تراویح کی بابت فرقۂ زیدیہ کا تناقض
تراویح کی بابت فرقۂ زیدیہ کا تناقض بقلم: سید علی اصدق نقوی صلات تراویح کا مسئلہ مکاتب اسلامیہ کے مابین فروعات بالخصوص عبادات میں اہم مسائل میں شمار ہوتا ہے۔ اہل تسنن کے یہاں تراویح ہر ماہ رمضان کے معمولات میں سے ہے اور اس کو جائز بلکہ مستحب شمار کیا جاتا ہے گرچہ اہل تسنن سے منسلک مکاتب میں اس کی رکعات اور دیگر جزئیات میں اختلاف ممکن ہے۔ جبکہ اہل تشیع سے منسلک مکاتب جو تاریخ کے ساتھ منقرض نہ ہوئے بلکہ آج موجود ہیں (اثنا عشریہ، اسماعیلیہ اور زیدیہ) کے یہاں تراویح کو بدعت اور ناجائز سمجھا جاتا ہے اور اس کے شواہد وہ کتب اہل سنت سے بھی پیش کرتے ہیں۔ اثنا عشریہ کا موقف تو واضح ہے اور اس پر ان کی کتب میں متواتر اخبار ہیں جس سبب ان کا اعادہ یہاں غیر ضروری ہے (1)۔ پس اثنا عشریہ کے یہاں ائمۂ اہل بیت علیہم السلام سے تراویح کے جماعت میں عدم جواز اور اس کی ممانعت پر مذمت پر احادیث کثیرہ ہیں۔ اثنا عشریہ کے علاوہ اسماعیلیہ کی کتب میں بھی ائمہ علیہم السلام سے تراویح کو بدعت محرمہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ قاضی نعمان مغربی نے روایت کیا ہے: وعن أبي جعفر محمد بن علي صلوات الله عليه أنه دخل مسجد النبي (صلع)...