الموحدون یعنی دروز، ایک تعارف اور حالیہ جنگ

*


*تحریر: سید اسد عباس*

دروز خود کو "الموحدون" کے نام سے پکارتے ہیں، جس کا مطلب ہے "توحید پر عمل کرنے والے" یا "ایک خدا پر ایمان رکھنے والے۔" یہ نام ان کے بنیادی عقیدے کی عکاسی کرتا ہے، جو ایک ابدی، غیر مادی خدا پر یقین پر مبنی ہے۔ لفظ "دروز" محمد بن اسماعیل الدروزی کے نام سے ماخوذ ہے، جو اس فرقے کے ابتدائی داعیوں میں سے ایک تھے ۔ تاہم، دروز خود کو حمزہ بن علی بن احمد) جنھیں حمزہ بن زرونی بھی کہا جاتا ہے (اپنا حقیقی بانی اور سب سے معتبر رہنماء تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے اکثر مذہبی رسالے بھی انہی سے منسوب ہیں اور انھوں نے 804 ہجری میں ایک نیا سن (کیلنڈر) بھی جاری کیا تھا، جو ان کے مرکزی کردار کو مزید نمایاں کرتا ہے۔

دروز مذہب کی ابتدا 10ویں اور 11ویں صدی عیسوی میں فاطمی سلطنت کے دارالحکومت قاہرہ، مصر میں اسماعیلی شیعہ اسلام سے ہوئی۔ یہ تعلق ان کے ابتدائی مذہبی ارتقاء کو سمجھنے کے لیے بنیادی ہے اور ان کے عقائد پر اسلامی اصولوں کے ساتھ ساتھ ہندو اور یونانی فلسفے کا بھی اثر پایا جاتا ہے۔ 

باوجود اس کے کہ دروزیت اسلام سے نکلی ہے، اب اسے ایک الگ اور منفرد مذہب سمجھا جاتا ہے۔ 

زیادہ تر دروز خود کو مسلمان نہیں مانتے۔ اسلامی علماء، جیسے امام ابن تیمیہ نے 1305 میں فتویٰ جاری کیا کہ دروز دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور ان کا درجہ عیسائیوں سے بھی نیچے ہے۔ یہ فتویٰ دروز کے خلاف تاریخی ظلم و ستم اور ان کی شناخت کی نفی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

دروز کی تشکیل اور عقائد
الحاکم بامر اللہ، فاطمی سلطنت کا 16واں حاکم تھا، جس کے کچھ مصاحبین اور قریبی حلقہ کے لوگوں نے اسے انسان کے بجائے خدا کا اوتار سمجھنا شروع کر دیا، یہ عقیدہ دروز مذہب کی بنیاد بنا۔ حمزہ بن علی بن احمد نے اس اعتقاد کو باقاعدہ مذہب کا درجہ دیا۔ 1021 عیسوی میں حمزہ کا قتل ہوا اور اسی سال 12 فروری 1021 عیسوی کی رات الحاکم بامر اللہ خود بھی اچانک لاپتہ ہوگیا اور آج تک اس کا کوئی سراغ نہ مل پایا۔ ان دونوں کی موت اور گمشدگی کے بعد، دروز کی کمان بہاء الدین المقتنیٰ کے ہاتھ آگئی اور 1043 عیسوی میں اس نے اعلان کیا کہ: "اب سے مزید کوئی بھی شخص دروز میں داخل نہیں ہوسکتا۔" یہ اعلان دروز مذہب کی بند نوعیت کا سنگ بنیاد بنا۔

دروز عقائد باطنی (esoteric) نوعیت کے ہیں اور ان کی زیادہ تر مذہبی تعلیمات خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ توحید: دروز خدا کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ خدا کو ایک مطلق اور ماورائی ہستی سمجھتے ہیں۔ تناسخ ارواح 

(Reincarnation): دروز تناسخ پر یقین رکھتے ہیں، یعنی روح ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ روح تب تک دوبارہ جنم لیتی رہتی ہے، جب تک کہ وہ پاکیزگی حاصل نہ کر لے اور خدا سے دوبارہ منسلک نہ ہو جائے۔ نبوت کا اختتام: دروز کا ماننا ہے کہ نبوت کا سلسلہ مکمل ہوچکا ہے۔ اگرچہ وہ آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، اور محمدؐ کو پیغمبر مانتے ہیں، لیکن ان کے عقیدے میں فاطمی خلیفہ الحاکم بامراللہ کو خدا کا مظہر اور مہدی سمجھا جاتا ہے۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ فیثاغورث، ارسطو اور سقراط جیسے فلسفی بھی روحانی پیشوا تھے۔ حکمت (Hikma): حکمت دروز عقیدے کا ایک مرکزی اصول ہے۔ ان کی مقدس کتابیں "رسائل الحکمہ" (Epistles of Wisdom) کہلاتی ہیں، جو روحانی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ علم اور سمجھ کی جستجو کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور مذہبی متون کی باطنی تفسیر پر زور دیا جاتا ہے۔

تقیہ: دروز بھی تقیہ پر عمل کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ بعض اوقات اپنے عقائد کو بیرونی دنیا سے چھپا سکتے ہیں، خاص طور پر مشکل حالات میں۔ عبادات اور رسومات: دروز کی کوئی رسمی عبادت گاہیں یا مخصوص رسومات نہیں ہیں۔ وہ "خلوت گاہوں" میں جمع ہوتے ہیں، جو سادہ عبادتی مقامات ہوتے ہیں، جہاں وہ اجتماعی عبادت اور بحث کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہ رمضان کے روزے نہیں رکھتے اور حج بھی نہیں کرتے۔ وہ صرف عید الاضحیٰ کا تہوار مناتے ہیں، لیکن اس میں قربانی شامل نہیں ہوتی۔ بدھ کا دن ان کے ہاں مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اخلاقی اصول: دروز چوری، زنا، شراب نوشی اور جھوٹ بولنے سے منع کرتے ہیں۔ وہ سور کا گوشت اور سگریٹ کو حرام سمجھتے ہیں۔

خواتین کا مقام: دروز معاشرے میں خواتین کو باوقار مقام حاصل ہے۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے، جائیداد رکھنے اور کاروبار کرنے کی آزادی ہے۔

دروز کا مذہبی نظام اور متون
دروز عقائد کی بنیاد ایک خفیہ فلسفیانہ نظام پر ہے، جسے صرف منتخب افراد ہی مکمل طور پر جان سکتے ہیں۔ یہ راز داری ان کے مذہب کا ایک بنیادی ستون ہے۔ ان کے مقدس متون کو "کتب الحکم" یا "رسائل الحکم" کہا جاتا ہے، جو صرف مخصوص مذہبی رہنماؤں (العقال) تک محدود ہیں۔ یہ متون ان کے عقائد کی گہرائی اور باطنی نوعیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ مقدس متون "کتب الحکم" کا خفیہ ہونا اور ان تک رسائی کا صرف منتخب مذہبی رہنماؤں (العقال) تک محدود ہونا دروز مذہب کی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔ یہ صرف ایک مذہبی روایت نہیں بلکہ طاقت اور کنٹرول کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ العقال کو مذہبی سچائیوں کا واحد محافظ اور مفسر بناتا ہے، جس سے ان کی اتھارٹی مضبوط ہوتی ہے اور الجہال (عام لوگوں) پر ان کا اثر و رسوخ قائم رہتا ہے۔ یہ حکمت عملی بیرونی دنیا سے مذہب کی حفاظت کرتی ہے اور اس کے باطنی جوہر کو برقرار رکھتی ہے۔

دروز میں دو اہم فرقے یا طبقات ہیں: الجہال (عام لوگ یا ناواقف) اور العقال (دانشمند یا مذہبی رہنما)۔ یہ تقسیم ان کے سماجی اور مذہبی ڈھانچے کا بنیادی جزو ہے۔ ایک "جاہل" طویل امتحانات اور مذہبی ضوابط پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے بعد "عقال" بن سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص قبول شدہ معیارات کو نظر انداز کرے تو اسے مذہبی اجتماعات اور رسائل پڑھنے سے روک دیا جاتا ہے، جسے "ابعد" (رد) کہا جاتا ہے۔ یہ مذہبی نظم و ضبط برقرار رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ دروز رسمی نماز، روزہ، یا حج نہیں کرتے، نہ مساجد بناتے ہیں، جو انھیں مرکزی دھارے کے اسلامی طریقوں سے الگ کرتا ہے۔ اس کے بجائے، وہ نیکی، سچائی، وفاداری اور علم کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ یہ ان کے مذہب کے اخلاقی اور فلسفیانہ پہلو پر زور دیتا ہے۔ ان کی عبادت کی رسومات خفیہ ہوتی ہیں۔ دروز میں شراب، سگریٹ اور سور کا گوشت حرام ہیں۔

ایک سے زیادہ شوہر یا بیوی رکھنا سختی سے منع ہے۔ مرد و زن کو برابر تصور کیا جاتا ہے۔ دروز میں روحانی شخصیات کو شُیوخ العقل کہا جاتا ہے، جن میں شيخ حكمت الهجري، شيخ حمود الحناوي، شیخ موفق طریف اور شيخ يوسف جربوع شامل ہیں۔ یہ افراد دروز عقیدے کے روحانی اور فکری رہنماء تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ افراد ایسے بھی ہیں، جو مسلح گروہوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے معروف نام شیخ لیث البلوص کا ہے، جو "قوات الکرامة" (عزت فورسز) کے کمانڈر ہیں۔ یہ فورس شام کی خانہ جنگی کے دوران تشکیل دی گئی تھی۔ شیخ لیث، شیخ واحد البلوص کے بیٹے ہیں، جو شامی حکومت کے سخت مخالف اور اسی فورس کے بانی تھے۔ ایک اور نمایاں شخصیت شیخ سلیمان عبد الباقی ہیں، جو "آزاد پہاڑ" (فری ماؤنٹین) فورسز کی قیادت کر رہے ہیں۔

دروز کا شام میں سیاسی کردار
دروز اپنے الگ مذہب کی تشکیل کے وقت سے مختلف سیاسی تحریکوں اور معرکوں کا حصے رہے ہیں۔ اســ.رائیلی دروز صہیو نی حکومت کے حمایت یافتہ ہیں، لبنان میں دروز کا سیاسی راہنماء ولید جنبلاط آزاد پالیسی کا حامل ہے۔ شامی دروز حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی وضع کرتے ہیں، جیسا کہ  2011ء میں شام میں شروع ہونے والی بغاوت کے دوران دروز برادری کی اکثریت نے نہ تو حکومت کے خلاف اپوزیشن کا ساتھ دیا اور نہ ہی براہ راست خانہ جنگی میں کودنے کی کوشش کی۔ انھوں نے مجموعی طور پر خود کو اس اندرونی تنازع سے دور رکھنے کی پالیسی اپنائی، تاہم 2015ء میں صورتِ حال اُس وقت تبدیل ہوئی، جب شدت پسند تنظیم النصرہ فرنٹ کی قیادت میں اسلام پسند گروہوں نے درعا اور وادیِ گولان کے بعض علاقوں میں پیش قدمی کی اور السويدا صوبے میں حکومت کے زیرِانتظام الثعلہ ملٹری ایئرپورٹ کو خطرہ لاحق ہوا۔

اس کے ردِعمل میں کچھ دروز شامی فوج کے ساتھ مل کر لڑائی میں شریک ہوگئے۔اس دوران شیخ واحد البلوص شام کے صدر بشار الاسد کے مخالف کے طور پر سامنے آئے۔ وہ عوامی سطح پر حکومت پر تنقید کرتے تھے، تاہم 2015ء میں ایک مشتبہ کار حادثے میں ان کی ہلاکت ہوگئی۔ دروز برادری کے زیادہ تر افراد نے صرف اپنے علاقوں کا دفاع کرنے کے لیے مقامی سطح پر مسلح کمیٹیاں بنائیں تھیں۔ 2014ء میں جب دروز نوجوانوں کو جبری فوجی بھرتی کے لیے تحویل میں لیا گیا تو ان کے خاندانوں اور مقامی افراد نے سکیورٹی مراکز کا گھیراؤ کیا اور بالآخر ان نوجوانوں کو رہا کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ دروز برادری کے کچھ علاقے خاص طور پر 2012ء سے 2015ء کے دوران، داعش اور النصرہ فرنٹ جیسے گروپوں کے حملوں کی زد میں آئے۔ 2017ء میں ایک طرف گولان کی پہاڑیوں کے شامی حصے میں حطرہ شہر میں شامی فوجیوں اور دروز جنگجوؤں کے درمیان اور دوسری طرف ہیئت تحریر الشام اور اتحادی گروپوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔

2018ء میں السويدا کے نواحی علاقے میں داعــ.ش نے بڑے پیمانے پر حملے کیے۔ ان حملوں کی ابتدا خودکش کار بم دھماکوں سے ہوئی، جن میں 200 سے زائد افراد کی جانیں گئیں۔ 2023ء میں جب شام میں مسلح تنازعہ کی شدت کم ہوئی تو السويدا کے دروز افراد نے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کیے اور بشار الاسد کا اقتدار ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ مذہبی رہنماؤں نے بھی ان مظاہروں کی حمایت کی، سوائے شیخ یوسف الجربوع کے جو حکومت کے حامی ہیں۔ یہ مظاہرے السويدا کے الکرامہ چوک میں ہوئے، جو سلطان باشا الأطرش کے مزار کے قریب واقع ہے۔ دروز کی کل آبادی دس سے پچیس لاکھ کے مابین ہے، جس میں زیادہ تر شام، لبنان، اردن اور اسرائیل میں آباد ہیں۔ اســ.رائیل میں دروز کمیونٹی کو ریاست کا وفادار سمجھا جاتا ہے، اســـ.رائیلی دروز اســ.رائیلی افواج اور پارلیمان کا حصہ ہیں۔ اســ.رائیل کے مرکزی ادارہ شماریات کے مطابق اســ.رائیل اور اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں میں تقریباً 152,000 دروز آباد ہیں۔

حالیہ جنگ یا جھڑپیں
دسمبر 2024ء میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے، دروز کمیونٹی نے جنوبی شام پر کنٹرول قائم کرنے کی ریاستی کوششوں کے خلاف مزاحمت کی ہے، جبکہ شام میں دروز کے مختلف دھڑے نئی حکومت کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کے لحاظ سے تقسیم ہیں، بہت سے دھڑوں نے سویدا میں شامی فوج کی موجودگی پر اعتراض کیا ہے اور دروز جنگجوؤں کے شامی فوج میں انضمام کی مخالفت کی ہے۔ برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ حکومتی افواج دروز افراد کی ہلاکت میں ملوث رہی ہیں۔ اس طرح کی اطلاعات نے شامی حکام کے تئیں دروز کمیونٹی کے افراد میں عدم اعتماد کو ہوا دی ہے۔ حالیہ جنگ اسی بد اعتمادی کا نتیجہ ہے، جس میں زیادہ امکان یہی ہے کہ اسے جان بوجھ کر ہوا دی گئی ہے۔

جنوبی شام کے عرب قبائل اور شامی افواج اس وقت دروز کے اکثریتی علاقوں پر حملہ آور ہیں۔ شامی قبائل کے کل کے بیان کے مطابق دروز نے شامی قبائل کے دو ہزار کے قریب جوانوں کو یرغمال بنا رکھا ہے اور یہ حملہ انہی جوانوں کو رہا کروانے کے لیے کیا گیا ہے، جبکہ دروزیوں کا کہنا ہے کہ اس حملے کا مقصد دروز علاقوں پر قبضہ ہے، جیسا کہ اس سے قبل یزدیوں اور علویوں کے علاقے پر قبضہ کرکے ان کا قتل عام کیا گیا۔ اســ.رائیل نے دروزیوں کے دفاع کے عنوان سے دمشق اور سویدا پر حملہ آور لشکروں پر حملے کیے ہیں، یعنی وہ براہ راست اس جنگ میں شریک ہوچکا ہے۔ آج کی تازہ اطلاعات کے مطابق سعودیہ، امــ.ریکہ اور ترکیہ کی ثالثی میں احمد الـــ.شرع حکومت نے دروزیوں اور اســ.رائیل سے جنگ بندی کا معاہدہ کر لیا ہے، تاہم شامی قبائل اس جنگ بندی کو قبول نہیں کر رہے۔

احمد الــ.شراع نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اســ.رائیل کے ساتھ کھلی جنگ کا آپشن موجود تھا، تاہم امریکہ، سعودی عرب اور ترکیہ کی ثالثی نے خطے کو بچا لیا۔جمعرات کی صبح نشر ہونے والے پہلے سے ریکارڈ شدہ خطاب میں شامی صدر کا کہنا تھا کہ اســ.رائیل شامی عوام کے اتحاد کو توڑ کر شام کو ایک نہ ختم ہونے والے انتشار کے سلسلے میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ آج یعنی 19 جولائی تین گھنٹے قبل حکمت الہجری نے اپنے پیروکاروں سے کہا ہے کہ وہ ہتھیار رکھ کر حکومت کا ساتھ دیں، تاہم عرب قبائل پیچھے نہیں ہٹ رہے اور اس وقت بھی سویدا میں جھڑپیں جاری ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عرب بدو قبائل زیادہ تر اہلسنت مسلک سے ہیں، وہ حکومت یا کسی خارجی قوت کے تحت ہونے والے معاہدے کو قبول نہیں کر رہے۔ حکومت معاہدے کے بعد انھیں روکنے کے لیے کوشاں ہے۔ شام میں عرب قبائل کی جانب سے جنگ بندی کی قبولیت ایک سادہ مسئلہ نہیں ہے۔ یہ تاریخی رنجشوں، علاقائی عزائم، شامی حکومت پر عدم اعتماد، بیرونی عناصر کے اثر و رسوخ اور احتساب کی خواہش کے پیچیدہ عوامل پر مشتمل ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات