کیا مولاعلیؑ نے ابوبکر عمر پر فضیلت دینے پر حد جاری کی

✨کیا مولاعلیؑ نے ابوبکر عمر پر فضیلت دینے پر حد جاری کی✨

شیعہ مخالف ناصبی حضرات اپنے شیخین کی جھوٹی فضیلت ثابت کرنے کیلئے شیعہ اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی سے ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ مولا علی رض نے حضرت ابوبکر عمر سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے دروں کی سزا کا حکم دیتے تھے اصل عبارت درج کی جاتی ہے:

🚫انہوں نے حضرت علی ع کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہےتھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درے لگاؤں گا جو کہ مفتری کی حد ہے۔ (رجال کشی - ص ٣٣٨ - سطر ٤ تا ٦ مطبوعہ کربلا)🚫

ناظرین ہمارے پاس جو نسخہ رجال کشی کا ہے موسستہ آل البیت علیھم السلام تحقیق سید مھدی رجائی والا ہے اس نسخہ کی جلد ٢ ص٦٩٥ پر مذکورہ عبارت ہے لیکن اس سے پہلے کہ ہم جواب دیں اصل روایت کے ابتدائی حصہ کو پیش کرتا ہوں : شیخ کشی نقل کرتے ہے:

▪بحذف سند۔۔ راوی میمون کہتے ہے کہ ایک گروہ امام صادق ع کے پاس آتا ہے جنکی عادت یہ تھی کہ وہ مختلف جگاہوں پر جاکر روایات کو لیا کرتے تھےاور میں امام صادق ع کے پاس تھا تو امام صادق ع نے کہا کیا تم اس گروہ کو جانتے ہو؟ میں نے کہا نہیں۔ تو امام ع نے کہا پھر بھلا یہ میرے پاس کیوں آئیں ہیں؟ تو میں نے کہا یہ گروہ ہر کسی کے پاس جاکر روایات اخذ کرتا ہے اور اس کو یہ فکر نہیں کہ وہ کس سے لے؟
حوالہ : [ اختیار معرفتہ الرجال (رجال کشی) - ص ٦٩٢ ]

تبصرہ : ناظرین یہاں سے واضح ہوگیا کہ ایک گروہ امام صادق ع کے پاس آیا جس کا مطمع نظر یہ تھا کہ وہ احادیث لے اور اس کو کوئی فکر نہ تھی کہ وہ کون سی روایت کس سے لے؟ ہر کسی سے روایت لینا اس کا مقصد ہوا کرتا تھا۔ روایت آگے چلتی ہے:

▪امام صادق ع نے ان میں سے ایک شخص سے کہا کہ کیا تم نے میرے علاوہ بھی کسی سے روایت سنی ہے؟ اس شخص نے کہا جی! تو امامؑ نے کہاجو تم نے سنی ہے ذرا اس میں سے کچھ مجھے بھی سناؤ؟ تو اس شخص نے جواب دیا میں آپ کے پاس روایت لینے آیا ہوں، روایت کرنے نہیں؟ ۔۔۔۔۔ (روایت میں پھر کچھ پس و پیش ہوئی کہ آیا وہ شخص روایت کرے گا یا نہیں غرض) امام ع نے کہا ہمیں جو تم نے علم اخذ کیا ہے سناؤ تا کہ ہم بھی اللہ کی مرضی سے مستفید ہوں۔
حوالہ : [ اختیار معرفتہ الرجال (رجال کشی) - ص ٦٩٣ ]

تبصرہ : ناظرین پچھلے اقتباس میں ثابت کیا تھا کہ لا پرواہ قوم تھی جو ہرکس و ناکس سے علم لیتی، پھر امام ع نے اصرار کیا ذرا مجھے وہ روایات تو سناؤ جو تم لوگوں نے اخذ کی، کچھ تامل کے بعد وہ شخص بتانے پر راضی ہوگیا۔ اب ذیل میں وہ جو روایت کررہا ہے یہ معصوم ع کی روایات نہیں۔۔ چنانچہ اب جو بھی جس مضمون کی روایت ہوگی اس کا بار امام ع پر نہیں بلکہ اس کا بار اس شخص پر ہوگا۔ پھر ما بعد امام ع اس کی نقل کردہ مزخرفات و کذب بیانی پر مبنی سفیان ثوری کی روایات سنتے ہیں جس میں پہلی یہ ہے:

▪ میں نے سفیان ثوری سے سنا انہوں نے امام صادقؑ سے کہ نبیذ ساری کی ساری حلال ہے ما سوائے خمر کے۔

دوسری روایت وہ یوں بیان کرتا ہے:

▪سفیان نے مجھے روایت کی اور سفیان کو کسی نے روایت دی کہ امام باقرؑ نے کہا جو موزوں پر مسح نہ کرے وہ بدعتی شخص ہے۔
حوالہ : [ اختیار معرفتہ الرجال (رجال کشی) - ص ٦٩۴ ]

تبصرہ: ناظرین یہی سے واضح ہوگیا کہ یہ سفیان ثوری کی باطل و کذب بیانی پر مشتمل روایات کا پلڑا ہے جسکو امامؑ اس شخص کی زبانی سن رہے ہیں، پھر وہ یہ منقولہ بالا عبارت کو نقل کرتا ہے:

▪ سفیان ثوری نے مجھے روایت کی اس نے محمد بن منکدر سے کہ اس نے علی ع کو منبر کوفہ پر دیکھا اور امیر المؤمنین ع نے کہا اگر میرے پاس ایک شخص لائے جائے جو مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دے تو میں اس کو ضرور درے لگاؤں گا جو کہ مفتری کی حد ہے۔
حوالہ : [ اختیار معرفتہ الرجال (رجال کشی) - ص ٦٩۵ ]

تبصرہ : ناظرین تو یہ اصل شیعی و معصوم ع کی روایت ہے ہی نہیں بلکہ سفیان ثوری کی جھوٹی روایات میں سے ایک ہے روایت چلتی رہتی ہے اور آخر میں امام صادق ع کا یہ مکالمہ نقل کیا گیا ہے:

▪ امام صادق ع نے اس روایت کرنے والے سے پوچھا کہ تم شہر سے ہو؟ اس نے کہا میں بصری ہوں؟ تو امام نے کہا تو یہ تم جس شخص سے تم نے روایت لی ہے اور تم نے جعفر بن محمد کا نام بار بار لیا؟ جانتے ہو کون ہے؟ تو اس نے کہا نہیں۔ تو امام ع نے کہا کہ تم نے کبھی اس سے کوئی روایت لی ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ تو امامؑ نے کہا کیا یہ تمام روایات تمہارے نزدیک حق ہے؟ اسنے کہا بلاشک و شبہ۔ تو امام ع نے کہا تم نے انکو کب سنا؟ تو اس نے کہا مجھے باریک بینی سے تو یاد نہیں لیک یہ ہمارے شہر میں کافی عرصے سے روایات پھیلی ہوئیں ہیں جس کے بارے میں کوئی شک نہیں کرتا (یعنی سب کے نزدیک یہ ثابت شدہ صحیح روایات ہیں)۔ تو امام ع نے اس سے کہا اگر تم اس شخص کو دیکھ لو جس سے تم روایت کو منسوب کررہے ہو اور وہ کہے کہ جو تم نے نقل کیا یہ ساری کی ساری جھوٹی ہیں اور میں ان روایات کو نہیں جانتا (یعنی روایت صحیح نہیں) اور میں نے یہ روایات کبھی بھی نقل نہیں کیں؟ تو تم اس شخص کی بات مان لو گے؟ تو اس نے کہا نہیں؟ امام ع نے کہا ایسا کیوں؟ تو اس نے کہا ایسے افراد نے اس شخص سے روایت کی کہ اگر وہ گواہی دیں کسی کی گردن کے حوالے سے تو وہ بھی نافذ ہوگی۔ (یعنی امام ع سے نقل کرنے والے اس شخص کے نزدیک بہت معتمد علیہ اشخاص تھے جیسے سفیان ثوری)
حوالہ : [ اختیار معرفتہ الرجال (رجال کشی) - ص ٦٩٦ ]

تبصرہ : ناظرین واضح ہوگیا کہ خود امام ع کے نزدیک یہ جھوٹی روایات تھیں، اور آخر میں امام ع کہتے ہے:

▪ امام صادق ع کہتے ہے کہ ان کی عجیب باتیں تو دیکھو جو میرے نزدیک واضح طور پر جھوٹ ہیں مجھ سے منسوب کیں اور ایسی باتوں کو میری طرف منتسب کیں جو نہ میں نے کہیں اور نہ کسی نے مجھ سے سنیں، اور انکا کہنا کہ اگر میں ان روایات کو خود بنفس نفیس بھی کہوں کہ یہ غلط ہیں تو جب بھی یہ میری بات نہیں مانیں گے تو انہیں کیا ہوگیا ہے، اللہ ان کو مھلت اور نہ کشادگی دے۔
حوالہ : [ اختیار معرفتہ الرجال (رجال کشی) - ص ٦٩٩ ]

تبصرہ: ناظرین بتائے ایک موضوع روایت اسکو شیعی روایت بناکر پیش کیا جارہا ہے ؟ کیا اس سے بڑی بددیانتی ہوسکتی ہے ؟ مزید افسوس کی بات ایک صاحب یہ روایات نقل کرنے کے بعد سفیان ثوری کو شیعہ علم الرجال سے ثقہ ثابت کرنے کے لیے انہی روایات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ سفیان ثوری کو امام ع کے قدموں میں بیٹھ کر علم فیض لیتے تھے سبحان اللہ ۔۔ 

🗿سفیان ثوری شیعہ الرجال کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں :

 🚩محمد حسين الجواهري نے اپنی کتاب المفید من معجم الرجال الحدیث میں سفیان ثوری کو مجہول کہا ہے۔
حوالہ : [ المفید من معجم الرجال الحدیث - صفحہ ٢۵۵ ]

🚩 شیخ عبدالله مامقانی نے سفیان ثوری کو ضعیف کہا ہے۔
حوالہ : [ تنقیح المقال فی علم الرجال - جلد ١ - صفحہ ٦۵ ]

فائنل تبصرہ : پس ثابت ہوا سفیان ثوری شیعہ کے نزدیک نا صرف مجہول ہے بلکہ یہ سفیان ثوری اہلسنّت کا امام و آئمہ مجتہدین میں سے ہے مولا علیؑ بعدِ رسولﷺ افضل الخلق و خیر البشر ہیں

▪ ابن حبان نقل کرتے ہے : سالم بن ابی جعد کہتے ہے کہ جابر الانصاری سے پوچھا گیا کہ علی ع کے بارے میں تو جابر ع نے کہا وہ خیر البشر ہے جو اس میں شک کرے اس نے کفر کیا۔
حوالہ : [ الثقات لابن حبان - جلد ٩ - ص ٢٨١ ]

▪انس بن مالک رسول ص کے پاس تھے کہ آپ ص کے پاس ایک بھنا ہوا پرندہ تھا تو رسول ص نے دعا کہ کہ اے اللہ میرے پاس اس شخص کو بھیج جو ساری مخلوق میں تیرا سب سے محبوب ترین ہو جو میرے ساتھ یہ پرندہ کے گوشت کو کھائے تو علی ع حاضر ہوئے اور انہوں نے آپؐ کے ساتھ اس پرندہ کا گوشت کھایا۔
مشہور معاصر زبیر علی زئی نے روایت کی سند کو حسن کہا ہے۔
حوالہ : [ سنن الترمذی - جلد ٦ - ص ٣٩٣ ]

Comments

Popular posts from this blog

نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے پر دی جانے والی ایک دلیل پر چند گزارشات