ابن حجر عسقلانی کی کلابازیاں اور دفاعِ صحیح بخاری
ابن حجر عسقلانی کی کلابازیاں
اور دفاعِ صحیح بخاری
ابن حجر عسقلانی وہ نام گزرا ہے جسے متاخرین میں امیرالمومنین فی الحدیث کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
اور صحیح بخاری کا جتنا دفاع اس بندے نے کیا اس کی نظیر نہیں ملتی لہذا اس عنوان سے اہل سنت کے ہاں اس کی شخصیت بہت اہمیت کی حامل ہے۔
اس کی ایک عبارت ہے جس پر جعلی حسنیوں کے محقق صاحب "عاقب حسین" نے ایک تاویلی پوسٹ کی جس کا لنک ہم کمنٹ میں دے رہے ہیں۔
چلتے ہیں اس عبارت کی جانب پھر اس کا جواب قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
اہل سنت محدثین کا و رخی چہرہ کسی بھی اہل علم سے پوشیدہ نہیں اس وجہ سے بعض افراد اس معمہ کے حل کے لیے توجیہات کا سہارا لیتے ہیں۔
انہی میں سے ایک ابن حجر عسقلانی ہے۔
لکھتے ہیں:
وقد كنتُ أستشكلُ توثيقهم النَّاصبيَّ غالبًا (وتوهينهم الشِّيعَة مُطلقًا)، ولا سيما أن عليًّا وَرَدَ في حَقِّه "لا يُحِبُّه إلا مُؤمن، ولا يُبغضه إلا مُنَافق".
ثم ظَهَرَ لي في الجواب عن ذلك: أنَّ البُعْضَ هنا مقيدٌ بسببهِ، وهو كونه نَصَرَ النَّبيّ صلى الله عليه وسلم، لأنَّ من الطَّبع البَشَرِي بُغض من وقعتْ منه إساءةٌ في حقِّ المُبغِض والحبُّ بعكسهِ، وذلك فيما يرجعُ إلى أمور الدُّنيا غالبًا، والخبر في حُبِّ عليٍّ وبغضهِ ليس على العُموم، فقد أحبَّه من أَفرطَ فيه حتى ادَّعَى أَنَّه نبيٌّ، أو أنَّه إلهٌ - تعالى الله عن إفكهم -، والذي ورد في حقِّ عليٍّ من ذلك قد وَرَدَ مثلهُ في حقِّ الأنصارِ، وأجابَ عنه العلماء: أنَّ من أبغضهم لأجلِ النَّصر كان ذلك علامَةَ نفاقِهِ وبالعكس، فكذا يُقال في حقِّ عليٍّ، وأيضًا فأكثر من يُوصف بالنَّصب يكون مشهورًا بصدقِ اللَّهجة، والتَّمسكِ بأمور الدِّيانة، بخلافِ من يُوصف بالرَّفض، فإن غالبهم يُجازف ولا يَتَورَّع في الأخبار، والأصل فيه أن النَّاصبَة اعتقدوا أن عليًّا رضي بقتلِ عثمان، أو كان أعانَ عليه، فكان بُغضهم له دِيَانةً بزعمهم، ثم انضَافَ إلى ذلك أن منهم من قُتلتْ أقاربُهُ في حُروب عليٍّ۔
ترجمہ:
مجھے اکثر یہ اشکال لاحق ہوتا تھا کہ محدثین (راویوں کی توثیق کرتے وقت) اکثر ناصبیوں کو ثقہ قرار دیتے ہیں، جبکہ شیعہ راویوں کو مطلقاً ضعیف کہتے ہیں۔ خصوصاً اس بات کے پیش نظر کہ حضرت علیؓ کے بارے میں حدیث آئی ہے: 'علی سے مؤمن کے سوا کوئی محبت نہیں کرتا اور منافق کے سوا کوئی بغض نہیں رکھتا۔'
پھر اس کا جواب میرے سامنے یہ آیا کہ یہاں بعض (افراد) کی محبت یا بغض کی بات ایک خاص وجہ سے مشروط ہے، اور وہ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی نصرت کی تھی۔ کیونکہ انسانی فطرت کا یہ حال ہے کہ جو شخص اس کے خلاف کوئی زیادتی کرے، وہ اس سے فطری طور پر بغض رکھتا ہے، اور محبت اس کے برعکس ہوتی ہے – اور یہ زیادہ تر دنیاوی معاملات میں ہوتا ہے۔
رہی بات حضرت علیؓ سے محبت اور بغض والی حدیث کی، تو وہ عام نہیں بلکہ خاص مفہوم رکھتی ہے۔ کیونکہ بعض لوگوں نے حضرت علیؓ سے ایسی محبت کی کہ غلو میں پڑ کر ان کے نبی یا یہاں تک کہ (نعوذ باللہ) خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا – اور اللہ ان کے جھوٹ سے پاک ہے۔
اسی قسم کی حدیث انصار کے حق میں بھی وارد ہوئی ہے، اور علماء نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ جس نے انصار سے ان کی نصرتِ رسول ﷺ کی وجہ سے بغض رکھا، وہ منافق ہے، اور اس کے برعکس جو ان سے محبت کرے وہ مؤمن ہے۔ یہی بات حضرت علیؓ کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔
مزید برآں، اکثر وہ لوگ جنہیں 'ناصبی' کہا جاتا ہے، سچ بولنے اور دین داری میں معروف ہوتے ہیں۔ بخلاف اُن لوگوں کے جنہیں 'رافضی' کہا جاتا ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر مبالغہ آرائی کرتے ہیں اور روایت میں احتیاط نہیں برتتے۔
اور ناصبیوں کے بارے میں اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ عقیدہ اختیار کر لیا کہ حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کے قتل پر رضا مندی ظاہر کی یا ان کے قتل میں معاونت کی، چنانچہ انہوں نے (حضرت علیؓ سے) بغض کو دینداری سمجھا۔ پھر اس میں یہ بات بھی شامل ہو گئی کہ حضرت علیؓ کے ساتھ جنگوں میں ان کے بعض قریبی رشتہ دار مارے گئے تھے۔
تهذيب التهذيب - ط دبي (ابن حجر العسقلاني) ج ۱۱ ص ۲۰۷
اس قسم کی بے بنیاد توجیہات کا سرچشمہ، جو ایک ممتاز شخصیت ابنِ حجر عسقلانی کی طرف سے پیش کی گئی ہیں، تعصب کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ بعض علما، جن میں علامہ مظفر بھی شامل ہیں، نے ان توجیہات کا جواب دیا ہے۔ ہم ذیل میں چند نکات کی صورت میں اُن کے جوابات کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:
الف) ابن حجر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ حضرت علیؑ کی دشمنی — جیسے کہ دیگر صحابہ کی دشمنی — اگر نبی اکرمؐ کی نصرت کی بنیاد پر ہو، تو نفاق کی علامت ہے؛ جبکہ ناصبیوں کا بغض حضرت علیؑ کے خلاف اس وجہ سے نہیں ہے۔ یہ ایک غلط تاثر ہے، کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نبی اکرمؐ کا یہ فرمان کہ "علیؑ سے مؤمن کے سوا کوئی محبت نہیں کرتا اور منافق کے سوا کوئی بغض نہیں رکھتا", ایک بے فائدہ اور بیھودہ بات ہو جائے؛ کیونکہ پھر یہ وصف حضرت علیؑ کے ساتھ مخصوص نہیں رہے گا، بلکہ نبیؐ کی نصرت کرنے والے کسی بھی شخص سے دشمنی، نفاق کی علامت کہلائے گی، چاہے وہ علیؑ ہوں یا کوئی اور۔
ب) اگر واقعی معاملہ ایسا ہی ہو — کہ حضرت علیؑ سے بغض محض نبیؐ کی نصرت کی بنیاد پر نفاق کی علامت ہو — تو پھر حضرت علیؑ خود اس فرمان پر فخر کیوں کرتے تھے؟ جیسا کہ اُن کا یہ قول ہے:
وَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النبي الأمي إلى أن لا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا منافق ؟
"قسم ہے اُس ذات کی جس نے دانہ چیر کر اگایا اور روح کو پیدا کیا، یہ نبی امّیؐ کا وعدہ ہے کہ مجھ سے صرف مؤمن ہی محبت کرے گا، اور مجھ سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا!
اگر نبی اکرمؐ کا مقصود وہی ہوتا جو ابن حجر نے سمجھا ہے، تو حضرت علیؑ کا اس پر افتخار کرنا بے معنی ہوتا۔ ظاہر ہے کہ ابن حجر کا مقصود،[ جو وہ اپنے مخصوص صحابہ کو بری کرنے کے لیے بیان کر رہے ہیں]، یہ ہے کہ حضرت علیؑ سے بغض رکھنا، اُنہیں برا بھلا کہنا اور اُن کی توہین کرنا بذاتِ خود کوئی عیب یا نقص نہیں؛ حالانکہ متواتر اور کثیر روایات میں آیا ہے کہ جو شخص علیؑ کو گالی دے یا اُن سے دشمنی رکھے، وہ دراصل رسول خداؐ کو گالی دیتا ہے اور اُن سے دشمنی رکھتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ابن حجر کی نظر میں مذکورہ توجیہ صرف اُن لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو حضرت علیؑ سے دشمنی رکھتے ہیں اور اُنہیں گالیاں دیتے ہیں؛ لیکن جو لوگ اُن کے (ابن حجر کے نزدیک) خلفا کو گالیاں دیتے ہیں، وہ نہ صرف معذور نہیں سمجھے گئے بلکہ اُنہیں ہر قسم کی برائی اور عیب کا مستحق قرار دیا گیا، اور اُن پر لعنت بھیجنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ کیا یہ سب کچھ تعصب اور خواہشِ نفس کے سوا کچھ ہے؟!
کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ آخر علیؑ کا دشمن منافق کیوں نہیں ہے، جبکہ رسول اللہ ﷺ نے مختلف طریقوں سے حضرت علیؑ کی تعظیم و تکریم فرمائی ہے! حقیقت یہ ہے کہ حضرت علیؑ کو گالی دینا اور اُن سے بغض رکھنا، رسول اللہ ﷺ کی توہین اور آپؐ کے قول و فعل کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ اور بتائیے، اس سے بڑھ کر نفاق اور کیا ہو سکتا ہے؟
رہی بات غالیوں (یعنی حضرت علیؑ کے بارے میں غلو کرنے والوں) کی، تو وہ بھی اسی طرح عموماتِ قرآن و سنت سے دلیل کی بنا پر خارج ہیں، جس طرح دیگر مستثنیات کو مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔
ج) جہاں تک ابن حجر کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ انصار کے بارے میں بھی اسی قسم کی حدیث وارد ہوئی ہے، تو یہ ایک جھوٹ ہے جو ناصبیوں نے سید المسلمین اور امام المتقین (علیؑ) کی فضیلت کو رد کرنے کے لیے گھڑا ہے۔ اگر بالفرض یہ روایت صحیح بھی ہو، تو اس کا مفہوم — جیسا کہ علمائے اہل سنت نے خود نقل کیا ہے — یہ ہے کہ انصار سے دشمنی، نبی کی نصرت کی بنیاد پر ہو، تو نفاق کی علامت ہے؛ کیونکہ "کسی وصف پر کسی حکم کا معلق ہونا، علت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔"
یعنی جب دشمنی کو "انصار" ہونے کے وصف پر معلق کیا گیا، تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انصار سے دشمنی صرف اسی وقت نفاق ہے جب وہ نبیؐ کی نصرت کے باعث ہو۔ برخلاف اُس روایت کے جو حضرت امیر المؤمنینؑ کے بارے میں آئی ہے، کیونکہ اس میں کسی علت کا ذکر نہیں، بلکہ یہ بات صاف اور غیر مشروط طور پر بیان ہوئی ہے کہ "علیؑ سے محبت صرف مؤمن کرتا ہے اور بغض صرف منافق رکھتا ہے"۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ بغضِ علیؑ صرف نصرتِ نبیؐ کی وجہ سے نفاق ہے، ایک بے بنیاد توہم ہے۔
ان تمام بیانات سے واضح ہو گیا کہ ناصبی کی روایت قبول کرنا مطلقاً جائز نہیں، کیونکہ ناصبی در حقیقت منافق ہوتا ہے، اور منافق اُس کافر سے بھی بدتر ہوتا ہے جو اپنے کفر کو ظاہر کر دیتا ہے۔ اور جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہو گا۔
اقول: میں شہباز کہتا ہوں: یہ حدیث کہ علی سے مومن کے علاوہ کوئی محبت نہیں کرے گا اور منافق کے علاوہ کوئی بغض نہیں رکھے گا اہل سنت محدثین کے لیے گلی کی ایسی ہڈی رہی ہے جس نہ اگل سکتے نہ نگل سکتے جیسا کہ شمس الدین ذہبی نے تڑپ کر ایک جملہ کہا جو توجہ کے قابل ہے:
سیر اعلام النبلا میں لکھتا ہے:
وأصحّ منهما ما أخرجه مسلم عن علي قال: إنه لعهد النبي الأمي صلى الله عليه وسلم إلي: "إنه لا يحبك إلَّا مؤمن، ولا يبغضك إلَّا منافق". وهذا أشكل الثلاثة، فقد أحبه قوم لا خلاق لهم، وأبغضه بجهل قوم من النواصب، فالله أعلم
*"اور ان تین (روایات) میں سب سے صحیح وہ ہے جسے امام مسلم نے حضرت علیؓ سے روایت کیا ہے، کہ انہوں نے فرمایا: یہ نبی اُمی ﷺ کا مجھ سے عہد ہے:
'مجھے صرف مؤمن ہی محبت کرے گا، اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا۔'
یہ تینوں روایتوں میں سب سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ روایت ہے؛ کیونکہ (اس کے ظاہری عموم کے باوجود) کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو حضرت علیؓ سے محبت رکھتے ہیں، حالانکہ ان کا کوئی حصہ (نیک عمل یا دین میں) نہیں ہے، اور کچھ لوگ (نواصب میں سے) جہالت کی بنیاد پر حضرت علیؓ سے بغض رکھتے ہیں۔
تو (اس کی حقیقت کا) سب سے بہتر علم اللہ کے پاس ہے۔"
ملاحظہ کریں کیسے بیچارے ایک طرف سے رسول کی حدیث دوسری طرف ان کا مذہب جو منافقین کی آماجگاہ ہے کے درمیان پھنس چکے ہیں۔
یہاں پر کہنا بنتا ہے: {آنا رافضی و افتخر}
علامہ کے جواب کا تسلل:
د) جہاں تک ابن حجر کا یہ کہنا ہے کہ اکثر وہ لوگ جنہیں ناصبی کہا جاتا ہے، صداقتِ زبان اور دینی امور کی پابندی کے حوالے سے مشہور ہیں، تو یہ شہرت صرف ابن حجر جیسے افراد کے ہاں معتبر ہے۔ حالانکہ خود انہوں نے ایک خارجی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ توبہ کے بعد وہ کہا کرتا تھا: "دیکھو! احادیث کن لوگوں سے روایت کرتے ہو، ہم جب کسی چیز کو پسند کرتے تھے تو اس کے لیے خود سے حدیث گھڑ لیتے تھے۔"
وقد حكى القاضي عبد الله بن عيسى بن لهيعة عن شيخ من الخوراج انه سمعه يقول بعد ما تاب ان هذه الأحاديث دين فانظروا عمن تأخذون دينكم فانا كنا إذا هوينا أمرا صيرنا حديثا۔۔۔
[لسان المیزان ج۱ ص ۱۰]
اسی طرح ناصبیوں کا دین پر عمل کرنا اس توصیف کے منافی ہے جو رسول خداﷺ نے اُن کے بارے میں فرمائی ہے؛ کیونکہ آنحضرتﷺ نے خوارج اور دشمنانِ علیؑ کے بارے میں فرمایا کہ وہ اگرچہ نماز، روزہ، اور قرآن کی تلاوت میں بہت سخت گیر ہوں گے، پھر بھی دین سے خارج ہوں گے۔
«فإن له أصْحَابًا يَحْفِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ لا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ ۔
آپؐ نے فرمایا:
"ان کے ایسے اصحاب ہوں گے کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی نماز و روزہ کو ان کے مقابلے میں حقیر سمجھے گا۔ وہ قرآن پڑھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔"
(یعنی دین ان کے دل میں داخل ہی نہ ہو گا)
هـ) لیکن ابن حجر کا یہ گمان کہ رافضی اکثر جھوٹ بولتے ہیں، درحقیقت دینی دشمنی اور فرقہ وارانہ تعصب کا ایک نمونہ ہے۔ ہم ابن حجر کے اس دعوے کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں دیکھتے کہ شیعہ راوی اہل بیتؑ کے فضائل اور ان کے دشمنوں کی مذمت بیان کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسے حالات میں جب اہل بیتؑ کے ذکر پر تلوار، قلم، اور منبر کے ذریعے قدغن لگائی گئی ہو، اگر کوئی راوی ایسی روایات نقل کرے تو یہی اس کی اعلیٰ صداقت و وثاقت کی دلیل ہے؛ کیونکہ وہ جانتے بوجھتے ایسے احادیث بیان کرتا ہے، جن کی پاداش میں وہ ظالم حکمرانوں کی تلوار، ناصبی علما کی قلمی یلغار، اور دنیا پرست خطبا کی زبانی گالیوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔ یہی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ایسے راوی سب سے زیادہ باوثوق اور منصف مزاج ہوتے ہیں۔
و) جہاں تک ابن حجر کا یہ کہنا ہے کہ ناصبی اس وجہ سے علیؑ سے بغض رکھتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں علیؑ نے عثمان کو قتل کیا یا قتل میں مدد دی، لہٰذا ان کے نزدیک علیؑ سے عداوت دین کا تقاضا ہے — تو یہ ایک کھلی ضد اور حق کے مقابلے میں ہٹ دھرمی ہے۔
اس کے بالمقابل، شیعہ بھی دلائل کی روشنی میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خلفا نے امیرالمؤمنینؑ کے حق کو غصب کیا اور رسول اللہؐ کے واضح فرمان کی مخالفت کی، چنانچہ ان کے بارے میں شیعہ کا عقیدہ بھی دینی بنیاد رکھتا ہے۔
تو پھر یہ کیسا انصاف ہے کہ ناصبیوں کی روایات کو تو قبول کیا جائے، لیکن شیعہ کی روایات کو رد کر دیا جائے؟!
کیا وجہ صرف یہ ہے کہ شیعہ نے قرآن اور اہل بیتؑ (ثقلین) سے تمسک کیا، جبکہ ناصبیوں نے ان دونوں عظیم میراثوں کو چھوڑ دیا اور نبیؐ کے عہد کو توڑ دیا؟
ی) اور ابن حجر کا یہ کہنا کہ بعض ناصبیوں کے قریبی افراد حضرت علیؑ کے ساتھ جنگوں میں مارے گئے تھے، اس مسئلے میں خاصا قابلِ توجہ نکتہ ہے۔
اگر کسی کے رشتہ دار علیؑ کے ہاتھوں قتل ہو جائیں، تو یہ بغض و دشمنی کے جواز کے طور پر کیسے قابلِ قبول ہو سکتا ہے؟ اگر یہ منطق درست ہو، تو پھر مشرکین کا نبی اکرمؐ سے بغض بھی قابلِ قبول ہونا چاہیے، کیونکہ آنحضرتؐ نے بھی اُن کے قریبیوں کو قتل کیا تھا۔
یہاں تک علامہ کا بیان تمام ہوا۔
دلائل الصدق ج ۱ ص ۲۲۶
ح) ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اگر امیرالمؤمنینؑ کی توہین اور گستاخی کو "دینی عقیدہ" یا "دیانت" کے نام پر جائز قرار دیا جائے، تو یہی منطق یہودیوں اور عیسائیوں کی جانب سے پیغمبر اکرم ﷺ کی توہین و تکذیب کو بھی درست اور قابلِ قبول بنا دے گی؛ کیونکہ وہ بھی اپنے اس اعتقاد کی بنیاد پر کہ شریعتِ سابقہ منسوخ نہیں ہوئی، رسولِ خدا ﷺ کی نبوت کا انکار کرتے ہیں اور اس وجہ سے ان کے ہاں رسول اللہ ﷺ کی اہانت جائز سمجھی جاتی ہے۔
پس اگر ابن حجر کی یہ توجیہ درست مانی جائے، تو لازم آئے گا کہ وہ ان یہود و نصاریٰ کی طرف سے پیغمبر اسلام ﷺ کی اہانت اور گالی گلوچ کے لیے بھی ایک جواز اور جَواز کی راہ ہموار کر دیں — اور اس کی ذمہ داری قبول کریں!
انہی اشکالات کی وجہ سے ابن حجر عسقلانی کا یہ متضاد اور دوہرا معیار بعض منصف مزاج اہل سنت محققین کی تنقید کا نشانہ بنا؛ جیسا کہ معاصر اہل سنت محقق بشّار عوّاد نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا:
كيف يكون من ينصب العداء ويشتم على بن أبي طالب رضى الله عنه متدينا ومتمسكا بإمور الديانة وكيف يكون بغض على بن أبي طالب وسبه ديانة، هذا كلام لا يليق بالحافظ ابن حجر، إن كل من سب أحداً من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فهو مبتدع ضال لا يحتج به ولا كرامة، والله أعلم. وقال ابن حجر في التقريب صدوق ناصبی قال بشار: لا يكون الناصبي صدوقا، بل هو ضعيف إن شاء الله.
"یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص ناصبی ہو، اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھلی دشمنی کا پرچم بلند کرے، اور پھر بھی متدیّن اور دین دار سمجھا جائے؟! بغض و عداوتِ علیؑ اور اُن پر لعنت و سبّ و شتم کو دیانت کیسے کہا جا سکتا ہے؟!"
یہ ایسی بات ہے جو ابن حجر جیسے عالم کے شایانِ شان نہیں تھی۔
درحقیقت، جو شخص صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی گالی دے، وہ ایک گمراہ بدعتی ہے، جس کی بات قابلِ حجت نہیں، اور نہ ہی وہ کسی عزت و کرامت کا اہل ہے۔
واللہ اعلم۔
ابن حجر نے اپنی کتاب تقریب التهذیب میں "لمّازہ" کے بارے میں لکھا کہ:
"وہ سچا ہے، لیکن ناصبی بھی ہے۔"
تقریب التھذیب ج۱ ص۴۶۴
اس پر بشار عواد نے بجا طور پر کہا:
"ناصبی کبھی سچا نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ ضعیف اور ناقابلِ اعتبار راوی ہے ان شاءاللہ۔
تھذیب الکمال ج۲۳ ص۲۵۲
ان شاءاللہ اگلی پوسٹ میں عملی طور پر ابن حجر عسقلانی کی دوغلی پالیساں قارئین کے لیے پیش کریں گے ۔
✍️سید شہباز رضا
Comments
Post a Comment