی و یقینی سند کے بغیر کوئی نظریہ قابل قبول نہیں ہے: قُلۡ ہَلۡ عِنۡدَکُمۡ مِّنۡ عِلۡمٍ ۔۔۔۔

۲۔ عقائد میں ظن و تخمین گمراہ کن ہوتا ہے: اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ ۔۔۔۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 151
آیات 148 - 149

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات