امام حسین علیہ السلام کے اہلِ خانہ کی کربلا کے سفر میں ہمراہی کے اسباب کیا تھے ؟

امام حسین علیہ السلام کے اہلِ خانہ کی کربلا کے سفر میں ہمراہی کے اسباب کیا تھے ؟

واقعہ عاشورا سے متعلق ایک بار بار دہرایا جانے والا سوال یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنے اہلِ خانہ کو کربلا کیوں ساتھ لائے ؟
اگر امام حسین علیہ السلام کا مقصد یزید کے خلاف قیام کرنا تھا تو فقط اپنے لشکر کے ساتھ تشریف لاتے ، بقیہ خانوادے کو ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی ؟

اس تحریر میں ہم تاریخی شواہد اور عقلی دلائل کی روشنی میں چند بنیادی اسباب کا اختصار کے ساتھ ذکر کریں گے، جن کی بنیاد پر امام حسینؑ نے اہلِ خانہ کو کربلا ساتھ لے جانے کا فیصلہ فرمایا۔
 
سب سے پہلے یہ واضح رہے کہ امام حسین ع یزید کے خلاف قیام کے ارادے سے ہی مدینہ سے نکلے ہیں 
امام حسین علیہ السلام کے مقصد و فلسفہ قیام کو جاننے کے لئے سب سے بہترین اور سب سے مطمئن سند خود آپ کے یا دیگر ائمہ معصومینؑ کے ارشادات اور بیانات ہیں۔

 آپ کے سارے خطبات، ارشادات، خطوط، وصیت نامے جو کہ آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کے سلسلہ میں ہیں نیز ائمہ معصومینؑ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کے لئے وارد زیارت ناموں میں بھی آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا گیا ہے ذیل میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے :

۱ ) امام حسین علیہ السلام نے مکہ مکرمہ میں عالم اسلام کے مختلف علاقوں کے علماء و دانشوروں کے اجتماع میں ایک ولولہ انگیز اور دندان شکن خطبہ ارشاد فرمایا اور آپ نے اس خطبہ میں دین اور مسلمانوں کے عقائد کے تحفظ کے لئے علماء اور بزرگان شہر و دیار کی عظیم ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی 

امام علیہ السلام نے ظالم نظام کے خلاف اپنے اقدامات جو کہ چند برس بعد ایک انقلاب کی شکل میں سامنے آئے ، کے مقصد کا اعلان اس طرح فرماتے ہیں:

خدایا! تو جانتا ہے کہ ہم جو کچھ انجام دے رہے ہیں ، یہ سب حکومت اور دنیا کی ناچیز متاع میں سبقت کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ ہم تیرے دین کی نشانی لوگوں کو دکھا دیں (برپا کریں) اور تیری سرزمین پر اصلاح کو ظاہرو آشکار کریں۔ میں چاہتا ہوں کے تیرے ستم رسیدہ بندے امن و امان میں رہیں اور تیرے احکام و قوانین پر عمل کیا جائے۔

تحف العقول - ص ۲۳۹

ان جملات میں غور و فکر سے یزید کے دور میں امام حسینؑ کے اقدامات کے چار اصل مقصد سامنے آتے ہیں:

الف: حقیقی اسلام کی نشانیوں کو زندہ کرنا۔
ب: اسلامی مملکت کے لوگوں کی حالت کی اصلاح و بہبودی۔
ج: ستم رسیدہ لوگوں کے لئے امن و امان کی فراہمی۔
د: احکام و واجبات الٰہی پر عمل کے لئے مناسب مواقع فراہم کرنا۔

۲۔ امام حسینؑ نے مدینہ سے رخصتی کے وقت اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام ایک وصیت نامہ تحریر فرمایا اور اس میں اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح تحریر فرمایا:

"إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِ جَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب؛

میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں؛ اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں ، نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں اور اپنے نانا رسول خدا (ص) اور بابا علی(ع)  کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں۔

کتاب الفتوح - ابن اعثم کوفی - ج ۵ - ص۲۱
موسوعہ کلمات امام حسین ع 

ایک دوسرے مقام پرفرماتے ہیں: 

خدایا! مجھے معروف (نیکی) سے محبت ہے اور میں منکر (برائی) کو ناپسند کرتا ہوں۔

مقتل الحسین - خوارزمی - ج۱ - ص ۱۸۶

ائمہ معصومین علیہم السلام کی زبانی امام حسین علیہ السلام کی مختلف زیارتوں میں یہ تعبیر بکثرت مشاہدہ کی جاتی ہے :

اَشْهَدُ اَنَّکَ قَدْ اَقَمْتَ الصَّلوهَ وَآتَیْتَ الزَّکوهَ وَاَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیْتَ عَنْ الْمُنْکَرِ۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی،نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا ۔

اس عبارت کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مندرجہ ذیل مقاصد ہو سکتے ہیں:

الف:امت رسولؐ کی امور کی اصلاح
ب: امر بالمعروف
ج: نہی عن المنکر
د: رسول خدا ص اور امیرالمومنین علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرنا جیسے نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا۔

یہ وہ بنیادی نکات تھے جن کے نفاذ کے لیے امام حسین علیہ السلام نے قیام فرمایا

اس سلسلے میں اگرچہ مزید خطبات اور ارشادات بھی پیش کیے جا سکتے ہیں تاہم ، ہم انہی نکات اکتفا کرتے ہوئے اپنے مضمون کے بنیادی حصے کی جانب بڑھتے ہیں

تاریخ میں مختلف محققین نے امام حسین علیہ السلام کے اپنے خانوادے کو کربلا لے جانے کے  مختلف اسباب بیان فرمائے ہیں جن میں سے چند بنیادی اسباب کو ہم نے اپنی تحریر کا حصہ بنایا ہے اور اختصار کی پیش نظر انہی نکات پر اکتفا کیا ہے : 

1. تحفظِ اہلِ خانہ اور بے حرمتی سے بچاؤ
2. امامِ وقت کا دفاع
3. پیغامِ کربلا کی تبلیغ و ابلاغ
4. رضا اور مشیتِ الٰہی

پہلا سبب : اہلِ خانہ کی حفاظت اور بے حرمتی سے بچاؤ

اہلِ بیتؑ کو امام حسینؑ کے ساتھ کربلا لے جانے کی اولین وجہ تحفّظِ اہلِ خانہ اور ناموس کی بے حرمتی سے بچاؤ تھی۔

جب یزید نے مدینہ کے گورنر کو حکم دیا کہ امام حسینؑ سے ہر قیمت پر بیعت لی جائے، تو امامؑ نے مدینہ کو اپنے لیے غیر محفوظ سمجھتے ہوئے مکہ کی طرف روانگی اختیار کی۔
مدینہ میں ایسا کوئی محفوظ مقام نہ تھا جہاں آپؑ اپنے اہلِ بیتؑ کو امانتاً چھوڑ سکتے۔ بلکہ صرف مدینہ ہی نہیں، بلکہ پورے عالمِ اسلام میں کہیں بھی امامؑ کے لیے امن و تحفظ کا کوئی گوشہ باقی نہ رہا تھا۔

اسی وجہ سے امام حسینؑ نے فیصلہ کیا کہ اہلِ خانہ کو اپنے ساتھ رکھیں تاکہ دشمن کی جانب سے گرفتاری، بے حرمتی اور گروی بنانے جیسی سازشوں سے بچایا جا سکے۔

اگر ہم یزید اور اس کے ہم نواء گروہ کی سیاست کا تجزیہ کریں تو ہمیں یہ بات بعید نہیں لگتی کہ وہ امامؑ کے اہلِ خانہ کی حرمت پامال کر کے انہیں یرغمال بناتے اور یوں امامؑ کو مجبور کرتے کہ یا بیعت کر لیں یا راہِ شہادت سے ہٹ جائیں۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے:

جب آخرکار واقعۂ کربلا کے بعد اہلِ بیتؑ کو اسیر ہی بنا لیا گیا، تو پھر اہلِ خانہ کو ساتھ لے جانے سے کیا فرق پڑا ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں قسم کی اسیری بالکل مختلف تھیں:

پہلی قسم کی اسیری (یعنی اگر امامؑ انہیں مدینہ چھوڑ جاتے اور وہیں گرفتار ہوتیں)، ایسی ہوتی جس سے امام حسینؑ کی تمام قربانی، جدوجہد اور پیغام دب جاتا۔

جبکہ دوسری قسم کی اسیری (یعنی کربلا کے بعد کی اسیری) نہ صرف امامؑ کے پیغام کو مٹنے سے بچا گئی بلکہ اہلِ بیتؑ نے اس اسیری کو تبلیغ، بیداری اور ظلم کے خلاف فریاد کا ذریعہ بنا دیا۔

یہی وجہ ہے کہ اس دوسری اسارت کو ایک مثبت مقصد اور الٰہی حکمت کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے اور اسے امامؑ کے اہلِ بیتؑ کو ہمراہ لے جانے کی ایک اہم دلیل سمجھا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں، مدینہ میں امام حسینؑ کی یزید کی عدم بیعت اپنے لیے خطرہ سمجھی جانے لگی
مدینہ کے عوام اور ان کے سرکردہ افراد نے خود امام حسینؑ کو یہ مشورہ دیا کہ آپ مدینہ سے باہر چلے جائیں۔

یہ مشورہ صرف امامؑ کی مصلحت کے پیشِ نظر نہیں تھا، کیونکہ اگر واقعی امامؑ کی مصلحت ان کے لیے اہم ہوتی، تو وہ خود امام کے ساتھ قیام کرتے اور ان کا ساتھ دیتے۔

دوسرا سبب : امامِ وقت کا دفاع ، امام حسینؑ کے اہلِ خانہ کے ہمراہی کی دوسری دلیل

امام حسین علیہ السلام اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ان کے سامنے کس قدر سخت اور جان لیوا انجام ہے، لیکن اس کے باوجود آپؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا۔
آپؑ نے اپنے لیے یہ فرض اور دینی ذمہ داری سمجھا کہ ظالم و فاسد حکومت کے خلاف قیام کریں، اس کے نفاق اور فسق کو آشکار کریں، اور اس اصلی اسلام کو دوبارہ زندہ کریں جس کی حقیقت مٹ چکی تھی۔

ایسے حالات میں ہر سچے پیروکار پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے امام کا ساتھ دے اور اس کا دفاع کرے۔
لہٰذا اگر ہم اس زاویے سے دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امام حسینؑ کے اہلِ خانہ اور قریبی رشتہ داروں نے انہیں محض خاندان کے ایک فرد کے طور پر نہیں بلکہ امامِ وقت کے طور پر پہچانا اور اسی حیثیت سے ان کا ساتھ دیا۔

ان پاک ہستیوں نے اپنی اس ہمراہی سے ہمیں ولایت کے ساتھ وفاداری کا درس دیا۔
پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام حسینؑ کے اہلِ بیتؑ کا ہمراہی کرنا ان کی ایک ایمانی و شعوری انتخاب تھا، جو وہ بطور شیعہ مسلمان انجام دے رہے تھے۔ وہ ہرگز تیار نہ تھے کہ اپنے امام کو تنہا چھوڑ دیں۔

تیسرا سبب : پیغامِ عاشورا کی تبلیغ 

آج ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے تبلیغ اور پیغام رسانی کی کیا اہمیت ہے۔
اگر کسی تحریک کے اہداف بہترین ہوں اور اس کا عمل کامیابی سے آگے بڑھے، لیکن اگر وہ تحریک دنیا کی آنکھوں سے اوجھل رہے تو یہ گویا ایسا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

امام حسینؑ کا قیام ایک عظیم تحریک تھی، جس کے اہداف بہت بلند تھے۔
اس قیام کے اثرات کو بڑھانے کے لیے ایسے مبلغین کی ضرورت تھی جو فصاحت و بلاغت کے اوج پر ہوں، اور پیغام کو ہر ایک تک پہنچا سکیں۔

یزید اس کوشش میں تھا کہ اپنی ناپائیدار حکومت کو بچانے کے لیے ہر قسم کے مخالفین کو ختم کر دے۔
اسے گمان تھا کہ اگر وہ امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر دے، اور ان کے اہلِ خانہ کو قید کر لے، تو سب کچھ ختم ہو جائے گا اور تمام آوازیں خاموش ہو جائیں گی۔

لیکن وہ اس بات سے غافل تھا کہ یہی شہادت اور یہی اسارت اس کی نیندیں حرام کر دیں گی۔

شہادت اور اسیری واقعۂ کربلا کے دو بنیادی رخ ہیں، اور ہر ایک کی اپنی الگ تاثیر اور اثرات ہیں۔

امام حسینؑ کے اہلِ خانہ کی اسیری، باوجود اس کے کہ اس کا ظاہری پہلو غمناک تھا ، بے شمار برکتوں اور نتائج کی حامل بنی۔
یہ پاکیزہ نفوس اس واقعے کے عینی شاہد تھے اور انہوں نے اس قیام کی حقیقت اور جزئیات کو خطبات، بیانات، اور گفتار کے ذریعے دنیا کے سامنے آشکار کیا۔

انہوں نے ظالم حکومت کا مکروہ چہرہ سب پر واضح کر دیا، اور ان افراد کو بھی بیدار کیا جو سالوں تک غفلت، تعصب، اور ظاہری دین کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔

اہلِ بیتؑ کی اس جدوجہد نے اس باطل نظام کی جھوٹی اور گمراہ کن پروپیگنڈا مہم کو ناکام بنایا، اور عاشورا کے بعد ہونے والی انقلابی سرگرمیوں کی بنیاد رکھ دی، جس کے نتیجے میں بالآخر ظالمانہ حکومت کا تختہ الٹ گیا۔

اسیرانِ کربلا، خاص طور پر حضرت زینبؑ، نے بطور سچّے گواہ جو کچھ کہا اور کیا، وہ اگرچہ ابتدائی مقصدِ ہمراہی نہ تھا، لیکن یہ اس قیام کی سب سے مؤثر قوتوں میں شمار ہونے لگا۔

یوں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اہلِ بیتؑ کی اسیری، امام حسینؑ اور حضرت زینبؑ کی دور اندیشی کا حصہ تھی، اور اسے اہلِ بیتؑ کی ہمراہی کے اہم اسباب میں شمار کیا جانا چاہیے۔

چوتھا سبب : عرفِ عام یا الٰہی مصلحت کی پیروی ؟

بعض افراد اس سوال کے جواب میں کہ امام حسینؑ نے اپنے اہلِ خانہ (جن میں خواتین اور بچے شامل تھے) کو اپنے ساتھ کیوں لیا، یہ کہتے ہیں کہ عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ جنگوں میں اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے جاتے تھے۔
لیکن اگر ہم اس دلیل کو قبول کر لیں، تو کیا یہ بھی مان لینا پڑے گا کہ امام حسینؑ جیسی معصوم اور الٰہی شخصیت نے اپنے فیصلوں کی بنیاد معاشرتی رواجوں پر رکھی تھی؟

اہلِ بیت علیہم‌السلام کی سیرت کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ بزرگوار ہمیشہ اپنے کاموں میں اللہ کی رضا اور مشیت الٰہی کو معیار بناتے تھے۔
اسی لیے یہ کہنا کہ امامؑ نے عرفِ عام کی پیروی کرتے ہوئے اہلِ خانہ کو ہمراہ لیا، درست نہیں۔
اس کے برعکس ہمیں امامؑ کے اس فیصلے میں مشیتِ خداوندی اور ایک خاص حکمت کو تلاش کرنا ہوگا۔

جب امامؑ کوفہ و کربلا کی طرف روانہ ہونے والے تھے، تو بہت سے افراد نے مشورہ دیا کہ وہ یمن یا کسی دوسرے محفوظ مقام کی طرف چلے جائیں، کیونکہ ان کے خیال میں یمن نہ صرف محفوظ تر تھا بلکہ وہاں کے لوگ کوفہ کے مقابلے میں زیادہ وفادار شیعہ تھے۔
لیکن امام حسینؑ نے ان تمام تجاویز کو مسترد کر دیا۔

جب اصحاب نے بہت زیادہ اصرار کیا اور امامؑ کو اس سفر سے باز رکھنے کی کوشش کی، تو امامؑ نے ایک خواب کا ذکر کیا جس میں نبی کریم ﷺ نے انہیں شہادت کا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا تھا۔
امامؑ نے واضح طور پر فرمایا کہ وہ اپنے اختیار سے اسی راہ کا انتخاب کر رہے ہیں جس میں اللہ کی رضا ہے۔

یہ راہ کوئی اور نہیں بلکہ شہادتِ امامؑ اور اہلِ خانہ کی اسارت تھی۔
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اہلِ بیتؑ کو ہمراہ لے جانے کی ایک اہم ترین وجہ یہ تھی کہ امامؑ نے الٰہی مصلحت کو تسلیم کیا۔
اور یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ مشیتِ الٰہی میں ہمیشہ رشد، کمال اور تربیت کی راہیں پنہاں ہوتی ہیں۔
امام حسینؑ نے دل کی گہرائیوں سے اس کمال کو پہچانا اور رضامندی و اختیار کے ساتھ اس راہ پر گامزن ہوئے۔

یہ وہ بنیادی نکات ہیں جن پر امام حسین علیہ السلام کے اس اقدام کی بنیادیں استوار ہیں اور ان نکات کی مدد سے ہمیں امام حسین علیہ السلام کی حکمت معلوم ہوتی ہے

ایک باطل فکر کا رد : 

یہاں ایک باطل فکر کا رد ضرور ہے جس کے مطابق امام حسینؑ نے خواتین و بچوں کو اس لیے ہمراہ لیا تاکہ دشمن پر ترحم پیدا ہو اور لوگ زیادہ تعداد میں امامؑ کے لشکر سے جا ملیں۔
لیکن اگر ہمارا امام حسینؑ سے تعارف صحیح ہے، تو یہ دلیل غیر معقول اور ناقابل قبول ہے۔
امام حسینؑ وہ ہستی ہیں جنہوں نے شب عاشورا کے موقع پر اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اگر تم جانا چاہو تو آزادی سے جا سکتے ہو، میں تمہیں مجبور نہیں کرتا۔

آپؑ نے زور، دھوکہ یا جذباتی حربوں سے کبھی اپنا لشکر نہیں بڑھایا۔
اگر امامؑ کا مقصد صرف لوگوں کو جذب کرنا ہوتا تو مکہ جیسے عظیم مرکز میں موجود لاکھوں حاجیوں سے بہتر کوئی موقع نہ ہوتا، جہاں امامؑ نے حق کی بات پہنچائی، لیکن کسی کو مجبور نہ کیا۔

ممکن ہے کہ امامؑ نے مکہ کی محدود اور عارضی امن گاہ میں اپنے اہلِ خانہ کو ساتھ رکھا ہو تاکہ وہ بھی محفوظ رہیں۔
لیکن یہ کہنا کہ امامؑ نے اہلِ بیت کو محض ترحم یا حمایت حاصل کرنے کے لیے ساتھ لایا، نہ صرف امام کی عظمت کے منافی ہے بلکہ واقعۂ عاشورا کی روح کے بھی خلاف ہے۔

پروردگار ہمیں مقاصد کربلا سمجھنے اور اس عظیم قیام سے علمی و فکری استفادہ کی توفیق عنایت فرمائے 

سید علی حیدر شیرازی

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات